وعلیکم السلام
سلمان امین بھائی۔۔۔ آپ نے کھا:
"بھائی صاحب سب سے پہلے تو میں جواب دینے میں تاخیر کی وجہ سےمعذرت خواہ ہوں"۔۔۔ سلمان بھائی آپ کو غلط فھمی ھوئی کہ میں نے آپ سے کوئی جواب مانگا تھا۔۔۔ اور دوسرا یہ واضح ھو گیا کہ اس گفتگو کا مقصد حصول ھدایت نہیں بلکہ "جوآب" دے کر اپنا موقف ثابت کرنا ھے۔۔۔ باقی آپ نے پھر ڈھیر سارے حوالاجات بلا سند نقل کر دیئے۔۔۔ افسوس۔۔۔ آپ کی اس "غیر جانبدارانہ" تحقیق کا وزن مندرجہ ذیل حوالے سے ھی ثابت ھو جاتا ھے:
’’انا مدینۃالعلم و علی بابھا‘‘ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے
یہ روایت ترمذی میں ہے جس کی سند میں شریک بن عبداللہ نخعی صاحب ہیں جو ضعیف ہیں پھر یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی ہے جس کی سند میں عبدالسلام صاحب ہروی ہیں وہ بھی ضعیف ہیں لہٰذا یہ روایت قابل اعتماد واحتجاج نہیں۔ امام البانی نے اس حدیث کو موضوع کھا ھے، دیکھئے لسلسلہ احدیث الضعیفہ والموضوعہ۔
اگر اس پر جناب کی تسلی نھیں تو مفصل جرح بھی پیش کر دی جائگی۔ باقی روایات کا بھی کچہ یھی حال ھے۔۔۔ آپ مجھے خلافت و ملوکیت پڑھوا رھے ہیں جو کہ میں پڑھ چکا ہوں، اسے پڑھنے کے بعد ھی میں نے "
خلافت و ملوکیت۔۔تاریخی و شرعی حیثیت موئلف حافظ صلاح الدین" پڑھی تو مودودی صاحب کی کتاب کے مغالطات اور جھوٹی روایات کی کلعی کھلی۔ امید ھے کہ اپ بھی "خلافت و ملوکیت۔۔تاریخی و شرعی حیثیت" ایک بار خلوص نیت سے پڑھینگے۔۔۔
آپ نے کھا:
علی سے مو من کے علاوہ اور کو ئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں رکھے گا۔ (حضرت معاویہ کو اس حدیث سے کس طرح استشنیٰ حاصل ہے ، برائے مہربانی بیان فرمائیں)۔ میرے بھائی اس طرح تو آپ حضرت عایشہ رضی اللہ عنھا کو بھی اسی صف میں لے ائنگے۔۔۔ اللہ کا خوف کریں۔۔۔ اگر آپ شیعہ نھیں ھیں تو انکے وسوسوں سے بچیئے۔۔۔ اگر شیعہ ھیں تو بات الگ ھے۔۔۔
آپ نے کھا:
"بھائی یہاں پر آپ نے کسی ایک بھی فضیلت کا حوالہ نہیں دیا۔ آپ ان کی کم از کم پانچ فضیلتیں بیان کریں اور تمام کی تمام صحاۃستہ میں سے ہوں"
آپ کی یہ فرمائش بھی عجیب ھے بھایئ کہ حوالہ "صحاح ستہ سے ھو"۔۔۔ کیا ان کتب کہ علاوہ، یا ان سے پھلے کوئی حدیث وجود میں نہ تھی۔۔۔۔ یہ کوئی معقول بات نھی لگتی۔۔۔ ھیہ دعوہ میں کر دوں کہ آپ اپنے سارے دعوے صحاح ستہ سے بیان کریں تو آپ کی باتیں اور مسلہ دونوں ھی ختم ھو جائنگے۔۔۔۔ حدیث جو بھی ھو، صحیح الاسناد ھونی چاھئے۔۔۔ اب اپکے سامنے چند احادیث بیان کرتا ھوں:
۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَةَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۷۰۲، والطبرانی فی الکبیر، وصحّحہ الألبانی)
’’اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا۔‘‘
۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ازدی نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْهُ هَادِیًا مَهدِیًّا وَاهدِ بِهِ ‘‘ (أحمد والترمذي:۳۸۴۲، وقال: حسن غریب)
’’اے اللہ! اس کو راہنمائی کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا دے اور اس کے ذریعے ہدایت کو عام کر۔‘‘
یہ نبی کریمﷺ کی سیدنا اَمیر معاوِیہ کے حق میں دُعا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی دُعا قبول کی۔ اس سے اہل حق کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، جبکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نبی کریمﷺ کے اصحاب کے بارے میں کھوٹ ہے ان کو اس فضیلت سے غم اور تکلیف پہنچتی ہے، نعوذ باﷲمن الخِذلان، لاریب کہ اس حدیث مبارکہ میں سیدنا اَمیر معاوِیہ کی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے۔
میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کے لئے(جنگ) واجب ہے (صحیح بخاری ٢٩٢٤)۔۔۔یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا (دیکھئے صحیح البخاری ٦٢٨٢۔٦٢٨٣)۔۔۔ اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے (دیکھئے صحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠)۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا۔۔۔جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے۔۔۔ الخ(دلائل النبوۃ للبہیقی ٢\٢٤٣ و سند حسن)۔۔۔
جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمہ اللہ سے روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔ انہوں نے صحیح کیا ہے وہ فقیہ ہیں (صحیح بخاری ٣٧٦٥)۔۔۔
صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ!۔۔۔ اے اللہ!۔۔۔ اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی۔٣٨٤٢ وقال؛ {ھذا حدیث حسن غریب} التاریخ الکبیر للبخاری ٥\٢٤٠، طبقات ابن سعد ٧\٤٨٧، الآحادوالمثانی لابن ابی عاصم ٢\٣٥٨ ح ١١٢٩، مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١١٢٩ مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١٧٨٩٥ وھوحدیث صحیح}۔۔۔ یہ روایت مروان بن محمد وغیرہ نے سعید بن عبدالعزیز سے بیان کر رکھی ہے اور مروان سعید سے روایت صحیح مسلم میں ہے۔{ دیکھئے ١٠٨\١٠٤٣ وترقیم دارلسلام ٢٠٤٣}۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔مارایت رجلا کان اخلق یعنی للملک من معاویہ۔
میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا... (تاریخ دمشق ٦٢\١٢١ وسند صحیح، مصنف عبدالرزاق ١١\٤٥٣ ح٢٠٩٨٥)۔۔۔
عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقد العذاب۔اے میرے اللہ!۔ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد ٤\١٢٧ ح ١٧١٥٢ وسند حسن، صحیح ابن خزیمہ ١٩٣٨)۔۔۔
ابراہیم بن میسر الطائفی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ { تاریخ دمشق ٦٤\١٤٥ وسند صحیح}۔۔۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور”مرحبا۔۔۔۔۔۔” فرمایا”(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)
مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ
احادیث موجود ہیں دیکھئے سیراعلام النبلاء (٣\١٦٢)۔۔۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
« لا تسبوا أحدا من أصحابي . فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ، ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه » ۔۔۔ صحيح مسلم
میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو، اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک یا آدھ چلو (گندم یا جو وغیرہ) کے صدقے کے برابر بھی نہ ہوگا۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
« من سب أصحابي، فعليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين » ۔۔۔ صحيح الجامع: 6285
’’جس میرے صحابہ کو برا بھلا کہا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں (بشمول نبی کریمﷺ) کی لعنت ہے۔‘‘
ان احادیث میں سب صحابہ اور اوپر بیان کردہ میں خصوصا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ھے جس سے واضح ھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ میں سے تھے، اور بھت فضیلت والے صحابی تھے:
اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں۔
﴿ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الحديد
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلائی (جنت) کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (10)
اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ سے خواہ وہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوں یا بعد میں حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے، اور یہاں ’حسنیٰ‘ سے مراد جنت ہے، ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں۔۔۔
آپ نے کہا:
آپ نے حضرت عمار یاسر کی شہادت اور حضرت علی کے لشکر پر پانی بند کر کے قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کے واقعہ کو عدل اور انصاف کی کسوٹی پر پرکھنے کا کہا تاکہ ان کی سمجھ لگ سکے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ عدل و انصاف کی کسوٹی کیا ہے:
بھائی کسوٹی واضح ھے کہ تاریخ پر قرآن کی طرح آنکھیں بند کر کہ ایمان نھیں لانا بلکہ بلا سند روایات کو دیوار پر مارنا ھے، اور جو روایات سند کے ساتھ موجود ھیں انکے راویوں کو اصول جرح و تعدیل پر پرکھ کر پھر اپنا موقف بنانا ھے۔۔۔۔ کیونکہ یہ موقف کسی عام آدمی کے بارہ میں نھیں بلکہ اللہ کے پاک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک صحابہ کے بارہ میں ھے۔۔۔
﴿ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة الفتح
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔
صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« يأتي على الناس زمان يغزو فئام من الناس , فيقال لهم: فيكم من رأى الرسول صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون نعم , فيفتح لهم , ثم يغزو فئام من الناس , فيقال لهم فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فيقولون نعم , فيفتح لهم , ثم يغزو فئام من الناس , فيقال لهم: هل فيكم من رأى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فيقولون: نعم , فيفتح لهم » ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم
ایک وقت آئے گا کہ جب کچھ لوگ جہاد کریں گے، تو کہا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی صحابی ہے؟ وہ کہیں گے، ہاں! تو انہیں (اس صحابی کی برکت سے) فتح ہوجائے گی، پھر کچھ جہاد کریں گے اور کہا جائے گا کہ تم میں کوئی تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! تو انہیں بھی فتح ہوجائے گی۔ پھر کچھ لوگ لڑائی کریں گے اور کہا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی تبع تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! تو اس برکت سے انہیں بھی فتح ہوجائے گی۔
آخر میں سلمان بھائی سے ایک سوال ھے جواب ضرور دیجیئگا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی رسول صلی اللہ وسلم مانتے ھیں؟
اللہ ہمیں ھدایت دے اور دلوں سے کسی بھی صحابی کا بغض دور رکھے۔ آمین