- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
محترم بھائیو !
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ملک پاکستان سمیت پوری دنیا میں سودی کاروبار آگ کی طرح پھیل چکا ہے اور مزید پھیل رہا ہے ۔ غیر مسلم کی تو خیر بات ہی کیا کرنی خود مسلمان بھی اس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں اور مسلم و غیر مسلم کے فرق کے بغیر اکثر لوگ اس نظام کو زندگی کا ایک جزو لاینفک سمجھ رہے ہیں ۔
معاملات میں سودی کاروبار کی یلغار کی ایک بنیادی وجہ یہ سمجھ آتی ہے اس نظام کو متعارف کروانے والے اور اس کی حمایت کرنے والے پوری تندہی کے ساتھ اس کی ترویج اور نشرو اشاعت میں مصروف ہیں ۔
لوگ سودی کارو بار کوعام کرنے کے لیے کس قدر محنت کرر ہے ہیں یہ آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ وہ اپنا وقت ، مال اور ہر ممکن وسیلے سے اس سلسلے میں بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔
اس طرح کے اداروں نے بہت سارے نمائندے تیار کیے ہوتے ہیں جن کو بڑی جانفشانی کے ساتھ ہر طرح سے اپنا موقف دوسرے کو منوانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ حتی کہ ایک ہی نمائندہ جب کسی کے پاس حاضر ہوتا ہے تو اس کے پاس ہر مکتبہ فکر کے فتاوی جات موجود ہوتے ہیں تاکہ شکار کسی نہ کسی طرح پھنس جائے ۔
خیر یہ ایک طویل الذیل موضوع ہے کہ سود یا سودی کار و بار کو رواج دینے کے کیا کیا ہتھکنڈے اور حربے ہیں ؟
یہاں اصل مقصود یہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان جو کہ اسلامی معیشت و تجارت کی کامیابی پر اعتماد رکھتا ہے اور سودی کار و بار کو اللہ کے ساتھ ’’ اعلان جنگ ‘‘ سمجھتا ہے ۔ اس نے اپنے موقف کو منوانے یا دوسروں تک پہنچانے میں کیا کیا ہے ؟
اگرچہ اس سلسلے میں بہت ساری کوششیں و کاوشیں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں لیکن اگر فریقین کی جدو جہد اور کدو کاوش میں تناسب نکالا جائے تو ہم بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
حالیہ واقعہ کے تناظر میں ہی دیکھ لیں وزیر اعظم نے ایک بڑے پیمانے پر سود کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے بالمقابل ہم سوائے چند ایک پوسٹر اور جذباتی نعرہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں کرسکے ۔ حالانکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جب ’’ سودی نظام کاروبار ‘‘ پر تنقید کرتے ہیں تو اسلام کے سنہرے اصول تجارت اور لین دین کے شرعی قواعد و ضوابط سے لوگوں کو متعارف کروانا چا ہیے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو تک یہ پیغام کیسے پہنچاسکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب مختلف لوگوں کے حساب سے مختلف ہے ۔ لیکن ہمارے جیسے احباب جو انٹرنیٹ کی دنیا میں وقت نکالتےہیں ان کے لیے آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں اسلامی موقف کی نمائندگی کرنے والے مواد کو ’’ یونیکوڈ ‘‘ کی صورت میں پیش کریں تاکہ اگر اس موضوع پر مطالعہ کرنے کے لیے لوگ انٹرنیٹ کی طرف رجوع کریں تو انہیں جس طرح دوسرے لوگوں کا موقف جاننے کا موقع ملتا ہے ہمارا موقف بھی ان کے سامنے آئے ۔ اور یہ عذر ختم ہوجائے کہ اس سلسلےمیں اسلامی تعلیمات نایاب یھ کمیاب ہیں ۔
مکتبہ محدث نے جیساکہ دیگر اہم موضوعات پر بہت سی کتب شائقین کے لیے پی ڈی ایف کی شکل میں پیش کی ہیں اس موضوع پر بھی کتب یہاں موجود ہیں جن میں سے دو اہم کتابیں یہ ہیں :
1۔ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم
2۔معیشت وتجارت کے اسلامی احکام
ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم فارغ اوقات نکال کر جذباتی گفتگو کرنے کی بجائے مل جل کر ان کتب کو یونیکوڈ میں منتقل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ جو کام ہمارا لیے انفرادی طور پر کرنا مشکل ہے وہ ہم مل جل کر کر لیں ۔
ان کتب پر چونکہ ہم نے مل جل کر کام کرنا ہے اس کے لیے دو طریقے ہوسکتے ہیں :
1۔ ان کتب کو سب ساتھی مل کر آپس میں تقسیم کرلیں کہ فلاں اتنے صفحے ٹائپ کرے گا ۔ اس کے بعد فلاں ۔۔ اس کےبعد فلاں ۔۔
2۔ ان کتب کے حوالے سے منتظمین سے گزارش کی جائے کہ وہ انہیں ’’ ٹائپنگ ایپلیکشن ‘‘ پر لگادیں تاکہ ہمیں تکرار سے بچنے کےلیے صفحات تقسیم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑھے ۔
طریقہ جو بھی اختیار کریں کوئی زیادہ مسئلہ نہیں بس یہ دیکھنا ہے کہ ’’ سود کے خلاف جنگ ‘‘ میں ہم کس قدر زیادہ اور جلدی حصہ ڈال سکتے ہیں ۔
تو ذرا بتائیں پھر کون کون مجاہد اس جہاد میں حصہ لے گا ؟ اور کتنے صفحات ٹائپ کرے گا ؟
نیکی کے کاموں میں ( اخلاص کے ساتھ ) مقابلہ بازی بھی کی جاسکتی ہے ۔
محترم بھائیو !
