عطا بن ابی رباح کی مرسل روایات کے بارے میں مزید بتائیں. اور محدثین کے اقوال نقل کردیں.
بارک اللہ فیک
السلام علیکم۔
عمربھائی ۔ معزرت خواہ ہوں کافی دن کے بعد آنا ہوا ہے ۔ اب کچھ وجوہات کی بنا ء پرکم ہی آنا ہورہا ہے ۔ بہرحال حاضر ہوں ۔۔۔۔
آپ کے جملے سے یوں لگتا ہے ۔۔۔۔جیسے کوئی معلوم چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔
بہرحال مختصراََ کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔
امام ترمذیؒ نے العلل میں نقل کرتے ہیں۔۔۔
قَالَ يحيى بن سعيد مرسلات مُجَاهِد أحب إِلَيّ من مرسلات عَطاء بن أبي رَبَاح بِكَثِير
كَانَ عَطاء يَأْخُذ عَن كل ضرب
قَالَ عَليّ قَالَ يحيى مرسلات سعيد بن جُبَير أحبي إِلَيّ من مرسلات عَطاء
قلت ليحيى مرسلات مُجَاهِد أحب إِلَيْك أم مرسلات طَاوس قَالَ مَا أقربهما
امام احمدؒ بھی عطاء کی مرسل کے بارے میں یہی فرماتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ان کی مراسیل اور حسنؒ کی سب سے کم درجہ ہیں ۔
امام ترمزیؒ نے العلل میں اوپر والے کلام کو مرسل سے عدم احتجاج والوں کے مسلک میں ذکر کیا ہے ۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے ۔نہ ہی اس سے کوئ مطلق حکم نکلتا ہے ۔
اگر وہ بالکل ناقابل قبول ہوں تو ان ائمہ کا آپس میں درجہ بندی کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اس کلام کی ضرورت ہی کیا ہے ۔
مثلاََ اگر ۱۰۰ نمبر والے امتحان میں سے ۴۰ والا پاس ہوتا ہے ۔
اور کچھ دوست آپس میں یہ گفتگو کریں کے فلاں کے نمبر ۲۲ ہیں اور فلاں کے ۲۷ ہیں ۔ تو ظاہر ہے ان کا کلام کا کیا معنی ہیں جب وہ دونوں ہی فیل ہیں۔
اور اس کی بڑی نظیر یہ ہے کہ عطاءؒ کی مراسیل کو دوسرے ائمہ کے مقابلے میں اضعف کہنے والے امام احمدؒ کا مرسل کے بارے میں ایک نظریہ ہے جو کہ مشہوراور راجح روایت میں حجت کا ہے ۔ اور ایک روایت میں کلام کا ہے بھی تو اس کی وضاحت ایک جگہہ اسی فورم پہ مرسل کے بارے میں کر چکا ہوں کہ وہ ضعیف ہو تب بھی ان کے نزدیک قابل قبول ہوگی اگر اس کے خلاف کچھ نہ ہو۔
مراسیل کی بحث بہت طویل مسئلہ ہے ۔ اس میں شوافع اورمحدثین کی ایک جماعت سے عدم احتجاج کا قول مروی ہے ۔
البتہ تابعین کی اکثریت ، حنفیہ مالکیہ حنبلیہ اور فقہا محدثین کی ایک جماعت اس میں احتجاج کا مسلک رکھتی ہے ۔ اور میری تحقیق کے مطابق مرسل کی کسی نہ کسی درجہ میں حجیت کے سارے ہی قائل ہیں ۔ جس کی مثالیں مرسل والی تحریر میں دے چکا ہوں۔
وہ معلوم نہیں کونسے تھریڈ میں ہے ۔ لیکن اس کی بنیاد آپ کی ہی ایک عبارت سے شروع ہوئی تھی۔ اس لئے یقیناََ آپ کی نظر سے گزری ہو گی۔
بہرحال اس کا نتیجہ یا خلاصہ جو میرے نزدیک خاص امام احمد ؒ اور امام ابوداودؒ کی عبارات سے نکلتا ہے وہ یہ تھا کہ مرسل پر عمل کیا جائے گا جب اس کے مقابل کچھ نہ ہو ۔(یہ خاص عدم احتجاج والوں کے طرز کا ذکر ہے ) اس سے تمام سلف و خلف کے طرز میں اقوال میں تعارض جو محسوس ہوتا ہے ۔ وہ نہیں رہتا ۔ خصوصاََ شوافع کہ جو ایک طرف اس سے عدم احتجاج کے قائل بھی ہیں ۔اور ان کی کتب میں ان سے احتجاج اور تصحیح بھی موجود ہے ۔
ابن رجبؒ شرح علل الترمذیؒ ۱۔۵۴۴ ایک اور انداز سے اس تعارض کو دور کرتے ہیں ۔۔۔۔ مرسل کے بارے میں دونوں فریق کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں۔۔۔
وأعلم أنه لا تنافي بين كلام الحفاظ، وكلام الفقهاء في هذا الباب، فإن
الحفاظ إما يريدون صحة الحديث المعين إذا كان مرسلا، وهو ليس بصحيح، على طريقتهم، لانقطاعه وعدم اتصال إسناده إلى النبي صلى الله عليه وسلم.
