تعارف:
خطہ پنجاب میں جن علمائے دین نے توحید و سنت کی دعوت عام کی۔ ان میں مولوی غلام رسول مرحوم کا نام سر فہرست ہے۔ ان کے آباء و اجداد موضع سکندر پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ بعد اذاں ترکِ سکونت کر کے کوٹ بھوانی داس ضلع گوجرانوالہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ اعوان برادری کے اس خاندان کی وجہ سے کوٹ بھوانی داس پنجاب کا بغداد مشہور ہوا۔
۱۲۲۸ھ/۱۸۱۳ھ میں مولوی غلام رسول پیدا ہوئے۔ ان کا شجرۂ نسب یہ ہے۔ مولوی عبد اللہ المعروف بہ غلام رسول بن مولوی رحیم بن نظام الدین خادم بن بہاء الدین بن مولانا محمد اکرم بن حافظ عصمت اللہ بن مولوی عبد اللہ بن شیخ سکندر بن نور محمد بن پیر محمد۔
اس خاندان کے بارے میں 'ایں خانہ ہمہ آفتاب است' کی مثل صادق آتی ہے۔ نظام الدین خادم فارسی کے نہایت اچھے شاعر تھے۔ انہوں نے نظامی گنجوی کے تتبع میں ایک فارسی مثنوی لکھی تھی۔
تعلیم:
مولوی غلام رسول پانچ سال کے ہوئے تو قرآن مجید پڑھنے کے لئے مسجد میں بٹھائے گئے۔ بڑی مشکل سے قرآن مجید پڑھا۔ آغاز میں ان کا حافظہ نہایت کمزور تھا مگر بارہ سال کی عمر میں پہنچ کر قوتِ حافظہ میں اس قدر ترقی ہوئی کہ ابتدائی تعلیم کی کمی پوری کر لی۔
اس زمانے میں خاندان 'بگا' کی شہرت عروج پر تھی۔ مولوی غلام محی الدین بگوی بازار حکیماں لاہور میں مسندِ درس بچھائے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب ان سے اکتساب فیض کے لئے لاہور گئے۔ لاہور میں مولوی صاحب اور ان کے برادرِ خورد مولوی احمد دین مرحوم سے استفادہ کیا۔ تقریباً بیس سال کی عمر میں مروجہ درس عربی سے فارغ ہو گئے۔
سفرِ سوات وبنیر:
مولوی صاحب کی طبیعت بچپن ہی سے عبادت و ریاضت کی طرف راغب تھی۔ چنانچہ دورانِ تعلیم کتابوں سے زیادہ نوافل اور عبادات پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ اس دور میں سوات کے اخوند صاحب کی شہرت دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے سوات اور بنیر کا طویل سفر اختیار کیا۔ اخوند صاحب سے ملاقات ہوئی مگر بیعت پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی۔ واپسی پر تربیلہ ضلع ہزارہ میں چندے قیام کیا۔ جہاں کے نمبردار نے عزت و تکریم سے رکھا اور 'حضرت میر کوٹھے والے' کے حضور حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ نمبردار خود ان سے ارادت رکھتا تھا۔ چنانچہ مولوی صاحب 'کوٹھے والا' حاضر ہوئے اور حضرت میر کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ ؎
مدّت سے جس کی آرزو تھی مل گیا وہ گل 'انہیں'
