عمر بھائی نے ایک تھریڈ میں عطاؒ تابعی کی مرسل روایت سے متعلق ضعف نقل کیا تھا ۔ ادھر چونکہ موضوع کچھ اور تھا اس لئے اِدھر کچھ اس حوالے سے پیش ہے ۔
سورۃ یس کی صبح یا رات میں پڑھنے کی فضیلت سے متعلق اس باب میں روایت قابل قبول ہے ۔
حدثنا الوليد بن شجاع قال: حدثني أبي قال: حدثني زياد بن خيثمة، عن محمد بن جحادة، عن عطاء بن أبي رباح قال: بلغني أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: من قرأ يس في صدر النهار قضيت حوائجه
جس شخص نے دن کے ابتدائی حصہ میں سورت یٰس پڑھی اس کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں
دارمی مع الشرح فتح المنان ۱۰۔۵۲۸
المشکاۃ مع الشرح مرقاۃ ۵۔۶۴
شارح المشکاۃ مولانا عبید اللہ مبارکپوریؒ حضرت عطاؒ کی مرسل کی شرح میں مرعاة المفاتيح ۷۔۲۵۳ پہ فرماتے ہیں
اس سند كے رجال ثقہ ہیں سوائے شجاع بن الولید کے ۔۔۔اور وہ ’’صدوق ورع له اوهام..كذا في التقريب‘‘ ہے ۔۔۔
اور اس باب میں ابن عباسؓ سے ابی الشیخ میں حدیث مروی ہے ۔ان الفاظ کے ساتھ
’’.......................ومن قرأها في صدر النهار و قدمها بين يدى حاجته قضيت .‘‘
مبارکپوریؒ نے معلوم نہیں کہاں سے نقل کیا ہے ۔ یہ روایت یقیناََ ابی الشیخؒ کی مشہور کتاب ثواب الاعمال میں ہوگی ۔ جو کہ مخطوط ہے ۔ يا ان كی فضائل القرآن پہ بھی کتاب ہے ۔
بہر حال اس سے ملتی جلتی اور کچھ اور روایات یہ ہیں ۔
سنن دارمی میں عطاء ؒ کی اس مرسل روایت کے بعد حضرت ابن عباسؓ کی موقوف روایت ہے ۔
حدثنا عمرو بن زرارة ثنا عبد الوهاب ثنا راشد أبو محمد الحماني عن شهر بن حوشب قال قال ابن عباس : من قرأ يس حين يصبح أعطي يسر يومه حتى يمسي ومن قرأها في صدر ليلة أعطي يسر ليلته حتى يصبح
جو صبح کے وقت سورۃ یس پڑھے گا شام تک دن آسانی سے گزرے گا ، اور جو رات کو پڑھے گا صبح تک اس کی رات آسانی سے گزرے گی۔
سنن دارمی مع شرح فتح المنان۔۔۔ج۱۰ص ۵۲۹
اس کی سند حسن درجے کی ہے ۔
اس کے راوی یہ ہیں ۔
۱۔ عمرو بن زرارة
یہ ثقہ ثبت راوی ہیں ۔
بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔ اور دارمی کے شیخ ہیں ۔
سیر اعلام النبلا ۔۔۱۱۔۴۰۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔ عبد الوهاب بن عطاء البصري الخفاف
ان کی بھی اکثر محدثین توثیق کرتے ہیں ۔ بعض جرح کرتے ہیں ۔
یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔
ذہبیؒ فرماتے ہیں ۔۔۔سیر اعلام النبلا ۹۔۴۵۱
الإمام الصدوق العابد المحدث
يحيى بن سعيد القطانؒ ،یحیی بن معینؒ ، ابن سعدؒ ، الدارقطنیؒ .