وأما الفقهاء فمرادهم صحة ذلك المعنى الذي دل عليه الحديث، فإذا عضد ذلك المرسل قرائن تدل على أن له أصلا قوي الظن بصحة ما دل عليه، فاحتج به مع ما احتف به من القرائن.
وهذا هو التحقيق في الاحتجاج بالمرسل عند الأئمة كالشافعي وأحمد وغيرهما
موجودہ عمل کے بارے مرسل سے احتجاج والوں کے لئے تو اس میں کوئی اشکال ہی نہیں ۔ لیکن
آپ دیکھیں کہ اس عمل کے خلاف یا معارض کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور اس کے شواہد و نظائر بھی ہیں ۔
کچھ اور باتیں بھی پیش کرتا ہوں جس سے ان شاء اللہ اس کو تقویت ملے گی۔
اس میں ایک چھوٹا سا نکتہ ہے کہ یہ مرسل بلاغ ہے ۔ جس میں محدث یہ کہتا ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے اس میں جزم کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔
مثلاََ امام ذہبی ؒ الموقظہ ۴۰ میں منقطع کی بحث میں امام مالکؒ کی بلاغات کے بارے میں فرماتے ہیں۔
فهذا النوعُ قلَّ مَن احتَجَّ به.
وأجوَدُ ذلك ما قال فيه مالكُ: "بلَغَنِي أنَّ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - قال: كذا وكذا". فإنَّ مالكاً مُتَثَبِّتٌ، فلعلَّ بلاغاتهِ أقوى من مراسَيل مِثل: حُمَيد، وقتادة.
اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بیہقیؒ ۔ شعب الایمان ۴۔۹۸میں ابو قلابہؒ کی ایک ۔۔ بلاغ ۔۔جس میں مختلف سورتوں کے فضائل ہیں وہ روایت کرتے ہیں۔
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: " مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنَ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمَنْ قَرَأَ الْكَهْفَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ حُفِظَ مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَإِذا أَدْرَكَ الدَّجَّالَ لَمْ يَضُرَّهُ وَجَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَوَجْهُهُ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ،
وَمَنْ قَرَأَ يس غُفِرَ لَهُ،
وَمَنْ قَرَأَهَا وَهُوَ جَائِعٌ شَبِعَ،
وَمَنْ قَرَأَهَا وَهُوَ ضَالٌّ هُدِيَ،
وَمَنْ قَرَأَهَا وَلَهُ ضَالَّةٌ وَجَدَهَا،
وَمَنْ قَرَأَهَا عند طَعَامٍ خَافَ قِلَّتَهُ كَفَاهُ،
وَمَنْ قَرَأَهَا عِنْدَ مَيِّتٍ هُوِّنَ عَلَيْهِ،
وَمَنْ قَرَأَهَا عِنْدَ امْرَأَةٍ عُسِرَ عَلَيْهَا وِلْدُهَا يُسِّرَ عَلَيْهَا،
وَمَنْ قَرَأَهَا فَكَأَنَّمَا قَرَأَ الْقُرْآنَ إحدى عَشرة مَرَّةً،
وَلِكُلِّ شَيْءٍ قَلْبٌ، وَقَلْبُ الْقُرْآنِ يس " "
یہ نقل کرکے فرماتے ہیں۔۔۔۔
هَذَا نُقِلَ إِلَيْنَا بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِنْ قَوْلِ أَبِي قِلَابَةَ وَكَانَ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، وَلَا يَقُولُهُ إِنْ صَحَّ ذَلِكَ عَنْهُ إِلَّا بَلَاغًا "
