السلام علیکم ! سیرت کی کتابوں میں جہاں کاتبین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے وہاں سیدنا معاویہ کا اسم گرامی بھی موجود ہے ۔
(١)۔ مجمع الزوائد میں ہے :- ""حضرت معاویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا کرتے تھے ۔""
(٢)۔ حضرت زید بن ثابت " کتابت وحی " پر سب سے زیادہ ذمہ داری کے ساتھ لگے رہے ،فتح مکہ کے بعد پھر حضرت معاویہ نے بھی اس کام کو لازمی درجہ میں اختیار کر لیا ، یہ دونوں حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہر وقت موجود رہتے کہ " کتابت وحی " ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یہ دونوں لکھ لیا کریں ،اس کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہ تھا ۔"" ( جوامع السیرۃ )
(٣)۔ حضرت معاویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ، سسرالی رشتہ دار، کاتب اور" وحی الہی "" پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین تھے ۔""( تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی)
(٤)۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما خلیفہ اور صحابی ہیں، فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہوئے اور آپ " کاتب وحی " تھے ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر عسقلانی )
(٥)۔ حضرت ابن عباس سے صحیح سند سے ثابت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا معاویہ کو بلاؤ اور معاویہ "" وحی "" لکھا کرتے تھے ۔"" ( تاریخ الا سلام ، شمس الدین ذہبی )
(٦)۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما مومنین کے ماموں اور " کاتب وحی باری تعالی " ہیں ۔۔ اور مقصد یہ ہے کہ معاویہ دیگر کاتبان وحی کی معیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ "" وحی کی کتابت "" کرتے تھے ۔""
( البدایہ و النہایہ ، ابن کثیر )
(٧)۔ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما مومنین کے ماموں اور رب العالمین کی "" وحی کے کاتب "" ہیں ۔""( تاریخ دمشق ، حافظ ابن عساکر )
(٨)۔ حضرت معاویہ اور ان کے والد فتح مکہ پر اسلام لانے والوں میں سے تھے ،(ابتداء میں ) مؤلفہ القلوب میں بھی رہے اور جو معاویہ ان لوگوں میں سے تھے جو حضور کے لیے "" وحی "" لکھتے رہے ۔ ( الاکمال فی اسماء الرجال ، خطیب تبریزی )
(٩)۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں "" اور یہ قول ( کہ حضرت معاویہ کاتب وحی نہ تھے ) بلا دلیل اور جہالت پر مبنی ہے ۔"" ( منہاج السنہ ، ابن تیمیہ )""
(١)۔ مجمع الزوائد میں ہے :- ""حضرت معاویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا کرتے تھے ۔""
(٢)۔ حضرت زید بن ثابت " کتابت وحی " پر سب سے زیادہ ذمہ داری کے ساتھ لگے رہے ،فتح مکہ کے بعد پھر حضرت معاویہ نے بھی اس کام کو لازمی درجہ میں اختیار کر لیا ، یہ دونوں حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہر وقت موجود رہتے کہ " کتابت وحی " ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یہ دونوں لکھ لیا کریں ،اس کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہ تھا ۔"" ( جوامع السیرۃ )
(٣)۔ حضرت معاویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ، سسرالی رشتہ دار، کاتب اور" وحی الہی "" پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین تھے ۔""( تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی)
(٤)۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما خلیفہ اور صحابی ہیں، فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہوئے اور آپ " کاتب وحی " تھے ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر عسقلانی )
(٥)۔ حضرت ابن عباس سے صحیح سند سے ثابت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا معاویہ کو بلاؤ اور معاویہ "" وحی "" لکھا کرتے تھے ۔"" ( تاریخ الا سلام ، شمس الدین ذہبی )
(٦)۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما مومنین کے ماموں اور " کاتب وحی باری تعالی " ہیں ۔۔ اور مقصد یہ ہے کہ معاویہ دیگر کاتبان وحی کی معیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ "" وحی کی کتابت "" کرتے تھے ۔""
( البدایہ و النہایہ ، ابن کثیر )
(٧)۔ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما مومنین کے ماموں اور رب العالمین کی "" وحی کے کاتب "" ہیں ۔""( تاریخ دمشق ، حافظ ابن عساکر )
(٨)۔ حضرت معاویہ اور ان کے والد فتح مکہ پر اسلام لانے والوں میں سے تھے ،(ابتداء میں ) مؤلفہ القلوب میں بھی رہے اور جو معاویہ ان لوگوں میں سے تھے جو حضور کے لیے "" وحی "" لکھتے رہے ۔ ( الاکمال فی اسماء الرجال ، خطیب تبریزی )
(٩)۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں "" اور یہ قول ( کہ حضرت معاویہ کاتب وحی نہ تھے ) بلا دلیل اور جہالت پر مبنی ہے ۔"" ( منہاج السنہ ، ابن تیمیہ )""