نماز میں عورت کا لباس
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کے لیے نماز میں کون سے اعضاء ڈھانکنے ضروری ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عور ت کو سر سے پاؤں تک ڈھکنا چاہیے۔ بلوغ المرام میں ہے:
«عن ام سلمة انها سألت النبی صلی الله علیه وآله وسلم اتصلی المرأة فی ورع و خمار بغیر ازار قال اذا کان الدرع سابغا یغطی ظهور قدمیها اخرجه ابوداؤد و صحح الائمة وقفه۔»
’’یعنی اُم سلمہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا عورت اوڑھنی اور کُرتے میں بغیر تہ بند کے نماز پڑھے فرمایا کہ جب کرتہ پاؤں کی پیٹھ ڈھانک لے تو اوڑھنی او رکرتہ میں نماز پڑھ سکتی ہے۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ائمہ حدیث نے اس کے موقوف ہونے کو صحیح کہا ہے یعنی اُم سلمہؓ کا قول بتلایا ہے۔‘‘
سبل السلام شرح بلوغ المرام صفحہ 82 میں اس حدیث پر لکھا ہے: «وله حکم الرفع وان کاموقوفا اذالاقرب ان لامسرح للاجتهاد فی ذالک»یعنی اگر اُم سلمٰہؓ کا قول ہو تو بھی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس میں اجتہاد کا دخل نہیں۔ اس حدیث سے پیروں کی پیٹھ ڈھکنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جن ملکوں میں عورتیں تہ بند باندھتی ہیں۔ ان کو تو آسانی ہے پاجامہ والیوں کو مشکل ہے ان کو چاہیے کہ چوڑی دار پاجامہ نہ پہنیں بلکہ کھلے پانچے والا پاجامہ بنائیں۔ تاکہ پاؤں کی پیٹھ ڈھکی جاسکے۔ اگر ایسا نہ کریں تو جرابیں پہن لیں۔ بہرصورت نماز کا معاملہ نازک ہے۔ اس میں ذرا احتیاط چاہیے۔ البتہ ہاتھ منہ ڈھکنے کا حکم نہیں کیونکہ حدیث میں ہے:
«لایقبل الله صلوٰة حائض الابخمارواه الخمسة الا النسائی» (منتقی ص45)
’’یعنی اللہ تعالیٰ اوڑھنی کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں کرتا۔‘‘
کنزالعمال میں ہے :
«عن عمر قال تصلی المرأۃ فی ثلاثة اثواب درع وازار و خمار (ش) و ابن منبع (هن) عن مکحول قال سألت عائشة فی کم ثوب تصلی المرأة فقالت ایت علیا فاسئلة ثم ارجع الی فاتیٰ علیا فسئالة فقال فی درع سابغ و خمار فرجع الیها و اخبرها فقالت صدق (ش) عن ابی اسحٰق ان علیا و شریحا کان یقولان تصلی الامة کما تخرج (ش)» (کنز العمال جلد3 ص143)
’’یعنی عمرؓ فرماتے ہیں کہ عورت تین کپڑوں میں نماز پڑھے۔ کرتہ، تہ بند ، اوڑھنی۔ مکحولؓ کہتے ہیں میں نے عائشہؓ سے پوچھا کہ عورت کتنے کپڑوں میں نمازپڑھے فرمایا علیؓ سے پوچھ۔پھر میرے پاس آ۔ حضرت علیؓ کے پاس آکر سوال کیا۔ تو انہوں نے فرمایا : کرتہ یعنی پاؤں تک اور اوڑھنی۔پھر حضرت عائشہؓ کو آکر خبر دی تو فرمایا کہ علیؓ نے سچ کہا او رابی اسحقٰ سے روایت ہے کہ علیؓ اور شریح فرماتے تھے کہ لونڈی جس حال میں نکلتی ہے اسی حال میں نماز پڑھے۔‘‘(1)
ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ عورت کو نماز میں ہاتھ منہ ڈھانکنے ضروری نہیں۔ کیونکہ کرتہ اور تہ بند تو ہاتھ منہ کو ڈھانکتے ہی نہیں۔ رہی اوڑھی سو وہ بھی دستور کے مطابق ہاتھ منہ کو ڈھانکنے کے لیے نہیں۔ پس عورت کو نماز میں ہاتھ منہ ڈھانکنے کا حکم نہیں اور حضرت عمرؓ نے جو تین کپڑے بتلائے ہیں تو اُن کے بتانے کا یہ مطلب نہیں کہ تین کپڑے شرط ہیں بلکہ تین کا ذکر اکثر عادت کے لحاظ سے ہے ورنہ مقصود ان کا یہ ہے کہ عورت کا پردہ نماز میں مرد کی طرح نہیں۔ بلکہ ہاتھ منہ کے سوا سارے بدن کا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ نے دو ہی ذکر کئے ہیں۔ بخاری جلد اوّل ص34 پر ہے۔ باب فی کم تصلی المرأۃ میں ہے قال عکرمة لووارت جسد هانی ثوب جاز یعنی اگر عور ت اپنے بدن کو ایک کپڑے سے چھپالے تو اس کی نماز جائز ہے۔
