• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اور تشہد میں اشارے سے سلام تک!

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
اس روایت کے بارےمیں حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کے افادات نقل کرتا ہوں مکالمات نور پوری سے۔ اضافات میری طرف سے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:

الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین الی یوم الدین۔ اما بعد!

بعض لوگ نبی کریمﷺ کی متواتر سنت یعنی رفع الیدین عند الرکوع والرفع منہ پر طرح طرح کے اعتراض کرکے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن الحمد للہ منکرین رفع الیدین کی یہ ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ رفع الیدین منسوخ ہے اور اس پر صحیح مسلم کی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس روایت سے ان کا دعویٰ تو ثابت ہونا دور رہا، ان کے اپنے تقلیدی مذہب کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:

1 اس روایت میں رسول اللہﷺ کے الفاظ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ» بھی موجود ہیں۔جن کا مطلب ہے: "کیا ہے مجھے یا میرے لیے دیکھتا ہوں میں تمہیں اپنے ہاتھ اٹھانے والے۔" اور واضح ہے کہ رسول کریمﷺ جو رفع الیدین خود کیا کرتے تھے اور جو رفع الیدین صحابہ کرام آپﷺ کی پیروی میں کرتے تھے، وہ رفع الیدین تو آپﷺ کو معلوم ہی تھا۔ پھر اس رفع الیدین سے متعلق آپﷺ «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ» کیسے فرماسکتے ہیں؟ لہٰذا اس روایت سے نبی کریمﷺ کے رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے منسوخ ہونے پر استدلال غلط ہے۔

2 اس روایت میں نبی کریمﷺ کے الفاظ: «كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ» بھی مذکور ہیں، جن کا ترجمہ ہے: "گویا وہ ہاتھ سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہیں" اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو رفع الیدین نبی کریمﷺ کا اپنا معمول ہے اور جو رفع الیدین آپﷺ کی پیروی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ہے، اس رفع الیدین کے متعلق آپﷺ کا یہ الفاظ استعمال فرمانا ناممکن ہے۔لہٰذا اس روایت سے نبی کریمﷺ کی پیروی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول رفع الیدین کے منسوخ ہونے پر استدلال غلط ہے۔ کیونکہ یہ تو آپﷺ کی گستاخی اورتوہین ہے کہ ایک فعل آپﷺ خود کریں ، پھر اسے اتنی بری تشبیہ دیں۔

3 اگر اس روایت سے رفع الیدین منسوخ مانا جائے تو پھر وتر کی تیسری رکعت میں کیا جانے والا رفع الیدین بھی «كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ» کا مصداق ہے کیونکہ قاعدہ ہے: «العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب» یعنی الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوگا، سبب کے خصوص کا نہیں۔تو جیسے اس وتروں والے رفع الیدین کو اس روایت سے منسوخ نہیں کیا گیا، ویسے ہی رکوع جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کو بھی اس کے ثبوت والی احادیث کی بنا پر منسوخ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

4 اس روایت سے رفع الیدین کے منسوخ ہونے پر استدلال کی بنیاد «رَافِعِي أَيْدِيكُمْ» سے رکوع جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین مراد ہونے پر ہے۔لیکن اس مراد کے درست ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس روایت سے اس رفع الیدین کے منسوخ ہونے پر استدلال صحیح نہیں۔ باقی رہا کہ «خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» [مسلم: 430] اور «كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[مسلم: 431]دو مختلف روایتیں ہونے کی وجہ سے اس واقعہ کے دو دفعہ ہونے پر دلالت کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں موقعوں پر رفع الیدین جدا جدا ہو۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے، وہ اس کی دلیل پیش کرے۔اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ پہلی روایت میں سلام کے وقت رفع الیدین مراد نہیں ، تو اس سے یہ کس طرح ثابت ہوگا کہ اس سے رکوع والا رفع الیدین مراد ہے؟ «ومن ادعی فعلیہ البرھان»

