• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ النور آیت۔26

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
تفسیر ابن کثیر


بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لئے ہے ۔ بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں ۔ یعنی اہل نفاق نے صدیقہ پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لئے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لئے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں ۔ یہ آیت بھی حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو ۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے ہوتی ہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں ۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لئے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی ۔ اور یہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ، جنت عدن میں بھی آپ کے ساتھ ہی رہیں گی۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر حضرت عبداللہ کے پاس آکر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آجاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے ، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے ، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے ، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے ، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے ۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے اور حدیث میں ہے حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے ۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
تیسیر القرآن


اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جو ترجمہ سے واضح ہے اور ربط مغمون کے لحاظ سے مناسب بھی یہی ہے۔ یعنی پاکباز مردوں اور عورتوں کی تہذیب، ماحول اور عادات ان لوگوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں ۔ جو گندے اور فحاشی کے کاموں میں مبتلا ہوں ۔ ان دونوں کا آپس میں مل بیٹھنا فطرتاً بھی محال ہوتا ہے۔ نہ ان کی تہذیب آپس میں مشترک ہوسکتی ہے، نہ بول چال اور نہ عادات۔ ایک پاکباز انسان کسی گندے ماحول میں چلا جائے تو اسے وہاں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک فاحش مرد اور ایک فاحشہ عورت کے لئے کسی پاکیزہ ماحول میں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ لہذا ایسے دونوں طبقات کو آپس میں ملانے یا آپس میں رشتے استوار کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرنا چاہئے۔ اور اگر کوئی ایسی کوشش کرے گا تو ناکافی اور خرابی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور اس کا دوسرے مطلب یہ ہے کہ حلیبات کو اپنے وسیع مفہوم میں لیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کے معنی میں پاکیزہ عورتیں ہی نہیں پاکیزہ باتیں بھی شامل ہیں ۔ یعنی پاکباز لوگوں کی زبانوں سے پاکیزہ باتیں ہی نکلتی ہیں اور گندے خیال رکھنے والے لوگوں کو گندی باتیں سوجھتی ہیں ۔ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ پاکیزہ خیال لوگوں کو گندی باتیں سوجھیں اسی طرح گندی ذہنیت رکھنے والوں کو پاکیزہ باتیں کم ہی سوجھتی ہیں ۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ فحاشی پھیلائی اور پروپیگنڈہ کیا۔ حقیقتاً گندی ذہنیت کے لوگ تھے۔ پاکباز لوگوں کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ ایسی باتوں میں حصہ لیں ۔ وہ ایسی باتوں سے بچنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں ۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
تفہیم القرآن


اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے ، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں ۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو ۔ اس کے تو اطوار، عادات، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں ۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی از غیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو ۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو ۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار ، گفتار، انداز، اطوار ، کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت سے خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جائے تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے ، کیا الزام لگایا جا رہا ہے ، اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے ، یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پائے جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جائے کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
تفہیم القرآن

بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں (یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں ۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کے کرنے کے ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں ۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرداز لوگ کر رہے ہیں ۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے۔ لیکن ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے۔
 
Top