• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بعض اعتراضات اور ان کی حقیقت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بعض اعتراضات اور ان کی حقیقت

(قسط اول)

تحریر: ابوالمحبوب سید انور شاہ راشدی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میں ایک عرصہ سے اپنے ایک عزیز کے واٹس ایپ گروپ میں ہوں، اس گروپ میں مختلف اہل علم کے ساتھ مرزا جہلمی کی وڈیوز بھی شیئر کی جاتی ہیں، میں نے وقتا فوقتا اعتراض کیا کہ سلف صالحین ہر کسی سے علم حاصل کرنے سے روکتے اور منع کرتے تھے، یعنی کہ انہوں نے گمراہ، بدعتی، اور محض کتابوں سے علم حاصل کرنے والے سے علم لینے سے سختی سے منع کیا ہے۔ نیز دشمن صحابہ اور رافضیت پھلانے والے سے تو ویسے ہی متنبہ رہنا چاہیے۔ میں اعتراض کرتا رہا کہ مرزا جہلمی کی یہاں وڈیوز نہ شیئر کی جائیں۔ وہ اول تو ایک نمبر کا جاہل ہے جس نے نہ تو استادوں سے علم حاصل کیا ہے نہ اسے عربی آتی ہے، اور نہ ہی وہ علوم قرآن وعلوم حدیث سے واقف ہے، محض اردو کتابیں دیکھ کر اور وہ بھی رافضی ونیم رافضی حضرات کی تحریرات سے استفادہ کرکے صحابہ کرام کی دشمنی کا چورن بیچتا ہے۔ دوسرا وہ ایک نمبر کا خائن، کذاب، اور متکبر انسان بھی ہے، لہذا ایسا شخص قطعا قطعا اہل نہیں کہ اس سے علم لیا جائے اور اس کی وڈیوز کی نشرو اشاعت ہو۔ میں نے اس حوالے سے سلف صالحین کی نصوص بھی پیش کیں اور عقلی مثالیں بھی ذکر کیں۔لیکن مجال ہے کہ اس کا کوئی مثبت جواب دے کر مجھے مطمئن کیا جاتا۔

ازاں بعد میں نے مسلسل مرزا جہلمی کے خلاف لکھا، اور اسے خوب رگڑا لگایا، اس کے ساتھ بعض اہل علم کی تحاریر اور وڈیوز بھی ارسال کرنا شروع کر دیں۔ جس پر بعض لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوئے، اور مرزا جی کی طرح بکواسات کرنا شروع کر دیں۔ بالآخر ان حضرات نے ہمارے ہاں چلتی پھرتی ایک تحریر بھیجی جس کا عنوان کچھ یوں ہے:
معاویہ کی حقیقت حدیث کی کتابوں میں۔

اور پھر تقریبا گیارہ احادیث پیش کرکے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، آپ ذرا عنوان دیکھیں، اور یہی انداز گیارہ احادیث کے شروع میں اپنایا گیا ہے کہ معاویہ نے یہ کیا، معاویہ نے وہ کیا، معاویہ نے فلاں کام کیا۔۔وغیرہ وغیرہ۔

انداز ایسا حاسدانہ ہے جیسا کہ کسی خبیث الفطرت شخص نے یہ تحریر لکھی ہو۔ جن حضرات نے یہ تحریر نشر کی، تو میں نے گروپ میں احتجاج طور لکھا :

اس تحریر میں اسے لکھنے والے کا بغض بالکل واضح ہے۔
عنوان ہے :
معاویہ کی حقیقت۔۔۔۔۔"
جس نے لکھی ہے یہ تحریر وہ خبیث ہے۔ کیا ایک صحابی رسول کا ایسے نام لیا جاتا ہے؟ پھر کہتے ہم بغض نہیں رکھتے۔ کیا حسد اور بغض کو سینگ ہوتے ہیں جو لازما نظر آئیں؟"

ایسی زہریلی تحریریں نشر کرنے کے باوجود یہ لوگ مصر ہیں کہ ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہے، بلکہ احادیث و روایات ہی نقل کی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہ حضرات اتنے بھولے نہ بنیں جتنا محسوس کرا رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں اتنا سادا سمجھیں کہ جیسے ہم کچھ سمجھ ہی نہیں رہے۔ چلو! ان کے بقول انہوں نے تو محض روایات نقل کی ہیں، لیکن اس کو ہم کیا سمجھیں جو تحریر میں معاویہ معاویہ کرکے ایک صحابی رسول کا روکھا نام ذکر کیا گیا ہے۔کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہم جیسے ادنی انسان سے بھی گئے گزرے ہیں کہ انہیں معاویہ معاویہ کہہ کر انہیں ذکر کیا جا رہا ہے۔! یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان حاسدین کے دلوں میں صحابہ کے خلاف کس قدر خباثت بھری ہوئی ہے، پھر بھی کہتے ہیں ہم صحابہ کو برا بھلا نہیں کہتے؟ دنیا اب اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ تمہاری یہ چالیں نہ سمجھ سکے خیر میں نے اس تحریر کا جواب لکھنا شروع کیا، اور شق اول یا حدیث اول کا جواب لکھ کر میں نے گروپ میں سینڈ کردیا کہ اس کا جواب چاہیے۔ یہ حضرات ابھی تک تو خاموش ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا جواب ملتا ہے۔ بہرحال ! افادیت کی خاطر میری تحریر قسط وار نشر کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:

حدیث اول : سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ بنوامیہ کا شمار بدترین بادشاہوں میں ہے۔
Jam-e-Tirmizi #2226

جواب :

اولا :
یہ الفاظ صحت کے اعتبار سے ثابت ہی نہیں۔
ثانیا : اگر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار بدترین بادشاہوں میں ہوتا ہے تو پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیوں انہیں خلافت حوالے کی تھی، وہ ان کے حق میں کیوں دستبردار ہوگئے تھے، اگر معاویہ رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ )اتنے ہی خراب اور بدترین بادشاہ تھے تو پھر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی شریک جرم ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ "تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان". "کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، برائی اور دشمنی میں نہیں". لہذا سیدناحسن رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوجانا اور انہیں خلافت سپرد کردینا بہت برا کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو الزام دینے سے پہلے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو الزام دیں۔ کیونکہ انہی کی دستبرداری کی وجہ سے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ہیں۔

علاوہ ازیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت اگر اتنی ہی بری تھی تو پھر اس جرم میں دیگر اہل بیت اور وہ کبار وصغار صحابہ بھی شریک ٹھہریں گے جنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور انہیں خلیفہ تسلیم کیا۔

ثالثا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کے متعلق پیشن گوئی کردی تھی کہ : ان ابھی ھذا سید ،ولعل اللہ یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین" (صحیح بخاری۔ )
کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے، شاید کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دوعظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا"

یہاں چند باتیں سمجھنے کی ہیں:

پہلی یہ کہ : جس طرح سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی جماعت عظیم ہیں اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت عظیم ہیں۔کیونکہ وہ بھی جماعت کی کا حصہ اور اس کا ایک فرد ہیں۔

دوسری یہ کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی اس صلح کو پسند فرما رہے ہیں، اور ظاہر ہے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی یہ صلح خلافت کی دستبرداری اور خلافت کی سپردگی پر مشتمل ہے، اور یہی صلح کا نتیجہ ہے، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت سے دستبرداری اور اس کی سپردگی سے خوش تھے، (کیونکہ صلح کا دارومدار اسی پر ہی ہے) لہذا اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ بادشاہت بدترین بادشاہت تھی تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کیوں خوش اور مطمئن ہیں؟ حالانکہ جو کام برا ہو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پسند کر سکتے ہیں؟

تیسری یہ کہ : صحیح بخاری میں ہی یہ حدیث ہے : اول جیش من امتی یغزون البحر" ،"کہ میری امت کا پہلا لشکر بحری لڑائی لڑنے والا جنتی ہے". اسی حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ عنہ کو بطور بادشاہ کے ذکر کیا گیا ہے، اگر ان کی بادشاہت اتنی بری تھی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بطور تعریف وتوصیف کیوں ذکر کر رہے ہیں؟

چوتھی یہ کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بادشاہت کو رحمت والی بادشاہت قرار دیا ہے، چنانچہ ان کا فرمان ہے: اول ھذا الامر نبوۃ ورحمۃ، ثم یکون خلافۃ ورحمۃ، ثم یکون ملک ورحمۃ"(طبرانی کبیر :11/88)
اب اس روایت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کو رحمت والی بادشاہت قرار دیا گیا ہے۔

پانچویں یہ کہ :
تاریخ ہمارے سامنے ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت نہایت ہی شاندار دور رہا ہے، فتوحات کا سلسلہ کہاں سے کہاں پہنچ چکا تھا، اسلام کو بڑا غلبہ حاصل ہوا، اور بھی کئی اچھے کام پایہ تکمیل کو پہنچے تھے۔ کتابوں میں ان کے دور خلافت کو اچھے ادوار میں شامل کیا گیا ہے۔ لہذا جب حقائق یہ ہوں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بادشاہت کو آخر کیسے بدترین بادشاہت کہہ سکتے ہیں؟
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
قسط دوم