صاحب تنزیہ الشریعۃ نے بھی اس روایت کو سورۃ یس کے کے بعض فضائل کے شاہد کے طور پر نقل کیا ہے ۔
ابھی اس روایت کے بارے میں نہیں بلکہ امام بیہقی ؒ کے کلام کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے ۔۔۔
اب امام عطاءؒ کی یہ مرسل بلاغ ہے ۔۔۔اس کے بارے میں شرح دارمی کے مولف عرب عالم کاقول نقل کیا ہے کہ شاید اس میں مبلغ ابن عباسؓ ہیں ہیں۔۔کیونکہ یہ روایت ان سے مشہور ہے جو کہ اوپر موجود ہے ۔
اور یہ گفتگو ان قرائن کی وجہ سے بھی ہے جن کا ذکر ابن رجبؒ کے کلام میں ہے ۔
یعنی۔۔۔ فإذا عضد ذلك المرسل قرائن تدل على أن له أصلا قوي الظن بصحة ما دل عليه۔۔۔۔
اسی وجہ سے شیخ البانیؒ جیسے مرسل کے بارے میں سخت عالم بھی اس بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں ۔۔۔
معلوم نہیں آپ نے کسی اور سے نقل کیا ہے ۔
شیخ البانی ؒ نے اس روایت کو ضعیف نہیں قرار دیا۔
بلکہ جیسا کہ خضر بھائی نے نقل کیا ہے ۔۔۔انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی تھی۔ دیکھئے ج۱ص۶۶۸ رقم ۲۱۷۷
پھر انہوں نے غالباََ مشکاۃ کی تخریج پہ نظر ثانی بھی کی تھی جس میں کچھ حکم بدل گئے ۔ جیسا کے روزہ کھولنے کی دعا کے ضمن میں میں نے بیان کیا تھا۔
یہ نظر ثانی والی مشکاۃ معلوم نہیں الگ سے نیٹ پر موجود ہے کہ نہیں ۔۔۔البتہ ان کے ایک مشہور شاگرد نے حافظ ابن حجرؒ کی هداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة کی تحقیق و تعلیق میں شیخ البانیؒ کی آراء بیان کردی ہیں۔
اس میں۲۔۳۸۹ پہ عطاء ؒ کی بلاغ پر انہوں نے یہ فرمایا ہے ۔
و رجاله ثقات، فهو قوي ، لو لا الإرسال
اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کی تقویت ہی کی طرف مائل تھے ۔ اب اس کو دیکھ کر کسی نے جس کے نزدیک مرسل لفظ آنا ہی ضعف کی علامت ہے ۔یوں نقل کردیا کہ البانیؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے تو یہ درست نہیں ۔
مثلاََ کچھ اسی جگہہ کچھ روایات پہلے سورۃ فاتحہ کے فضائل کی ایک روایت کے بارے میں ان کا حکم یہ ہے ۔
واسنادہ ضعیف لإرساله
يه تعارض نہیں ہے اس کے بارے میں شروع میں بات کرچکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ ابن حجرؒ کا کلام بھی اس کی تقویت کی طرف ہی مائل ہے انہوں نے بس اس کی تخریج میں الدارمی کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے ۔۔۔عن عطاء ، بلغني ...فرفعه.
اور اس كتاب كے مقدمہ میں ان کی تصریح ہے کہ جس روایت پر وہ سکوت کریں گے وہ حسن ہوگی۔ص۵۸
اور عطاءؒ کی اس بلاغ کو بطور دلیل بغیر کسی جرح کے بعض اور نے بھی نقل کیا ہے ۔
.
