محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا تھا ؟
ابوبکر قدوسی
پہلے ممانعت کتابت حدیث کی دو روایات پڑھیے :
" ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لکھ رہے تھے- آپ نے فرمایا
"کیا لکھ رہے ہو؟"
ہم نے عرض کیا :
"وہ باتیں جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"تم کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ تم سے پہلی امتوں کو اس کے سوا کسی چیز نے نہیں گمراہ کیا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دیگر کتابیں بھی لکھ لیں۔" (مسند احمد عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)
" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: «اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا»: «وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الوَجْهِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ» رَوَاهُ هَمَّامٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ - (جامع الترمذي ج2ص102)
"حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ اس کے علاوہ یہ حدیث زید بن اسلم سے بھی مروی ہے۔"
ان احادیث کے سبب بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ کتابت حدیث شائد ہمیشہ کے لیے منع کر دی گئی تھی ..یہ نتیجہ نکالنے میں احباب نے بہت جلدی کر دی وگرنہ معاملہ ایسا نہیں تھا .کوڈ سیدنا ابوہریرہ جو روایت کر رہے ہیں انہوں نے اس حکم کو کتابت حدیث کی ممانعت .کے طور پر نہیں لیا ..وگرنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ نبی کریم کا واضح حکم سن کے بھی اس کے خلاف عمل کرتے اور صرف وہی نہیں بیسیوں صحابہ کرام بھی ایسا کرتے -
اصل میں احکام کو جب ان کے پس منظر کے بغیر سمجھا جائے گا تو یہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہی رہیں گی -
دارمی میں مرقوم ہے :
وقد قيل انمها نهى ان تكتب الحديث مع القرآن فى صفحه واحدة فيختلط به فيشتبه(دارمى جلد1 ص99)
کہ "حدیث کو قرآن مجید کے ساتھ ایک ہی صفحہ پر لکھنے سے منع فرمایا تاکہ اشتباہ پیدا نہ ہو جائے۔"
صحیفہ ہمام بن منبہ کے مقدمے (ص 72-76) میں ڈاکٹر حمیداللہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہےکہ :
"یمن سے نو مسلموں کی جماعت آئی ان میں سے کچھ نے احادیث کو اپنے ان اوراق پر لکھ لیا جن پر قرآن مجید کی سورتیں لکھی تھیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کے علاوہ (جو کچھ لکھا ہے) اس کو مٹا دو۔ یہ بات واضح ہی ہے کہ نومسلم لوگ اس اختلاط سے الجھ جاتے ہیں"
سو کتابت حدیث کی ممانعت مخصوص حالات میں اختلاط قران کے خدشے کے سبب تھی ..اور جب یہ خدشہ نہ رہا تو خود نبی کریم کے سامنے صحابہ لکھتے رہے اور آپ نے منع نہ کیا -
اس بات کا سب سے بڑا ثبوت بعض جید ترین صحابہ کرام کا عمل ہے کہ جو انہوں نے اپنی اپنی حدیث کی کتابیں لکھ کے دیا ہے - بلاشبہ صحابہ کرام ایسے تھے کہ ان تک کبھی نبی کریم کا کوئی حکم بلواسطہ بھی پہنچ جاتا تو تسلیم کرنے میں تساہل کا تصور بھی نہ کرتے .. اس کی سب سے بڑی مثال تحویل کعبہ اور شراب کی حرمت ہے -
