• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوال -کیا مانع حمل کے لیے پیچ یا کیپسول کا استعمال شرعا جائز ہے کہ نہیں؟

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال -کیا مانع حمل کے لیے پیچ یا کیپسول کا استعمال شرعا جائز ہے کہ نہیں؟

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!

مانع حمل کے لیے پیچ یا کیپسول کا استعمال دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے :
پہلی شرط :
اس سے عورت کوکسی قسم کا نقصان اورضرر نہ ہو ۔
دوسری شرط :
خاوند اس کے استعمال کی اجازت دے ۔
ہم چاہتے ہیں کہ عورتوں کو یہ بتاتے چلیں کہ عورت کے لائق نہيں کہ وہ منع حمل کے لیے کوئي بھی چیز استعمال کرے ، کیونکہ یہ شرعی مقصد کے خلاف ہے بلکہ اولی اور بہتر تویہ ہے کہ اسے اسی طرح باقی رہنا چاہیے جس طرح کہ اللہ تعالی نے اسے کثرت نسل پر پیدا فرمایا ہے ۔
کیونکہ کثرت نسل میں بہت ہی عظیم مصلحتیں ہيں ، اوریہ انسان کونہ تواس کے رزق میں اورنہ ہی تربیت اور صحت میں کوئي نقصان اورضرر دیتی ہے ۔
لیکن اگر عورت جسمانی طور پر کمزور ہے یا پھر اسے کثرت امراض لاحق ہیں اورہر سال اسے حمل ضرر دیتا ہے اوربرداشت نہيں ہوتا تواس حالت میں وہ معذور ہے ، توپھر اوربات ہے لیکن اس میں بھی اسے خاوند کی اجازت کے ساتھ منع حمل کے لیے کچھ استعمال کرنا ہوگا ، اوراس کے استعمال میں اسے کوئي ضرر نہ ہوتوپھر وگرنہ وہ اس حالت میں بھی استعمال نہیں کرسکتی ۔
لھذا اسی لیے شریعت اسلامیہ نے یہ مشروع کیا ہے کہ اس عورت اورلڑکی سے شادی کی جائے جوزيادہ بچے جننے والی ہو اورمحبت بھی زيادہ کرنے والی ہو ، ینعی ان عورتوں سے شادی کرو جوکثرت والادت میں معروف ہیں تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی امت کی کثرت پر دوسری امتوں کے مقابلہ میں فخر حاصل ہوسکے ، اورمسلمانوں کی تعداد بھی زيادہ ہو ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتوی کا اختصار پیش کیا گيا ہے ، دیکھیں فتاوی منار الاسلام ( 3 / 784 ) ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس عورت اورلڑکی سے شادی کی جائے جو زيادہ بچے جننے والی ہو
شادی کے لئے لڑکی دیکھنے سے یہ کیسے معلوم ہو گا کہ یہ زیادہ بچے جنے گی؟ اگر تو اس پر جواب جانتے ہیں تو عنایت فرمائیں، شکریہ

والسلام
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سوال: حدیث شریف میں آیا ہے کہ (محبت کرنیوالی اور بچے پیدا کرنے والی خواتین سے شادی کرو۔۔۔الخ)تو شادی سے پہلے بیوی کو کس طرح پہچانے گا کہ وہ محبت کرنے والی اور بچے پیدا کرنے والی ہے؟

الحمد للہ:
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے آکر کہا: مجھے ایک خوبصورت اور اچھے خاندان کی لڑکی کا رشتہ ملا ہے، لیکن وہ ماں نہیں بن سکتی، تو کیا میں اس سے شادی کرلوں؟ تو آپ نے اسے روک دیا، آدمی پھر دوسری بار بھی آیا، اور سابقہ بات کہی تو آپ نے پھر منع کیا، پھر تیسری مرتبہ بھی ایسے ہی ہوا تو اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پیار کرنیوالی اور بچے پیدا کرنے والی خواتین سے شادی کرو، کیونکہ تمہاری کثرت کی بنا پر ہی میں سابقہ امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا)

اسے ابو داود ( 2050 ) اور نسائی ( 3227 ) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے " آداب الزفاف " ( ص 132 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔

چنانچہ خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت دو طریقوں سے پہچانی جاسکتی ہے:

پہلا: لڑکی کی ماں اور اسکی بہنوں کو دیکھا جائے۔

دوسرا:لڑکی کی پہلے خاوند سے اولاد ہو، تو اس سے بھی معلوم ہوسکتا ہے۔

شیخ شمس الحق عظیم آبادی "عون المعبود" (6/33)میں کہتےہیں :

"حدیث میں مذکور لڑکی کی صفت" الْوَدُود " کا مطلب ہے کہ جو اپنےخاوند سے محبت کرے، اور" الْوَلُود " کا مطلب ہے کہ جو کثرت سے بچے جنے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو صفات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ اگر بچے تو پیدا کرنے کی صلاحیت ہو لیکن پیار نہ کرے تو خاوند کو بیوی میں دلچسپی نہیں رہے گی، اور اگر پیار کرنے والی ہو لیکن بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو شادی کا مقصد فوت ہوجائے گا، اور وہ ہے افزائش نسل کے ذریعے امت محمدیہ میں اضافہ، اور ان دونوں اوصاف کا کنواری لڑکیوں کی قریبی رشتہ داروں سے لگایا جاسکتا ہے، اس لئے کہ رشتہ داروں کے مزاج ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہی ہوتے ہیں"ا نتہی

واللہ اعلم .

https://islamqa.info/ur/32668
 
Top