محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَۃً مِّنْكُمْ۰ۙ وَطَاۗىِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِيَّۃِ۰ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ۰ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ۰ۭ يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ۰ۭ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۰ۭ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۰ۚ وَلِيَبْتَلِيَ اللہُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۱۵۴ اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۰ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا۰ۚ وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۱۵۵ۧ
۱؎ باوجودان مصائب کے جن سے مسلمانوں کو غزوہ احد میں گزرنا پڑا۔سکون خاطر کی یہ حالت ہے کہ عین حالت جنگ میں نیند نے آگھیرا۔ کیا اس سے بہتر طمانیت قلب کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے ؟ میدان جنگ میں جہاں اچھوں اچھوں کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ والے کچھ اس طرح داد شجاعت دے رہے ہیں کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ رہی ہیں۔ اونگھ رہے ہیں اور نبرد آزمائیاں ہورہی ہیں۔ اس طرح نیند کا آجانا اللہ کا خاص فضل تھا جس کا ان آیات میں اظہار ہے ۔اس سے مسلمان کچھ دیر کے بعد بالکل تازہ دم ہوگئے اورتمام کو فت بھول گئے۔
۲؎ عبداللہ بن ابی اوردوسرے منافق اُحد کی شکست کو اسلام کے خلاف بطورِ دلیل استعمال کرتے اور کہتے کہ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم سچے ہوتے تو ضرور فتح ہوتی اور ہمارے ساتھی کبھی میدان جنگ میں نہ مارے جاتے۔ اس شبہ کا جواب گزشتہ آیات میں دیا جا چکا ہے کہ شکست نافرمانی ومعصیت کا نتیجہ ہے ۔ اگر تیرانداز درہ نہ چھوڑتے تو کبھی شکست نہ ہوتی۔ میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ان آیات میں ان کی دوسری کج حجتی کا جواب دیا ہے ۔ وہ یہ کہ مسلمان اگرجہاد کے لیے نہ نکلتے تونہ مارے جاتے۔
دوسرے لفظوں میں وہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں بددلی اوربزدلی کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے کہ موت وحیات ہمارے اختیار میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ غلط وہم ہے ۔ زندگی اور اس سے محرومی اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جب خدا تمہاری موت کا فیصلہ کرچکا ہے توکوئی وجہ نہیں کہ تم بچے رہو۔ تقدیرالٰہی قطعی اورحتمی ہے جس میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں۔ وہ جو خدا کے علم میں ہے ، ہوکر رہے گا۔ دنیا کی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی۔ بڑے سے بڑا انسان بھی اپنی پوری دانش وعقل کے ساتھ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بیچارہ وعا جز ہے ۔ جس وقت سے انسان منصۂ شہود پرآیا ہے ۔ موت کے آہنی پنجہ میں گرفتار ہے اور یہ وہ قید ہے جس سے قطعاً رہائی نہیں۔ بڑے بڑے نمار دہ اورفراعنہ اوروہ جنھیں خداپر یقین نہیں، موت کا شکار ہوتے ہیں اور اس ذلت کے ساتھ کہ سارا کبر وغرور خاک میں مل گیا ہے مگرمجبوری کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار نہیں۔ مسلمانوں میں تقدیر وتدبیر کے متعلق دوگروہ ہیں۔ ایک مطلقاً اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو افعال میں اپنے آپ کو مختار سمجھتے ہیں۔ دونوں کا منشاء نیک ہے مگر صحیح راہ درمیان واعتدال کی ہے یعنی نہ تو ہم اس درجہ مجبور ہیں کہ تکلیف شرعی سے ہی بے نیاز ہوجائیں اور نہ اس درجہ آزاد وخود مختار ہیں کہ خدا کی قدرت مطلقہ پر حرف آئے۔ ان دونوں کے بین بین ہمیں اختیار بھی حاصل ہے اور قدرے مجبور بھی ہیں اور جس حدتک ہم مختار ہیں، اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی سمجھ دار انسان اس سے انکار نہیں کرسکے گا کہ ہمارے بعض افعال ضرور ایسے ہیں جنھیں ذمہ دارانہ افعال کہا جاسکتا ہے اوریہی وہ قدر ہے جس پر جزاوسزا مرتب ہوگی۔