جب بیت المقدس سے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آیا تو ایک صاحب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ...اس کے بعد اپنی بستی کی طرف لوٹے ..جب وہاں پہنچے تو وہاں جماعت ہو رہی تھی ..ان صاحب نے پیچھے سے ہی آواز لگا دی کہ دوستو نماز اب کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنے کا حکم آ گیا ہے .. صحابہ کا عمل یہ تھا کہ نماز کے دوران ہی منہ پھیر لیے ..حالانکہ نماز مکمل کر کے بعد از تحقیق اگلی نماز سے بھی یہ کام شروع کیا جا سکتا تھا ..لیکن منادی نے ساتھ یہ ندا بھی تو دی تھی نا کہ نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کا یہ حکم ہے --
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا منادی جب گلیوں گلیوں صدا دے رہا تھا کہ لوگو شراب حرام قرار دے دی گئی ہے تو کتنی ہی مجلسیں ایسی تھیں کہ شراب الٹا دی گئی ، گلیوں میں بہا دی گئی ، حلق میں انگلیاں تک ڈال کے بعض نے قے کر دی --
تو کیسے ممکن تھا کہ نبی کریم کتابت حدیث سے منع فرماتے اور صحابہ اس کے خلاف عمل کرتے -
ابی داوود میں روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے نبی کریم سے پوچھا کہ کیا میں آپ کے اقوال لکھ سکتا ہوں تو آپ نے فرمایا :
"نعم ، انی لا اقوال الا حق "
ہاں لکھ لیا کرو کہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا -
ایک بات بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ سیدنا عمر نے حدیث کی کتابیں جلانے کا حکم دیا تھا تو سوال یہ ہے اگر یہ حکم ایسا ہی عام تھا تو خود آپ کے بیٹے اور فرمان بردار بیٹے نے اس کو کیوں نہ مانا ..؟جب کہ خود آپ نے بہت سو صورتوں میں احادیث رقم کیں -
ظاہر ہے اس حکم سے کچھ اور ہی مراد ہے ..اور یہ حکم محض ایک غیرمعروف سی بات ہے -
جہاں تک صحیح مسلم کی اس حدیث کا تعلق ہے کہ جس میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا تو اس کا مفھوم اور مقصود یہ تھا کہ آپ نے قران اور حدیث کو باہم اور یکجا لکھنے کے سبب منع فرمایا ...اور جب یہ خدشہ ختم ہو گٹھیا تو صحابہ کرام نے کھل کے اور مسلسل کتابت حدیث کی ..اپنی کتابیں لکھیں بھی دوسروں سے نقل بھی کیں -
اگر صحابہ کرام کی لکھی کتب نہ ہوتیں تو آج بہت سے احکام اسلام اور ان کی تشریح اور توضیح ممکن ہی نہ رہتی -
صحابہ کرام کی جن کتابوں کا تاریخ نے ذکر کیا ہے ان میں چند یہ ہیں :
خود حضرت عمر نے زکاه سے متعلق احادیث جمع کر رکھی تھیں جس کا ذکر موطا امام مالک میں ام مالک بایں الفاظ کرتے ہیں :
"انہ قرا کتاب عمر بن الخطاب فی الصدقہ ................"
اسی طرح سیدنا عمر کی بہت سی تحاریر محفوظ ہیں جو احادیث پر مشتمل ہیں ..بلکہ اب تو چند ایک چھپ بھی چکی ہیں
اسی طرح ایک بار سیدنا علی نے اپنے بیٹے سیدنا محمد بن حنفیہ کو سیدنا عثمان کے پاس بھیجا کہ ان کے پاس یہ کتاب لے جاؤ اور ان سے کہو کہ اس میں صدقے (زکاه ) بارے نبی کریم کے احکام درج ہیں ، اس پر سیدنا عثمان نے فرمایا :
"اغنھا عنا "
کہ میں اس سے مستغنی ہوں مطلب یہ کہ میرے پاس موجود ہے
سیدنا عمرو بن العاص کی کتاب تو بہت ہی مشہور ہے - آپ ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے کتابت حدیث کا بہت زیادہ اہتمام کیا حتی کہ سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں :
"اللہ کے رسول کے صحابہ میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث بیان نہیں کرتا سواۓ عبد اللہ بن عمرو کے ..اس کا سبب یہ تھا کہ وہ احادیث لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھا نہیں کرتا تھا -(صحیح بخاری )
سیدنا عبد اللہ کی کتاب ان کے خاندان میں موجود رہی حتی کہ ان کے پڑپوتے سے محدثین نے اس کتاب کو روایت کر کے اپنی کتب کا حصہ بنا لیا ..