مناویؒ ۱۰۳۱ھ فیض القدیر ۲۔۵۱۳
وقد تواترت الآثار بجموم فضائل يس روى الحارث بن أبي أسامة في مسنده مرفوعا من قرأ سورة يس وهو خائف أمن أو سقيم شفي أو جائع شبع حتى ذكر خصالا كثيرة وفي مسند الدارمي من حديث عطاء بلاغا أنه عليه الصلاة والسلام قال من قرأ يس في صدر النهار قضيت حاجته وعن بعضهم من قرأها أول النهار لم يزل فرحا مسرورا إلى الليل ومن قرأها أول الليل لم يزل كذلك إلى الصباح
صنعانیؒ ۱۱۸۲ھ ۔۔نے جامع الصغیر کی شرح ۴۔۹۱ میں
واعلم أن: فضائل هذه السورة قد كثرت بها الأخبار وملئت بها الأسفار وفي مسند الدرامي من حديث عطاء بلاغًا أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: "من قرأ يس في صدر النهار قضيت حاجته"
وعن بعضهم: من قرأها أول النهار لم يزل فرحًا مسرورًا إلى الليل ومن قرئها أول الليل لم يزل كذلك إلى الصباح (الدارمي (ت) (1) عن أنس) قال الترمذي: غريب فيه هارون أبو محمد شيخ مجهول انتهى.
قلت: يريد هارون أبو محمد أحد رواته فإنه ساقه في سنده عنه وفي التقريب (2): هارون أبو محمد شيخ الحسن بن صالح بن حي مجهول.
ان دونوں ائمہ کے نزدیک اس سورۃ کے فضائل متواتر اور بہت کثرت سے ہیں اور اس کی دلیل میں پہلی روایت ہی امام عطاءؒ کی بلاغ ہے ۔
میں نے کچھ اور عبارت اس لئے نقل کردی اور آپ وہاں جا کر دیکھ بھی لیں کے یہ دونوں فضائل والی بھی دوسری روایات پر عموماََ تساہل نہیں کرتے ۔ بلکہ جرح ضرور کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح بہت بڑے اہل حدیث عالم حضرت مولانا اسمٰعیل سلفیؒ نے بھی مشکاۃ کے ترجمہ و حاشیہ ۲۔۳۷۶ میں۔۔۔اس روایت پر عنوان دیا ہے ۔۔۔سورۃ یٰسٓ کا خاصہ۔۔۔اور اس روایت پر کوئی جرح نہیں کی اور فرمایا ہے کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم۔
یہ جلدی جلدی کی تحریر ہے ۔۔۔اس لئے چھوٹی موٹی غلطیاں آپ نے نوٹ نہیں کرنی ۔۔۔ورنہ آپ جانتے ہیں ایک لائن کے سوال کا جواب ایک لائن میں بالکل نہیں ہوتا(مسکراہٹ)
عمربھائی ۔ معزرت خواہ ہوں کافی دن کے بعد آنا ہوا ہے ۔ اب کچھ وجوہات کی بنا ء پرکم ہی آنا ہورہا ہے ۔ بہرحال حاضر ہوں ۔۔۔۔
آپ کے جملے سے یوں لگتا ہے ۔۔۔۔جیسے کوئی معلوم چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔
بہرحال مختصراََ کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔
امام ترمذیؒ نے العلل میں نقل کرتے ہیں۔۔۔
قَالَ يحيى بن سعيد مرسلات مُجَاهِد أحب إِلَيّ من مرسلات عَطاء بن أبي رَبَاح بِكَثِير
كَانَ عَطاء يَأْخُذ عَن كل ضرب
قَالَ عَليّ قَالَ يحيى مرسلات سعيد بن جُبَير أحبي إِلَيّ من مرسلات عَطاء
قلت ليحيى مرسلات مُجَاهِد أحب إِلَيْك أم مرسلات طَاوس قَالَ مَا أقربهما
امام احمدؒ بھی عطاء کی مرسل کے بارے میں یہی فرماتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ان کی مراسیل اور حسنؒ کی سب سے کم درجہ ہیں ۔
امام ترمزیؒ نے العلل میں اوپر والے کلام کو مرسل سے عدم احتجاج والوں کے مسلک میں ذکر کیا ہے ۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے ۔نہ ہی اس سے کوئ مطلق حکم نکلتا ہے ۔
اگر وہ بالکل ناقابل قبول ہوں تو ان ائمہ کا آپس میں درجہ بندی کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اس کلام کی ضرورت ہی کیا ہے ۔