وغیرہ توثیق کرتے ہیں ۔
امام احمدؒ اور بخاریؒ سے اقوال مختلف ہیں ۔
ذہبیؒ آخر میں فرماتے ہیں
قلت: حديثه في درجة الحسن.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ راشد أبو محمد الحماني
تابعی ہیں ۔ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں ۔
ابو حاتمؒ ، ذہبیؒ ، الہیثمیؒ ، ابن حجرؒ ان کی توثیق کرتے ہیں۔
امام بخاریؒ ادب المفرد میں ان سے روایت کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ شهر بن حوشب
کبار تابعین میں سے ہیں ۔بہت سے جلیل القدر صحابہؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ مثلاََ ام المؤمنین عائشہؓ و ام سلمۃؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، ابی سعید خدریؓ ، ابو ہریرۃؓ اور بہت سے صحابہؓ۔۔
انہوں نے قرآن ابن عباس ؓ سے پڑھا۔
بقول ذہبی ؒ حضرت بلالؓ ، ابو ذرؓ ، سلمانؓ اور کئی اورصحابہؓ سے مرسلاََ بھی روایت کرتے ہیں ۔
امام احمدؒ ان کی توثیق کرتے ہیں ۔امام یحیی بن معین ؒثبت کہتے ہیں۔
امام ترمذیؒ ۔۔امام بخاریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔(سیراعلام)
سنن ترمذی (تحقیق شاکر ۴۔۴۳۴)میں اس طرح ہے ۔
وسألت محمد بن إسماعيل عن شهر بن حوشب فوثقه
صحیح مسلم میں بھی ان کی حدیث مقروناََہے ۔
معمولی جرح بھی ہے ان پر۔ذہبیؒ فرماتے ہیں
الرجل غير مدفوع عن صدق وعلم والاحتجاج به مترجح
ذہبیؒ خود بھی سیر اعلام النبلا ۲۔۳۰۹ پہ شھر من حوشبؒ کی سند سے روایت کر کے فرماتے ہیں
وهو حديث حسن صحيح الإسناد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض یہ حسن سند ہے ۔
دارمی کے الگ الگ محققین بھی اس کو حسن ہی کہتے ہیں ۔
یہ روایت اگرچہ موقوف ہے ۔لیکن حکماََ مرفوع ہے ۔
اس جیسی روایت کے حکماََ مرفوع ہونے کے بارے میں جیسا کہ آگے حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے آئے گا۔
اور اس کی تائید الضحاک عن ابن عباسؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ
الماوردي ۴۵۰ھ ۔۔۔۔تفسیر النکت والعیون۔۔۔۔۔ج۵ص۳۵
وروى الضحاك عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن لكل شيءٍ قلْباً وإنَّ قلْبَ القرآن يس , ومن قرأها في ليلة أعطي يُسْر تلك الليلة , ومن قرأها في يوم أعطي يُسْرَ ذلك اليوم , وإنّ أهل الجنة يرفع عنهم القرآن فلا يقرأون منه شيئاً إلا طه ويس).
اس کی سند نقل نہیں کی لیکن ظاہر یہی ہے کہ ۔۔الضحاك بن مزاحم ۱۰۵ھ ۔۔کی تفسیر سے نقل کر رہے ہیں ۔ جس کی روایات ابن عباس ؓ سے مشہور ہیں ۔ اور بعض علماء کے نزدیک یہ تفسیر انہوں نے سعید بن جبیرؒ کے زریعے سے حاصل کی ۔
امام یحیی بن معینؒ اور امام احمدؒ ان کی توثیق کرتے ہیں ۔۔جیسا کہ سیر اعلام النبلا ۴۔۵۹۸میں ہے ۔
اس لئے تائید میں کوئی حرج نہیں ۔واللہ اعلم
شرح دارمیؒ کے مؤلف..... عطاؒکے اثر ’’ بلغنی ان رسول الله ﷺ ‘‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ
لعل المبلغ له ابن عباسؓ فانه معروف بالرواية عنه....
پھر انہوں نے اس سے بعد والے ابن عباسؓ کے اثر کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جو کہ اوپر نقل ہوا ۔
اور شیخ مبارکپوریؒ نے ابی الشیخ کی روایت کی طرف اشارہ کیا وہ بھی ابن عباسؓ کی تھی ۔
ایک اور تابعی کا اثر بھی اسی طرح کا ہے ۔
اثر تابعی ۔۔۔يحيى بن أبي كثير ۱۳۲ھ
جس شخص نے سورہ یس صبح کے وقت پڑھی وہ شام تک خوش رہے گا، اور جس نے شام کے وقت پڑھی وہ صبح تک خوش رہے گا، پھر کہا: ہمیں اُس نے بتایا ہے جس نے خود اسکا تجربہ کیا
ابن ضریس 294ھ ۔۔۔۔فضائل القرآن ۔ح۔۲۲۰
الثعلبی 427ھ ۔۔۔۔۔۔۔تفسیر۔۔ص ۱۱۹۔ ج ۸
حضر ت عطاؒ کی مرسل اور اثر یحییؒ جیسی روایات کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ کی نتائج الافکار سے کچھ نقل کرتا ہوں ۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی سورہ یس دن اور رات کو پڑھنے پر مغفرت کی فضیلت والی حدیث کے طرق پر بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ نے نتائج الافکار ۳۔۲۵۷ پہ حدیث کو حسن فرماتے ہوئے دارمی کی ایک سند کا ذکر کرتے ہوئے
وأخرجه الدارمي أيضاً عن محمد بن المبارك، عن صدقة بن خالد، عن يحيى بن الحارث، عن أبي رافع، فذكره مقطوعاً،
آگے فرمایا ہے ۔
ومثله لا يقال من قبل الرأي، فله حكم المرفوع.
