- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
پھر خواہ کوئی شخص زہد، عبادت اور علم میں خواہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پہنچ جائے لیکن جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ساری شریعت پر ایمان نہ لائے، وہ مومن نہیں ہوسکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہوسکتا ہے جیسا کہ علماء یہود و نصاریٰ میں احبار و رہبان (علماء و درویش) اور عبادت گزار ہیں، اسی طرح مشرکوں میں سے علم و عبادت میں شغف رکھنے والے لوگ ہیں یعنی عرب، ترک اور ہندوستان کے مشرکین وغیرہ۔
تو ہند اور ترک کے حکماء و فلاسفہ میں سے جو بھی ایسا ہو کہ علم و زہد سے حظ وافر رکھتا ہو اور اپنے کیش اور مذہب کے مطابق عبادت گزار بھی ہو لیکن جو کتاب و سنت اور دین و شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس سب کچھ پر ایمان نہ لائے تو وہ کافر، اللہ کا دشمن ہے خواہ اسے کچھ لوگ اللہ کا ولی سمجھتے ہوں۔
جس طرح فارس کے حکماء کفار مجوس تھے۔ یونان کے حکماء ارسطو وغیرہ مشرک اور بتوں اور ستاروں کے پوجنے والے تھے۔
ارسطو مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے ہو گزرا ہے اور سکندر بن فیلپس مقدونی کا وزیر تھا۔ رومیوں اور یونانیوں کے اسی کے زمانہ سے تاریخ لکھی جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی کے حساب سے تاریخ لکھتے ہیں: یہ وہ ذوالقرنین نہیں ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ ارسطو ذوالقرنین کا وزیر تھا۔ چونکہ ذوالقرنین کو بھی کبھی کبھی سکندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کو دھوکا لگا کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔ چنانچہ ابن سینا اور اس کے ساتھ ایک جماعت اسی رائے پر ہے۔ یہ رائے غلط ہے، یہ سکندر جس کا وزیر ارسطو تھا، مشرک تھا اور ذوالقرنین سے بعد کے زمانے کا ہے۔ اس نے نہ دیوار دیکھی اور نہ یاجوج و ماجوج کے ملک میں پہنچا، یہ وہ اسکندر ہے کہ ارسطو اس کے وزراء میں سے تھا، رومیوں کے ہاں رائج تاریخ اسی سے شروع ہوتی ہے۔ (بعد ازاں یہ تاریخ بدل دی گئی اور متروک ہو گئی (ازہر)۔
حوالہ
تو ہند اور ترک کے حکماء و فلاسفہ میں سے جو بھی ایسا ہو کہ علم و زہد سے حظ وافر رکھتا ہو اور اپنے کیش اور مذہب کے مطابق عبادت گزار بھی ہو لیکن جو کتاب و سنت اور دین و شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس سب کچھ پر ایمان نہ لائے تو وہ کافر، اللہ کا دشمن ہے خواہ اسے کچھ لوگ اللہ کا ولی سمجھتے ہوں۔
جس طرح فارس کے حکماء کفار مجوس تھے۔ یونان کے حکماء ارسطو وغیرہ مشرک اور بتوں اور ستاروں کے پوجنے والے تھے۔
ارسطو مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے ہو گزرا ہے اور سکندر بن فیلپس مقدونی کا وزیر تھا۔ رومیوں اور یونانیوں کے اسی کے زمانہ سے تاریخ لکھی جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی کے حساب سے تاریخ لکھتے ہیں: یہ وہ ذوالقرنین نہیں ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ ارسطو ذوالقرنین کا وزیر تھا۔ چونکہ ذوالقرنین کو بھی کبھی کبھی سکندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کو دھوکا لگا کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔ چنانچہ ابن سینا اور اس کے ساتھ ایک جماعت اسی رائے پر ہے۔ یہ رائے غلط ہے، یہ سکندر جس کا وزیر ارسطو تھا، مشرک تھا اور ذوالقرنین سے بعد کے زمانے کا ہے۔ اس نے نہ دیوار دیکھی اور نہ یاجوج و ماجوج کے ملک میں پہنچا، یہ وہ اسکندر ہے کہ ارسطو اس کے وزراء میں سے تھا، رومیوں کے ہاں رائج تاریخ اسی سے شروع ہوتی ہے۔ (بعد ازاں یہ تاریخ بدل دی گئی اور متروک ہو گئی (ازہر)۔
حوالہ