5 قیام سے رکوع میں جانا، رکوع سے سر اٹھانا، قومہ سے سجدہ میں جانا، سجدہ سے سراٹھانا، اور جلسہ سے دوسرے سجدہ میں جانا، یہ سب حرکات ہیں جو نماز میں سکون کے خلاف ہیں۔ تو «اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» کا تقاضا ہے کہ یہ مذکورہ بالا حرکات بھی ممنوع یا منسوخ ہوں کیونکہ قاعدہ ہے: «العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب» یعنی الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوگا، سبب کے خصوص کا نہیں۔تو جس طرح نماز کے اندر یہ سب حرکات دوسرے دلائل کی بنا پر درست ہیں، اسی طرح رکوع والا رفع الیدین بھی دوسرے دلائل کی وجہ سے درست ، نبی کریمﷺ کی سنت اور قابل اجر وثواب ہے۔

6 رکوع جاتے اور اس سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین اگر نماز میں سکون کے خلاف ہے تو پھر یقیناً نماز وتر کی تیسری رکعت میں رفع الیدین بھی نماز میں سکون کے خلاف ہے۔ اور «العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب» یعنی الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوگا، سبب کے خصوص کا نہیں۔ والا قاعدہ اس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ لہٰذا حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رکوع والے رفع الیدین کے منسوخ ہونے پر استدلال پر غلط ہے، ورنہ نماز وتر کی تیسری رکعت والے رفع الیدین کا بھی منسوخ ہونا لازم آئے گا۔

7 دیوبندی اور بریلوی دونوں ہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہونے کے دعویدار ہیں اور مقلد کی دلیل اس کے امام کا قول ہی ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ مسلم الثبوت کے صفحہ نمبر 7، طبع: مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ پر لکھا ہے: «واما المقلد فمستندہ قول مجتھدہ لا ظنہ ولا ظنہ» یعنی مقلد کی دلیل صرف اس کے مجتہد کا قول ہے، نہ مقلد کا گمان، نہاس کے مجتہد کا گمان۔ اسی طرح بریلویوں کے حکیم الامت احمد یار نعیمی صاحب فرماتے ہیں: "اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں۔ ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔"[جاءالحق، ص: 478، طبع: مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔دوسرا نسخہ، حصہ: 2، ص: 91، طبع قدیم: نعیمی کتب خانہ] اس لیے مقلد ہونے کی حیثیت سے دیوبندیوں اور بریلویوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ منسوخیت رفع الیدین کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت فرمائیں، ورنہ وہ کم از کم اس موقف میں تو ان کے مقلد نہیں رہیں گے۔

8 درج ذیل محدثین نے اس حدیث پر سلام کے ابواب باندھے ہیں۔1 علامہ نووی، صحیح مسلم مع شرح النووی:«باب الامر بالسکون في الصلاۃ والنہي عن الإشارۃ بالید ورفعہا عند السلام»2 امام ابوداؤد، سنن ابی داؤد: «باب في السلام»3 امام شافعی، کتاب الأم: «باب السلام في الصلاۃ»4 امام نسائی، سنن النسائی: «باب السلام بالأیدي في الصلاۃ وباب موضع الیدین عند السلام و باب السلام بالیدین» 5 امام طحاوی، شرح معانی الآثار: «باب السلام في الصلاۃ کیف ھو؟» 6 بیہقی، السنن الکبری: «باب کراھۃ الإیماء بالید عند التسلیم من الصلاۃ»

9 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت تو تشہد کے بارے میں ہے ، قیام کے بارے میں نہیں ہے۔ بعض لوگ (نماز میں) دوسرے لوگوں کو(ہاتھ کے اشارے سے ) سلام کہتے تھے تو نبیﷺ نے تشہد میں ہاتھ اٹھانے سے منع فرمادیا۔ جس کے پاس علم کا تھوڑا سا حصہ ہی ہے ، وہ اس روایت سے (ترک رفع یدین پر) حجت نہیں پکڑتا۔ یہ بات (تمام علماء میں) مشہور ہے اوراس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (جزء رفع الیدین بنام قرۃ العینین برفع الیدین في الصلاۃ، ص: 31، طبع: دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت، 1983۔ مترجم، ص: 62-61، طبع:مکتبہ اسلامیہ)