۳؎ ان آیات میں دوبارہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی لغزش کو ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی اعلان عفو بھی فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اب ان پراعتراض کرنا گناہ ہے اور ہم تو قطعی استحقاق نہیں رکھتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے طرز عمل پر تنقید کریں۔ ہم جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں، کیوں کر ان پاکیزہ روح لوگوں پر اعتراض کریں جو عفا اللہ عنھم کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔
ہمارے اعمال کی حقیقت یہ ہے کہ ہماری تمام نیکیاں ان کے ایثار وخلوص کے مقابلہ میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی جگہ وہ بتقاضائے بشری اپنی کمزوریوں سے واقف ہوں اورخائف ہوں۔ ہم جس مقام میں ہیں۔ہمیں قطعاً زیبا نہیں کہ مزکی اعظمﷺکے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زبان طعن دراز کریں۔ اعاذنا اللہ منہ۔
{ نُعَاس} اونگھ۔ جھپکی {ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ} زمانۂ جاہلیت کے خیالات۔{بَرَزَ} مصدر بروز۔ بمعنی ظاہر ہونا {مَضَاجِعِ} جمع مَضْجَعْ۔ خواب گاہ۔
تقدیر
پھراللہ نے غم کے بعد تمہارے آرام کے لیے تم پر اونگھ اتاری۱؎ کہ تم میں سے بعضوں کو گھیر رہی تھی اور بعض کو اپنی جانوں کی فکر پڑی تھی۔ وہ خدا کی نسبت جاہلیت کا باطل گمان کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اس لڑائی کی کوئی بات ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ تو کہہ کُل کام اللہ کا ہے اور وہ اپنے دلوں میں وہ بات چھپاتے ہیں جو تجھ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں یہ کہ اگراس لڑائی میں کچھ بھی ہمارا دخل ہوتا تو ہم (یعنی ہمارے ساتھی) اس جگہ قتل نہ کئے جاتے۔ تو کہہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا تھا، وہ اپنی قتل گاہ کی طرف ضرور باہر نکل آتے۔ اوراللہ تمہارے دلوں کی باتیں آزمانا چاہتا تھا اور جو تمہارے دلوں میں ہے اسے خالص کرنا چاہتا تھا۔ اور اللہ دلی باتوں سے خبردار ہے۔(۱۵۴) دوفوجوں کے بھڑنے کے دن جو لوگ تم میں سے پیچھے ہٹ گئے تھے، ان کے بعض گناہوں کی شامت۲؎سے انھیں شیطان نے ڈگا دیا تھا اور خدا نے ان کا قصور ۳؎ معاف کردیا۔ بے شک اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔(۱۵۵)
سکونِ خاطر کی حیران کن مثال
۱؎ باوجودان مصائب کے جن سے مسلمانوں کو غزوہ احد میں گزرنا پڑا۔سکون خاطر کی یہ حالت ہے کہ عین حالت جنگ میں نیند نے آگھیرا۔ کیا اس سے بہتر طمانیت قلب کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے ؟ میدان جنگ میں جہاں اچھوں اچھوں کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ والے کچھ اس طرح داد شجاعت دے رہے ہیں کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ رہی ہیں۔ اونگھ رہے ہیں اور نبرد آزمائیاں ہورہی ہیں۔ اس طرح نیند کا آجانا اللہ کا خاص فضل تھا جس کا ان آیات میں اظہار ہے ۔اس سے مسلمان کچھ دیر کے بعد بالکل تازہ دم ہوگئے اورتمام کو فت بھول گئے۔
