ساحل کاہلوں
مبتدی
- شمولیت
- جون 15، 2014
- پیغامات
- 7
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 25
قادیانیوں نے قرآن پر جھوٹ بولا کہ قرآن میں الله نے مومنوں کو فرعون کی بیوی کہا ہے (ایسا ہی ایک جھوٹ انکے مرزا غلام احمد صاحب بھی لکھ چکے ہیں کہ الله نے قرآن میں اس امّت کے کچھ لوگوں کا نام مریم اور عيسى رکھا ہے) ، عام لوگوں کی معلومات میں اضافے کے لئے اس قادیانی تحریف کے بارے میں یہ چند الفاظ لکھ رہا ہوں ، قادیانی پادری دھوکہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "الله نے اس امت کے کچھ لوگوں کو مريم اور کچھ کو عيسى فرمایا ہے" نيز قرآن میں الله نے مومنوں کو فرعون کی بیوی کہا ہے ، اور حوالہ دیا جاتا ہے سورة التحريم کی آخری آیات کا .
سورة التحريم میں الله نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطهرات کو خطاب فرمایا ہے (لیکن یہ بات انھیں ہی نظر آئیگی جو تفسیر کا مطالعه کرنے کی زحمت کرینگے) اس پوری سورت میں زیادہ تر انہی ازواج مطهرات رضي الله عنهن کو خطاب ہے .. اور آخر میں الله نے انکے لئے چار عورتوں کی مثالیں پیش کی ہیں دو وہ عورتیں جنہوں نے نبیوں کی بیویاں ہوتے ہووے کفر اختیار کیا (حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویاں) اور الله نے فرما دیا کہ دیکھو انکو اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ انکے شوھر نبی ہیں اور انکو آگ میں داخل کر دیا گیا .. اور اسکے بعد الله نے دو ایسی عورتوں کا ذکر کیا جنہوں نے مشکل حالات میں ایمان اور صبر کا دامن پکڑا .. ایک فرعون کی بیوی اور دوسری حضرت مریم بنت عمران .... نہ تو ان آیات میں کہیں یہ ذکر ہے کہ اس امت کے کچھ لوگوں کا نام "عيسى بن مريم" رکھا گیا ہے (جیسا کہ مرزا بن چراغ بی بی نے دعویٰ کیا ہے) اور نہ یہاں کسی "مثیل" کا ذکر ہے .. اور اگر مرزائی پادریوں کی اس نرالی منطق کو تسلیم کیا جائے تو پھر دنیا کا ہر مومن فرعون کی بیوی اور ہر مومن مریم بنےگا کیونکہ آیت میں "مؤمنين" کا لفظ ہے جو جمع ہے مومن کی تو پھر صرف ایک مرزا قادیانی کیوں سب مومنوں کو مریم مانو ؟؟؟
دوستو آپ لوگ سورة التحريم ، جو کہ پارہ 28 کی آخرى سورت ہے اسکی آخرى تین آیات 10 ، 11 اور 12 کھولیں اور کسی بھی تفسیر سے انکا ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کریں ، آیت 10 یہ ہے ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ .. اس آیت میں الله نے کافروں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے مثال کہتے ہیں example اور ماڈل کو ..الله بتانا یہ چاہتے ہیں کہ حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویاں چونکہ کافر تھیں اس لئے نبی کی بیوی ہونا انکے کسی کام نہ آیا اور وہ آگ میں داخل کی گئیں اس لئے کسی کا صرف کسی نبی کی بیوی ہونا باعث نجات نہیں ہے جب تک کہ وہ بیوی خود بھی مومن نہ ہو ، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہ کہے کہ الله نے اس آیت میں تمام کافروں کو حضرت لوط اور حضرت نوح عليهم السلام کی بیوی کہا ہے ..