0 اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ جو صحیح مسلم کے شارح ہیں، فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے(ترک رفع الیدین عند الرکوع والرفع منہ پر) استدلال عجیب ترین چیزوں ، اور سنت سے جہالت کی قسموں میں سے قبیح ترین قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں ہے بلکہ سلام کے وقت ان کے اشارے کے بارے میں ہے۔ (المجموع شرح المہذب للنووی، ج: 3، ص: 403۔ طبع: دارالفکر۔ دوسرا نسخہ: ج: 3، ص: 373۔ طبع: مکتبۃ الارشاد، جدہ سعودی عرب) «تلک عشرۃ کاملۃ»

والحمد للہ أولاً وآخراً ، وصلی اللہ علی نبیہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت عمدہ۔۔۔جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته۔۔۔

کیا ان الفاظ کے ساتھ ایسی کوئی حدیثِ رسول ہے؟؟

ويكره أن يرفع يديه عند الركوع، وعند رفع الرأس من الركوع لحديث جابر بن سمرة قال :
كنا نرفع أيدينا عند الركوع وعند رفع الرأس من الركوع. فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وقال: «ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة» .

[الکتب > المحيط البرهاني في الفقه النعماني ، ج1 ص371] _____
أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مازة البخاري الحنفي۔۔۔
تاريخ الوفاة 616
@کفایت اللہ
@خضر حیات
@ابن داود
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
جو حوالہ کتاب میں احادیث کا ہے اس میں صحیح مسلم کی حدیث نمبر میں فرق ہے لیکن روایت یہی ہے اور سنن ابی داود میں بھی یہی روایت جو حدیث نمبر دیا ہے کتاب میں، لیکن اس میں ہاتھ اٹھانے کی کیفیت مبھم ہے باقی سدل کی تفصیل شیوخ حضرات بتادیں گے۔

کیا صحیح مسلم میں مسنون رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے؟

المحيط البرهاني في الفقه النعماني
شاملہ


المحيط البرهاني في الفقه النعماني
آرکائیو
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ويكره أن يرفع يديه عند الركوع، وعند رفع الرأس من الركوع لحديث جابر بن سمرةقال :
كنا نرفع أيدينا عند الركوع وعند رفع الرأس من الركوع.

فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وقال: «ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة» .

[الکتب > المحيط البرهاني في الفقه النعماني ، ج1 ص371] _____
أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مازة البخاري الحنفي۔۔۔
مختصراً عرض ہے کہ یہ حدیث میں تحریف ہے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا ان الفاظ کے ساتھ ایسی کوئی حدیثِ رسول ہے؟؟

ويكره أن يرفع يديه عند الركوع، وعند رفع الرأس من الركوع لحديث جابر بن سمرة قال :
كنا نرفع أيدينا عند الركوع وعند رفع الرأس من الركوع. فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وقال: «ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة» .

[الکتب > المحيط البرهاني في الفقه النعماني ، ج1 ص371] _____
أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مازة البخاري الحنفي۔۔۔
تاريخ الوفاة 616
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی اصل حدیث پر فورم پر کئی جگہ گفتگو اور بحث ہوچکی ہے ،
حنفی فقیہ برھان الدین نے جن الفاظ سے یہ حدیث نقل فرمائی واقعی تحریف ہی کہی جاسکتی ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اصل روایت دیکھئے :
محترم شیخ کفایت اللہ نے ایک تھریڈ میں اسے بالتفصیل بیان فرمایا ہے :
نماز میں چارمقامات پررفع الیدین ثابت ہے لیکن بعض حضرات صحیح‌ مسلم کی ایک غیرمتعلق حدیث پیش کرکے عوام کو یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ اس میں مسنون رفع الیدیں سے منع کردیا گیا ہے:
سب سے پہلے صحیح‌ مسلم کی یہ حدیث‌ ملاحظہ ہو:


