ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 642
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دیوبندی مولوی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نام استعمال کر کے عوام کو گمراہ کرتے ہیں، مگر ان کے اقوال و افعال میں سے صرف وہی قبول کرتے ہیں جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں، اور جو ان کے نظریات کے خلاف ہوں، وہاں وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف التفات بھی نہیں کرتے۔
تراویح کے معاملے میں بھی دیوبندیوں نے یہی طرزِ عمل اپنایا ہے۔ یہ لوگ بغیر کسی ثابت شدہ دلیل کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت تراویح کا حکم دیا تھا، حالانکہ اس کی کوئی مستند سند نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف، جب یہی لوگ تراویح اور تہجد کو الگ الگ نماز قرار دیتے ہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا وہ واضح قول و فعل انہیں یاد نہیں آتا جو اس نظریے کی نفی کرتا ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ جب انہوں نے باجماعت تراویح کا انتظام کیا تو فرمایا:
نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ
یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے، اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں، اس حصے میں یہ نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
[صحيح البخاري، كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، حدیث : ۲۰۱۰]
اس قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تراویح رات کے ابتدائی حصے میں پڑھنے کے بجائے رات کے آخری حصے میں ادا کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور یہی تہجد کا وقت ہے۔ اگر تراویح اور تہجد الگ الگ نمازیں ہوتیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رات کے آخری حصے میں پڑھنے کو افضل نہ کہتے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس روایت میں صراحتاً رکعاتِ تراویح کی تعداد مذکور نہیں لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے اسے ان الفاظ میں واضح بیان کیا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں (تراویح) پڑھائیں۔
[موطأ الإمام مالك، باب ماجاء في قيام رمضان، حديث : ٢٨٠]
اسی طرح علامہ عظیمآبادی نے عون المعبود میں روایت نقل کی ہے :
السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةٍ
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات (تراویح) پڑھتے تھے۔
[عون المعبود وحاشية ابن القيم، ج : ٤، ص : ١٧٥]
دیوبندی مکتبِ فکر کے جید عالم انور شاہ کشمیری نے بھی واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ:
ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان
یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھیں اور کسی بھی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ ادا کی ہوں۔
[العرف الشذي شرح سنن الترمذي، ج : ٢، ص : ٢٠٨]
مزید برآں، انور شاہ کشمیری یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
فقال الحافظ: إن مراد عمر أن الأفضل التراويح آخر الليل
تو حافظ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ تراویح کا رات کے آخری حصے میں پڑھنا افضل ہے۔
[العرف الشذي شرح سنن الترمذي، ج : ٢، ص : ٢٠٨]
یہ تصریحات اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تراویح اور تہجد میں کوئی فرق نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ہی نماز کے دو نام ہیں۔
ہم دیوبندی مکتبِ فکر کے تمام علماء کو چیلنج دیتے ہیں کہ کسی ایک صحیح روایت سے یہ ثابت کر دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان میں ایک ہی رات تراویح اور تہجد کو علیحدہ علیحدہ ادا کیا ہو۔ اگر کوئی ایسی دلیل پیش کر دی جائے تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ دیوبندیت کا مؤقف بھی درست ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی علماء تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
Last edited: