• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ اخلاص

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم قاری انس نضر بھائی ۔ اس میں ناراض ہونی والی کوئی بات نہیں ۔ اللہ نے آپ کو اس حوالے سے علم دیا ہے تو اس کو شیئر کرنے میں کیا حرج ہے ۔ نازک موضوع ضرور ہے لیکن دلائل کے ساتھ بات کریں تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا ۔ ہم بھی کوشش کریں گئے کہ اس حوالے سے کچھ شیئر کرسکیں ۔
محترم عکاشہ بھائی، اس نازک موضوع سے عامی کو تو کچھ بھی فائدہ ہونے کی توقع نہیں، سوائے اس کے کہ ان کے ذہن میں کچھ اوہام مزید پیدا ہو جائیں گے۔ قرآن سے امت ویسے ہی دور ہے، اور مزید ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایسے میں قرآن میں بھی جدید اختلافات پیدا کرنا دین کی بھلا کیا خدمت ہو سکتی ہے؟ جو چیز سب کے درمیان متفق علیہ ہے اسے متفق علیہ ہی رہنے دیا جائے تو کیا حرج ہے۔ اہل علم کے درمیان ایسے نازک موضوع پر شدید اختلافات ہوتے بھی تو عوامی سطح پر ان کا ذکر کرنا نقصان ہی نقصان ہے۔ جبکہ اس موضوع پر اہل علم کا اختلاف بھی نہیں۔ لہٰذا ایسے اجماعی مسائل کو چھیڑنے کے بجائے اپنی توانائیاں اگر زیادہ اہم کاموں پر صرف کی جائیں تو بہت مناسب ہوگا۔ باقی ابو الحسن علوی صاحب نے بہت اچھی بات کہی ہے جو پیاسے کی سیرابی کو بہت ہے۔ امید ہے کہ رفیق طاھر بھائی بھی تعاون فرماتے ہوئے اس بحث کو آگے بڑھانے سے گریز کریں گے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم شاكر صاحب کی مانتے ہوئے اس بحث کو اوپن فورم میں کرنے سے گزیر کرتے ہوئے ایک مشورہ ضرور دینا چاہوں گا کہ اس قسم کی خالص علمی بحثوں کے لیے ایک خاص فورم بنا دیا جائے ۔ تاکہ ایسے موضوعات پر بھی تبادلہ دلائل ہوسکے ۔ اور میر ناقص علم کے مطابق تو یہ مسئلہ کوئی حساس نوعیت کا مسئلہ نہیں ہے اگر میرے دلائل زیادہ مضبوط ثابت ہو جائیں تو قرآن سے لگاؤ امت میں مزید بڑھے گا ہی کہ وہ بسم اللہ الرحمن کو ہر سورت کی آیت سمجھنے لگیں گے جیسا کہ اسلاف سمجھا کرتے تھے ۔ اور جس قرآن کے بارہ میں " مابین الدفتین کتاب اللہ " کہا جاتا تھا کہ اس میں سوائے قرآن کے اور کوئی حرف نہیں ہے اسکو بھی سامنے لایا جاتا تومسئلہ بہت واضح ہوجاتا ۔
اور اگر ان جدید قراء کا موقف درست ثابت ہو جاتا تو بھی امت پر کوئی افتاد نہ پڑتی بلکہ اس رخصت ڈھونڈتی امت کو اک اور رخصت دستیاب ہو جاتی ۔۔۔۔۔!!!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔محترم جن کبار قراء کو آپ ’جدید قراء‘ کا نام دے رہے ہیں ذرا ان کا زمانہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
امام نافع مدنی رحمہ اللہ (متوفی 169ھ)۔ستر تابعین سے قرآن حاصل کیا ۔
امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ(68۔154ھ)
امام بن عامر شامی رحمہ اللہ(21۔118ھ)
ان قراء کا کہنا ہے کہ بسم اللہ قرآن کی سور میں آیت نہیں ہے۔ویسے اتنے قدیم لوگ بھی ’جدید‘ ہو سکتے ہیں ، یہ بہت حیرانگی اور استعجاب کی بات ہے!!!