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ» [صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430]
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔

مذکورہ حدیث کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے کئی دلائل ہیں ۔


پہلی دلیل:

اس میں ہاتھ اٹھانے کا موقع ومحل ذکرنہیں ہے۔

یعنی یہ صراحت نہیں ہے کہ اس حدیث میں‌ قبل الرکوع وبعدہ یا بعدالقیام من الرکعتین والے رفع الیدین سے روکا جارہا ہے جبکہ ان مواقع پررفع الیدین صراحتا ثابت ہے، لہٰذا یہ روایت ان مواقع کے علاوہ دیگرمواقع کے لئے ہے اوران مواقع پرہم بھی کسی طرح کا رفع الیدین نہیں‌ کرتے۔


دوسری دلیل:

رفع الیدین (ہاتھ اٹھانے) کی کیفیت مبہم ہے۔

اورہاتھ اٹھا نا کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلا:
الف: دعاء کے لئے رفع الیدین یعنی ہاتھ اٹھانا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ: «دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ» صحيح البخاري ( 8/ 74)
نیزصحیح بخاری حدیث نمبر4323 کے تحت ایک ایک روایت کا ٹکڑا ہے:
فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ
(صحيح البخاري 5/ 156 رقم 4323 )

ب: سلام کے لئے ہاتھ اٹھانا ، امام طبرانی فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ،ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا بوقت سلام ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کے الفاظ حدیث میں‌ مستعمل ہیں ۔


تیسری دلیل:
قران قران کی تفسیر ہے اسی طرح حدیث حدیث‌ کی تفسیرہے ۔
اورصحیح مسلم کی زیربحث راویت کی تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق بوقت سلام والے رفع الیدین سے ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ،ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔

تنبیہ بلیغ:
یہی حدیث صحیح مسلم میں اسی سند متن کے ساتھ ہیں لیکن اس میں ’’مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کی جگہ ’’«عَلَامَتُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورجب ہم زیربحث روایت کی تشریح میں مسلم کی اس دوسری روایت کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو صحیح مسلم ہی میں اس دوسری حدیث کی تشریح‌ موجود ہے کہ اس سے مراد بوقت سلام والا رفع الیدین ہے۔
تو حنفی حضرات چیخنے لگتے ہیں کہ نہیں مسلم کی اس اگلی حدیث میں تو’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورپہلی حدیث میں’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ ہیں، یہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پہلی روایت میں رفع الیدین کی بات ہے اوردوسری روایت میں اشارہ کی بات ہے۔
اسی لئے ہم نے مسلم والی دوسری حدیث کے الفاظ نہ نقل کرکے طبرانی کے الفاظ نقل کئے ہیں جسم میں رفع الیدین(يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ ) کی صراحت ہے اوریہ روایت بعینہ اس سند متن سے ہے جو مسلم میں آگے موجودہے۔

اورطبرانی کی یہ روایت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مسلم کی اگلی روایت میں ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کے الفاظ اورپہلی روایت میں‌’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ میں‌کوئی فرق نہیں ہے۔
طبرانی کی اس روایت اورمسلم میں اگلی والی روایت دونوں کی سند یکساں ہے:

مسلم کی اگلی والی روایت کی سند یہ ہے:
وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
اورطبرانی والی روایت کی سند یہ ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا ۔۔۔۔۔الخ


چوتھی دلیل :

الفاظ حدیث ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کی دلالت:

اس حدیث میں جس رفع الیدین کا ذکرہے اسے سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اوریہ مسنون رفع الیدین سے ایک الگ شکل ہے کیونکہ اس صورت میں ہاتھ دائیں بائیں ہلے گا جساکہ درج ذیل حدیث اس کی دلیل ہے:
عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ»(المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
اس حدیث‌ میں غورکریں یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں بوقت سلام والے رفع الیدین کا تذکرہ ہے ، اورہاتھ کو دائیں بائیں اٹھانے کی بھی صراحت ہے ، اوریہاں اس صورت کو’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کہا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہواکہ ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کی صورت جس رفع الیدین میں پائے جاتی ہے اس کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