نوٹ: یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ مرد کے کندھے بالاتفاق ستر نہیں۔ لیکن نماز میں حکم ہے کہ کندھوں پر بھی کوئی کپڑا ہو۔ سو یہ حکم اگر اس لیے ہے کہ نماز میں کندھے بھی ستر میں داخل ہیں۔ تو پھر کندھوں پر بھی موٹا کپڑا ہونا ضروری ہے جس کےنیچے سے کندھے نظر نہ آویں۔ جیسے ناف سے گھٹنوں تک ایسا ہونا ضروری ہے۔ اس صورت میں ململ کا باریک کرتہ کافی نہیں ہوگا۔ جیسے گرمیوں میں عموماً لوگ پہنتے ہیں۔ اگر یہ حکم زینت کے لیے ہے تو پھر باریک بھی کافی ہے۔ اس طرح عورت کو محرم کے سامنے سر وغیرہ ننگا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ حدیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ مشکوٰۃ باب المعجزات فصل اوّل ص524 تو اگر سر پر اوڑھنی کا حکم اس لیے ہے کہ نماز میں سر ستر ہے تو باریک اوڑھنی نماز میں جائز نہیں ہوگی اگر زینت کے لیے ہے تو جائز ہوگی اس سوال کا جواب ہم علماء پر چھوڑتے ہیں۔
محدث روپڑی کے سوال کا جواب :
مولوی عبدالقادر حصاری نے محدث روپڑی کے مذکورہ بالا سوال کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
مرد عورت میں فر ق ہے۔ مرد کے کندھوں پر باریک کپڑا ہو تو نماز ہوجائے گی۔ عورت کے سر پر باریک اوڑھنی کافی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عورت کا تمام بدن ہاتھ منہ کے سوا ستر ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ﴿ ولا يبدين زينتهن الاماظهر منها﴾ کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ زینت ظاہرہ جس کو اس آیت میں ستر سے خارج کردیا ہے۔ اس سے ہاتھ منہ مراد ہیں تفسیر ابن جریر میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ستر کاڈھانکنا نماز میں ضروری ہے۔ اگرہاتھ منہ خارج نماز میں ستر ہوتے تو عورت کو نماز میں ان کے ڈھانکنے کا بھی حکم ہوتا، (بلکہ بطریق اولیٰ ہوتا ۔ کیونکہ نماز میں زیادہ احتیاط ہے۔ اس لیے عورت کی صحن کی نماز سے اندر مکان کی زیادہ فضیلت رکھتی ہے مگر نماز میں اُن کے ڈھانکنے کا حکم نہیں) پس معلوم ہوا کہ یہ زینت ظاہرہ ہیں۔ ستر نہیں۔ باقی تمام بدن ستر ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہؓ نے اپنی بھتیجی عبدالرحمٰن کی بیٹی کی باریک اوڑھنی پھاڑ کر اس کو گاڑھی پہنا دی او راسماء بنت ابی بکر کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے ہاتھ منہ کے سوا بدن کا کوئی حصہ دکھائی نہ دینا چاہیے اور وحیہ بن حلیفہ کو آپ نے ایک باریک کپڑا دیا اور فرمایا اس کے دو حصے کردیئے۔ ایک کی قمیض بنا لے اور دوسرا بیوی کو دے دے تاکہ اوڑھنی بنا لے اور بیوی کو حکم دے کر اس کے نیچے دوسرا کپڑا پہنے تاکہ نیچے سے اس کا بدن اور بال نظر نہ آئیں۔
اس قسم کے اور بہت دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ منہ کے سوا سر سے پیروں تک عورت کا بدن ستر ہے۔محرموں کے سامنےاگرچہ سر وغیرہ ننگا کرسکتی ہے لیکن نماز میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جاتا ہے تاکہ کوئی قریبی غیر محرم نہ آجائے۔ اسی لیےشارع علیہ السلام نے فرمایا کہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر درست نہیں اور سبل السلام میں طبرانی کی حدیث ہے کہ عورت جب تک اپنی زینت نہ ڈھانکے اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور لڑکی جب بلوغ کو پہنچ جائے تو اس کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں بلکہ نماز میں پیروں کی پیٹھ ڈھکنی بھی ضروری ہے او ریہ حکم عورت کے لیے بوجہ ستر کے ہے نہ زینت کے، اسی لئے عورت کے صحن میں نماز سے اندر کے مکان کی نماز بہتر ہے جو زیادہ ستر کی وجہ سے ہے بلکہ نماز میں عورت کی آواز بھی ستر ہے اسی لیے عورت امام کے بھولنے کے وقت سبحان اللہ نہیں کرسکتی بلکہ تصفیق (تالی مارنے )کا حکم ہے۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کی اخیری صف بہتر ہے اور اوّل صف (جو مردوں کے قریب ہے ) بری ہے او رایک اور حدیث میں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے انسؓ کے گھر نماز پڑھائی تو انسؓ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اُم سلیمؓ والدہ انسؓ کو اکیلی پیچھے کھڑا کیا اس کی وجہ بھی کمال ستر ہے جو نماز سے مخصوص ہے۔