2۔ یہ واضح رہے کہ قراء بسم اللہ کو اگر نقل میں قرآن کی ہر سورت کی ایک آیت نہیں مانتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر سورت کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ۔ قراء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابتدائے تلاوت اگر کسی سورت سے ہو تو ہر سورت کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھی جائے گی اور ایسا سنت سے ثابت ہونے کی وجہ سے کیا جائے گا۔
و لا بد منھافی ابتدائک سورۃ
سواھا وفی الاجزاء خیر من تلا۔(حر ز الامانی للامام شاطبی متوفی 590ھ)
اور اگر درمیان تلاوت میں سورہ کی ابتداء ہو تو پھر ان میں اختلاف ہے۔قالون، کسائی، عاصم اور مکی رحمہم اللہ اجمعین کے لیے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے جبکہ بقیہ قراء سبعہ یعنی شامی ، ورش اور بصری کے لیے خلف ہےیعنی بسم اللہ پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں طرح جائز ہے:
وبسمل بین السورتین بسنۃ
رجال نموھا دریۃ وتحملا
ووصلک بین السورتین فصاحۃ
وصل واسکتن کل جلایاہ حصلا
ولا نص کلا حب وجہ ذکرتہ
وفیھا خلاف جیدہ واضح الطلا۔(حرز الامانی للامام شاطبی )
3۔فقہاء میں سے جو بسم اللہ کو آیت مبارکہ کا جزء نہیں مانتے ہیں ، ان میں امام مالک ، امام اوزاعی رحمہما اللہ اور فقہائے سبعہ میں سے چھ کا قول یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کی کسی سور ت میں بھی آیت شمار نہیں ہو گی۔فقہائے سبعہ سے مراد مدینہ کے فقہائے سبعہ ہیں ۔
امام احمد، امام اسحق، امام ابوثور، فقہائے مکہ اور فقہائے کوفہ رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جز ہے اور بقیہ سورتوں کی آیت نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ بسم اللہ ہر سورت کی آیت ہے۔ جبکہ ان کا دوسرا قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ صرف سورت فاتحہ کی آیت ہے ۔
4۔ قراء کا کہنا یہ ہے کہ بسم اللہ مصحف میں دو سورتوں کے مابین فصل کے لیے لکھی گئی ہے اور اسے کسی سورت کی مستقل آیت کے طور پر مصحف میں نہیں لکھا گیا ہے ۔ لیکن ابتدائے تلاوت میں بسم اللہ ہر سورت سے پہلے بطور سنت پڑھی جائے گی۔ایک روایت کے الفاظ ہیں :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَةِ حَتَّى تَنَزَّلَ عَلَيْهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔(سنن ابی داود، کتاب الصلوۃ، باب من جھر بھا)
اس روایت کو امام حاکم، امام ذہبی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بسم اللہ کے فصل کے لیے ہونے کی یہ دلیل نقل کی ہے مصحف عثانی میں بسم اللہ کو سورت کے ساتھ نہیں لکھا گیا تھا بلکہ علیحدہ سے لکھا گیا تھا۔ یعنی بسم اللہ علیحدہ سے ایک سطر میں ہوتی تھی اور اس کے نیچے سورت کی ابتدا ہوتی تھی۔اگربسم اللہ سورت کا جز ہوتی تو سورت کے ساتھ اس کو لکھا جاتا۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بارے دونوں موقف کے دلائل نقل کرنے کے بعد دونوں کو حق قرار دیا ہے اگرچہ ان کااپنا رجحان اس طرف ہے کہ نماز میں بسم اللہ کی ہر سورت سے پہلے مخفی
قراء ت کرنی چاہیے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
5۔ مسئلہ میں کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے ، ہمیں اس اختلاف سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن اپنے موقف کو ثابت کرنے کی خاطر قراء پر شدید نکیر یا طعن کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہے جبکہ وہ قراء بھی ’جدیدمحققین ‘ کی نسبت بہت قدیم ہوں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔ ان قراء کو میں نے جدید قراء نہیں کہا ہے ۔ ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین !!!!
۲،۳۔ ان قراء وفقہاء کا قول بسند صحیح نقل فرمائیں ۔
۴۔ کیا کمال ہے کہ ہر سورت کے آغاز میں اللہ تعالى تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نازل فرمائیں لیکن قراء حضرات اسے صرف اعلام للفصل کہہ کر قرآن سے خارج کر دیں ؟؟؟؟!!!!!!
کیا سورۃ التوبۃ اور سورۃ الانفال کے مابین بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بغیر بھی فصل ہوا ہے کہ نہیں ؟؟؟؟
یہ محض تخمین وظن ہے کہ اسے محض بغرض فصل نازل کیا جاتا تھا قرآن کے حصہ اور جزء کے طور پر نہیں ۔!!!
 
Top