• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پرتمام اعتراضات کے جوابات

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

سلمان امین

مبتدی
شمولیت
نومبر 29، 2012
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
بھائی جان صرف اس سوال کا جواب دے دیں کہ حضرت معاویہ جب ہمارے چوتھے خلیفہ کو خلیفہ ہی تسلیم نہیں کرتے اور ان سے انکارِ بیعت کرتے ہوئے باقاعدہ جنگ کرتے ہیں تو آپ ان کے اس فعل کو کیسے جائز قراردیں گے۔ جب کہ شیعوں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صحابہ کو نہیں مانتے اب اگر خلفا سے جنگ کرنے والے شخص اور اس جنگ میں کئی صحابہ کو قتل کرنے والے شخص، جن میں اویس قرنی جیسی شخصیت بھی شامل ہو، آپ کیسے جائز قرار دیں گے۔
واضح رہے کہ اس جنگ میں امام حسن اور امام حسین بھی شریک ہیں جن کو رسول اللہ نے جنتیوں کے سردار قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جو ان سے جنگ کر گا وہ مجھ سے جنگ کرے گا۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
سلمان امین بھائی یہ بھی واضح رہے کہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست برداری کر دی تھی۔۔۔۔ اس لئے موقف کو جزباتی نہیں حقیقی معنوں میں سمجھیں۔۔۔ اللہ اپکو جزائے خیر دے۔۔۔
 

سلمان امین

مبتدی
شمولیت
نومبر 29، 2012
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
بھائی جان میں نے کوئی بھی جذباتی بات نہیں کہ بلکہ تاریخی حوالوں سے بات کی ہے اور میں نے صرف یہ پوچھا تھا کہ کیا نبی پاک ﷺ کا یہ فرمان توبہ نعوذ باللہ غلط ہے کہ جو حسن، حسین اور علی سے جنگ کرے گا وہ مجھ سے جنگ کرے گا اور اس کے علاوہ۔ ۔ ۔
کیا اس جنگ میں حضرت معاویہ کے خلاف لڑتے ہوئے حضرت اویس کرنی کی شہادت نہیں ہوئی؟
کیا حضرت معاویہ نے حضرت علی کے خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر دیا تھا؟
کیا حضرت عمار یاسر کی شہادت اس جنگ میں نہیں ہوئی جس کے بارے میں نبی کریم کا واضع ارشاد مسند احمد، بخاری، ترمذی اور مسند ابو داٗود میں موجود ہے کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور کیا وہ گروہ حضرت معاویہ کا نہ تھا؟
حافظ ابنِ کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کیا یہ نہیں لکھا کہ ’’ عمار یاسر کے قتل سے نبی کی دی ہوئی اس خبر کا راز کھل گیا کہ حضرت عمار یاسر کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ حضرت علی حق پر تھے اور حضرت معاویہ باطل پر؟
کیا الاستیعاب اور البدایہ والنہایہ میں حضرت معاویہ کے اس فرمان کا ذکر نہیں ہےجو خود انہوں نے اپنے بارے میں فرمایا کہ ’’میں مسلمانوں میں پہلا بادشاہ ہوں‘‘ ؟
کیا حضرت معاویہ کے لشکر نے حضرت علی کے لشکر پر پانی بند کر کے قرآن کو نیزوں پر بلند نہیں کیا؟ (اور ایسا ہی بعد میں ان کے ہونہاربیٹے نے کربلا میں اولادِ رسول ﷺ کے ساتھ کیا)۔
کیا خلافت و ملوکیت، الطبری، ابنِ خلدون اور دوسری کتب میں اس واقعہ کا ذکر نہیں ہے کہ مصر پر قبٖضہ کے بعد حضرت معاویہ نے خلیفہٗ اول حضرت ابو بکر صدیق کے بیٹے محمد بن ابی بکر کو حضرت علی کی حمایت پر گرفتار کر کے قتل کیا اور ان کی لاش ایک مردہ گدھے میں رکھ کر جلائی دی گئی؟
اور سب سے آخر میں بتائیں کہ کیا حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علی کو سالہا سال تک مساجد کے منبروں سے گالیاں نہیں دی جاتی رہیں جبکہ رسولِ خدا کا یہ فرمان بھی موجود تھا کہ جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی؟
بھائی جان یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ میرے ذہن میں موجود ہزاروں سوالات میں سے چند سوالات ہیں جن کو میں نے تاریخ کی مستند ترین کتب سے اٹھایا ہے۔ اب یا تو آپ ان کتب جیسے مسند احمد ، مسند ابو داٗود، الطبری اور ابنِ خلدون، کا انکار کر دیں یا پھر ان ہی کتب میں سے ان سوالات کے جوابات لا دیں اور ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کی احادیث جو اس ضمن میں استعمال کی گئیں ان کو بھی کسی دوسرے مناسب موقعہ پر چسپاں کر دیں تو انتہائی نوازش ہو گی۔
والسلام
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
سلمان امین بھائی اللہ آپ کو جزا دے، یقیناَ آپ ، میں اور دیگر طالب علم حق کی جستجو میں ھیں، اللہ ہم سب کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی دے آمین۔۔۔ سلمان بھائی در اصل میں نے جو بات کہی تھی، اس کا مقصد کچھ اور تھا، اور وہ یہ تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کہ فرمایا کہ " میرا یہ بیٹا (حسن رضی اللہ عنہ) مسلمانوں کے دو بڑے گروھوں کے درمیان صلح کروایگا" او کما قال محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔۔۔ اس سے ایک بات واضع ھے کہ دونو گروہ صلح تک مسلمان ھی رھینگے۔۔۔ یہ حدیث واضع نص ھے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں، اور جنت کے نوجوانوں کے سردار اور حیدر قرار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو امام و خلیفہ ماننا اور ان کے حق میں دست بردار ھونا ایک ایسا تاریخی واقعہ ھے جس سے کسی کو انکار نہیں۔۔۔ مگر باقی روایات جن میں کچھ واقعات ائے ہیں، انکو اوپر بیان کئے گئے مستند واقعات کی روشنی میں دیکھا جایے، اور ساتھ ھی روایات کی اسناد کو جرح و تعدیل کی کسوتی پر پرکھا جائے، اور حضرت معاویہ کے بارے میں نبی کریم محمد الرسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فضائل کو سامنے رکھا جائے، تو ایسے واقعات مثلاَ :
١- حضرت عمار یاسر کی شہادت اس جنگ میں نہیں ہوئی جس کے بارے میں نبی کریم کا واضع ارشاد مسند احمد، بخاری، ترمذی اور مسند ابو داٗود میں موجود ہے کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور کیا وہ گروہ حضرت معاویہ کا نہ تھا۔۔۔
٢- کیا حضرت معاویہ کے لشکر نے حضرت علی کے لشکر پر پانی بند کر کے قرآن کو نیزوں پر بلند نہیں کیا؟