مرد کا ستر :
رہا مرد تو اس کا ستر صرف ناف سے گھٹنوں تک ہے نماز میں بھی اور خارج نماز میں بھی۔ اس لیے اتنا کپڑا گاڑھا ہونا چاہیے او رکندھے چونکہ ستر نہیں اس لیے ان پر گاڑھے کپڑے کی ضرورت نہیں۔ نماز میں کندھوں پر کچھ ہونے کا حکم بطور زینت کے ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿خذوا زینتکم عند کل مسجد﴾یہ خطاب مردوں کو ہے عورتوں کو نہیں کیونکہ ان کے لیے جُدا حکم ہے۔ پس مرد کی نماز کندھوں پرباریک کپڑے سے ہوجائے گی ۔ جو مواضع جسم کے خارج نماز میں ستر نہیں وہ نماز میں کس وجہ سے ستر ہوسکتے ہیں۔ عورت کا سر تو نماز میں اس لیے ستر ہوا کہ وہ قبل نماز بھی ستر ہے۔ صرف محرم کے لیے رخصت ہے۔ لیکن نماز میں یہ رخصت نہ دی گئی۔ کیونکہ نماز میں احتیاط مدنظر ہے۔
جواب:
یہ مولوی عبدالقادر کی تقریر کا خلاصہ ہے۔ مسئلہ انہوں نےجو کچھ بیان کیا ہے قریباً درست ہے عورت مرد میں کچھ فرق ہے۔ لیکن بعض اغلاط ہیں۔ ان کو ہم واضح کئے دیتے ہیں۔ تاکہ ہمارے احباب جیسے مسئلہ کی تحقیق میں کوشش کرتے ہیں۔اپنے بیان کے ایک ایک لفظ میں بھی غور کیا کریں تاکہ تحریر نہایت پختہ ہوجائے۔ نیز ان اغلاط کی تفصیل سے مرد عورت کے پردے کا مسئلہ پوری روشنی میں آجائے گا انشاء اللہ۔پس سنیئے :
غلطی نمبر 1
اخیر میں جو کہا ہے: ’’عورت کا ستر تو نماز میں اس لیے ستر ہوا کہ وہ قبل نماز بھی ستر ہے۔‘‘ یہ اُوپر کے بیان کے خلاف ہے۔ کیونکہ اوپرکہہ چکے ہیں کہ نماز میں عورت کی آواز بھی ستر ہے۔ حالانکہ خارج نماز میں ستر نہیں او رعورتوں کا تو کیا ذکر ہے ازواج مطہرات جس کا پردہ بالاتفاق سخت تھا۔ وہ ہمیشہ اپنوں او ربیگانوں کو مسائل بتلاتیں احادیث سناتیں او راپنی ضروریات کے لیے بات چیت کرتیں۔
اسی طرح مرد کی بابت یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ جو مواضع جسم کے خارج نماز میں ستر نہیں وہ نماز میں کس وجہ سے ستر ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ہم یکم دسمبر 1933ء کے پرچہ میں ثابت کرچکے ہیں کہ خارج نماز میں گھٹنا یا کچھ ران کھل جائے توکوئی حرج نہیں۔ کیونکہ خارج نماز میں یہ ستر نہیں۔ لیکن داخل نماز میں یہ ستر ہیں تو معلوم ہوا کہ خارج نماز اور داخل نماز کا ایک حکم نہیں نہ عورت میں نہ مرد میں۔
غلطی نمبر 2
عور ت کی بابت جو یہ کہا ہےکہ ’’اس کو محرم کے سامنے اگرچہ سر ننگا کرنا جائز ہے لیکن نماز میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جاتا ہے تاکہ کوئی قریبی غیرمحرم نہ آجائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ جہاں قریبی غیر محرم کے آنے کاکھٹکہ نہ ہو وہاں بغیر اوڑھنی کے نماز پڑھ سکتی ہے جیسے خارج نماز میں جہاں کسی کے آنے کا کھٹکہ نہ ہو وہاں سر ننگے بیٹھ سکتی ہے۔ حالانکہ نماز میں غیر کھٹکہ والی جگہ میں بھی سر پر کپڑا ضروری ہے کیونکہ حدیث میں عام فرمایا ہے کہ عور ت کی نماز بغیر خمار (اوڑھنی) کے قبول نہیں۔ اگر کہاجائے کہ حدیث میں لفظ خمار ہے اور خمار کے معنی وہ شئے جو ڈھانک لے اور ڈھانکنا یہ ہے کہ شئے نظر نہ آئے پس ثابت ہوا کہ نماز میں عورت کے سر پر گاڑھا کپڑا ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خمار کےاصل معنے بے شک یہی ہیں مگر اب اصل معنی سے نقل ہوکر اوڑھنی کا اسم ہوگیا ہے جس کا استعمال باریک میں بھی ہوتا ہے جیسے وحیہ بن خلیفہ کی حدیث میں ہے جو گذر چکی ہے۔
غلطی نمبر 3
تفسیر ابن کثیر میں زیر آیہ کریمہ﴿ خذوازینتکم عند کل مسجد ﴾لکھا ہے:
«ھذه الایة الکریمةرد علی المشرکین فیما کانوا یعتمدونه من الطواف عراة کما رواه مسلم والنسائی و ابن جریر واللفظ له من حدیث شعبة عن سلمة بن کهیل عن مسلم البطینی عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال کانوا یطوفون بالبیت عراة الرجال والنساء الرجال بالنهار والنساء باللیل وکانت المرأة تقول