اس آیت کے بعد آیت 11 اور 12 یہ ہے وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (11) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (12
ان دونوں آیتوں میں الله نے ایمان والوں کے لئے دو example اور مثالیں دی ہیں ایک فرعون کی بیوی آسیہ کی کہ دیکھو وہ ایک کافر کی بیوی ہوتے ہوے مومن تھی تو الله نے اسکے ایمان کی وجہ سے اسکو جنّت میں داخل کر دیا، اور دوسری مثال حضرت مريم عليها السلام کی دی ہے .. اب پاگل اور جاہل لوگ اس سے یہ نتیجہ نکالیں کہ ان دونوں آیتوں میں الله نے تمام مومنوں کو فرعون کی بیوی اور حضرت مریم کہا ہے یہ سرا سر تحریف اور قرآن پر جھوٹ ہے .. قرآن میں الله نے لوگو کو سمجھانے کے لئے بہت سے انبیاء کے قصّے بیان کیے ہیں ، بہت سی پچھلی قوموں کے واقعات ذکر کیے ہیں تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ تمام مومنوں کو الله نے نبی کہا ہے ؟؟؟؟؟ یا امّت محمديه کو الله نے قوم نوح، یا قوم ھود، یا قوم ثمود یا بنی اسرئیل کہا ہے ؟؟؟ الله ہم سب کو قرآن کو اسکے اصلی مفہوم کے مطابق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے جھوٹے عقیدے کو ٹھیک ثابت کرنے کے لئے 1400 سے کی جا رہی قرآن کی تفسیر کو چھوڑ کر اپنی من گھڑت تفسیر کرنے سے دور رکھے ..وما علينا الا البلاغ المبين
سورة التحريم میں الله نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطهرات کو خطاب فرمایا ہے (لیکن یہ بات انھیں ہی نظر آئیگی جو تفسیر کا مطالعه کرنے کی زحمت کرینگے) اس پوری سورت میں زیادہ تر انہی ازواج مطهرات رضي الله عنهن کو خطاب ہے .. اور آخر میں الله نے انکے لئے چار عورتوں کی مثالیں پیش کی ہیں دو وہ عورتیں جنہوں نے نبیوں کی بیویاں ہوتے ہووے کفر اختیار کیا (حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویاں) اور الله نے فرما دیا کہ دیکھو انکو اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ انکے شوھر نبی ہیں اور انکو آگ میں داخل کر دیا گیا .. اور اسکے بعد الله نے دو ایسی عورتوں کا ذکر کیا جنہوں نے مشکل حالات میں ایمان اور صبر کا دامن پکڑا .. ایک فرعون کی بیوی اور دوسری حضرت مریم بنت عمران .... نہ تو ان آیات میں کہیں یہ ذکر ہے کہ اس امت کے کچھ لوگوں کا نام "عيسى بن مريم" رکھا گیا ہے (جیسا کہ مرزا بن چراغ بی بی نے دعویٰ کیا ہے) اور نہ یہاں کسی "مثیل" کا ذکر ہے .. اور اگر مرزائی پادریوں کی اس نرالی منطق کو تسلیم کیا جائے تو پھر دنیا کا ہر مومن فرعون کی بیوی اور ہر مومن مریم بنےگا کیونکہ آیت میں "مؤمنين" کا لفظ ہے جو جمع ہے مومن کی تو پھر صرف ایک مرزا قادیانی کیوں سب مومنوں کو مریم مانو ؟؟؟
دوستو آپ لوگ سورة التحريم ، جو کہ پارہ 28 کی آخرى سورت ہے اسکی آخرى تین آیات 10 ، 11 اور 12 کھولیں اور کسی بھی تفسیر سے انکا ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کریں ، آیت 10 یہ ہے ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ .. اس آیت میں الله نے کافروں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے مثال کہتے ہیں example اور ماڈل کو ..الله بتانا یہ چاہتے ہیں کہ حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویاں چونکہ کافر تھیں اس لئے نبی کی بیوی ہونا انکے کسی کام نہ آیا اور وہ آگ میں داخل کی گئیں اس لئے کسی کا صرف کسی نبی کی بیوی ہونا باعث نجات نہیں ہے جب تک کہ وہ بیوی خود بھی مومن نہ ہو ، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہ کہے کہ الله نے اس آیت میں تمام کافروں کو حضرت لوط اور حضرت نوح عليهم السلام کی بیوی کہا ہے ..
اس آیت کے بعد آیت 11 اور 12 یہ ہے وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (11) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (12
ان دونوں آیتوں میں الله نے ایمان والوں کے لئے دو example اور مثالیں دی ہیں ایک فرعون کی بیوی آسیہ کی کہ دیکھو وہ ایک کافر کی بیوی ہوتے ہوے مومن تھی تو الله نے اسکے ایمان کی وجہ سے اسکو جنّت میں داخل کر دیا، اور دوسری مثال حضرت مريم عليها السلام کی دی ہے .. اب پاگل اور جاہل لوگ اس سے یہ نتیجہ نکالیں کہ ان دونوں آیتوں میں الله نے تمام مومنوں کو فرعون کی بیوی اور حضرت مریم کہا ہے یہ سرا سر تحریف اور قرآن پر جھوٹ ہے .. قرآن میں الله نے لوگو کو سمجھانے کے لئے بہت سے انبیاء کے قصّے بیان کیے ہیں ، بہت سی پچھلی قوموں کے واقعات ذکر کیے ہیں تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ تمام مومنوں کو الله نے نبی کہا ہے ؟؟؟؟؟ یا امّت محمديه کو الله نے قوم نوح، یا قوم ھود، یا قوم ثمود یا بنی اسرئیل کہا ہے ؟؟؟ الله ہم سب کو قرآن کو اسکے اصلی مفہوم کے مطابق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے جھوٹے عقیدے کو ٹھیک ثابت کرنے کے لئے 1400 سے کی جا رہی قرآن کی تفسیر کو چھوڑ کر اپنی من گھڑت تفسیر کرنے سے دور رکھے ..وما علينا الا البلاغ المبين