مثلاََ اگر ۱۰۰ نمبر والے امتحان میں سے ۴۰ والا پاس ہوتا ہے ۔
اور کچھ دوست آپس میں یہ گفتگو کریں کے فلاں کے نمبر ۲۲ ہیں اور فلاں کے ۲۷ ہیں ۔ تو ظاہر ہے ان کا کلام کا کیا معنی ہیں جب وہ دونوں ہی فیل ہیں۔
اور اس کی بڑی نظیر یہ ہے کہ عطاءؒ کی مراسیل کو دوسرے ائمہ کے مقابلے میں اضعف کہنے والے امام احمدؒ کا مرسل کے بارے میں ایک نظریہ ہے جو کہ مشہوراور راجح روایت میں حجت کا ہے ۔ اور ایک روایت میں کلام کا ہے بھی تو اس کی وضاحت ایک جگہہ اسی فورم پہ مرسل کے بارے میں کر چکا ہوں کہ وہ ضعیف ہو تب بھی ان کے نزدیک قابل قبول ہوگی اگر اس کے خلاف کچھ نہ ہو۔
مراسیل کی بحث بہت طویل مسئلہ ہے ۔ اس میں شوافع اورمحدثین کی ایک جماعت سے عدم احتجاج کا قول مروی ہے ۔
البتہ تابعین کی اکثریت ، حنفیہ مالکیہ حنبلیہ اور فقہا محدثین کی ایک جماعت اس میں احتجاج کا مسلک رکھتی ہے ۔ اور میری تحقیق کے مطابق مرسل کی کسی نہ کسی درجہ میں حجیت کے سارے ہی قائل ہیں ۔ جس کی مثالیں مرسل والی تحریر میں دے چکا ہوں۔
وہ معلوم نہیں کونسے تھریڈ میں ہے ۔ لیکن اس کی بنیاد آپ کی ہی ایک عبارت سے شروع ہوئی تھی۔ اس لئے یقیناََ آپ کی نظر سے گزری ہو گی۔
بہرحال اس کا نتیجہ یا خلاصہ جو میرے نزدیک خاص امام احمد ؒ اور امام ابوداودؒ کی عبارات سے نکلتا ہے وہ یہ تھا کہ مرسل پر عمل کیا جائے گا جب اس کے مقابل کچھ نہ ہو ۔(یہ خاص عدم احتجاج والوں کے طرز کا ذکر ہے ) اس سے تمام سلف و خلف کے طرز میں اقوال میں تعارض جو محسوس ہوتا ہے ۔ وہ نہیں رہتا ۔ خصوصاََ شوافع کہ جو ایک طرف اس سے عدم احتجاج کے قائل بھی ہیں ۔اور ان کی کتب میں ان سے احتجاج اور تصحیح بھی موجود ہے ۔
ابن رجبؒ شرح علل الترمذیؒ ۱۔۵۴۴ ایک اور انداز سے اس تعارض کو دور کرتے ہیں ۔۔۔۔ مرسل کے بارے میں دونوں فریق کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں۔۔۔
وأعلم أنه لا تنافي بين كلام الحفاظ، وكلام الفقهاء في هذا الباب، فإن
الحفاظ إما يريدون صحة الحديث المعين إذا كان مرسلا، وهو ليس بصحيح، على طريقتهم، لانقطاعه وعدم اتصال إسناده إلى النبي صلى الله عليه وسلم.
وأما الفقهاء فمرادهم صحة ذلك المعنى الذي دل عليه الحديث، فإذا عضد ذلك المرسل قرائن تدل على أن له أصلا قوي الظن بصحة ما دل عليه، فاحتج به مع ما احتف به من القرائن.
وهذا هو التحقيق في الاحتجاج بالمرسل عند الأئمة كالشافعي وأحمد وغيرهما
موجودہ عمل کے بارے مرسل سے احتجاج والوں کے لئے تو اس میں کوئی اشکال ہی نہیں ۔ لیکن
آپ دیکھیں کہ اس عمل کے خلاف یا معارض کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور اس کے شواہد و نظائر بھی ہیں ۔
کچھ اور باتیں بھی پیش کرتا ہوں جس سے ان شاء اللہ اس کو تقویت ملے گی۔
اس میں ایک چھوٹا سا نکتہ ہے کہ یہ مرسل بلاغ ہے ۔ جس میں محدث یہ کہتا ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے اس میں جزم کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔
مثلاََ امام ذہبی ؒ الموقظہ ۴۰ میں منقطع کی بحث میں امام مالکؒ کی بلاغات کے بارے میں فرماتے ہیں۔
فهذا النوعُ قلَّ مَن احتَجَّ به.