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ملک پاکستان سمیت پوری دنیا میں سودی کاروبار آگ کی طرح پھیل چکا ہے اور مزید پھیل رہا ہے ۔ غیر مسلم کی تو خیر بات ہی کیا کرنی خود مسلمان بھی اس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں اور مسلم و غیر مسلم کے فرق کے بغیر اکثر لوگ اس نظام کو زندگی کا ایک جزو لاینفک سمجھ رہے ہیں ۔
معاملات میں سودی کاروبار کی یلغار کی ایک بنیادی وجہ یہ سمجھ آتی ہے اس نظام کو متعارف کروانے والے اور اس کی حمایت کرنے والے پوری تندہی کے ساتھ اس کی ترویج اور نشرو اشاعت میں مصروف ہیں ۔
لوگ سودی کارو بار کوعام کرنے کے لیے کس قدر محنت کرر ہے ہیں یہ آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ وہ اپنا وقت ، مال اور ہر ممکن وسیلے سے اس سلسلے میں بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔
اس طرح کے اداروں نے بہت سارے نمائندے تیار کیے ہوتے ہیں جن کو بڑی جانفشانی کے ساتھ ہر طرح سے اپنا موقف دوسرے کو منوانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ حتی کہ ایک ہی نمائندہ جب کسی کے پاس حاضر ہوتا ہے تو اس کے پاس ہر مکتبہ فکر کے فتاوی جات موجود ہوتے ہیں تاکہ شکار کسی نہ کسی طرح پھنس جائے ۔
خیر یہ ایک طویل الذیل موضوع ہے کہ سود یا سودی کار و بار کو رواج دینے کے کیا کیا ہتھکنڈے اور حربے ہیں ؟
یہاں اصل مقصود یہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان جو کہ اسلامی معیشت و تجارت کی کامیابی پر اعتماد رکھتا ہے اور سودی کار و بار کو اللہ کے ساتھ ’’ اعلان جنگ ‘‘ سمجھتا ہے ۔ اس نے اپنے موقف کو منوانے یا دوسروں تک پہنچانے میں کیا کیا ہے ؟
اگرچہ اس سلسلے میں بہت ساری کوششیں و کاوشیں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں لیکن اگر فریقین کی جدو جہد اور کدو کاوش میں تناسب نکالا جائے تو ہم بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
حالیہ واقعہ کے تناظر میں ہی دیکھ لیں وزیر اعظم نے ایک بڑے پیمانے پر سود کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے بالمقابل ہم سوائے چند ایک پوسٹر اور جذباتی نعرہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں کرسکے ۔ حالانکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جب ’’ سودی نظام کاروبار ‘‘ پر تنقید کرتے ہیں تو اسلام کے سنہرے اصول تجارت اور لین دین کے شرعی قواعد و ضوابط سے لوگوں کو متعارف کروانا چا ہیے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو تک یہ پیغام کیسے پہنچاسکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب مختلف لوگوں کے حساب سے مختلف ہے ۔ لیکن ہمارے جیسے احباب جو انٹرنیٹ کی دنیا میں وقت نکالتےہیں ان کے لیے آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں اسلامی موقف کی نمائندگی کرنے والے مواد کو ’’ یونیکوڈ ‘‘ کی صورت میں پیش کریں تاکہ اگر اس موضوع پر مطالعہ کرنے کے لیے لوگ انٹرنیٹ کی طرف رجوع کریں تو انہیں جس طرح دوسرے لوگوں کا موقف جاننے کا موقع ملتا ہے ہمارا موقف بھی ان کے سامنے آئے ۔ اور یہ عذر ختم ہوجائے کہ اس سلسلےمیں اسلامی تعلیمات نایاب یھ کمیاب ہیں ۔
مکتبہ محدث نے جیساکہ دیگر اہم موضوعات پر بہت سی کتب شائقین کے لیے پی ڈی ایف کی شکل میں پیش کی ہیں اس موضوع پر بھی کتب یہاں موجود ہیں جن میں سے دو اہم کتابیں یہ ہیں :
1۔ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم
2۔معیشت وتجارت کے اسلامی احکام
ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم فارغ اوقات نکال کر جذباتی گفتگو کرنے کی بجائے مل جل کر ان کتب کو یونیکوڈ میں منتقل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ جو کام ہمارا لیے انفرادی طور پر کرنا مشکل ہے وہ ہم مل جل کر کر لیں ۔
ان کتب پر چونکہ ہم نے مل جل کر کام کرنا ہے اس کے لیے دو طریقے ہوسکتے ہیں :
1۔ ان کتب کو سب ساتھی مل کر آپس میں تقسیم کرلیں کہ فلاں اتنے صفحے ٹائپ کرے گا ۔ اس کے بعد فلاں ۔۔ اس کےبعد فلاں ۔۔
2۔ ان کتب کے حوالے سے منتظمین سے گزارش کی جائے کہ وہ انہیں ’’ ٹائپنگ ایپلیکشن ‘‘ پر لگادیں تاکہ ہمیں تکرار سے بچنے کےلیے صفحات تقسیم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑھے ۔
طریقہ جو بھی اختیار کریں کوئی زیادہ مسئلہ نہیں بس یہ دیکھنا ہے کہ ’’ سود کے خلاف جنگ ‘‘ میں ہم کس قدر زیادہ اور جلدی حصہ ڈال سکتے ہیں ۔
تو ذرا بتائیں پھر کون کون مجاہد اس جہاد میں حصہ لے گا ؟ اور کتنے صفحات ٹائپ کرے گا ؟
نیکی کے کاموں میں ( اخلاص کے ساتھ ) مقابلہ بازی بھی کی جاسکتی ہے ۔