اور باقی کے تمام اعتراضات عدل و انصاف کی کسوٹی پر پرکھ کر سمجھے جا سکتے ہیں۔۔۔

آپ نے ماشا اللہ بھت تحقیق کی ھے ان کتب کو پڑھ کر۔۔ اب آپ سے گزارش ھے کہ مندرجہ ذیل دو مختصر سی کتب کو بھی پڑھ کر مطالعہ اور وسیع کر لیں، آللہ ہم سب کو ہدایت دے، اور " محمد الرسول اللہ و الذین معہ" دونوں کے ساتھ مرتے دم تک پیار اور احترام کا رشتہ قائم رکھے۔۔۔

کتب مندرجہ ذیل ہیں:

خلافت و ملوکیت۔۔تاریخی و شرعی حیثیت - تمام کتب - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز

آئینہ ایام تاریخ - تاریخ - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز

جزاکم اللہ کثیراَ
 

سلمان امین

مبتدی
شمولیت
نومبر 29، 2012
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
شخصیتِ حضرت معاویہ اور ان پر تاریخ کے اعتراضات۔

السلام علیکم
بھائی صاحب سب سے پہلے تو میں جواب دینے میں تاخیر کی وجہ سےمعذرت خواہ ہوں کیوں کہ کچھ مصروفیات کی وجہ سےوقت نکالنا اکژ مشکل ہو جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ میں آپ کے جوابی رابطہ پر آپ کا تہہِ دل سے شکر گزار بھی ہوں۔
مابعد عرض یہ ہے کہ آپ نے منطقی طور پر ایک تو میرے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ کچھ اور سوالات پیدا کر دئیے ہیں۔ مثلا آپ نے کہا کہ
’’ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو امام و خلیفہ ماننا اور ان کے حق میں دست بردار ہونا‘‘
آپ صلح کے شرائط کا مطالعہ فرمائیں اور مجھے کوئی بھی ایسی تحریر دکھائیں جس میں امام حسن نے کہا ہو کہ میں معاویہ کو ’’خلیفہ اور امام‘‘ مانتا ہوں۔ ایسی کوئی بھی بات صلح کی شرائط میں درج نہیں ہے۔
ایک تو ان شرائط پر مکمل طور پر عمل بھی نہ ہو سکا اورپھر تاریخ نے حضرت معاویہ پر ہی حضرت امام حسن کے قتل کا الزام بھی لگایا۔ ’’جیسا کہ، قدیم مورخ ابوزید احمد بن سہل بلخی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ، معاویہ نے جعدہ بنت اشعت بن قیس سے خفیہ سازش کی کہ اگر وہ امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دے تو وہ اس کا نکاح یزید کے ساتھ کر دے گا جب جعدہ نے حضرت معاویہ کے ایما پر امام حسن کو زہر سے شہید کر دیا تو حضرت معاویہ نے ایک لاکھ درہم دے کر جعدہ سے کہا کہ یزید ہمیں عزیز ہے ، کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ جو فرزند رسول کے لئے ہو وہی اس کے لئے ہو۔
(کتاب البدء و التاریخ // بلخی// ص 238// طبع بیروت)‘‘

دوسرا آپ نے فرمایا کہ ’’ حضرت معاویہ کے بارے میں نبی کریم محمد الرسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فضائل کو سامنے رکھا جائے ‘‘
تو بھائی یہاں پر آپ نے کسی ایک بھی فضیلت کا حوالہ نہیں دیا۔ آپ ان کی کم از کم پانچ فضیلتیں بیان کریں اور تمام کی تمام صحاۃستہ میں سے ہوں اور ان کے ریفرنس بھی ساتھ میں دیں تاکہ میں مطالعہ کر کے آپ کے مٗوقف کو جان سکوں۔