سفر سوات و بنیر سے واپس آگھر آئے مگر اہلِ دل کی صحبت سے استفادہ کا شوق اس قدر غالب تھا کہ کچھ عرصہ بعد سلسلہ چشتیہ کے مشہور بزرگ خواجہ محمد سلیمان تونسویؒ سے ملاقات کا پروگرام بنایا۔
سفر تونسہ:
تونسہ جا کر خواجہ سلیمان تونسویؒ سے ملاقات کی۔ چونکہ خواجہ موصوف اپنے مریدوں کو تصور شیخ کی تعلیم دیتے تھے اور ان کے ہاں بعض ایسے وظائف مروج تھے جن سے سنت کی بُو نہیں آتی تھی۔ اس لئے چنداں تعلقِ خاطر پیدا نہ ہوا۔ تاہم خواجہ تونسویؒ نے بلا بیعت اپنا خلیفہ ہونے کا شرف بخشا۔
قیامِ لاہور:
سفرِ تونسہ سے واپسی پر لاہور میں اقامت اختیاز کی۔ لاہور میں توحید و سنت کے بھولے ہوئے سبق کو دہرایا۔ ان کی بے باکی اور جرأتِ حق گوئی کی وجہ سے ایک طبقہ مخالف ہو گیا۔ اور مخالفین نے بدنام کرنے کی پوری کوشش کی مگر مخالفین کی چالیں ناکام ہوئیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔ سینکڑوں غیر مسلم ان کے ہاتھ پر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے اور بہت بڑی تعداد میں گمراہ مسلمانوں نے توحید و سنت کی راہ اختیاز کی۔
میاں نذیر حسین دہلویؒ سے استفادہ:
لاہور میں ان کی داعیانہ کوششوں سے ان کا نام خاصا مشہور ہو چکا تھا۔ تاہم طلبِ علم میں اب بھی عار نہ تھی۔ مولانا عبد اللہ غزنوی کے ساتھ کے ساتھ میاں نذیر حسین دہلوی (م ۱۳۲۰ھ) سے استفادہ کے لئے دہلی گئے اور ربیع الثانی ۱۲۷۹ھ میں میاں صاحب سے حدیث کی سند لی۔
۱۸۵۷ء میں گرفتاری:
۱۲۷۳ھ (۱۸۵۷ء) میں مسلمانانِ برصغیر نے آزادی حاصل کرنے کے لئے آخری عسکری کوشش کی۔ جنگ آزادی کے ابتدائی دنوں میں مولوی موصوف اور مولوی عبد اللہ غزنوی دہلی میں تھے اور جس مسجد میں مقیم تھے وہاں گولیاں آ آ کر گرتی تھیں۔
جنگِ آزادی کی ناکامی پر انگریزوں نے مسلمانوں کو خصوصی طور پر انتقام کا نشانہ بنایا۔ بہت سے علماء گرفتار ہوئے اور ان میں سے اکثر کسی ثبوت کے بغیر پھانسی چڑھا دیئے گئے یا کالا پانی بھیج دیئے گئے۔ مولوی موصوف دہلی سے رخصت ہو کر امرتسر آئے۔ دوروز حافظ محمود امرتسری کی مسجد میں ٹھہرے۔ امرتسر ہی میں مولوی صاحب کو معلوم ہو گیا کہ ان کی گرفتاری کا اشتہار جاری ہو گیا ہے۔ امرتسر سے اپنی سسرال فتح گڑھ تشریف لے گئے۔ فتح گڑھ میں بھی پولیس گرفتاری کی کوشش کرتی رہی مگر بے سود۔ مولوی صاحب قلعہ میہاں سنگھ آگئے۔
قلعہ میہاں سنگھ میں اعزہ و اقربا پہلے سے گرفتاری کے اشتہار سے آگاہ تھے۔ بھائی حکم غلام محمد نے روپوش ہونے کا مشورہ دیا۔ اس پر فرمایا۔ 'پوشیدگی میں عمر گزارنی مشکل ہے۔ قضائے الٰہی پر میں راضی ہوں۔ حاکمِ وقت میرے بیانات سنے گا اور تحقیقات بھی کرے گا۔ یونہی شکایت پر مجھے پھانسی نہیں دے دے گا۔ آپ مجھے باہر نکلنے سے منع نہ فرمائیں ۔ چنانچہ برسرِ عام نقل و کرنے لگے اور گرفتار ہو گئے۔ عدالتی کارروائی کے بعد آپ کی رہائی عمل میں آئی۔ اگرچہ رہا ہو چکے تھے مگر وعظ کہنے یا کہیں سفر کی اجازت نہ تھی۔