خود سیدنا ابوہریرہ نبی کریم کی زندگی میں نہیں بھی لکھتے تھے تو بعد میں لکھنے لگے -
ہمام ابن منبہ کا صحیفہ جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے انہی مخطوطات سے نقل ہوا تھا، اور چھپ بھی گیا ہے۔ جس کی اکثر احادیث بخاری مسلم مسند امام احمد میں لفظ بلفظ موجود ہیں۔
احادیث کا ایک مجموعہ حضرت انس نے لکھا تھا -
اسی طرح قتادہ روایت کرتے ہیں۔
کان یملی الحدیث حتی اذاکثر علیہ الناس جاء محمال من کتب القاھا ثم قال ھذہ احادیث سمعتھا و کتبتھا عن رسول اللّٰہ و عرصتھا علیہ ۔ تفسیر العلم ص 96,95۔
سیدنا انس بھی حدیث لکھوایا کرتے تھے جب لوگوں کی کثرت ہوگئی تو وہ کتابوں کا صحیفہ لے کر آئے اور لوگوں کے سامنے رکھ کر فرمایا:
" یہ وہ احادیث ہیں جنھیں میں نے رسول اللہ سے سن کر لکھی ہیں اور آپ کو پڑھ کر سنا بھی دی ہے"
آپ صلی للہ علیہ وسلم کو پڑھ کے سنانے سے ثابت ہوتا ہے سیدنا انس کے اس عمل پر نبی کریم نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور یوں کتابت حدیث کو سند قبولیت بخشی -
طوالت کے سبب ہم نے بہت سے صحابہ کی کتب کا تذکرہ نہیں کیا ، ورنہ مزید بہت سے صحابہ ایسے تھے جنہوں نے اپنی اپنی کتب حدیث لکھ رکھی تھیں ، اور آج جو احادیث آپ کے پاس موجود ہیں ، بیشتر انہی کتب سے ماخوذ ہیں -
ابوبکر قدوسی
پہلے ممانعت کتابت حدیث کی دو روایات پڑھیے :
" ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لکھ رہے تھے- آپ نے فرمایا
"کیا لکھ رہے ہو؟"
ہم نے عرض کیا :
"وہ باتیں جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"تم کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ تم سے پہلی امتوں کو اس کے سوا کسی چیز نے نہیں گمراہ کیا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دیگر کتابیں بھی لکھ لیں۔" (مسند احمد عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)
" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: «اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا»: «وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الوَجْهِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ» رَوَاهُ هَمَّامٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ - (جامع الترمذي ج2ص102)
"حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ اس کے علاوہ یہ حدیث زید بن اسلم سے بھی مروی ہے۔"
ان احادیث کے سبب بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ کتابت حدیث شائد ہمیشہ کے لیے منع کر دی گئی تھی ..یہ نتیجہ نکالنے میں احباب نے بہت جلدی کر دی وگرنہ معاملہ ایسا نہیں تھا .کوڈ سیدنا ابوہریرہ جو روایت کر رہے ہیں انہوں نے اس حکم کو کتابت حدیث کی ممانعت .کے طور پر نہیں لیا ..وگرنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ نبی کریم کا واضح حکم سن کے بھی اس کے خلاف عمل کرتے اور صرف وہی نہیں بیسیوں صحابہ کرام بھی ایسا کرتے -
اصل میں احکام کو جب ان کے پس منظر کے بغیر سمجھا جائے گا تو یہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہی رہیں گی -
دارمی میں مرقوم ہے :
وقد قيل انمها نهى ان تكتب الحديث مع القرآن فى صفحه واحدة فيختلط به فيشتبه(دارمى جلد1 ص99)
کہ "حدیث کو قرآن مجید کے ساتھ ایک ہی صفحہ پر لکھنے سے منع فرمایا تاکہ اشتباہ پیدا نہ ہو جائے۔"
صحیفہ ہمام بن منبہ کے مقدمے (ص 72-76) میں ڈاکٹر حمیداللہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہےکہ :
"یمن سے نو مسلموں کی جماعت آئی ان میں سے کچھ نے احادیث کو اپنے ان اوراق پر لکھ لیا جن پر قرآن مجید کی سورتیں لکھی تھیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کے علاوہ (جو کچھ لکھا ہے) اس کو مٹا دو۔ یہ بات واضح ہی ہے کہ نومسلم لوگ اس اختلاط سے الجھ جاتے ہیں"
سو کتابت حدیث کی ممانعت مخصوص حالات میں اختلاط قران کے خدشے کے سبب تھی ..اور جب یہ خدشہ نہ رہا تو خود نبی کریم کے سامنے صحابہ لکھتے رہے اور آپ نے منع نہ کیا -
اس بات کا سب سے بڑا ثبوت بعض جید ترین صحابہ کرام کا عمل ہے کہ جو انہوں نے اپنی اپنی حدیث کی کتابیں لکھ کے دیا ہے - بلاشبہ صحابہ کرام ایسے تھے کہ ان تک کبھی نبی کریم کا کوئی حکم بلواسطہ بھی پہنچ جاتا تو تسلیم کرنے میں تساہل کا تصور بھی نہ کرتے .. اس کی سب سے بڑی مثال تحویل کعبہ اور شراب کی حرمت ہے -
جب بیت المقدس سے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آیا تو ایک صاحب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ...اس کے بعد اپنی بستی کی طرف لوٹے ..جب وہاں پہنچے تو وہاں جماعت ہو رہی تھی ..ان صاحب نے پیچھے سے ہی آواز لگا دی کہ دوستو نماز اب کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنے کا حکم آ گیا ہے .. صحابہ کا عمل یہ تھا کہ نماز کے دوران ہی منہ پھیر لیے ..حالانکہ نماز مکمل کر کے بعد از تحقیق اگلی نماز سے بھی یہ کام شروع کیا جا سکتا تھا ..لیکن منادی نے ساتھ یہ ندا بھی تو دی تھی نا کہ نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کا یہ حکم ہے --
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا منادی جب گلیوں گلیوں صدا دے رہا تھا کہ لوگو شراب حرام قرار دے دی گئی ہے تو کتنی ہی مجلسیں ایسی تھیں کہ شراب الٹا دی گئی ، گلیوں میں بہا دی گئی ، حلق میں انگلیاں تک ڈال کے بعض نے قے کر دی --
تو کیسے ممکن تھا کہ نبی کریم کتابت حدیث سے منع فرماتے اور صحابہ اس کے خلاف عمل کرتے -
ابی داوود میں روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے نبی کریم سے پوچھا کہ کیا میں آپ کے اقوال لکھ سکتا ہوں تو آپ نے فرمایا :
"نعم ، انی لا اقوال الا حق "
ہاں لکھ لیا کرو کہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا -
ایک بات بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ سیدنا عمر نے حدیث کی کتابیں جلانے کا حکم دیا تھا تو سوال یہ ہے اگر یہ حکم ایسا ہی عام تھا تو خود آپ کے بیٹے اور فرمان بردار بیٹے نے اس کو کیوں نہ مانا ..؟جب کہ خود آپ نے بہت سو صورتوں میں احادیث رقم کیں -
ظاہر ہے اس حکم سے کچھ اور ہی مراد ہے ..اور یہ حکم محض ایک غیرمعروف سی بات ہے -
جہاں تک صحیح مسلم کی اس حدیث کا تعلق ہے کہ جس میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا تو اس کا مفھوم اور مقصود یہ تھا کہ آپ نے قران اور حدیث کو باہم اور یکجا لکھنے کے سبب منع فرمایا ...اور جب یہ خدشہ ختم ہو گٹھیا تو صحابہ کرام نے کھل کے اور مسلسل کتابت حدیث کی ..اپنی کتابیں لکھیں بھی دوسروں سے نقل بھی کیں -
اگر صحابہ کرام کی لکھی کتب نہ ہوتیں تو آج بہت سے احکام اسلام اور ان کی تشریح اور توضیح ممکن ہی نہ رہتی -
صحابہ کرام کی جن کتابوں کا تاریخ نے ذکر کیا ہے ان میں چند یہ ہیں :
خود حضرت عمر نے زکاه سے متعلق احادیث جمع کر رکھی تھیں جس کا ذکر موطا امام مالک میں ام مالک بایں الفاظ کرتے ہیں :
"انہ قرا کتاب عمر بن الخطاب فی الصدقہ ................"