تیسرے آپ نے حضرت عمار یاسر کی شہادت اور حضرت علی کے لشکر پر پانی بند کر کے قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کے واقعہ کو عدل اور انصاف کی کسوٹی پر پرکھنے کا کہا تاکہ ان کی سمجھ لگ سکے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ عدل و انصاف کی کسوٹی کیا ہے۔
کیا وہ ذاتِ نبی ہے؟ تو ان کے مطابق تو حدیث بیان فرما دی گئی ہے کہ ’’عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا‘‘ ، یہ تو ہے نبی پاک کی نقطہ نظر حضرت معاویہ کے بارے میں، اب حضرت علی کے بارے میں بھی رسولِ خدا کا نقطہ نظر ان کی بیان کی گئی احادیث کی روشنی میں جان لیں،
رسول اللہ ﷺنے حضرت علی کے بارے میں فرمایا

۱۔اَنْتَ اَخِيْ فَيْ الدَّنْیَاوَالآخِرَةِ “۔ علی آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں۔
۲۔” من سب علیا فقد سبنی ومن سبنی فقد سب اللہ ‘‘، جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اللہ کو گالی دی . (آپ نے اس کا جواب بھی نہیں دیا کہ محرابِ مسجد سے حضرت معاویہ حضرت علی کو جو گالیاں دلواتے رہے ان کوعقلی یا منطقی طور پر آپ کس طرح سے ڈیفنڈ کریں گے؟ اس کی کیا دلیلیں دیں گے ان کو اس حدیث سے کس طرح استشنیٰ حاصل ہے )۔
۳۔ ’’انا مدینۃالعلم و علی بابھا‘‘ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔
۴۔” من آذی علیا فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ ” جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی۔ (حضرت معاویہ کو اس حدیث سے کس طرح استشنیٰ حاصل ہے ، برائے مہربانی بیان فرمائیں)۔
۵۔آنحضرتﷺ نے حضرت علی کےلئے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی نھیں ہو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کی موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا۔
اوراب ایک اور مدلل حدیث
۶۔علی سے مو من کے علاوہ اور کو ئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں رکھے گا۔ (حضرت معاویہ کو اس حدیث سے کس طرح استشنیٰ حاصل ہے ، برائے مہربانی بیان فرمائیں)۔
۷۔ جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کہتے ھیں : ہم منافقین کو اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ،نماز سے رو گردانی اور علی بن ابی طالب سے بغض و نفاق رکھنے سے پہچان لیا کرتے تھے۔ (حضرت معاویہ کو اس حدیث سے کس طرح استشنیٰ حاصل ہے ، برائے مہربانی بیان فرمائیں)۔
تمام تحریر کے حوالہ جات نیچے دے دئیے گئے ہیں تاکہ تحریر میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔ امید ہے کہ آپ اسی طرح جوابات کو حوالہ جات سے مزین کر کے ارسال فرمائیں گے۔ دوسرا آپ نے میرے لئیے کچھ کتب کا مطالعہ تجویز فرمایا ہے، میں الحمدُللہ ان میں سے بیشتر کتب کو پہلے سے ہی پڑھ چکا ہوں۔ اور میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ بھی ان تمام کتب خصوصا مودودی صاحب کی تصنیف ’’خلافت و ملوکیت ‘‘ کا دوبارہ مطالعہ فرمائیں تاکہ مستند تواریخ سے حضرت معاویہ کا کردار آپ کے سامنے آ سکے۔