؎ الیوم یبدو بعضه او کلهفما بد امنه فما احله
فقال الله تعالیٰ خذوا زینتکم عند کل مسجد وقال العرفی عن ابن عباس فی قوله خذوا زینتکم عند کل مسجد الآیة قال کان رجال یطوفون عراة فامرهم الله بالزینة وهو ما یواری السراة وما سوی ذالک من جید البزوالمتاع فامروا ان یاخذوا عند کل مسجد هکذا قال مجاهد و عطاء و ابراهیم النخعی و سعید بن جبیر و قتاده والسدی والضحاک ومالک عن الزهری وغیر واحد من ائمة السلف فی تفسیرها انها نزلت فی طواف المشرکین بالبیت عراة وقد روی الحافظ ابن مردویه من حدیث سعید بن بشر والاوزاعی عن قتادة عن انس مرفوعا انها نزلت فی الصلوٰة فی النعال وفی صحته نظر الله اعلم ولهذه آلایة وماورد فی معناها من السنة یستحب التجمل عندالصلوٰة ولا سیما یوم الجمعة ویوم العید والطیب لا نه من الزینة والسواک لانه من تمام ذالک و من افضل اللباس البیاض قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم البسرا من ثیابکم البیاض فانها من خیر ثیابکم و کفنوا فیها موتاکم وان من خیر الحالکم الاثمد فانه یجلو البصر و ینبت الشعر هذا حدیث جید الاسناد انتهی ملخصا ۔»(ابن کثیر جلد4 صفحہ 184)
’’یہ آیت مشرکوں کے ننگے طواف کرنے کے ردّ میں اتری ہے۔ مسلم، نسائی او رابن جریر نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ مشرک مرد عورت ننگے طواف کرتے مرد دن میں کرتے عورتیں رات میں کرتیں او رعورت طواف کرنے کے وقت یہ شعر پڑھتی ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج میری شرمگاہ کچھ یا ساری ننگی ہوجائے گی۔ پس جو ننگی ہوجائے اس کو میں کسی کے لیے حلال نہیں کرتی اور عوفی نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ مرد ننگے طواف کرتے تو اللہ تعالیٰ نے انکو زینت کا حکم دیا اور زینت سے مراد شرمگاہ کا ڈھکنا ہے اور اس کے علاوہ دوسری زینت بھی اس میں داخل ہے جیسے اچھا کپڑا ، اچھا سامان (خوشبو، مسواک وغیرہ) مجاہد، عطاء، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، قتادہ، سدی، ضحاک اور مالک نے زہری سے او ران کی سوا بہت سے ائمہ سلف نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ مشرکوں کے ننگے طواف کرنے کی بابت اُتری ہے او رحافظ ابن مردویہ نے انسؓ سے مرفوع روایت کی ہے کہ یہ جوتوں میں نماز پڑھنے کی بابت اتری ہے۔ یعنی اس میں جوتوں سمیت نماز پڑھنے کا ارشاد ہے۔ لیکن اس روایت کی صحت میں نظر ہے او راس کی آیت کی وجہ سے اور جو اس قسم کی احادیث آئی ہیں ان کی وجہ سے نماز کے وقت زینت مستحب سمجھی گئی ہے خاص کر جمعہ اور عید کو اور خوشبو بھی مستحب ہے کیونکہ وہ زینت ہے اور مسواک بھی مستحب ہے کیونکہ اس سے زینت پوری ہوتی ہے او ربہتر کپڑے سفید ہیں۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ سفید کپڑے پہنو کیونکہ وہ بہتر کپڑے ہیں او رانہی میں اپنے مُردوں کو کفن دو اور تمہارےبہتر سرموں کا اضمد (اصفہانی) ہے کیونکہ یہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے او رپلکوں کے بال اُگاتا ہے۔‘‘
اسی طرح ابن کثیر کے علاوہ دوسری تفاسیر میں لکھا ہے کہ یہ مشرکوں کے ننگے طواف کرنے کی بابت اُتری ہے۔ ہاں حکم اس کا عام ہے ۔ اس میں شرمگاہ کا ڈھکنا بھی داخل ہے اور دوسری زینت بھی داخل ہے۔
پس اب مولوی عبدالقادر صاحب کا اس سے نماز میں کندھوں کے ستر نہ ہونے پر استدلال کرنا ٹھیک نہ ہوا۔ کیونکہ اس سے یہ پتہ نہیں لگ سکتا کہ کندھے ستر ہیں یا نہیں اس کو مردوں کے ساتھ خاص کرنا ٹھیک نہ ہوا کیونکہ عورتیں بھی ننگی طواف کرتی تھیں تو جیسی یہ مردوں کو شامل ہے عورتوں کو شامل ہوئی۔
