ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اس طرح باطنی حضرات کی تاویلات ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے شرعی واجبات سے راہِ فرار اختیار کیا ہے۔ بہرحال اگر کسی نے متواتر قراء ات کا اِنکار معقول تاویل کی وجہ سے کیاہے تو اُسے کافر نہیں قرار دیاجائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص تکبر و عناد اور بدنیتی کی بناء پر قراء تِ متواترہ کا اِنکار کرتا ہے تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے ایسا انسان بالاجماع گمراہ اور اہل ایمان کے راستہ سے ہٹا ہوا ہے۔ (رشد:۲؍۱۵۸)
یہی رائے جمہور کی بھی ہے کہ قراء اتِ متواترہ کے بارے میں علم ہونے کے باوجود جو شخص ان کا اِنکار کرے گا اسے بلا تردد کافر قرار دیا جائے گا۔علامہ ابن جزری فرماتے ہیں:
’’أن الإجماع منعقد علی أن من زاد حرکۃ أو حرفا في القرآن أو نقص من تلقاء نفسہ مصرا علی ذلک یکفر۔‘‘ (منجد المقرئین:ص۹۷،۲۴۴)
’’اور اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ جو کوئی اپنی طرف سے قرآن کریم میں کسی حرکت یا حرف کا اِضافہ کرے یا کمی کرے(تنبیہ کیے جانے اور تواتر تسلیم ہوجانے کے باوجود) اس (کمی وزیادتی) پر مصر ہو تو وہ کافر ہے۔‘‘
یہی رائے جمہور کی بھی ہے کہ قراء اتِ متواترہ کے بارے میں علم ہونے کے باوجود جو شخص ان کا اِنکار کرے گا اسے بلا تردد کافر قرار دیا جائے گا۔علامہ ابن جزری فرماتے ہیں:
’’أن الإجماع منعقد علی أن من زاد حرکۃ أو حرفا في القرآن أو نقص من تلقاء نفسہ مصرا علی ذلک یکفر۔‘‘ (منجد المقرئین:ص۹۷،۲۴۴)
’’اور اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ جو کوئی اپنی طرف سے قرآن کریم میں کسی حرکت یا حرف کا اِضافہ کرے یا کمی کرے(تنبیہ کیے جانے اور تواتر تسلیم ہوجانے کے باوجود) اس (کمی وزیادتی) پر مصر ہو تو وہ کافر ہے۔‘‘