اور جن کتب کا آپ نے حوالہ دیا ہے میں ان میں سے کچھ پہلے ہی پڑھ چکا ہوں اور آپ سے التماس کرتا ہوں کہ ان میں سےکم از کم ایک کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ آپ دوبارو پڑھ لیں اور دوسرا بھائی جان آپ نے پھر میرے سوالات کا جواب تو نہیں دیا۔
والسلام
سلمان امین۔

حوالہ جات
۱۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۲۹۹۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۱۴۔
۲۔امام احمد بروایت ام سلمہ والحاکم صححہ اور کنزالعمال جلد۶۔
۳۔ترمذی شریف، کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۴۰۱۔
۴۔کنزالعمال بروایت امام احمد و حاکم جلد ۶۔
۵۔(مسند ابو داؤد، جلد ۱ ،صفحہ ۲۹۔حلیة الاولیاء، جلد ۷،صفحہ ۱۹۵۔مشکل الآثار، جلد ۲،صفحہ ۳۰۹۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱، صفحہ ۱۸۲۔تاریخ بغداد، جلد ۱۱،صفحہ ۴۳۲۔خصائص النسائی ،صفحہ ۱۶۔)
۶۔صحیح ترمذی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۱۔صحیح ابن ماجہ ، صفحہ ۱۲۔تاریخ بغداد، جلد ۲، صفحہ ۲۵۵۔حلیة الاولیاء ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۵۔
۷۔ مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام سلمان امین بھائی۔۔۔ آپ نے کھا: "بھائی صاحب سب سے پہلے تو میں جواب دینے میں تاخیر کی وجہ سےمعذرت خواہ ہوں"۔۔۔ سلمان بھائی آپ کو غلط فھمی ھوئی کہ میں نے آپ سے کوئی جواب مانگا تھا۔۔۔ اور دوسرا یہ واضح ھو گیا کہ اس گفتگو کا مقصد حصول ھدایت نہیں بلکہ "جوآب" دے کر اپنا موقف ثابت کرنا ھے۔۔۔ باقی آپ نے پھر ڈھیر سارے حوالاجات بلا سند نقل کر دیئے۔۔۔ افسوس۔۔۔ آپ کی اس "غیر جانبدارانہ" تحقیق کا وزن مندرجہ ذیل حوالے سے ھی ثابت ھو جاتا ھے:

’’انا مدینۃالعلم و علی بابھا‘‘ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے

یہ روایت ترمذی میں ہے جس کی سند میں شریک بن عبداللہ نخعی صاحب ہیں جو ضعیف ہیں پھر یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی ہے جس کی سند میں عبدالسلام صاحب ہروی ہیں وہ بھی ضعیف ہیں لہٰذا یہ روایت قابل اعتماد واحتجاج نہیں۔ امام البانی نے اس حدیث کو موضوع کھا ھے، دیکھئے لسلسلہ احدیث الضعیفہ والموضوعہ۔

اگر اس پر جناب کی تسلی نھیں تو مفصل جرح بھی پیش کر دی جائگی۔ باقی روایات کا بھی کچہ یھی حال ھے۔۔۔ آپ مجھے خلافت و ملوکیت پڑھوا رھے ہیں جو کہ میں پڑھ چکا ہوں، اسے پڑھنے کے بعد ھی میں نے "خلافت و ملوکیت۔۔تاریخی و شرعی حیثیت موئلف حافظ صلاح الدین" پڑھی تو مودودی صاحب کی کتاب کے مغالطات اور جھوٹی روایات کی کلعی کھلی۔ امید ھے کہ اپ بھی "خلافت و ملوکیت۔۔تاریخی و شرعی حیثیت" ایک بار خلوص نیت سے پڑھینگے۔۔۔