یعنی اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی بلکہ اس کا حکم مرفوع کا ہوگا۔
اسی طرح کسی اور سورۃ کی فضیلت کی ایک حدیث کے ذیل میں ۵۔۴۹ پہ فرماتے ہیں
هذا إسناد مقطوع، وله حكم المرفوع المرسل؛ إذ لا مجال للاجتهاد فيه
جب یہ مقطوع کے بارے میں ہے تو ۔۔۔موقوف روایت تو بدرجہ اولیٰ اس کی مستحق ہے ۔ اس لئے بھی کہ یہ مرفوع بھی مروی ہے ۔
ابن کثیر نے سورہ یس کے فضائل کی روایات بیان کر کے آخر میں فرمایا ہے ۔
ولهذا قال بعض العلماء : من خصائص هذه السورة : أنها لا تقرأ عند أمر عسير إلا يسره الله .
اسی لئے بعض علما فرماتے ہیں کہ اس سورت کے خصائص میں سے ہے کہ مشکل امر میں اس کی تلاوت سے اللہ تعالیٰ آسانی فرماتے ہیں ۔
اس طرح کی حضرت ابن عمرؓ کی مرفوع صحیح حدیث بھی ہے ۔
المستغفری ۴۳۲ھ۔۔۔۔فضائل القرآن ۲۔۵۹۵ ۔۔۔۔۔۔
أخبرنا أبو بكر محمد بن بكر بن خلف، حَدَّثَنا أبو نعيم عبد الملك بن أحمد بن عدي، حَدَّثَنا محمد بن عوف الحمصي، حَدَّثَنا أبو بكر محمد بن خالد البصري قال: وهذا أقدم من كتبنا عنه، حَدَّثَنا خالد بن سعيد بن أبي مريم عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من قرأ {يس} فكأنما قرأ القرآن عشر مرات، وَمن قرأها ليلا أعطي يسر ليلته، وَمن قرأها نهارا أعطي يسر نهاره.
اس کے راوی یہ ہیں۔
۱۔ أبو بكر محمد بن بكر بن خلف ٣٨٠ھ
شيخا صالحا (الانساب السمعانی۔۔۱۳۔۳۱۹)
۲۔ أبو نعيم عبد الملك بن أحمد بن عدي
عبد الملك بن محمد بن عدي الحافظ الحجة أبو نعيم الجرجاني ۳۲۳ھ
امام حافظ کبیر ثقہ (سیر اعلام النبلا ۱۴۔ ۵۴۱)
۳۔ محمد بن عوف الحمصي ۲۷۲ھ
ثقہ ہیں ۔
(تهذيب الكمال ۲۶۔۲۳۶ ، سیر اعلام النبلا ۱۲۔۶۱۳)
۴۔ أبو بكر محمد بن خالد البصري
ان سے مراد ان دو راویوں میں سے کوئی ہے ۔ دونوں ثقہ ہیں ۔
محمد بن خالد بن عثمة البصري ہیں جو کہ صدوق ہیں (التھذیب ابن حجر ۹۔۱۴۲۔۔۔۔۔الکاشف ۲۔۱۶۷)
یا
مُحَمَّد بن خالد بن خداش بن عجلان المهلبي مولاهم، أبو بكر الضرير البصري سكن بغداد
صدوق ۔ربما أغرب عن أبيه
(الثقات ٩۔١١٣...تهذیب الکمال ۲۵۔۱۳۵۔ التھذیب ابن حجر ۹۔۱۴۰)
۵۔ خالد بن سعيد بن أبي مريم
ثقہ (تهذيب الكمال ۸۔۸۳ ، الکاشف لذہبی ۱۔۳۶۵)
۶۔ نافع ۱۱۷ھ
۷۔ ابن عمرؓ
محقق فضائل القرآن المستغفری نے خالد بن سعید بن ابی مریم ؒ کے متعلق اعتراض کیا ہے کہ وہ اس میں متفرد ہیں ۔۔ اور کسی راوی پہ اعتراض نہیں کیا ۔
خالد بن سعيد بن أبي مريم المدنیؒ ثقہ ہیں ۔