اسی طرح سیدنا عمر کی بہت سی تحاریر محفوظ ہیں جو احادیث پر مشتمل ہیں ..بلکہ اب تو چند ایک چھپ بھی چکی ہیں
اسی طرح ایک بار سیدنا علی نے اپنے بیٹے سیدنا محمد بن حنفیہ کو سیدنا عثمان کے پاس بھیجا کہ ان کے پاس یہ کتاب لے جاؤ اور ان سے کہو کہ اس میں صدقے (زکاه ) بارے نبی کریم کے احکام درج ہیں ، اس پر سیدنا عثمان نے فرمایا :
"اغنھا عنا "
کہ میں اس سے مستغنی ہوں مطلب یہ کہ میرے پاس موجود ہے
سیدنا عمرو بن العاص کی کتاب تو بہت ہی مشہور ہے - آپ ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے کتابت حدیث کا بہت زیادہ اہتمام کیا حتی کہ سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں :
"اللہ کے رسول کے صحابہ میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث بیان نہیں کرتا سواۓ عبد اللہ بن عمرو کے ..اس کا سبب یہ تھا کہ وہ احادیث لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھا نہیں کرتا تھا -(صحیح بخاری )
سیدنا عبد اللہ کی کتاب ان کے خاندان میں موجود رہی حتی کہ ان کے پڑپوتے سے محدثین نے اس کتاب کو روایت کر کے اپنی کتب کا حصہ بنا لیا ..
خود سیدنا ابوہریرہ نبی کریم کی زندگی میں نہیں بھی لکھتے تھے تو بعد میں لکھنے لگے -
ہمام ابن منبہ کا صحیفہ جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے انہی مخطوطات سے نقل ہوا تھا، اور چھپ بھی گیا ہے۔ جس کی اکثر احادیث بخاری مسلم مسند امام احمد میں لفظ بلفظ موجود ہیں۔
احادیث کا ایک مجموعہ حضرت انس نے لکھا تھا -
اسی طرح قتادہ روایت کرتے ہیں۔
کان یملی الحدیث حتی اذاکثر علیہ الناس جاء محمال من کتب القاھا ثم قال ھذہ احادیث سمعتھا و کتبتھا عن رسول اللّٰہ و عرصتھا علیہ ۔ تفسیر العلم ص 96,95۔
سیدنا انس بھی حدیث لکھوایا کرتے تھے جب لوگوں کی کثرت ہوگئی تو وہ کتابوں کا صحیفہ لے کر آئے اور لوگوں کے سامنے رکھ کر فرمایا:
" یہ وہ احادیث ہیں جنھیں میں نے رسول اللہ سے سن کر لکھی ہیں اور آپ کو پڑھ کر سنا بھی دی ہے"
آپ صلی للہ علیہ وسلم کو پڑھ کے سنانے سے ثابت ہوتا ہے سیدنا انس کے اس عمل پر نبی کریم نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور یوں کتابت حدیث کو سند قبولیت بخشی -
طوالت کے سبب ہم نے بہت سے صحابہ کی کتب کا تذکرہ نہیں کیا ، ورنہ مزید بہت سے صحابہ ایسے تھے جنہوں نے اپنی اپنی کتب حدیث لکھ رکھی تھیں ، اور آج جو احادیث آپ کے پاس موجود ہیں ، بیشتر انہی کتب سے ماخوذ ہیں -