Malik Khalid Mehmood Talokar
7 جنوری 10:12 ﺷﺎﻡ
Bhi jaan masjid nabavi ya makkah mukarmah main main namaz ky duran koi hadami hagy say guzar jay kya durost ha quran or hadees ka hawalay say maslah batain bhi
بھائی جان مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا مسجد الحرام میں نماز کے دوران کوئی آدمی نمازی کے آگے سے گزر جائے کیا درست ہے - قرآن و حدیث کی حوالے سے مسلہ بتائے -
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
سُترہ کے احکام
نماز دین اسلا م کا اہم ترین رکن ہے اور اس کی بجاآوری کے لئے بہت سے احکامات کی پابندی ضروری ہے۔
لیکن اکثر نمازی یا تو ان سے غافل ہیں یا سستی کا شکار ہیں۔ انہی میں سے ایک اہم مسئلہ ’’سترہ‘‘ کا بھی ہے کہ جس کے بارہ میں
لوگ افراط یاتفریط کا شکار ہیں یعنی کچھ تو سترہ کو فرض و واجب قرار دے کر بغیرسترہ پڑھی جانے والی نماز کے بطلان کے قائلین ہیں ،
جبکہ دیگر سترہ کی عدم فرضیت کا اعتقاد رکھنے کی بناءپر سترہ کو اہمیت دینے سے قاصرہیں جس کے نتیجہ میں ان کی اکثر نمازیں سترہ کے بغیر ادا ہوتی ہیں ،
جو کہ خلاف سنت ہے۔ذیل میں ہم ان دلائل کو پیش کر یں گے جن کے ذریعہ سے حق بات کا علم ہو سکے کہ سترہ رکھنا نمازی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
مگر یہ فرض یا واجب بھی نہیں کہ بغیر سترہ کے نماز ہی نہ ہو۔ بلکہ اگر کو ئی شخص کبھی سترہ کے بغیر نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی مگر اس کو معمول بنانا خلاف سنت ہے۔
سترہ کی اہمیت سیدنا عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ، وَلَا تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ». ’’سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر وہ انکا ر کر دے تو اس سے لڑو کیونکہ اس کے ساتھ یقیناً شیطان ہے ۔‘‘
[صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الصلاۃ، باب النھي عن الصلاۃ إلی غیر سترۃ، (800)، صحیح مسلم (506)] ابوسعیدخدری فر ماتے ہیں كہ رسول ﷺ نے فرمایا :
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا». ’’جب تم میں سے کو ئی ایک نماز پڑھے تو وہ ستر ے کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو۔‘‘
[سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب السترۃ، باب ما یؤمر المصلي أن یدرأ عن الممر بین یدیہ، (698)] قرہ بن ایاس کہتے ہیں کہ عمر نے مجھے دو ستونوں کے درمیا ن نمازپڑھتے ہو ئے دیکھا تو مجھے پکڑ کر سترہ کے قریب کر دیا اور فرمایا: «صَلِّ إِلَيْهَا» ’’اس کی طرف نماز ادا کر ۔ ‘‘
[مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب صلاۃ التطوع والإمامۃ وأبواب متفرقۃ، باب من کان یکرہ الصلاۃ بین السواري، (7502)]
سیدنا انس بیان فرماتے ہیں:
«لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ المَغْرِبِ»، وَزَادَ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَنَسٍ، حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» میں نے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت ستونوں کی طرف جلدی کر تے تھے [یعنی مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنے کے لئے ان کو اپنا سترہ بناتے ۔(بخاری: 625)] [صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب الصلوۃ إلی الأسطوانۃ، (503)(481)] یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ «رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّي إِلَيْهَا». میں نے انس بن مالك كو مسجد حرام میں د یكها كہ وه لاٹهی گاڑ كر اس كی طرف نماز اداكر رہے تھے ۔ [مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلوات، باب قدر کم یستر المصلي؟ (2853)] نافع فرماتے ہیں: «كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيلاً إلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ ، قَالَ لِي : وَلِّنِي ظَهْرَك». عبداللہ بن عمر جب مسجد کے ستون میں سے کسی ستون کی جانب کوئی جگہ نہ پاتے تو مجھے کہتے کہ میری طرف اپنی پشت کر دو ۔ [مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلوات، باب الرجل یستر الرجل إذاصلی إلیہ أم لا؟ (2878)]