کندھوں کے نماز میں ستر نہ ہونے کے لیے صحیح استدلال یہ ہے کہ خارج نماز میں کندھے بالاتفاق ستر نہیں تو نماز میں ستر ثابت کرنے کی بابت کوئی دلیل چاہیے جس میں کندھوں کے ڈھکنے کا حکم ہو۔ لیکن ایسی کوئی دلیل نہیں آئی۔ حدیث میں صرف اتنا آیا ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر ضرور ہونا چاہیے۔ اس سے دو یا تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سارے کندھوں کا ڈھکنا ضروری نہیں بلکہ تھوڑا سا کپڑا بھی کندھوں پر کافی ہے۔ دوم یہ کہ اگر دو کپڑے ہوں تو جو تہ بند کے لیے ہے اس میں گاڑھا ہونےکی تو شرط ہے کیونکہ یہ ستر کے لیے ہے لیکن دوسرے کے لیے کوئی شرط نہیں آئی پس معلوم ہوا کہ خواہ وہ گاڑھا ہو یا باریک کافی ہے۔ ہاں اتنا شبہ ہوتا ہے کہ ایک کپڑے کی حالت میں جب ارشاد ہے کہ کچھ حصہ اس کا کندھوں پر ہونا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ کندھوں کے جتنے حصے پر یہ کپڑا ہوگا اتنا ڈھکا ہوا ہوگا دکھائی نہیں دےسکتا تو شاید دوسرے کپڑے ہونے کے وقت بھی شارع کو یہی منظور ہو کہ کچھ کندھوں کا اس طرح سے ڈھکنا ضروری ہے کہ دکھائی نہ دے اس لیے میرے خیال میں احتیاطاً بہتر یہی ہے کہ نماز میں کندھے پر گاڑھا کپڑا ہو۔ اگرچہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ ایک کپڑے کی حالت میں جب اسی سے کچھ کندھوں پر ہوگا تو اس کو ڈھکنا لازم آجاتا ہے کیونکہ کپڑا گاڑھا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ شارع کا مقصد ڈھکنا ہے تاکہ دوسرے کپڑے کا گاڑھا ہونا بھی ضروری سمجھا جائے۔ مگر پھر بھی عمل میں احتیاط بہتر ہے کیونکہ شارع کا مقصد ضروری طور پر تو ثابت نہیں ہوتا لیکن اس کے ہونے کا قوی احتمال ہے۔ اس لیے بہتر گاڑھا کپڑا ہی ہے بلکہ یہاں ایک اور قوی احتمال ہے وہ یہ کہ ایک کپڑے کے وقت کندھوں پر کچھ کپڑا ہونے کا حکم شاید مجبوری کے لیے ہے۔ کیونکہ ایک کپڑے میں عموماً تنگی ہوتی ہے پورے کندھوں پر آنا مشکل ہے دوسرا کپڑا ہونے کے وقت پورے کندھوں پر کپڑا ہو کچھ پر کفایت نہ کرنی چاہیے۔ لیکن یہ سب عملی احتیاط ہے۔ اگر کوئی کندھوں پر باریک کپڑا لے یا دوسرے کپڑے کے وقت کچھ کندھوں پر کفایت کرے تو اس کو بُرا نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں ہمیشہ بے احتیاطی غیر مناسب ہے اس سے بچنا چاہیے۔
غلطی نمبر 4
مولوی عبدالقادر صاحب نے نماز میں عورت کے حق میں سر کو ستر ثابت کرنے کے لیے کئی احادیث ذکر کی ہیں۔ مگر اکثرشبہ سے خالی نہیں۔ مثلاً یہ حدیث کہ عورت کی صحن کی نماز سے اندر مکان کی نماز بہتر ہے یا یہ حدیث کہ عورتوں کی پہلی صف بہتر ہے اور پچھلی صف بُری ہے یا یہ حدیث کہ عورت کو پیچھے اکیلی کھڑا کیا۔ اس قسم کی احادیث سے اگر نماز میں سر کا ستر ہونا سمجھا جائے تو ہاتھ منہ کا ستر ہونا بھی سمجھا جائے گا۔ حالانکہ ہاتھ منہ نماز میں ستر نہیں۔
اگر کہا جائے کہ ہاتھ منہ کے نماز میں ستر نہ ہونے کی وجہ یہ ہےکہ وہ خارج نماز میں ستر نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ سر بھی خارج نماز میں محرم سے ستر نہیں تو جب کسی قریبی غیر محرم کے آنے کا کھٹکہ نہ ہو اس وقت باریک کپڑا کافی ہونا چاہیے چنانچہ غلطی نمبر 2 میں ذکر ہوچکا ہے۔اسی طرح حدیث وحیہ بن خلیفہ جس میں ذکر ہے کہ آپ نے ان کو اس کی بیوی کے لیے باریک اوڑھنی دی اور فرمایا اپنی بیوی کو حکم دے کہ اس کے نیچے دوسرا کپڑا پہنے او رحضرت عائشہؓ والی حدیث جس میں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی بھانجی کی باریک اوڑھنی پھاڑ کر گاڑھی پہنا دی ان دونوں حدیثوں میں نماز کا ذکر ہی نہیں پس نماز میں سر کو ستر ثابت کرنےکی بابت ان کو پیش کرنا ٹھیک نہیں۔ خارج نماز میں تو جہاں کسی قریبی غیرمحرم کے آنے کا خطرہ نہ ہو وہاں اوڑھنی اتار سکتی ہے مگر نماز میں کسی وقت نہیں اتار سکتی۔ چنانچہ یہ بھی غلطی نمبر 2 میں گزر چکا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ خارج نماز اور داخل نما زکا ایک حکم نہیں اور غلطی نمبر 2 میں یہ بھی گزر چکی ہے کہ حدیث« لا یقبل الله صلوٰة حائض الا بخمار» (عورت کی نماز خدا بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا) بھی سر کے ستر ہونے پر دلالت نہیں کرتی پس اب صرف ایک حدیث رہ گئی جو سبل السلام نے طبرانی سے نقل کی ہے۔