پانچویں دلیل:

یہ ممنوع عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب ہواہے۔

مسلم کی زیربحث حدیث میں ’’ «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ‘‘ کے الفاظ پرغور کریں اس میں جس رفع الیدین پرعمل سے روکا گیا ہے اس عمل کو صرف صحابہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہیں ہے، کیونکہ ایسا ہوتا تویہ عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب نہ کیا جاتا اس لئے کہ یہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا جیسا کہ فریق دوم کو بھی یہ بات تسلیم ہے۔
ایسی صورت میں جمع متکم کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے یعنی اس طرح ’’مالنا نرفع ایدینا‘‘ ۔ اورحدیث میں ایسا نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ ممنوعہ رفع الیدین صرف صحابہ کا اپنا عمل تھا اورمسنون رفع الیدین جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سب عمل کرتے تھے اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


چھٹی دلیل:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹوکنے پرصحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا:

زیربحث مسلم کی حدیث میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے رفع الیدین کی وجہ پوچھی تو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہ تھا کیونکہ ایسا ہوتا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا اورایسی صورت میں صحابہ آپ کا حوالہ فورا دیتے کے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا اس لئے ہم نے بھی کیا ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتاہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: «مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ» ، قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا - أَوْ قَالَ: أَذًى - " وَقَالَ: " إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ: فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا "، سنن أبي داود (1/ 175 رقم 650)
صحابی رسول ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جوتے اتارے اور اپنی بائیں طرف رکھ لیے جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے جوتے نکال ڈالے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟ لوگوں نے جواب دیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور بتایا کہ تمھارے جوتوں میں نجاست لگی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دیکھ لے۔ اگر جوتوں میں گندگی یا نجاست لگی ہو تو ان کو زمین پر رگڑ دے اس کے بعد (ان کو پہن کر) نماز پڑھے۔

اس حدیث میں‌ غورکریں کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر عمل کیا اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا توفورا‌آپ کا حوالہ دے دیا کہ آپ نے ایسا کیا اس لئے ہم نے بھی ایسا کیا۔
معلوم ہوا کہ اگرزیربحث حدیث میں مسنون رفع الیدین پر صحابہ کرام کو ٹوکا گیا ہوتا تو صحابہ یہاں بھی فورآ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ، اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث‌ میں مسنون رفع الیدین سے نہین روکا گیا ہے۔


ساتویں دلیل:

اس عمل کو سرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دینا:

اس حدیث میں ممنوعہ رفع الیدین کوسرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دی گئی ہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کا اس کا تعلق ایسے عمل سے نہیں ہوسکتا جسے آپ نے کبھی بھی انجام دیاہو، اورمسنون رفع الیدین تو آپ کا عمل رہا ہے ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پل کے لئے بھی ایسے عمل کوانجام دے سکتے جس کی اتنی بری مثال ہو؟؟؟



آٹھویں دلیل:

محدثین کا اجماع۔

محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ زیربحث روایت میں ممنوعہ رفع الیدین کا تعلق تشہد کے وقت ہے۔

1: امام نووی نے باب قائم کیا:
بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ، وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلَامِ، وَإتْمَامِ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالْأَمْرِ بِالِاجْتِمَاعِ صحيح مسلم (1/ 322)

2: امام ابوداؤد نے باب قائم کیا:
بَابٌ فِي السَّلَامِ سنن أبي داود (1/ 261)

3: امام نسائی نے باب قائم کیا:
بَابُ السَّلَامِ بِالْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ سنن النسائي (3/ 4)

4 :امام ابونعیم نے باب قائم کیا:
بَابُ الْكَرَاهِيَةِ أَنْ يَضْرِبَ الرَّجُلُ بِيَدَيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلاةِ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم (2/ 53)