مندرجہ با لا ادلہ سے معلوم ہوا کہ 1 رسول ﷺ نے بغیر سترہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
2 آپﷺ نے سترہ کا اہتمام کرنے کی تاکید فرمائی ہیں۔
3 اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم دیا ہے ۔ 4 صحابہ کرام سترہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ۔ 5 کسی کو بغیر ستر ہ نماز پڑھتے دیکھ کر اس کو ستر ے کے قریب کر دیتے ۔ 6 مسجد میں بھی سترہ کا اہتما م فرماتے ۔ 7 دیوار یا ستون کے پیچھے جگہ نہ ملتی تو لاٹھی وغیرہ کا ستر ہ اپنے آگے رکھ لیتے۔ 8 اور اس کی عدم موجو دگی میں کسی شخص کو سترہ بنا کر نماز ادا کر تے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سعودی عرب کے معتبر علماء کی مستقل کمیٹی برائے فتوی (اللجنۃ الدائمۃ ) نے فتوی دیا ہے کہ
نمازی کے آگے سے گزرنا حرام ہے ،لیکن مسجد حرام میں نمازی کے آگے گزرنے کو کئی فقہاء و علماء نے ایک حدیث کی بنا پر جائز قرار دیا ہے،
ذیل میں ان کا فتوی اور حدیث درج ہے
وسئل علماء اللجنة الدائمة للإفتاء : هل يجوز المرور بين يدي المصلي في المسجد؟
فأجابوا : يحرم المرور بين يدي المصلي ، سواء اتخذ سترة أم لا ، لعموم حديث : ( لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه ) واستثنى جماعة من الفقهاء من ذلك الصلاة بالمسجد الحرام ، فرخصوا للناس في المرور بين يدي المصلي ؛ لما روى كثير بن كثير بن المطلب عن أبيه عن جده قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حيال الحجر والناس يمرون بين يديه ، وفي رواية عن المطلب أنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من سبعه جاء حتى يحاذي الركن بينه وبين السقيفة فصلى ركعتين في حاشية المطاف وليس بينه وبين الطواف أحد . وهذا الحديث وإن كان ضعيف الإسناد غير أنه يعتضد بما ورد في ذلك من الآثار ، وبعموم أدلة رفع الحرج لأن في منع المرور بين يدي المصلي بالمسجد الحرام حرجا ومشقة غالبا " انتهى.
"فتاوى اللجنة الدائمة" (7/82
) .
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا بیت اللہ شریف میں سترہ کی ضرورت ہے یا نہیں ۔
شروع از بتاریخ : 15 May 2013 01:30 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیت اللہ شریف میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی رخصت ہے یا نہیں
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیت اللہ شریف می نمازی کے آگے سے گذرنا درست ہے۔ منتقیٰ میں حدیث ہے مطلب بن ابی وداعہؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیت اللہ میں) باب بنی سلم کی جانب سے یعنی حجر اسود کے سامنے نماز پڑھتے تھے اور لوگ آگے سے گذرتے تھے آپؐ کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی سترہ نہ تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ شریف میں سترہ کا حکم نذہیں اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ وہاں ہر وقت طواف ہوتا اور ہر وقت نماز ہوتی ہے اور ہجوم رہتا ہے۔ اس لیے سترہ کا انتظام مشکل ہے۔ اور اس حدیث میں اگرچہ کچھ ضعف ہے لیکن سب مذاہب کا تعامل اس کا مؤید ہے اور اس کے ساتھ مجبوری کو بھی شامل کر لیا جائے کہ ہجوم کی وجہ سے سترے کا انتظام وہاں مشکل ہے تو اس سے اور تقویت ہو جاتی ہے۔ پساس حدیث کی بنا پر بیت اللہ شریف سترے کے حکم سے مستثنیٰ ہو گا۔۔
جلد 3 ص 74
محدث فتویٰ