بعض محدثین نے جہالت کا اعتراض کیا ہے ۔ابن المدینی ؒ اور ابن قطانؒ جوکہ ظاہر ہے قابل قبول نہیں ۔کیونکہ ابن حبانؒ ، الذہبیؒ نے توثیق کی ہے ۔
اسی لئے خالد پر واحد جرح کرنے والے عقیلیؒ نے بھی ان پر جہالت کا اعتراض نہیں کیا ۔انہوں نے جو جرح کی ہے صحیح نہیں ۔ایک تو انہوں نے اور کسی سے جرح نقل نہیں کی ۔۔۔بس یہ کہا ہے کہ
لا يُتابَع على حَديثه
اور مثال میں سورۃ بقرۃ کی فضیلت والی حدیث نقل کی
سَهل بن سَعد، قال: قال رسول الله صَلى الله عَليه وسَلم: إِن لكُل شَيء سَنامًا، وإِن سَنام القُرآن سُورَة البَقَرَة۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا
وفي فَضل سُورَة البَقَرَة رِوايَة أَحسَن مِن هَذا الإِسناد وأَصلَح, بِخِلاف هَذا اللَّفظ، وأَما في تَمثيل القُرآن فليس فيه شَيء يَثبُت مُسنَدًا
یعنی ایک اور روایت اس میں مروی ہے اور اس سند سے زیادہ اچھی ہے ۔
اور تمثیل القرآن میں مسنداََ کچھ ثابت نہیں ۔۔۔
حالانکہ
حاکم۱۔۷۴۸
پہ عبد اللہ بن مسعودؓ کی صحیح سند سے مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے ۔
اور کئی شواہد بھی ہیں اس کے ۔
اور صحیح ابن حبانؒ ۳۔۵۹ پہ حافظ ابن حبانؒ نے باب ہی اسی عنوان سے قائم کیا ہے
ذِكْرُ تَمْثِيلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ مِنَ الْقُرْآنِ بِالسَّنَامِ مِنَ الْبَعِيرِ
اور خالد بن سعیدؒ کی روایت نقل کی ہے ۔ جس پر عقیلیؒ نے اعتراض کیا ہے ۔
اورابن حبانؒ نے خالد کو الثقات ۶۔۲۶۰ میں بھی ذکر کیا ہے ۔
الغرض عقیلیؒ کی جرح صحیح نہیں ۔ اور شاید عقیلیؒ کی جرح اور دوسرے محدثین کی جہالت کے اعتراض سے حافظ ابن حجرؒ نے جو تقریب میں مقبول کہا ہے وہ بھی درست نہیں ۔
الذہبیؒ نے الکاشف پہ ان کو واضح ثقہ فرمایا ہے ۔
اور ان کے شیخ المزیؒ کے طرز سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے نہ ہی عقیلیؒ کا اعتراض نقل کیا نہ ہی جہالت کا اعتراض نقل کیا ۔ البتہ ابن حبانؒ کا ثقات میں ذکر کرنے کا کہا۔اور یہ بھی فرمایا کہ ابوداودؒ اور ابن ماجہؒ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔
الغرض یہ روایت صحیح ہے ۔
ورنہ حسن سے کم نہیں۔
اور اس کو ابن عباسؓ کی روایت سے مزید تقویت ملتی ہے ۔
چناچہ سورۃ یٰس صبح یا رات کو پڑھنے کی فضیلت صحیح ہے ۔اور فضائل اعمال میں تو بد رجہ اولیٰ صحیح ہے ۔
اللہ تعالیٰ کوئی کمی کوتاہی ہو تو درگزر فرمائے۔
چونکہ اپنی جہالت کا احساس ہے ۔ اس لئے جو دوست عالم ہیں وہ ضرور اس کو دیکھیں
خضر بھائی ، اسحاق بھائی اور اشماریہ بھائی۔۔