دوسری حدیث: آپکے چچا کےبیٹے معاویہ تو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے مال حرام طریقے سے کھائے اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں یہ سن کر عبدﷲ بن عمرو بن العاصؓ تھوڑی دیر تک چپ رہے پھر کہا معاویہ کی اطاعت کرو اس کام میں جو ﷲ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام ﷲ تعالیٰ کےبحکم کے خلاف ہو اس میں معاویہ کا کہنا نہ مانو۔
Sahih Muslim #4776

جواب :

اولا : کیا کسی شخص میں یہ ہمت ہے کہ وہ ذرا ایک صحیح السند روایت دکھائے جس میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی کو حرام اور ناجائز طریقے سے مال کھانے اور دوسروں کونا جائز قتل کرنے کا حکم دیا ہو؟ اگر ہے تو پیش کی جائی۔ ورنہ محض قیاس آرائیوں سے کام نہ لیں۔

ثانیا : سوچنے کی یہ بات ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کرنے اور یہ ناجائز اور مال حرام کھانے کا کس کو حکم دیا تھا؟ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص کو یا دیگر صحابہ یا تابعین کو؟ بالفرض اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کسی کو بھی حکم دیا تھا، تو آخر اس دور میں کسی نے کیوں آکر یہ شکایت نہ کی کہ ہمارا مال معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہڑپ کروایا ہے یا فلاں کو قتل کروایا ہے تاکہ ان پر حد جرم لگے؟ ۔

ثالثا: عبدالرحمان بن عبدرب الکعبۃ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھے، ظاہر ہے اس اعتبار سے وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مخالف ٹھہرتے ہیں۔ اب یہ ممکن ہی نہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اسے ناجائز مال کھانے اور قتل کرنے کا حکم کریں۔ وہ تو کم از کم اپنے ہی ساتھیوں کو یہ حکم دے سکتے ہیں، دوسروں کو نہیں۔ لہذا جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی مخالف جماعت کو یہ حکم دے ہی نہیں سکتے تو پھر عبدالرحمان بن عبدرب الکعبۃ کی یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہ ناجائز مال کھانے کسی کو حکم دیا، نہ ان کے کہنے پر کسی نے اس پر عمل کرتے ہوئے کسی کا ناجائز مال کھایا تو پھر یہ شخص کیسے کہہ رہا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ تو بات در اصل یہ ہے کہ عبدالرحمان در اصل سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حریف تھے۔ ان کی نظر میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ غلط اور ناحق پر ہیں۔ اس اعتبار سے گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال کرنے میں ان کا جو مال خرچ ہو رہا ہے اور جو لوگ ان کے قتل ہو رہے ہیں وہ ناحق ہے، اس لیے مال ناجائز طریقہ پر خرچ ہونا ٹھہرتا ہے۔ اور ان کے لوگوں کا مرنا بھی باطل پر تصور ہوگا۔

حالانکہ یہ محض ان کی رائے تھی۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حق کے زیادہ قریب قرار دیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ باطل پر تھے، بلکہ وہ بھی حق پر ہی تھے، لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے زیادہ قریب تھے حق کے۔ جیساکہ صحیح مسلم میں ہے : عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال : تمرق مارقۃ عندفرقۃ من المسلمین،یقتلھا اولی الطائفتین بالحق"
ترجمہ :"مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے وقت ایک گروہ نکلے گا، اور اس سے وہ جماعت قتال کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی"(2458)

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعتوں میں سے ایک حق اور دوسری باطل پر نہیں بلکہ قرب کا مسئلہ ہے، کہ سیدنا معاویہ بھی حق کے قریب ہونگے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان سے زیادہ حق کے قریب ہونگے۔ بات اگر باطل پر ہونے کی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درج بالا جملہ کے بجائے یہ فرماتے کہ : اس گروہ سے حق پر قائم رہنی والی جماعت قتال کرے گی". مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں باطل کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک کے زیادہ اور دوسرے کے کم قریب ہونے کا مسئلہ ہے۔ لہذا جب معاویہ رضی اللہ عنہ بھی حق ہی پر تھے تو پھر ان کی فوج کا قتل ہونا اور ان کا مال خرچ کرنا کیونکر ناجائز اور باطل ٹھہرے گا؟

تیسری حدیث: حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا کہ ان کے ہاں دو آدمی آئے، وہ دونوں عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے، ان میں سے ہر ایک کہتا تھاکہ اس نے قتل کیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بہتر ہے کہ تم میں سے ایک یہ بات اپنے ساتھی کے بارے میں بخوشی تسلیم کر لے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ایک باغی گروہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر ے گا۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر یہ بات ہے تو تم ہمارے ساتھ کیوں ملے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا: میرے والد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاکر میری شکایت کر دی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ تمہارا والد جب تک زندہ ہے، ان کی بات ماننا اور ان کی نافرمانی نہ کرنا۔ اس لیے میں تمہارے ساتھ تو ہوں مگر لڑائی میں شامل نہیں ہوتا۔
Musnad-e-Ahmad #12350

