کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
4۔ نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ : ميں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
کی مکمّل وضاحت موجودہے، علاء رحمہ اللہ فرماتے ہيں :
يہاں پراسموکنگ کےعادی افرادکےلئے لمحۂ فکريہ ہے، اگر وہ کہتے ہيں کہ يہ حلال ہے تو يہ ايک قبیح ، ضرررساں اور قاتلِ انسانیت شئے کو جس کے نقصانات واضح ہيں ، حلال قرار دےکر شریعت مطہّرہ پر اتہام باندھنا اور اس پراپنےمَن کی تھوپنے کے مترادف ہے ۔
مذکورہ اشیاء کی حرمت ميں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہوتے ہوئے بھی بفرض محال انہیں تیسری قسم یعنی " مشتبھات" ميں سے مان لیتے ہيں توبھی ان کی حرمت ميں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے امام نووی رحمہ اللہ "مشتبھات " کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہيں :
يہ روایت اسلام کی ان بنیادی روایتوں ميں سے ايک ہےجن پر اسلام کا مدارہے ، علماء کی ايک جماعت کا کہنا ہے کہ يہ روایت ثلث اسلام (ایک تہائی اسلام) ہے کيونکہ اس کے اندرعظیم فوائد اور زندگی کی صالحیت" إنّ الحلال بيّن وإن الحرام بيّن و بينهما أمورمشتبهات لايعلمهنّ كثيرمن الناس فمن اتّقى الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه و من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه , ألا و إن لكل ملك حمىً ألا وإن حمى الله محارمه , ألا و إن في الجسد مضغة إذاصلحت صلح الجسدكله وإذافسدت فسدالجسدكله ألا وهي القلب " (بخارى: رقم(52) مسلم: رقم(1599)
" یقینا حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درميان شبہے والی چیزیں ہيں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، تو جوشخص شبہے کی چیزوں سے بچا تواس نے اپنے دین کوبھی پاک کيا اوراپنی آبروکو بھی اورجو شبہے والی چیزوں ميں پڑا وہ حرام ميں پڑگيا، اس کی مثال اس چرواہے کی ہےجومنع کی گئی چراگاہ کے چاروں طرف اپنے جانور چَرات اہے اور ہر وقت يہ خوف رہتاہےکہ کوئی جانور اس چراگاہ ميں گھس کر چَرنے نہ لگ جائے۔خبردار! ہربادشاہ کی (چراگاہ کی) ايک حدمقررہے اوراللہ تعالی کی حدحرام چیزیں ہيں جان لوکہ جسم کے اندر ايک گوشت کا لوتھڑاہے جب وہ ٹھیک رہتاہے تو سارا جسم ٹھیک رہتاہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو ساراجسم خراب ہوجاتاہے اور وہ (لوتھڑا) دل ہے "
کی مکمّل وضاحت موجودہے، علاء رحمہ اللہ فرماتے ہيں :
مذکورہ بالاروایت کے اندر تمام اسلامی امور سے متعلق ايک وضاحت موجود ہے کہ دنیا کی تمام اشیاء کھانے، پینے اور پہننے سےمتعلق ہوں يا ديگر امورسےمتعلق اللہ تعالی نےان کی حلت وحرمت کی تعیین کردی ہے ۔" اس روایت کی عظمت کا سبب يہ ہےکہ اس کے اندر اللہ کے رسولﷺ نے کھانے، پینے اور پہننے وغیرہ جيسے امورکے اصلاح کی وضاحت فرمادی ہے" ( شرح مسلم للإمام النووى (6/32)
يہاں پراسموکنگ کےعادی افرادکےلئے لمحۂ فکريہ ہے، اگر وہ کہتے ہيں کہ يہ حلال ہے تو يہ ايک قبیح ، ضرررساں اور قاتلِ انسانیت شئے کو جس کے نقصانات واضح ہيں ، حلال قرار دےکر شریعت مطہّرہ پر اتہام باندھنا اور اس پراپنےمَن کی تھوپنے کے مترادف ہے ۔
مذکورہ اشیاء کی حرمت ميں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہوتے ہوئے بھی بفرض محال انہیں تیسری قسم یعنی " مشتبھات" ميں سے مان لیتے ہيں توبھی ان کی حرمت ميں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے امام نووی رحمہ اللہ "مشتبھات " کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہيں :
شیخ صالح الفوزان سگریٹ کے مشتبہات میں سے ہونے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :" أماالمشتبهات ، فمعناه: أنها ليست بواضحة الحل ولاالحرمة فلهذالايعرفها كثيرمن الناس و لايعلمون حكمها و أما العلماء فيعرفون حكمها بنص أو قياس أو استصحاب أو غيرذلك فإذا تردد الشئي بين الحل والحرمة ولم يكن فيه نص و لااجماع اجتهد فيه المجتهد فألحقه بأحدهما بالدليل الشرعى" (شرح مسلم للنووى ( 6/32)
"مشتبھات کا مطلب يہ ہےکہ جن کی حلّت وحرمت واضح نہ ہوجس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو ان کی حقیقت وحکم کاپتہ نہ ہو، لیکن علمائےکرام کو کسی نص،قیاس يا استصحاب (استصحاب کہتے ہیں :کسی چیز پر ماضی میں اس کی عدمِ وجود کی وجہ سےکسی تبدیلی کےنہ پائے جانےکی بناء پر ثبوت ونفی کا حکم لگانا بالفاظِ دیگر: جب تک کسی چیز میں کوئی شرعی تبدیلی واقع نہ ہواس کو اس کے سابق حکم پربرقراررکھنا) وغیرہ سے ان کاحکم معلوم ہو،لہذاجب کوئی چیز حلّت وحرمت کے مابین متردّد ہو اور اس میں نص يا اجماع مفقود ہو تو مجتہداس میں اجتہادکرکےاسےکسی ايک (حکم) سے ملادےگا "
اس ضمن میں علمائےکرام کے اجتہاد اور شرعی دلائل کی بنیاد پر ان کےفتاوی کوہم ان شاءاللہ دوسرے باب میں نقل کريں گے جن سے مذکورہ اشیاء اوران سےمتعلق دوسرے امورکا حکم ظاہروباہر ہوجائے گا ۔" مشتبہ امورجن سے (شریعت) میں بچنا مطلوب ہے سے متعلق وارد دلائل کے پیشِ نظر اس میں اہلِ علم کا اختلاف ہے ،کہ وہ حلال ہیں یاحرام ؟ اور ان میں کوئی بھی قول ایک دوسرے سے راجح نہیں ہے ، لہذا احتیاط کےطور پر انہیں چھوڑدینا آدمی کے دین وعزت کےلئے زیادہ مناسب ہے ، اورجہاں تک سگریٹ کی بات ہے تو یہ بلاشبہ حرام ہے کیونکہ اس کے اندر بہت زیادہ نقصان ہےاوراس کے اندرکوئی نفع نہیں ہے اور جولوگ اس کےحرام نہ ہونے کےقائل ہیں ان کےپاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہےکہ کہا جائےکہ یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے ، بلکہ واضح دلیل ان کے پاس ہے جوتحریم کے قائل ہیں، لہذا (سگریٹ) مشتبہات میں سےنہیں بلکہ محرمات میں سے ہے، اس لئےایک مسلمان پراس کوچھوڑنا لازم ہے،اور (واضح رہے کہ) ہر ایک اختلاف کی طرف نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس اختلاف کی طرف دیکھا جاتا ہےجس کےلئے شریعت میں کوئی وجہ ہوتی ہے ، واللہ أعلم" (ویب : نداء الایمان ( فتوی نمبر 18948)