حج مبارک:
۱۲۸۸ھ میں حج کا قصد کیا اور مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ حج سے فراغت کے بعد مدینہ منورہ میں شاہ عبد الغنی بن ابو سعید مجددی کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے اور سندِ فضیلت حاصل کی۔
مولوی صاحب کا مزاح:
مولوی صاحب مسلکاً اہل حدیث تھے۔ ایک بار ان سے کسی نے دریافت کیا کہ مقلد اور غیر مقلد کے بارے میں فیصلہ فرمائیے۔ انہوں نے جواب دیا:
یہ سمجھ کی بات ہے اور ہے بھی بڑی موٹی بات۔ مثال اس کی یوں ہے کہ ایک تالاب سے چار نالیاں نکلتی ہیں۔ جو شخص کسی نالی سے پانی پئے گا وہ تالاب ہی کا پانی ہو گا اور اگر کوئی شک والی طبیعت والا براہِ راست تالاب سے پانی پئے گا تو وہ بھی اسی تالاب کا پانی ہے۔ یہی حال مقلد اور غیر مقلد کا ہے۔ صرف یہ ذہن میں رہے کہ نبی اکرم ﷺ کے قول و فعل کے سامنے کسی کے قول و عمل کی وقعت نہیں اور یہی ائمۂ مجتہدین کا فرمان بھی ہے۔
تصانیف:
مولوی صاحب نے اصلاحِ عوام کے لئے پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بتایا۔ اگرچہ موصوف فارسی میں خط و کتابت کیا کرتے تھے۔ مؤلف 'حیاتِ مولوی غلام رسول' نے ان کے فارسی مکتوبات اپنی کتاب میں درج کئے ہیں۔ مولوی صاحب نے شعر و نظم سے اصلاحِ اخلاق اور تبلیغِ دین کا کام لیا۔
مولوی صاحب سے پنجابی زبان کی مندرجہ ذیل کتابیں یادگار ہیں۔ ان میں سے بعض کئی بار شائع ہو چکی ہیں۔
1. قصہ حضرت بلالؓ (منظوم)
2. حلیہ حضرت محمد ﷺ (خورد و کلاں)
3. قصہ سسی پنوں (منظوم)
4. سی حرفی
5. مجموعہ نماز بامعنی پنجابی۔ نمازِ جنازہ، خطبہ نکاح، طریق نکاح، صفت ایمان، شش کلمہ رسالہ مذمتِ بے نمازاں، ادعیہ مسنونہ، فتویٰ فرضیتِ جمعہ وردِ احتیاطی شامل ہیں۔
6. تفسیر سورۂ فاتحہ۔
7. پنج باب (پنجابی نثر) مسائل فقہ پر 'پکی روٹی' کے انداز پر یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے یعنی عقیدہ، مسئلہ، فضیلت اور نصیحت۔
8. پکی روٹی۔ پنجابی نثر میں مسائل فقہ پر ۱۶ صفحات کا رسالہ ہے۔ ۴۷ سوالات مع جوابات ہیں۔
9. فتاویٰ مولوی غلام رسول (فارسی)
تلامذہ:
مولوی صاحب سے ایک دنیا نے استفادہ کیا۔ بیس پچیس طلبا ان کے پاس ہمیشہ مقیم رہتے تھے جن کی ضروریات خورد و نوش وہ خود ہی پوری کرتے تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل تلامذہ نے خاصی شہرت حاصل کی ہے۔
1. حافظ ولی اللہ لاہوری (م ۱۲۹۶ھ) مؤلف مباحثۂ دینی، صیانۃ الانسان وابحاثِ ضروری۔