یہ بے شک صاف طور پر نماز میں سر کے ستر ہونے پر دلالت کرتی ہے لیکن اس میں ایک راوی عمرو بن ہاشم بیرونی ہے۔ تقریب میں ا س کی بابت لکھا ہے: ’’صدوق یخطی‘‘ سچا ہے غلطیاں کرتا ہے دوسرا راوی اس میں یحیٰ بن ابی کثیر ہے جو عبداللہ بن ابی قتادہ سے عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور تقریب میں لکھا ہے« ثقة ثبت لکنه یدلس و یرسل »بہت ثقہ ہے لیکن تدلیس اور ارسال کرتا ہے یعنی اپنے ملاقاتی(2) سے یا اپنے معاصر سے بغیر اس طرح روایت(3) کرتا ہے کہ سننے والے کو شبہ پڑے کہ سن کو روایت کی ہے۔ یہ عیب اس کے اندر ہے ایسے راوی کی اس قسم کی روایت کمزور ہوتی ہے اور عمرو بن ہاشم میں بھی کچھ کمزوری ہے۔ پس ان دو راویوں کی وجہ سے یہ روایت پوری تسلی بخش نہیں رہی۔ ہاں کچھ صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ ایک تو اس میں کمزوری معمولی ہے ۔ دوسرے اس کے خلاف کوئی روایت نہیں۔
غلطی نمبر 5
یہاں تک تو احادیث کے متعلق گفتگو تھی اب آیہ کریمہ ﴿ولا یبدین زینتهن الایة﴾ اور آیہ کریمہ﴿ خذوا زینتکم عند کل مسجد ﴾کی بابت سنیئے ۔ یہ دونوں آيتیں نماز میں عورت کے سر کے ستر ہونے پر زبردست دلیل ہیں۔ مگر مولوی عبدالقادر صاحب نے دوسری آیت کو تو مرد کے کندھوں وغیرہ سے خاص کردیا اور پہلی کی تقریر ایسی کی جس پر یہ اعتراض بدستور رہا کہ عورت خارج نماز میں جہاں غیر محرم کے آنے کا اندیشہ نہ ہو سر سے کپڑا اتار سکتی ہے تو نماز میں ایسے موقعہ پر سر پر باریک کپڑا کیوں نہیں لے سکتی؟
مولوی عبدالقادر صاحب نے اس کا جواب دیا ہے کہ نماز میں زیادہ احتیاط برتا گیا تاکہ کہیں قریبی غیر محرم نہ آجائے۔ مگر یہ جواب کمزور ہے کیونکہ قریبی غیر محرم کا خطرہ نہ کوئی عام شئے ہے نہ اکثری ہے تو اس کی وجہ سے علی العموم ہر نماز میں سر پر گاڑھے کپڑے کے حکم دینے کی کوئی وجہ نہیں؟ ہاں جہاں قریبی غیر محرم کا خطرہ ہو وہاں گاڑھے کپڑے کا حکم ہونا چاہیے۔جہاں خطرہ نہ ہو وہاں نہ ہونا چاہیے۔
ہم پہلی آیت کی ایسی تقریر کرتے ہیں جس سے یہ اعتراض بھی دور ہوجائے اور عورت کے سر کا نماز میں ستر ہونا بھی ثابت ہوجائے۔ پس سنیئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زینت کی دو قسمیں بتلائی ہیں ۔ ایک ظاہر زینت ایک غیر ظاہر یعنی باطنی زینت۔ ظاہر زینت سے مراد خواہ ہاتھ منہ وغیرہ ہوں ۔ جیسے عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں یا بدن کے کپڑے مراد ہوں جیسے عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں اس کے سوا باقی تمام بدن عورت کو اس آیت میں باطنی زینت قرار دیا ہے جس میں سر بھی داخل ہے اور ستر سے مراد باطنی زینت ہے۔ پس سر ستر ہوا اور اس بات پر اجماع ہے (جیسے ابن جریر میں ہے ) کہ جو ستر ہے اس کا نماز (4)میں ڈھانکنا ضروری ہے۔ پس نماز میں سر کے ڈھانکنے پراجماع ہوا۔ اب اگر یہ تفصیل کریں کہ جو شئے بعض سے ستر ہے بعض سے ستر نہیں اس کا نماز میں ہمیشہ ڈھانکنا ضروری نہیں تو اس سے لازم آئے گا کہ عورت کو نماز میں ناف سے گھٹنوں تک بھی ہمیشہ ڈھانکنا ضروری نہ ہو کیونکہ ناف سے گھٹنوں تک اگرچہ محرم اور غیر محرم سے ستر ہے لیکن خاوند سے ستر نہیں پس چاہیے جہاں خاوند کے سوا کسی اور کے آنے کا خطرہ نہ ہو وہاں باریک آزار سے عورت کی نماز ہوجائے۔ حالانکہ یہ جائز نہیں پس معلوم ہوا کہ ستر سے مراد عام ہے۔ خواہ بعض سے ستر ہو یا تمام سے۔ اس بناء پر عورت نماز میں کسی وقت سر پرباریک کپڑا نہیں لے سکتی کیونکہ سر اگرچہ محرم سے ستر نہیں لیکن غیر محرم سے تو ستر ہے۔
