السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کی بات بلکل درست ہے کہ "کوئ" کے مطلب میں ایک یا دو سے زیادہ "کوئ کے برخلاف نہیں" لیکن عربی بہت فصیح اور بلیغ زبان ہے اس ہی لئے اللہ نے اپنے آخری پیغام کے لئے اس کو چنا۔ اوپر کی آیت میں "نشانی" کا لفظ نکرہ آیا ہے اور نکرہ کوئ کے ساتھ ساتھ "ایک" کا بھی مفہوم اس میں شامل ہوتا ہے ۔ اس لئے اگر بات صرف "کوئ" کو ہو تو پھر تو آپ کی بات میں وزن ہے ورنہ اگر بات "کوئ ایک" کی ہو تو پھر اس سے مراد صرف ایک ہی نشانی ہوگی ۔
مزید کہ قرآن میں اللہ تعالی نے خود اسے دوسری نشانی کہا ہے:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (17) قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى (18) قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى (19) فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (20) قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى (21) وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى (22) ﴿ سورة طه﴾
اور اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے (17) کہا یہ میری لاٹھی ہے ا س پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں (18) فرمایا اے موسیٰ اسے ڈال دو (19) پھر اسے ڈال دیا تو اسی وقت وہ دوڑتا ہوا سانپ ہو گیا (20) فرمایا اسے پکڑ لے اور نہ ڈر ہم ابھی اسےپہلی حالت پر پھیر دیں گے (21) اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے ملا دے بلا عیب سفید ہو کر نکلے گا یہ
دوسری نشانی
ہے (22) ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾
اس آیت سے یہ تو متعین ہو جاتا ہے، کہ نشانیاں دو ہیں!
اب فرعون کے ایک کے مطالبہ پر ایک سے زائد نشانیاں اللہ نے دکھلائی ہیں!
یہ ایک کے مطالبہ کے حوالہ سے کہا تھا، کہ فرعون کا ایک کا مطالبہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ دو نشانیاں دلیل نہ ہوں گی، صرف ایک ہی دلیل ہو سکتی ہے!
اسی کے پیش نظر کہا تھا کہ ''یہاں ایک ہی سہی'' کا مفہوم ہے!
مسئلہ یہان لغت سے زیادہ بلاغت کا ہے!
کوئی ایک دلیل کا مطالبہ کرنا یہاں اس بات کا تقاضا کرتا ہے، کہ سائل یہ سمجھتا ہے کہ مدعی کے پاس کوئی دلیل نہیں! اور مدعی اس کے اس سوال پر دو یا دو سے زائد دلیل دے، تو وہ ''کوئی ایک دلیل'' کے مخالف نہیں، بلکہ زائد ہے! اس میں کوئی ایک دلیل کا مطالبہ پورا ہو جاتا ہے!