2. مولوی عبد العزیز بانی انجمن حمایتِ اسلام۔ لاہور
3. مولوی غلام حسین ساکن ساہو والہ۔ ضلع سیالکوٹ
4. مولوی احمد علی ساکن کوٹ بھوانی داس۔
5. مولوی علاؤ الدین صاحب ساکن گوجرانوالہ۔
وفات:
۶۳ سال کی عمر میں ۱۲۹۱ھ (۱۸۷۴ء) قلعہ میہان سنگھ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
حاشیہ
'بگا' بھیرہ کے مواضعات میں سے ہے۔ مولوی غلام محی الدین بن حافظ نور حیات بن حافظ محمد شفاء بن حافظ نور محمد بگوی معروف عالمِ دین اور فقیہ تھے۔ ۲ محرم ۱۲۱۰ٔھ (۱۷۹۵ء) کو پیدا ہوئے۔ قرآن مجید حافظ حسین سے پڑھا اور ۱۲۲۹ھ میں برادرِ خورد مولوی احمد دین بگوی کے ساتھ دہلی گئے۔ شاہ اسحاق دہلوی (م ۱۲۶۲ھ) سے حدیث پڑھی اور شاہ عبد العزیز صاحب (م ۱۲۳۹ھ) سے استفادہ کیا۔ شاہ غلام علی مجددی (م ۱۲۴۰ھ) سے بیعت ہوئے۔ ۱۲۴۱ھ میں وطن مراجعت کی۔ والد انتقال کر چکے تھے۔ ان کی مسندِ درس و ارشاد پر متمکن ہوئے۔ فقیر عزیز الدین کی درخواست پر لاہور آئے اور مسجد حکیماں میں بیس سال حدیث کا درس دیا۔ ہزارہا علماء نے ان سے اکتسابِ فیض کیا۔ ۳؍شوال ۱۲۷۳ھ(۱۸۵۷ء) کو وفات پائی۔
اخوند عبد الغفور صاحب سوات صوبہ سرحد اور نواحی علاقوں میں با اثر بزرگ تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے قبضہ پشاور (۱۸۹۴ء) کے بعد سوات نبیر کے علاقوں میں شرعی حکومت کے قیام کی جدوجہد کی۔ انگریزوں سے مجاہدانہ معرکے کیے۔ ۱۲۹۳ھ (۱۸۷۷ء) میں رحلت کی۔
خواجہ محمد سلیمان تونسویؒ ۱۱۸۳ھ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں یتیم ہو گئے۔ تحصیل علم کے لئے دور دراز کے سفر کیے۔ آخر کوٹ مٹھن میں قاضی محمد عاقل خلیفہ خواجہ نور محمد مہاوریؒ کے درس میں شریک ہوئے۔ اپنے آبائی گاؤں 'گڑھ گوجی' اور تونسہ میں دعوت و تبلیغِ دین کرتے رہے۔ آخر ۷؍ صفر ۱۲۶۷ھ کو دنیا سے رحلت کی۔
میاںنذیر حسین محدث ۱۲۲۰ھ (۱۸۰۵ء) میں سورج گڑھ (بہار) میں پیدا ہوئے۔ صادق پور میں ابتدائی تحصیل علم کی۔ ۱۲۷۳ھ میں دہلی اور سر برآوردہ اکابر سے اکتساب فیض کیا۔ ۱۲۸۰ھ میں مجاہدین کی امداد کے الزام میں ایک سال قید و بند میں گزارا مگر ''جرم'' ثابت نہ ہونے کی بناء پر رہا کر دیئے گئے۔ بعد میں 'شمس العلماء' کا خطاب ملا۔ ۱۳۲۰ھ (۱۹۰۲ء) میں دہلی میں انتقال کیا۔
مولوی عبد اللہ غزنوی بن محمد بن محمد شریف ۱۲۳۰ھ میں پیدا ہوئے۔ علامہ حبیب اللہ قندھاری اور میاں نذیر حسین محدث سے علمِ حدیث پڑھا۔ کافی عرصہ کابل میں رہے اور پھر امرتسر (مشرقی پنجاب) میں سکونت اختیاز کی۔ ۱۲۹۸ھ میں رحلت کی۔
سوانح حیات مولوی غلام رسول قلعہ میہاں سنگھ والے ص ۶۱
سوانح حیات ص ۶۷
لنک