آپ نے کھا: علی سے مو من کے علاوہ اور کو ئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں رکھے گا۔ (حضرت معاویہ کو اس حدیث سے کس طرح استشنیٰ حاصل ہے ، برائے مہربانی بیان فرمائیں)۔ میرے بھائی اس طرح تو آپ حضرت عایشہ رضی اللہ عنھا کو بھی اسی صف میں لے ائنگے۔۔۔ اللہ کا خوف کریں۔۔۔ اگر آپ شیعہ نھیں ھیں تو انکے وسوسوں سے بچیئے۔۔۔ اگر شیعہ ھیں تو بات الگ ھے۔۔۔

آپ نے کھا: "بھائی یہاں پر آپ نے کسی ایک بھی فضیلت کا حوالہ نہیں دیا۔ آپ ان کی کم از کم پانچ فضیلتیں بیان کریں اور تمام کی تمام صحاۃستہ میں سے ہوں"
آپ کی یہ فرمائش بھی عجیب ھے بھایئ کہ حوالہ "صحاح ستہ سے ھو"۔۔۔ کیا ان کتب کہ علاوہ، یا ان سے پھلے کوئی حدیث وجود میں نہ تھی۔۔۔۔ یہ کوئی معقول بات نھی لگتی۔۔۔ ھیہ دعوہ میں کر دوں کہ آپ اپنے سارے دعوے صحاح ستہ سے بیان کریں تو آپ کی باتیں اور مسلہ دونوں ھی ختم ھو جائنگے۔۔۔۔ حدیث جو بھی ھو، صحیح الاسناد ھونی چاھئے۔۔۔ اب اپکے سامنے چند احادیث بیان کرتا ھوں:

۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَةَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۷۰۲، والطبرانی فی الکبیر، وصحّحہ الألبانی)
’’اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا۔‘


۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ازدی نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْهُ هَادِیًا مَهدِیًّا وَاهدِ بِهِ ‘‘ (أحمد والترمذي:۳۸۴۲، وقال: حسن غریب)
’’اے اللہ! اس کو راہنمائی کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا دے اور اس کے ذریعے ہدایت کو عام کر۔‘‘

یہ نبی کریمﷺ کی سیدنا اَمیر معاوِیہ کے حق میں دُعا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی دُعا قبول کی۔ اس سے اہل حق کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، جبکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نبی کریمﷺ کے اصحاب کے بارے میں کھوٹ ہے ان کو اس فضیلت سے غم اور تکلیف پہنچتی ہے، نعوذ باﷲمن الخِذلان، لاریب کہ اس حدیث مبارکہ میں سیدنا اَمیر معاوِیہ کی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے۔

میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کے لئے(جنگ) واجب ہے (صحیح بخاری ٢٩٢٤)۔۔۔یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا (دیکھئے صحیح البخاری ٦٢٨٢۔٦٢٨٣)۔۔۔ اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے (دیکھئے صحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠)۔۔۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا۔۔۔جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے۔۔۔ الخ(دلائل النبوۃ للبہیقی ٢\٢٤٣ و سند حسن)۔۔۔

جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمہ اللہ سے روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔ انہوں نے صحیح کیا ہے وہ فقیہ ہیں (صحیح بخاری ٣٧٦٥)۔۔۔

صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ!۔۔۔ اے اللہ!۔۔۔ اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی۔٣٨٤٢ وقال؛ {ھذا حدیث حسن غریب} التاریخ الکبیر للبخاری ٥\٢٤٠، طبقات ابن سعد ٧\٤٨٧، الآحادوالمثانی لابن ابی عاصم ٢\٣٥٨ ح ١١٢٩، مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١١٢٩ مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١٧٨٩٥ وھوحدیث صحیح}۔۔۔ یہ روایت مروان بن محمد وغیرہ نے سعید بن عبدالعزیز سے بیان کر رکھی ہے اور مروان سعید سے روایت صحیح مسلم میں ہے۔{ دیکھئے ١٠٨\١٠٤٣ وترقیم دارلسلام ٢٠٤٣}۔۔۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔مارایت رجلا کان اخلق یعنی للملک من معاویہ۔

میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا... (تاریخ دمشق ٦٢\١٢١ وسند صحیح، مصنف عبدالرزاق ١١\٤٥٣ ح٢٠٩٨٥)۔۔۔

عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقد العذاب۔اے میرے اللہ!۔ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد ٤\١٢٧ ح ١٧١٥٢ وسند حسن، صحیح ابن خزیمہ ١٩٣٨)۔۔۔

ابراہیم بن میسر الطائفی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ { تاریخ دمشق ٦٤\١٤٥ وسند صحیح}۔۔۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور”مرحبا۔۔۔۔۔۔” فرمایا”(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)
مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ
احادیث موجود ہیں دیکھئے سیراعلام النبلاء (٣\١٦٢)۔۔۔

حدیث مبارکہ میں ہے:
« لا تسبوا أحدا من أصحابي . فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ، ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه » ۔۔۔ صحيح مسلم
میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو، اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک یا آدھ چلو (گندم یا جو وغیرہ) کے صدقے کے برابر بھی نہ ہوگا۔

حدیث مبارکہ میں ہے:
« من سب أصحابي، فعليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين » ۔۔۔ صحيح الجامع: 6285
’’جس میرے صحابہ کو برا بھلا کہا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں (بشمول نبی کریمﷺ) کی لعنت ہے۔‘‘

ان احادیث میں سب صحابہ اور اوپر بیان کردہ میں خصوصا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ھے جس سے واضح ھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ میں سے تھے، اور بھت فضیلت والے صحابی تھے:

اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں۔

﴿ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَ‌اثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الحديد
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلائی (جنت) کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (10)

اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ سے خواہ وہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوں یا بعد میں حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے، اور یہاں ’حسنیٰ‘ سے مراد جنت ہے، ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام﷢ جنتی ہیں۔۔۔

آپ نے کہا: آپ نے حضرت عمار یاسر کی شہادت اور حضرت علی کے لشکر پر پانی بند کر کے قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کے واقعہ کو عدل اور انصاف کی کسوٹی پر پرکھنے کا کہا تاکہ ان کی سمجھ لگ سکے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ عدل و انصاف کی کسوٹی کیا ہے:

بھائی کسوٹی واضح ھے کہ تاریخ پر قرآن کی طرح آنکھیں بند کر کہ ایمان نھیں لانا بلکہ بلا سند روایات کو دیوار پر مارنا ھے، اور جو روایات سند کے ساتھ موجود ھیں انکے راویوں کو اصول جرح و تعدیل پر پرکھ کر پھر اپنا موقف بنانا ھے۔۔۔۔ کیونکہ یہ موقف کسی عام آدمی کے بارہ میں نھیں بلکہ اللہ کے پاک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک صحابہ کے بارہ میں ھے۔۔۔

﴿ مُّحَمَّدٌ رَّ‌سُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَ‌اهُمْ رُ‌كَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ‌ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْ‌عٍ أَخْرَ‌جَ شَطْأَهُ فَآزَرَ‌هُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّ‌اعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ‌ ۗ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة الفتح
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔

صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« يأتي على الناس زمان يغزو فئام من الناس , فيقال لهم: فيكم من رأى الرسول صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون نعم , فيفتح لهم , ثم يغزو فئام من الناس , فيقال لهم فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فيقولون نعم , فيفتح لهم , ثم يغزو فئام من الناس , فيقال لهم: هل فيكم من رأى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فيقولون: نعم , فيفتح لهم » ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم
ایک وقت آئے گا کہ جب کچھ لوگ جہاد کریں گے، تو کہا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی صحابی ہے؟ وہ کہیں گے، ہاں! تو انہیں (اس صحابی کی برکت سے) فتح ہوجائے گی، پھر کچھ جہاد کریں گے اور کہا جائے گا کہ تم میں کوئی تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! تو انہیں بھی فتح ہوجائے گی۔ پھر کچھ لوگ لڑائی کریں گے اور کہا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی تبع تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! تو اس برکت سے انہیں بھی فتح ہوجائے گی۔

آخر میں سلمان بھائی سے ایک سوال ھے جواب ضرور دیجیئگا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی رسول صلی اللہ وسلم مانتے ھیں؟

اللہ ہمیں ھدایت دے اور دلوں سے کسی بھی صحابی کا بغض دور رکھے۔ آمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top