وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شادی کے اخراجات سے قطع نظر ٭
بھائی ،بھتیجے اور دیگر تمام رشتہ داروں کو صدقہ و زکاۃ دی جاسکتی ہے جن کا نفقہ یعنی اخراجات زکاۃ دینے والے کے ذمہ واجب نہیں ، اگر وہ زکاۃ کے مستحق ہیں ،
اور ہر وہ قریبی رشتہ دار، جس کا نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہے، اسے زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی جو اس سے رفع نفقہ کا سبب بنے اور اگر قریبی رشتہ دار ایسا ہو، جس کا نان نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہ ہو، مثلاً: بھائی ،بہن وغیرہما تو ان کو صدقہ و زکاۃ دی جاسکتی ہے ،
اس مسئلہ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم مبارکہ یہ ہے کہ :
عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن عمها سلمان بن عامر يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر، فإنه بركة، فإن لم يجد تمرا فالماء فإنه طهور»
وقال: " الصدقة على المسكين صدقة، وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة " وفي الباب عن زينب امرأة عبد الله بن مسعود، وجابر، وأبي هريرة.: «حديث سلمان بن عامر حديث حسن،
سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے“، نیز فرمایا: ”مسکین پر صدقہ، صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں، یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلمان بن عامر کی حدیث حسن ہے،
(سنن الترمذي كتاب الزكوة 658 )
_____________________
سعودی عرب کے مشہور مفتی اعظم علامہ عبدالعزیز بن باز ؒ کا فتوی
دفع الزكاة للأخ الفقير
س ـ لي أخ متزوج فقير وعليه دين، وأخت متزوجة من فقير وعليه دين، فهل يجوز لي دفع زكاة مالي إليهما بالكامل؟ إذا كانت الزكاة تغطي ديونهما، أو لهما جزء من زكاة المال.
ج ـ لا مانع من دفع الزكاة إليهما إذا كان مسلمين وعليهما دين، يغطي زكاتك لا يستطيعان قضاءه، لأنهما داخلان في قوله سبحانه (إنما الصدقات للفقراء والمساكين) . وبالله التوفيق.
الشيخ ابن باز
(دیکھئے فتاوی الاسلامیہ ج2 ص89 )
ترجمہ :
فقیر بھائی کو زکوٰۃ دینا
سوال :
میرا ایک شادی شدہ فقیر اور مقروض بھائی ہے اور ایک شادی شدہ بہن ہے جس کا شوہر بھی فقیر و مقروض ہے تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں اپنی ساری زکوٰۃ ان دونوں ہی کو دے دوں تاکہ ان کے قرض ادا ہو جائیں یا انہیں مال زکوٰۃ کا کچھ حصہ دیا جا سکتا ہے؟
الجواب :
ان دونوں کو زکوٰۃ دینے میں کوئی امر مانع نہیں جب کہ یہ مسلمان اور مقروض ہوں اور آپ کی زکوٰۃ سے ان کا قرض ادا ہو سکتا ہو جس کے ادا کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتے، کیونکہ یہ دونوں ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہیں:
﴿نَّمَا الصَّدَقـتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـكينِ...٦٠﴾... سورة التوبة
"صدقات (زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں کا حق ہے۔"
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ[/FONT] ج 2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ حدیث بھی دیکھئے :
٭٭ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ سَوَاءً , قَالَتْ: " كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، وَكَانَتْ زَيْنَبُ تُنْفِقُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ وَأَيْتَامٍ فِي حَجْرِهَا، قَالَ: فَقَالَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ: سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْكَ وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حَجْرِي مِنَ الصَّدَقَةِ؟ فَقَالَ: سَلِي أَنْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى الْبَابِ حَاجَتُهَا مِثْلُ حَاجَتِي، فَمَرَّ عَلَيْنَا بِلَالٌ فَقُلْنَا: سَلِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَى زَوْجِي وَأَيْتَامٍ لِي فِي حَجْرِي؟ وَقُلْنَا لَا تُخْبِرْ بِنَا، فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ , فَقَالَ: مَنْ هُمَا؟ , قَالَ: زَيْنَبُ، قَالَ: أَيُّ الزَّيَانِبِ؟ , قَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، لَهَا أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ ".
سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے۔بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔
اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور چند یتیموں پر بھی جو ان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔
اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم خود جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ (جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کر دوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بیشک درست ہے۔ اور انہیں دو گنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔
صحيح البخاري، حدیث نمبر: 1466
ـــــــــــــــــــــــــــــ