اسی سطرح آیتہ کریمہ﴿ خذوا زینتکم عند کل مسجد﴾ (نماز وغیرہ کے وقت زینت پکڑو) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں عورت کو سر ڈھانکنا ضروری ہے کیونکہ یہ آیت زینت باطنی کو شامل ہے چنانچہ غلطی نمبر 3 میں گزر چکا ہے کہ اس کا نزول ننگے طواف کرنے کی تردید میں ہے اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ عورت کا سر زینت باطنی میں داخل ہے پس اس آیت سے بھی ثابت ہواکہ نماز کے وقت عورت کو سرڈھکنا ضروری ہے۔
نوٹ اوّل
اس آیت سے بھی اُوپر کے اعتراض کا جواب ہوگیا۔ تقریر اس کی یہ ہے کہ عورت کو نماز میں سر وغیرہ پر کپڑا لینے کا حکم کیوں ہے؟ کیا غیر سے ستر کے لیے ہے یا اس کو ایسی حالت بنانے کا حکم ہے جس میں ستر ہو۔ خواہ کسی کے آنے کا خطرہ ہو یا نہ ہو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر سے ستر کے لیے نہیں۔ بلکہ اس لیے ہے کہ اس میں زینت ہے اور اُوپر کے اعتراض کی بناء پر تھی کہ غیر سے ستر کے لئے ہو پس جب بنا ٹوٹ گئی تو اعتراض بھی ٹوٹ گیا۔
نوٹ دوم
طبرانی کی حدیث جو صاحب سبل السلام نے ذکر کی ہے اگرچہ اس میں کچھ کمزوری ہے لیکن ان آیتوں کے ساتھ مل کر ایک زبردست دلیل بن گئی ۔ خاص کر جب اس کے اور مویدات بھی ہیں۔ ایک مؤید یہ ہے کہ اس زمانہ میں گاڑھی اوڑھنی کا دستور تھا ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے اپنی بھتیجی حفصہ کی باریک اوڑھنی پھاڑ کر گاڑھی دے دی اور وحیہ بن خلیفہ کو آپ نےباریک اوڑھنی دی او رفرمایا اپنی بیوی کو کہہ دے کہ اس کے نیچے او رکپڑا پہنے اوربخاری صفحہ 34 باب فی کم تصلی المرأۃ میں ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں: اگر عورت ایک کپڑے سے اپنا سارا بدن چھپالے تو جائز ہے۔جب گاڑھی اوڑھنی کا دستور تھا تو اس دستور کے مطابق آپ نے فرمایا اوڑھنی کے بغیر عورت کی نمازنہیں اور اسی لیے عکرمہ نےبدن چھپانے کا ذکر کیا بدن پر صرف کپڑا لینے کا۔
دوسرا مؤید یہ احادیث ہیں:
(1) «ایاکم والتعری فان معکم من لا یفارقکم الا عند الغائط و حین یفضی الرجل الی اهله فاستحیرهم واکرموا هم رواه الترمذی» (مشکوٰۃ باب النظر الی المخطوبۃ فصل 6)
پاخانہ او ربیوی کے پاس جانے کے سوا ننگا ہونے سے بچو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ (فرشتے) ہیں جو تم سے کسی وقت جُدا نہیں ہوتے۔پس ان سے شرم کرو اور ان کی عزت کرو۔
(2) «احفظ عورتک الامن زوجتک اوما ملکت یمینک قلت یارسول افرایت اذا کان الرجل خالیا قال فالله احق ان یستحیی منه» (حوالہ مذکورہ فتح البیان جلد 6 صفحہ 297 زیر آیہ و یحفظن فروجھن بحوالہ بخاری وغیرہ)
عورت اور لونڈی کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کر۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا اگر آدمی اکیلا ہو۔پس فرمایا اللہ تعالیٰ شرم کے زیادہ لائق ہے فرشتوں اور خدا سے پردہ تو نہیں ہوسکتا۔ مگر مقصود یہ ہے کہ ان کے سامنے ایسی حالت بنانی چاہیے جیسے پردے کی ہے کیونکہ اس میں ان کی عزت ہے اور یہ حکم خارج نماز میں خواہ ضروری نہ ہو نماز میں ضروری ہے کیونکہ انسان خدا کے دربار میں ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں ادب کرنا لازم ہوجاتا ہے جیسے نماز میں قبلہ کی طرف تھوکنا اور سامنے جوتا (5)رکھنا منع ہے اور عورت کے لیے سر ستر ہے پس اس کا ڈھانکنا بھی عورت کیلئے نماز میں ضروری ہوا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں اصل مقصود ستر ڈھانکنے سے ستر کی حالت بنانا ہے نہ کہ غیر محرم سے ستر کرنا چنانچہ نوٹ اوّل میں گزرا ہے۔
وباللہ التوفیق
حاشیہ
(1) لونڈیاں کاروبار کے لیے عموماً سادہ حالت میں نکلتی ہیں۔جیسے عام طور پر گوار عورتوں کی حالت ہوتی ہے۔ حضرت علیؓ کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی اسی حال میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔ برخلاف آزاد عورت کے کہ وہ اس حال میں نماز پڑھ سکتی ہے بلکہ ہاتھ منہ کے سوا سب بدن ڈھانک کر پڑھے۔
(2) تدلیس اور ارسال میں یہ فرق ہے کہ تدلیس میں ملاقاتی ہونا شرط ہے اور ارسال میں معاصر ہونا۔12