۲؎ عبداللہ بن ابی اوردوسرے منافق اُحد کی شکست کو اسلام کے خلاف بطورِ دلیل استعمال کرتے اور کہتے کہ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم سچے ہوتے تو ضرور فتح ہوتی اور ہمارے ساتھی کبھی میدان جنگ میں نہ مارے جاتے۔ اس شبہ کا جواب گزشتہ آیات میں دیا جا چکا ہے کہ شکست نافرمانی ومعصیت کا نتیجہ ہے ۔ اگر تیرانداز درہ نہ چھوڑتے تو کبھی شکست نہ ہوتی۔ میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ان آیات میں ان کی دوسری کج حجتی کا جواب دیا ہے ۔ وہ یہ کہ مسلمان اگرجہاد کے لیے نہ نکلتے تونہ مارے جاتے۔
دوسرے لفظوں میں وہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں بددلی اوربزدلی کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے کہ موت وحیات ہمارے اختیار میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ غلط وہم ہے ۔ زندگی اور اس سے محرومی اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جب خدا تمہاری موت کا فیصلہ کرچکا ہے توکوئی وجہ نہیں کہ تم بچے رہو۔ تقدیرالٰہی قطعی اورحتمی ہے جس میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں۔ وہ جو خدا کے علم میں ہے ، ہوکر رہے گا۔ دنیا کی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی۔ بڑے سے بڑا انسان بھی اپنی پوری دانش وعقل کے ساتھ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بیچارہ وعا جز ہے ۔ جس وقت سے انسان منصۂ شہود پرآیا ہے ۔ موت کے آہنی پنجہ میں گرفتار ہے اور یہ وہ قید ہے جس سے قطعاً رہائی نہیں۔ بڑے بڑے نمار دہ اورفراعنہ اوروہ جنھیں خداپر یقین نہیں، موت کا شکار ہوتے ہیں اور اس ذلت کے ساتھ کہ سارا کبر وغرور خاک میں مل گیا ہے مگرمجبوری کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار نہیں۔ مسلمانوں میں تقدیر وتدبیر کے متعلق دوگروہ ہیں۔ ایک مطلقاً اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو افعال میں اپنے آپ کو مختار سمجھتے ہیں۔ دونوں کا منشاء نیک ہے مگر صحیح راہ درمیان واعتدال کی ہے یعنی نہ تو ہم اس درجہ مجبور ہیں کہ تکلیف شرعی سے ہی بے نیاز ہوجائیں اور نہ اس درجہ آزاد وخود مختار ہیں کہ خدا کی قدرت مطلقہ پر حرف آئے۔ ان دونوں کے بین بین ہمیں اختیار بھی حاصل ہے اور قدرے مجبور بھی ہیں اور جس حدتک ہم مختار ہیں، اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی سمجھ دار انسان اس سے انکار نہیں کرسکے گا کہ ہمارے بعض افعال ضرور ایسے ہیں جنھیں ذمہ دارانہ افعال کہا جاسکتا ہے اوریہی وہ قدر ہے جس پر جزاوسزا مرتب ہوگی۔
۳؎ ان آیات میں دوبارہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی لغزش کو ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی اعلان عفو بھی فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اب ان پراعتراض کرنا گناہ ہے اور ہم تو قطعی استحقاق نہیں رکھتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے طرز عمل پر تنقید کریں۔ ہم جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں، کیوں کر ان پاکیزہ روح لوگوں پر اعتراض کریں جو عفا اللہ عنھم کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔
ہمارے اعمال کی حقیقت یہ ہے کہ ہماری تمام نیکیاں ان کے ایثار وخلوص کے مقابلہ میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی جگہ وہ بتقاضائے بشری اپنی کمزوریوں سے واقف ہوں اورخائف ہوں۔ ہم جس مقام میں ہیں۔ہمیں قطعاً زیبا نہیں کہ مزکی اعظمﷺکے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زبان طعن دراز کریں۔ اعاذنا اللہ منہ۔
حل لغات
{ نُعَاس} اونگھ۔ جھپکی {ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ} زمانۂ جاہلیت کے خیالات۔{بَرَزَ} مصدر بروز۔ بمعنی ظاہر ہونا {مَضَاجِعِ} جمع مَضْجَعْ۔ خواب گاہ۔
تقدیر