وأجوَدُ ذلك ما قال فيه مالكُ: "بلَغَنِي أنَّ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - قال: كذا وكذا". فإنَّ مالكاً مُتَثَبِّتٌ، فلعلَّ بلاغاتهِ أقوى من مراسَيل مِثل: حُمَيد، وقتادة.
اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بیہقیؒ ۔ شعب الایمان ۴۔۹۸میں ابو قلابہؒ کی ایک ۔۔ بلاغ ۔۔جس میں مختلف سورتوں کے فضائل ہیں وہ روایت کرتے ہیں۔
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: " مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنَ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمَنْ قَرَأَ الْكَهْفَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ حُفِظَ مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَإِذا أَدْرَكَ الدَّجَّالَ لَمْ يَضُرَّهُ وَجَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَوَجْهُهُ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ،
وَمَنْ قَرَأَ يس غُفِرَ لَهُ،
وَمَنْ قَرَأَهَا وَهُوَ جَائِعٌ شَبِعَ،
وَمَنْ قَرَأَهَا وَهُوَ ضَالٌّ هُدِيَ،
وَمَنْ قَرَأَهَا وَلَهُ ضَالَّةٌ وَجَدَهَا،
وَمَنْ قَرَأَهَا عند طَعَامٍ خَافَ قِلَّتَهُ كَفَاهُ،
وَمَنْ قَرَأَهَا عِنْدَ مَيِّتٍ هُوِّنَ عَلَيْهِ،
وَمَنْ قَرَأَهَا عِنْدَ امْرَأَةٍ عُسِرَ عَلَيْهَا وِلْدُهَا يُسِّرَ عَلَيْهَا،
وَمَنْ قَرَأَهَا فَكَأَنَّمَا قَرَأَ الْقُرْآنَ إحدى عَشرة مَرَّةً،
وَلِكُلِّ شَيْءٍ قَلْبٌ، وَقَلْبُ الْقُرْآنِ يس " "
یہ نقل کرکے فرماتے ہیں۔۔۔۔
هَذَا نُقِلَ إِلَيْنَا بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِنْ قَوْلِ أَبِي قِلَابَةَ وَكَانَ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، وَلَا يَقُولُهُ إِنْ صَحَّ ذَلِكَ عَنْهُ إِلَّا بَلَاغًا "
صاحب تنزیہ الشریعۃ نے بھی اس روایت کو سورۃ یس کے کے بعض فضائل کے شاہد کے طور پر نقل کیا ہے ۔
ابھی اس روایت کے بارے میں نہیں بلکہ امام بیہقی ؒ کے کلام کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے ۔۔۔
اب امام عطاءؒ کی یہ مرسل بلاغ ہے ۔۔۔اس کے بارے میں شرح دارمی کے مولف عرب عالم کاقول نقل کیا ہے کہ شاید اس میں مبلغ ابن عباسؓ ہیں ہیں۔۔کیونکہ یہ روایت ان سے مشہور ہے جو کہ اوپر موجود ہے ۔
اور یہ گفتگو ان قرائن کی وجہ سے بھی ہے جن کا ذکر ابن رجبؒ کے کلام میں ہے ۔
یعنی۔۔۔ فإذا عضد ذلك المرسل قرائن تدل على أن له أصلا قوي الظن بصحة ما دل عليه۔۔۔۔
اسی وجہ سے شیخ البانیؒ جیسے مرسل کے بارے میں سخت عالم بھی اس بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں ۔۔۔
معلوم نہیں آپ نے کسی اور سے نقل کیا ہے ۔
شیخ البانی ؒ نے اس روایت کو ضعیف نہیں قرار دیا۔
بلکہ جیسا کہ خضر بھائی نے نقل کیا ہے ۔۔۔انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی تھی۔ دیکھئے ج۱ص۶۶۸ رقم ۲۱۷۷
پھر انہوں نے غالباََ مشکاۃ کی تخریج پہ نظر ثانی بھی کی تھی جس میں کچھ حکم بدل گئے ۔ جیسا کے روزہ کھولنے کی دعا کے ضمن میں میں نے بیان کیا تھا۔
یہ نظر ثانی والی مشکاۃ معلوم نہیں الگ سے نیٹ پر موجود ہے کہ نہیں ۔۔۔البتہ ان کے ایک مشہور شاگرد نے حافظ ابن حجرؒ کی هداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة کی تحقیق و تعلیق میں شیخ البانیؒ کی آراء بیان کردی ہیں۔
اس میں۲۔۳۸۹ پہ عطاء ؒ کی بلاغ پر انہوں نے یہ فرمایا ہے ۔
و رجاله ثقات، فهو قوي ، لو لا الإرسال
اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کی تقویت ہی کی طرف مائل تھے ۔ اب اس کو دیکھ کر کسی نے جس کے نزدیک مرسل لفظ آنا ہی ضعف کی علامت ہے ۔یوں نقل کردیا کہ البانیؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے تو یہ درست نہیں ۔
مثلاََ کچھ اسی جگہہ کچھ روایات پہلے سورۃ فاتحہ کے فضائل کی ایک روایت کے بارے میں ان کا حکم یہ ہے ۔
واسنادہ ضعیف لإرساله
يه تعارض نہیں ہے اس کے بارے میں شروع میں بات کرچکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ ابن حجرؒ کا کلام بھی اس کی تقویت کی طرف ہی مائل ہے انہوں نے بس اس کی تخریج میں الدارمی کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے ۔۔۔عن عطاء ، بلغني ...فرفعه.