(3) مثلاً کہے عن فلان یا قال فلان اور اس (فلان) سے سنا نہ ہو ایسے راوی کی روایت بغیر تصریح سماع کے کمزور ہوتی ہے۔ ہاں اگر سماع کی تصریح کرے مثلاً کہے سمعت فلاناً (میں نے فلاں سے سنا) یا حدثنی فلان (مجھے فلاں نے حدیث سنائی) تو اس وقت وہ کمزوری دور ہوجائے گی۔ حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں تدلیس کے 5 مراتب لکھے ہیں: اوّل یہ کہ تدلیس شاذو نادر ہو۔ ایسے راوی کی روایت کمزور نہیں ہوتی جیسے یحییٰ بن سعیدالانصاری۔ دوم یہ کہ تدلیس اُس کی کچھ زیادہ ہے لیکن وہ بڑا محدث اور فن حدیث کا امام ہے۔ اس کی درست احادیث کے مقابلہ میں تدلیس بہت تھوڑی ہے۔ اس کی حدیث کو ائمہ حدیث لے لیتے ہیں جیسے سفیان ثوری اسی طرح جو ثقہ سےس تدلیس کرے۔ (مثلاً اس نے زید سے روایت سنی اور زید نے عمرو سے اور عمرو اس کا ملاقاتی ہے تو اس نے زید کو حذف کرکے عمرو کا نام لے کر عن عمرو کہہ دیا۔ حالانکہ اس نےعمرو سے نہیں سنی لیکن زید جس کو اس نے حذف کیا ہے وہ ثقہ ہے۔ پس جب اس کے اقرار سے یا تحقیقات سے معلوم ہوجائے کہ یہ ثقہ سے تدلیس کرتا ہے یعنی جس کو حذف کرتا ہے وہ ثقہ ہوتا ہے تو اس کی حدیث کوبھی ائمہ حدیث لے لیتے ہیں۔ جیسے سفیان بن عینیہ او ریحییٰ بن کثیر جس کا ذکر یہاں ہورہا ہے اس کو بھی حافظ ابن حجر نے تدلیس کے مرتبہ دوم میں شمار کیا ہے۔ سوم جو بہت تدلیس کرے اس کی حدیث کو ائمہ بغیر تصریح سماع کے نہیں لیتے خواہ سماع کی تصریح کرے یا نہ کرے جسے ابوالزبیر مکی جو حدیث قراء ة الامام قرأة له کا راوی ہے۔ چہارم جس کی حدیث تصریح سماع کے بغیر بالاتفاق مردود ہے کیونکہ اس کی تدلیس ضعیف او رمجہول راویوں سے بہت ہے جیسے بقیہ بن الولید۔ پنجم تدلیس کے سوائے کوئی اور عیب بھی ہو۔ اس کی حدیث ہر صورت میں مردود ہے خواہ سماع کی تصریح کرے یا نہ۔ ہاں اگر اس میں تھوڑا ضعف ہو تو اس کی روایت تائید وغیرہ کا کام دے سکتی ہے جیسے عبداللہ بن لہیعہ اس میں تدلیس کے علاوہ اختلاط حافظ کا عیب بھی ہے۔
حافظ ابن حجر نے مرتبہ دوم کی بابت جو کچھ لکھا ہے کہ اس کی حدیث کو ائمہ حدیث لے لیتے ہیں اس میں نظر ہے کیونکہ سلیمان تیمی جو حدیث واذا قراء فانصتوا کا راوی ہے اس پر امام بخاری نےجزء القرأۃ میں تدلیس کا اعتراض کیاہے جس سے امام بخاری کا مقصود حدیث واذا قراء فانصتوا کا راوی کی کمزوری بتلانا ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجر نے سلیمان تیمی کو تدلیس کے مرتبہ دوم میں شمار کیاہے تو چاہیے تھا کہ امام بخاری اس کی حدیث کو لے لیتے او رکمزور ثابت نہ کرتے۔12
(4) نماز میں اس ستر کے ڈھانکنے پراجماع ہے جس کو کھولنے میں ایک طرح کی بے شرمی ہے۔ جس میں ہاتھ منہ وغیرہ کے سوا عورت کا سارا بدن داخل ہے۔ محرم کے سامنے سر وغیرہ کے کھولنے کی اجازت اس لیے ہے کہ ہر وقت سر وغیرہ پر کپڑا رکھنا مشکل ہے۔ اس مجبوری اور ضروری کی وجہ سے شرع نے اجازت دے دی اگر یہ ضرورت نہ ہوتی تو عورت کو محرم کے سامنے تو کیا تنہائی میں بھی سر وغیرہ کا کھولنا اچھا نہ ہوتا۔ کیونکہ جس کے کھولنے میں ایک طرح کی بے شرمی ہو۔ اس کو بغیر ضرورت کے کھولنا اچھا نہیں ۔ چنانچہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔12
(5) تھوک کی حدیث مشکوٰۃ وغیرہ میں موجود ہے اور جوتے کی طبرانی صغیر صفحہ 165 میں ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں «عن عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ عن ابیه عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال اذا خلع احدکم نعلیه فی الصلوٰۃ فلا یجعلهما بین یدیه فیا تم بهما اخوه المسلم ولکن لیجعلهما بین رجلیه»۔ جب کوئی تم سے نماز میں جوتا اتارے تو آگے نہ رکھے تاکہ جوتا کی اقتدا لازم نہ آئے نہ پیچھے رکھے تاکہ اس کے پچھلے بھائی کی اقتداء جوتا کے ساتھ لازم نہ آئے لیکن دو پاؤں کے درمیان رکھے۔12
فتاویٰ اہلحدیث
ستر کا بیان، ج1ص294
محدث فتویٰ