5: امام ابن حبان نے باب قائم کیا:
ذِكْرُ الْخَبَرِ الْمُقْتَضِي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا بِأَنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا أُمِرُوا بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الْإِشَارَةِ بِالتَّسْلِيمِ دُونَ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ صحيح ابن حبان (5/ 199)

6:امام ابن ابی شیبہ نے باب قائم کیا:
مَنْ كَرِهَ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ مصنف ابن أبي شيبة (2/ 230)

7: امام ابن حجرنے فرمایا:
وَلَا دَلِيلَ فِيهِ عَلَى مَنْعِ الرَّفْعِ عَلَى الْهَيْئَةِ الْمَخْصُوصَةِ فِي الْمَوْضِعِ الْمَخْصُوصِ وَهُوَ الرُّكُوعُ وَالرَّفْعُ مِنْهُ لِأَنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّ مُسْلِمًا رَوَاهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ التلخيص الحبير ط العلمية (1/ 544)

8: امام نووی نے فرمایا:
وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فَاحْتِجَاجُهُمْ بِهِ مِنْ أَعْجَبِ الْأَشْيَاءِ وَأَقْبَحِ أَنْوَاعِ الْجَهَالَةِ بِالسُّنَّةِ لِأَنَّ الْحَدِيثَ لَمْ يَرِدْ فِي رَفْعِ الْأَيْدِي في الركوع والرفع منه لكنهم كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي حَالَةِ السَّلَامِ مِنْ الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين ويريدون بِذَلِكَ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَنْ الْجَانِبَيْنِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمَنْ لَهُ أَدْنَى اخْتِلَاطٍ بِأَهْلِ الْحَدِيثِ وَيُبَيِّنُهُ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ الْحَجَّاجِ رَوَاهُ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِينَ المجموع شرح المهذب (3/ 403)

9 : امام بخاری نے فرمایا:
وَأَمَّا احْتِجَاجُ بَعْضِ مَنْ لَا يَعْلَمُ بِحَدِيثِ وَكِيعٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ رَافِعِي أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي التَّشَهُّدِ لَا فِي الْقِيَامِ» كَانَ يُسَلِّمُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي التَّشَهُّدِ , وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31)

10: امام ابن الملقن نے فرمایا:
(أما) الحَدِيث الأول، وَهُوَ حَدِيث (جَابر بن) سَمُرَة فجعْله مُعَارضا لما قدمْنَاهُ من أقبح الجهالات لسنة سيدنَا رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم -؛ لِأَنَّهُ لم يرد فِي رفع الْأَيْدِي فِي الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ، وَإِنَّمَا كَانُوا يرفعون أَيْديهم فِي حَالَة السَّلَام من الصَّلَاة، ويشيرون بهَا إِلَى (الْجَانِبَيْنِ) يُرِيدُونَ بذلك السَّلَام عَلَى من (عَلَى) الْجَانِبَيْنِ، وَهَذَا لَا (اخْتِلَاف) فِيهِ بَين أهل الحَدِيث وَمن لَهُ أدنَى اخْتِلَاط بأَهْله، البدر المنير (3/ 485)

تلک عشرۃ کاملہ۔ مؤخرالذکرحوالوں میں عدم اختلاف یعنی اجماع کی صراحت ہے۔



نویں دلیل:

عموم مان لیں تو مسنون رفع الیدین کا استثناء ثابت ہے:

جس طرح اس حدیث‌ کے ہوتے ہوئے احناف تکبیرات عیدین میں اوروترمیں اورتکبیرتحریمہ میں دیگردلائل کی بنا پررفع الیدین کرتے ہیں اسی طرح مسنون رفع الیدین کے بھی دلائل موجود ہیں۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31)



دسویں دلیل:

خود علمائے احناف کا اعتراف:

محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں:
’’باقی رہا اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں ، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے، کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومنع فرمادیا (الورد الشذی :ص: 65)

محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں:
’’لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اورکمزورہے۔۔۔(درس ترمذی: ج 2ص36)
تلک عشرۃ کاملۃ
 
Top