محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۲۷۹ وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۸۰
اس آیت میں فرمایا کہ اگر رؤس اموال واپس کرنے میں انھیں دقت ہوتو تم فراغت وکشائش تک انتظار کرو۔ یعنی اسے موقع دو کہ وہ بآسانی قرض اتاردے۔ مقروض کو تنگ کرنا مسلمان کے بلند اخلاق کے منافی ہے اور معاف کردینا توبہت زیادہ بہتر ہے۔
اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ میں اشارہ ہے اس روحانی لذت کی طرف جو معاف کردینے کے بعد مسلمان کو حاصل ہوتی ہے اور اس اجرعظیم کی طرف جس کا وہ مستحق ہوجاتا ہے ۔اس آیت میں جس رحم دل مگر سرمایہ دار مسلمان کا تخیل خدا نے پیش کیا ہے ،وہ دنیا کے لیے کس درجہ عافیت پسند اور مفید ہوسکتا ہے ۔کیا ان ہدایات کے بعد بھی کسی دوسری تعلیم کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔
پھر اگر تم ایسا نہ کرو تو خبردار ہوجاؤ(یعنی تیار ہوجاؤ) اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے۱؎ کو اور اگر توبہ کرو تو تم کو تمھارے اصل مال ملیں گے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر۔ (۲۷۹) اور اگر کوئی شخص تنگی میں ہے تو اس کو تونگری تک مہلت دینا چاہیے اور اگر تم خیرات کرو تو تمھارا بھلا ہے ۔اگر تم سمجھ دار ہو۔۲؎ (۲۸۰)
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ مسلمان تحریم سے پیشتر کے سودی معاہدات توڑدیں اور اصل مال لے لینے پر اکتفا کریں ورنہ خدا سے اعلان جنگ ہے ۔ یعنی سود خواری مذہب کے خلاف ایک زبردست جنگ ہے ۔ سودخوار قومیں صحیح مذہبی روح سے قطعاً خالی ہوتی ہیں۔ یہودیوں کی ساری تاریخ سامنے ہے۔ کیا کبھی انھوں نے ایثار وقربانی سے کام لیا ہے ؟ یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ کی محبت اور خدا کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی۔سود خوار سے اعلان جنگ
۲؎ اس سے پہلے کی آیت میں اصل مال لینے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ یعنی مسلمان نہ توبحیثیت ظالم کے اللہ کو پسند ہے اور نہ بحیثیت مظلوم کے۔ نہ تو وہ اپنا نقصان کرے، نہ دوسرے کا ۔یعنی جس طرح ظالم بننا اور سود لینا گناہ ہے، بالکل اس کے متوازی سود دینا گناہ ہے ،کیوں کہ مسلمان کو عادل اورایک بہترین نمونہ بناکر بھیجا گیا ہے ۔اس کی زندگی کا مقصد دوسروں سے کہیں بلند ہے ۔ وہ اس لیے دنیا میں آیا ہے کہ خیر محض کا درس دے اور ا پنے اعمال سے دوسروں کے لیے ایک ممتاز شاہراہ قائم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے معاملات میں نہایت صالح رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسے کہا گیا ہے کہ حسن معاملہ بھی نصف دین ہے ۔رحم دل مسلمان
اس آیت میں فرمایا کہ اگر رؤس اموال واپس کرنے میں انھیں دقت ہوتو تم فراغت وکشائش تک انتظار کرو۔ یعنی اسے موقع دو کہ وہ بآسانی قرض اتاردے۔ مقروض کو تنگ کرنا مسلمان کے بلند اخلاق کے منافی ہے اور معاف کردینا توبہت زیادہ بہتر ہے۔
اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ میں اشارہ ہے اس روحانی لذت کی طرف جو معاف کردینے کے بعد مسلمان کو حاصل ہوتی ہے اور اس اجرعظیم کی طرف جس کا وہ مستحق ہوجاتا ہے ۔اس آیت میں جس رحم دل مگر سرمایہ دار مسلمان کا تخیل خدا نے پیش کیا ہے ،وہ دنیا کے لیے کس درجہ عافیت پسند اور مفید ہوسکتا ہے ۔کیا ان ہدایات کے بعد بھی کسی دوسری تعلیم کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔
{رُءُوْسُاَمْوَالِکُمْ} اصل مال۔{ ذُوْعُسْرَۃٍ} تنگ دست۔{مَیْسَرَۃٍ}فراغت۔حل لغات