• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سچی توبہ

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
سچی توبہ
جب ھر دَر بند ھو جائے تو سبھی جانب مایوسی نظر آتی ھے،لیکن روشنی کی ایک کرن اور امید کا ایک دروازہ انسان کی خاطر وقتِ معین تک کُھلا رہتا ھے، اور وہ روشنی اور امید یہ ھے کہ اپنے رب کے حضور گناھوں سے ھمیشہ کے لیئے سچی پکی اور خالص توبہ،جی ھاں خالص توبہ،

اللہ تعالی اسی سچی توبہ کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رھے ھیں
کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو ۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے

(سورہ التحریم ، 8)


اللہ کی رحمت ھر چیز کے اوپر غالب ھے، سبحان اللہ
اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عجوبہ نعمت یہ ھے کہ توبہ کرلینے کے بعد ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے،

قال تعالى:

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا".


سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے

(سورہ الفرقان، 70)

سچی توبہ کی نشانی یہ ھوتی ھے کہ انسان اپنی توبہ پر استقامت اختیار کرے، اور گناہ کا موقع ملنے کے باوجود،گناہ کی طرف مائل ھونے کی بجائے شدید نفرت کا اظھار کرے،
گناہ کرنے کو پہاڑ اپنے اوپر گرانے کی مانند سمجھے،
اور
اعمال صالح کرنے میں پیش پیش ھو،اور نیک اعمال کو اپنے شب و روز کا معمول بنا لے،

نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ایمان لے آنے کے بعد اللہ کی نافرمانی،بغاوت،اور سرکشی کی طرف لوٹنے والے کی مثال سمجھاتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں
کہ
حدیث رسول:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ھے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
"""جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا،
ایک یہ کہ
وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں
اور دوسرے یہ کہ
جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے
اور
تیسری بات یہ کہ
جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے """"

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، حدیث نمبر 21)


اللہ رب العزت سچی توبہ والے کی نشاندہی کرتے ھوئے فرماتے ھیں،
کہ

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا

اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے

اور مزید فرمایا کہ

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ

ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے واﻻ ہوں جو توبہ کریں ایمان ﻻئیں نیک عمل کریں اور راه راست پر بھی رہیں

(سورہ طہ، 82)
یعنی اس درج بالا آیت کے مطابق چار کام ھیں کہ جن کی پابندی اللہ کے ھاں کامیابی یا بخشش کے حصول کے لیئے کرنا ضروری ھے،

1- گناھوں سے توبہ کرلے

2- اللہ کے تمام احکامات پر ایمان لے آئے

3- نیک اعمال باقاعدگی سے کرے

4- ساری زندگی ھدائیت والے طریقہ کو ھی اختیار کیئے رھے


لوگ گناہ در گناہ کرتے جاتے ھیں اور ایک وقت پر ایسے پھنس جاتے ھیں کہ سوائے اللہ کےسہارے کے کوئی سہارا نظر نہیں آتا، ایک اللہ ھی ھے جو بے سھاروں کا سھارا بن جاتا ھے،،،اور ھر طرف دوڑ بھاگ کر لینے کے بعد آخرکار اللہ کی جانب رجوع کرنا ھی پڑتا ھے،اس کی مثال ھمارے معاشرے کے مطابق ایسے سمجھی جاسکتی ھے کہ جب فریقین میں لڑائی جھگڑا اور فساد برپا ھوتا ھے تو اس فساد اور لڑائی جھگڑوں کا اخر کار اختتام صلح یا ٹیبل ٹاک پر ھی ھوتا ھے،ورنہ نسلیں یا زندگیاں ختم ھو جاتی ھیں،،،، اسی طرح گناھوں میں کتنی ھی دوڑ لگالو آخر کار جانا تو اللہ کے پاس ھی ھے،اب دانائی تو یہ ھے کہ توبہ کو مؤخر کیئے بنا جلد ازجلد اللہ کی طرف رجوع کرلیا جائے اور توبہ کرکے نیک و صالح افراد کی فہرست میں شامل ھو لیا جائے،کیونکہ موت تو انسان کو کسی بھی لمحے اور کسی بھی عمر میں اُچک سکتی ھے،
چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے
کہ

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وه خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناه نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وه آئنده بھی توبہ کرسکیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے واﻻ بڑا رحم واﻻ ہے

(سورہ التوبہ، 118)


جب انسان توبہ کرکے نیک اعمال شروع کر دیتا ھے تو ایسے شخص کو اللہ تعالی فلاح پانے والوں یعنی کامیابی،نجات، یا جنت پانے والوں میں شمار کریں گے،کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی بہت ھی عدل اور انصاف والا ھے اور وہ جانتا ھے
کہ
انسان کا رجوع یعنی توبہ اور پھر توبہ پر استقامت پکڑنا ، کٹھن اور مشکل ترین مراحل سے گزر کر ممکن ھوئی ھے
لہذا توبہ کرنے والوں کے لیئے خوشخبری سناتے ھوے اللہ ذولجلال ارشاد فرماتے ھیں،

فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَىٰ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ

ہاں جو شخص توبہ کرلے ایمان لے آئے اور نیک کام کرے ،توعنقریب ھے کہ یقیناً وه نجات پانے والوں میں سے ہو جائے گا

(سورہ القصص، 67)


انتہائی اھم نکتہ :

آخر میں توبہ کے حوالہ سے ایک انتہائی اھم نکتہ بیان کرنا ضروری ھے،
بنی آدم چونکہ خطاؤں کا پتلہ ھے اور خطا سرزد ھوجانا اس کی فطرت میں سے ھے، لہذا سچی اور پکی توبہ کرلینےکے بعد دوبارہ گناہ سرزد ھوجانے کا احتمال انتہائی قوی ھوتا ھے،اور شیطان اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے انسان کو اپنی تلبیس میں لپیٹ لیتا ھے،اور انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ھے کہ تم معافی مانگ بھی لوگئے تو تمھاری عمر اس طرح کی ھے یا تمھارا کام اس طرح ھے کہ تم سے دوبارہ گناہ سرزد ھو جانا ھے ،اور باربار گناہ کرکے اللہ سے توبہ کرنے کا کیا فائدہ،،،،،،ابھی اپنی عمر گذار لے پھر جب بڑھاپے کےقریب پہنچ جائے گا تو پھر دیکھ لینا توبہ کو اور پھر اللہ اللہ کر لینا،،،،
اکثر لوگ اس شیطانی تلبیس کا شکار نظر آتے ھیں اور سرعام گناہ کرکے اللہ کے نزدیک بدترین لوگوں میں شمار ھوجاتے ھیں،،،،زندگی تو کسی بھی لمحے دھوکہ دے جاتی ھے اور اکثر لوگ توبہ کی سوچ لیئے اسی شیطانی دھوکے میں ھی دنیا سے چلے جاتے ھیں،،،
قارئین کرام،
اللہ بہت ھی رحیم اور کریم ذات ھے ،جتنا ھم سوچ سکتے ھیں اللہ اپنے بندوں کیساتھ اس سے بھی بہت زیادہ مہربان ھے،

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ھے

کل بنی آدم خطاءٌ و خیر الخطائین التوابون۔

آدم کا ہر بیٹا خطاکار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں۔

(جامع ترمذی، حدیث نمبر، 2499)

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے مہربان اور رحم کرنے والا ھونے کے حوالہ سے فرمایا
کہ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا ـ وَرُبَّمَا قَالَ أَذْنَبَ ذَنْبًا ـ فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ ـ وَرُبَّمَا قَالَ أَصَبْتُ ـ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي‏.‏ ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا، فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ ـ أَوْ أَصَبْتُ ـ آخَرَ فَاغْفِرْهُ‏.‏ فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا ـ وَرُبَّمَا قَالَ أَصَابَ ذَنْبًا ـ قَالَ قَالَ رَبِّ أَصَبْتُ ـ أَوْ أَذْنَبْتُ ـ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي‏.‏ فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ـ ثَلاَثًا ـ فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ ‏"‏‏

ابو ہریرہؓ فرماتے ھیں کہ
میں نے نبی ﷺ سے سُنا
آپ ﷺ فر ماتے تھے

ایک بندے نے گناہ کیا (یا یوں کہا ایک گناہ کیا ) اب پرو ردگار سے عرض کرنے لگا پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا پروردگار نے (اس کی یہ دعاسُن کر ) ارشاد فر مایا میرا بندہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ایک مالک ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا بھی ہے (سزا بھی دیتا ہے ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر تھوڑی دیر جب تک اللہ کو منظور تھا وہ بندہ ٹھہرا رہا اس کے بعد گناہ کیا (یا یوں کہا ایک گناہ کیا ) اب پروردگار سے عرض کرنے لگا پروردگار مجھ سے اور گناہ ہوگیا تو بخش دے پروردگار نے (یہ دعاسن کر )فر مایا میرا بندہ یہ سمجھتا ہے اس کا ایک مالک ہے جو گناہ بخشتا اور گناہ پر سزا بھی دیتا ہے اچھا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر تھوڑی دیر جب تک اللہ کو منظور تھا وہ بندہ ٹھہرا رہا اس کے بعد گناہ کیا (یا یوں کہا ایک گناہ اور کیا ) اب پروردگار سے عرض کرنے لگا پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا (یا یوں کہا ایک گناہ اورہو گیا )اس کو بخش دے پروردگار نے فرمایا میرا بندہ یہ جانتا ہے اس کا ایک مالک ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر سزا بھی دیتا ہے جاؤ میں نے اپنے بندے کو تین بار بخش دیا، پس چاھیئے کہ اب وہ ایسےاعمال کرے جیسے وہ اللہ چاھتا ھے ۔

(صحیح بخاری، کتاب التوحید، 7511 )

قارئین کرام اس تحریر کے بالکل آعاز پر میں نے لکھا تھا کہ اللہ کی تمام نعمتوں میں سے ایک عجوبہ یہ ھے کہ اللہ سچی توبہ کرلینے والے اور پھر توبہ کے بعد استقامت اور اعمال صالح کرنے والے کے گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ھے،اسی طرح
یہ بھی عجائب قدرت میں سے ھے کہ بندہ غلطی سرزد ھوجانے بعد ھر بار اللہ سے رجوع کرتا ھے اور اللہ سبحانہ و تعالی اپنی شفقت اور مہربانی سے ھر بار بندے کی فریاد رسی کرتے ھیں،

سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم

محمد سجاد.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
بہت اچھا مضمون ہے ، ماشاء اللہ
رب العزت آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔۔۔آمین
 
Top