روایتِ مذکور پر اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب
پہلا اعتراض: امام مالک کی تغلیط
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روایت میں امام مالک کو غلطی لگی ہے اور اس روایت پر یہ بے بنیاد اعتراض ثابت کرنے کے لئے وہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کے ایک قول کو دلیل بناتے ہیں۔
چنانچہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(هَكَذَا قَالَ مَالِكٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً) وَغَيْرُ مَالِكٍ يُخَالِفُهُ فَيَقُولُ فِي مَوْضِعٍ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً (إِحْدَى وَعِشْرِينَ) وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً غَيْرَ مَالِكٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
"یعنی امام مالک نے اس حدیث میں گیارہ (11) رکعت کہا ہے اور امام مالک کے علاوہ جس نے امام مالک کی مخالفت کی ہے، اس نے گیارہ رکعت کے بجائے 21 رکعت کہا ہے اور مجھے ایک بھی ایسے راوی کا نام نہیں معلوم جس نے امام مالک کے علاوہ اس حدیث میں گیارہ رکعت کہا ہو واللہ اعلم"
[الاستذكار ٦٨/٢]
امام مالک کے اس قول سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
1) امام مالک کے علاوہ راوی نے 21 رکعات کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ (اس بات کا جواب دوسرے اعتراض کے جواب کے تحت آ رہا ہے)
2) امام مالک رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے گیارہ رکعات کے الفاظ نہیں کئے
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کے قول پر غور کریں کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے ایک بھی ایسے راوی کا نام نہیں معلوم جس نے یہ حدیث روایت کی ہو لیکن امام مالک کی طرح گیارہ رکعات کے الفاظ بولیں ہوں۔ یعنی امام ابن عبد البر نے اپنے علم کے مطابق ایسا کہا ہے کہ چونکہ انہیں ایسا کوئی راوی معلوم نہیں جس نے امام مالک کی 11 رکعات پر متابعت کی ہو تو انہوں نے اس روایت کو امام مالک کی تغلیط قرار دیا۔
حالانکہ یہ خود میں ہی بہت عجیب و غریب بات ہے کیوں کہ اس روایت میں کہیوں نے 11 رکعات کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ پس جب معاملہ ایسا ہے کہ امام مالک کے علاوہ محمد بن یوسف کے دیگر شاگردوں نے بھی 11 رکعت کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ تو امام مالک رحمہ اللہ کا اس روایت میں تغلیط کا دعویٰ اپنے آپ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ والحمدللہ
پہلے متابع: امام یحیی بن سعید القطان
امام ابو بکر بن شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، أَنَّ السَّائِبَ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيٍّ وَتَمِيمٍ فَكَانَا يُصَلِّيَانِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَقْرَآنِ بِالْمِئِينَ» يَعْنِي فِي رَمَضَانَ
[مصنف ابن أبي شيبة ١٦٢/٢ رقم ٧٦٧١]
دوسرے متابع: اسامہ بن زید رحمہ اللہ
امام ابو بکر النیسابوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
حدثني ربيع بن سليمان ثنا ابن وهب حدثني أسامة بن زيد عن محمد بن يوسف عن السائب بن يزيد قال جمع عمر بن الخطاب الناس في قيام رمضان على أبي بن كعب وتميم الداري، كانا يقومان أحد عشرة ركعة
[فوائد أبي بكر النيسابوري (ق ١٣٥/ب) ]
تیسرے متابع: عبد العزیز بن محمد بن عبید الدراوردی رحمہ اللہ
امام سعید بن منصور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدثنا عبد العزيز بن محمد حدثني محمد بن يوسف سمعت السائب بن يزيد كنا نقوم في زمان عمر بن الخطاب بإحدى عشرة ركعة
[المصابيح في صلاة التراويح للسيوطي ص ٣٨ نقله السيوطي عن السنن سعيد بن منصور ]
چوتھے متابع: اسماعیل بن امیة القرشي رحمہ اللہ
امام ابو بکر النیسابوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
حدثنا يوسف بن سعيد ثنا حجاج عن ابن جريج أن محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد أخبره أن السائب بن يزيد أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب و تميم الداري فكان يقومان بمائة في ركعة فما ننصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر. قال فكنا نقوم بأحدى عشر
[فوائد أبي بكر النيسابوري (ق ١٣٥/ب) ]
پانچویں متابع: اسماعیل بن جعفر الانصاری
علی بن حجر السعدی کہتے ہیں کہ:
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ، حَدْثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْكِنْدِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ «أَنَّهُمْ كَانُوا يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَقْرَءُونَ فِي الرَّكْعَةِ بِالْمِائَتَيْنِ حَتَّى إِنَّهُمْ لَيَعْتَمِدُونَ بِالْعِصِيِّ»
[حديث على بن حجر السعدي عن إسمعيل بن جعفر رقم ٤٤٠]
لہذا معلوم ہوا اس روایت میں امام مالک کو غلطی نہیں لگی کیوں کہ گیارہ رکعات کی تعداد نقل کرنے میں پانچ پانچ راوی ان کے متابع ہیں۔
لہذا امام ابن عبد البر کا یہ کہنا کہ مجھے ایک بھی ایسے راوی کا نام معلوم نہیں کہ کسی نے اس روایت میں گیارہ رکعات کہا ہو محض نظریاتی حد تک ہے۔ کیوں کہ امام مالک کی متابعت تو پانچ راویوں نے کر رکھی ہے۔
لہذا امام ابن عبد البر کا یہ اپنا ذاتی گمان ہے۔ غالباً اس لئے کہ ان کے علم میں یہ متابعات نہیں تھیں تب ہی انہوں نے یہ دعوی کیا۔
علامہ سبکی رحمہ اللہ امام ابن عبد البر پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
وَكَأَنَّهُ لَمْ يَقِفْ عَلَى مُصَنَّفِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِي ذَلِكَ فَإِنَّهُ رَوَاهَا كَمَا رَوَاهَا مالك عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ محمد بن يوسف شَيْخِ مالك
اور (لگتا ہے) جیسے کہ وہ (امام ابن عبد البر) مصنف سعید بن منصور سے واقف ہی نا ہوئے ہوں کیوں کہ اس کتاب میں بھی امام مالک ہی کی روایت کے جیسے ، مالک کے شیخ محمد بن یوسف سے عبد العزیز بن محمد نے روایت کیا ہے۔
[الحاوي للفتاوي للسيوطي ٣٣٨/١ نقله السيوطي عن الكتاب السبكي يعني شرح المنهاج]
لہذا ثابت ہوا کہ امام مالک کو اس روایت میں کوئی غلطی یا وہم نہیں لگایا۔
لہذا مزید تفصیل میں جاتے ہوئے ہم اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