اور اس كتاب كے مقدمہ میں ان کی تصریح ہے کہ جس روایت پر وہ سکوت کریں گے وہ حسن ہوگی۔ص۵۸
اور عطاءؒ کی اس بلاغ کو بطور دلیل بغیر کسی جرح کے بعض اور نے بھی نقل کیا ہے ۔
.
مناویؒ ۱۰۳۱ھ فیض القدیر ۲۔۵۱۳
وقد تواترت الآثار بجموم فضائل يس روى الحارث بن أبي أسامة في مسنده مرفوعا من قرأ سورة يس وهو خائف أمن أو سقيم شفي أو جائع شبع حتى ذكر خصالا كثيرة وفي مسند الدارمي من حديث عطاء بلاغا أنه عليه الصلاة والسلام قال من قرأ يس في صدر النهار قضيت حاجته وعن بعضهم من قرأها أول النهار لم يزل فرحا مسرورا إلى الليل ومن قرأها أول الليل لم يزل كذلك إلى الصباح
صنعانیؒ ۱۱۸۲ھ ۔۔نے جامع الصغیر کی شرح ۴۔۹۱ میں
واعلم أن: فضائل هذه السورة قد كثرت بها الأخبار وملئت بها الأسفار وفي مسند الدرامي من حديث عطاء بلاغًا أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: "من قرأ يس في صدر النهار قضيت حاجته"
وعن بعضهم: من قرأها أول النهار لم يزل فرحًا مسرورًا إلى الليل ومن قرئها أول الليل لم يزل كذلك إلى الصباح (الدارمي (ت) (1) عن أنس) قال الترمذي: غريب فيه هارون أبو محمد شيخ مجهول انتهى.
قلت: يريد هارون أبو محمد أحد رواته فإنه ساقه في سنده عنه وفي التقريب (2): هارون أبو محمد شيخ الحسن بن صالح بن حي مجهول.
ان دونوں ائمہ کے نزدیک اس سورۃ کے فضائل متواتر اور بہت کثرت سے ہیں اور اس کی دلیل میں پہلی روایت ہی امام عطاءؒ کی بلاغ ہے ۔
میں نے کچھ اور عبارت اس لئے نقل کردی اور آپ وہاں جا کر دیکھ بھی لیں کے یہ دونوں فضائل والی بھی دوسری روایات پر عموماََ تساہل نہیں کرتے ۔ بلکہ جرح ضرور کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح بہت بڑے اہل حدیث عالم حضرت مولانا اسمٰعیل سلفیؒ نے بھی مشکاۃ کے ترجمہ و حاشیہ ۲۔۳۷۶ میں۔۔۔اس روایت پر عنوان دیا ہے ۔۔۔سورۃ یٰسٓ کا خاصہ۔۔۔اور اس روایت پر کوئی جرح نہیں کی اور فرمایا ہے کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم۔
یہ جلدی جلدی کی تحریر ہے ۔۔۔اس لئے چھوٹی موٹی غلطیاں آپ نے نوٹ نہیں کرنی ۔۔۔ورنہ آپ جانتے ہیں ایک لائن کے سوال کا جواب ایک لائن میں بالکل نہیں ہوتا(مسکراہٹ)