• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورہ النساء کی آیت ۶۴ کے متعلق حدیث کی صحت

ibnequrbani

مبتدی
شمولیت
مئی 18، 2015
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
13
شعب الایمان (بیہقی) جلد ۳ زیارت روضہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث نمبر ۴۲۷۸ (غالبً) مزید ان
ابن کثیر سورہ النساء کی ایت نمبر ۶۴کی تفسیر و تفسیر ابن حیان کی سورہ النساء ایت نمبر ۶۴ کی تفسیر در منشور کی البقرہ ایت ۲۰۳ کی تفسیر میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک اعرابی روضہ رسول کے پاس آیا اور وما ارسلنا من...(نساء ۶۴) پڑھی اور کہا یآ رسول اللہ مینے اپنے جسن پر ظلم کیا ہے......(پورا واقعہ ان کتب میں موجود ہے)
اس حدیث کی صحت جاننی ہے
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
بھائی صاحب وہ حدیث نہیں بلکہ ایک قصہ ہے جس کو ابومنصور صباغ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے یہ نہ تو کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی صحیح سند ہے اسلئے اس پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔ پھر آیت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور مغفرت کی درخواست کریں ،اس کا اطلاق وفات کے بعد پر نہیں ہے ورنہ سب سے پہلے صحابہ اس پر عمل کرتے ۔اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر اٹھا کر دیکھ لیں وہاں تفصیل موجود ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شعب الایمان (بیہقی) جلد ۳ زیارت روضہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث نمبر ۴۲۷۸ (غالبً) مزید ان
ابن کثیر سورہ النساء کی ایت نمبر ۶۴کی تفسیر و تفسیر ابن حیان کی سورہ النساء ایت نمبر ۶۴ کی تفسیر در منشور کی البقرہ ایت ۲۰۳ کی تفسیر میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک اعرابی روضہ رسول کے پاس آیا اور وما ارسلنا من...(نساء ۶۴) پڑھی اور کہا یآ رسول اللہ مینے اپنے جسن پر ظلم کیا ہے......(پورا واقعہ ان کتب میں موجود ہے)
اس حدیث کی صحت جاننی ہے
یہ قصہ ،روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے ۔۔شعب الایمان ۔۔ میں بھی نقل کی ہے ؛
اور امام ابن کثیر نے بھی تفسیر میں نقل کی ہے ؛
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نامور شاگرد اور معروف محدث ’’ شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي ‘‘ نے (الصارم المنكي في الرد على السبكي) صفحہ ۳۲۱ میں
اس روایت کی حالت خوب واضح کی ہے ، لکھتے ہیں :

فإن قيل: فقد روى أبو الحسن علي بن إبراهيم بن عبد الله بن عبد الرحمن الكرخي عن علي بن محمد بن علي، حدثنا أحمد بن محمد بن الهيثم الطائي، قال: حدثني أبي عن أبيه عن سلمة بن كهيل عن أبي صادق عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال قدم علينا أعرابي بعدما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام فرمى بنفسه إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم، وحثى على رأسه من ترابه، وقال: يا رسول الله قلت فسمعنا قولك، وعينا عن الله عز وجل فما وعينا عنك، وكان فيما انزل الله عز وجل عليك: وقد ظلمت نفسي وجئتك تستغفر لي فنودي من القرب أنه قد غفر لك.
والجواب أن هذا خبر منكر موضوع وأثر مختلق مصنوع لا يصح الاعتماد عليه، ولا يحسن المصير إليه، وإسناده ظلمات بعضها فوق بعض، والهيثم جد أحمد بن الهيثم أظنه ابن عدي الطائي، فإن يكن هو، فهو متروك كذاب، وإلا فهو مجهول،وقد ولد الهيثم بن عدي بالكوفة، ونشأ وأدرك زمان سلمة بن كهيل فيما قيل، ثم أنتقل إلى بغداد فسكنها.
قال عباس الدوري (1) : سمعت يحيى بن معين يقول: الهيثم بن عدي كوفي ليس بثقة كان يكذب، وقال المجلي وأبو داود (2) كذاب، وقال أبو حاتم الرازي (3) والنسائي (4) والدولابي (5) والأزدي (6) : متروك الحديث، وقال البخاري (7) : سكنوا عنه أي تركوه،

یعنی یہ روایت منکر اور موضوع (من گھڑت )ہے ،اس پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا ،اسکی سند ۔۔ظلمات بعضها فوق بعض ۔۔کا نمونہ ہے،(یعنی اس کا کوئی سرا پیر نہیں ،روات کی کوئی حیثیت نہیں )
اس کا راوی ۔۔ہیثم ۔۔اگر۔۔ابن عدی الطائی ۔۔ہے،تو وہ پرلے درجہ کا جھوٹا ہے ۔۔اس کو امام ابوداود ،،امام یحی بن معین نے کذاب کہا ہے ،اورامام نسائی
اور امام بخاری ۔اور ۔۔الدولابی ۔۔اور ۔۔الازدی نے متروک کہا ہے ،
اور ۔ہیثم ۔۔اگر۔۔ابن عدی الطائی نہیں تو مجہول ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مزید تفصیل مطلوب ہو تو ۔۔ شیخ محمد نسيب بن عبد الرزاق الرفاعي۔۔کی کتاب
(التوصل إلى حقيقة التوسل ) اور امام ابن عبد الھادی کی بے مثال تصنیف’’ ا(الصارم المنكي في الرد على السبكي)
ملاحظہ فرمائیں ؛
 
Top