چوتھی حدیث: رسول اللہﷺ نےفرمایا، افسوس! عمارؓ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی جسے عمارؓ جنت کی دعوت دیں گےاور وہ جماعت عمارؓ کو جہنم کی دعوت دے رہی ہوگی۔
Sahih Bukhari #447

جواب :

اولا : اس حدیث کا مصداق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نہیں ہو سکتے، بلکہ وہ سازشی ٹولہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان سازش رچا رہے تھے۔ چونکہ سازشی ٹولہ تو مسلمانوں کی دونوں جماعتوں میں شامل تھا، ان کی تو روز اول سے ہی مسلمانوں کے مابین فتنہ وفساد اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش رہی، اور ان کے دل صحابہ کے بغض و کینہ سے بھرے ہوئے تھے، یہ ٹولہ فساد بپا کر رہا تھا، اب ایک ایک بندے سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ذاتی طور واقف تو نہیں تھے کہ فلاں بندہ میرا وفادار ہے یا سازشی ٹولے سے اس کا تعلق ہے، ان کی جماعت میں جو شامل ہے تو سب اسے اسی جماعت والا ہی تصور کریں گے، لہذا سیدنا عمار رضی رضی اللہ عنہ کے قتل ہوجانے کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ان کو قتل کرنے والے در اصل وہ لوگ ہیں جوطانہیں ساتھ لائے ہیں، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ۔ یہ محض اس بنا پر کہا کہ چونکہ ان کے قاتل بظاہر تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت سے تھے، مگر اندر کی حقیقت سے وہ ناواقف رہے کہ یہ قاتلین در اصل ان کی جماعت سے نہیں بلکہ ان کا تعلق سازشی ٹولہ سے ہے، اس لیے انہوں نے جلدبازی میں یہ کہہ دیا۔

اعتراض :

اگر کوئی کہے کہ یہ مفہوم تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں سمجھا تھا، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے حدیث بتانے پر انہوں نے جو ری ایکشن دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ دونوں ہی اس حدیث سے اپنی جماعت کو ہی مصداق سمجھ رہے تھے، چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

حدثنا يزيد أَخبرنا العوَّام حدثني أسْوَد بن مسعود عن حنظَلة بن خُويلد العَنَزِي قال: بينما أَنا عند معاوية، إذْ جاءَه رجلان يختصمانِ في رأس عَمّار، يقول كل واحد منهما: أنا قتلتُه، فقال عبد الله ابن عمرو: ليَطبْ به أحدكما نَفْساً لصاحبه، فإني سمعت رسول الله -صلي الله عليه وسلم – يقول: “تقتله الفئة الباغية”، قال معاوية: فما بالُك معنا؟!، قال: إن أبي شكاني إلى رسول الله -صلي الله عليه وسلم -، فقال: “أطِعْ أباك ما دام حياً ولا تَعْصه"، فأنا معكم، ولستَ أقاتل.

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ ری ایکشن دیا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو در اصل انہوں نے ہی قتل کیا ہے جو انہیں وہ اپنے ساتھ لائے ہیں، اشارہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔

یہ بات انہوں نے در اصل اس لیے کی کہ بظاہر یہ قاتلین تھے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کے بندے، لیکن حقیقت میں وہ سبائی وخارجی ٹولہ سے تھے، مگر سیدنا معاویہ اس سے لاعلم تھے، اس لیے ظاہر ہے وہ ان دو بندوں کو اپنی جماعت کو ہی سمجھیں گے، اور اس اعتبار سے پھر وہ وعید کا مصداق بھی اپنی جماعت کو ہی ٹھہرائیں گے، سو دفاع میں تو انہوں نے یہ کہہ دیا۔ لیکن فی الواقع ایسا نہیں تھا۔
رہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تو ان کا بھی یہی حال ہے، وہ در اصل سازشی ٹولہ سے لاعلم رہے، جس کے متعلق ہی یہ وعید تھی۔

لہذا درج بالا تمام صورت کو مدنظر رکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا دراصل سازشی ٹولہ ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سخت وعید بھی اسی ٹولہ کے متعلق فرمائی ہے۔ کسی طور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت اس وعید کا مصداق نہیں ہوسکتے۔

ثانیا : باغی گروہ کے ساتھ تو لڑائی کا حکم دیا گیاہے، جیساکہ قرآن کریم میں ہے،"وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوابینھما فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلواالتی تبغی حتی تفئ الی امر اللہ"۔(الحجرات)
مؤمنین کی دوجماعتیں اگر آپس میں لڑپڑیں تو پھر ان کے درمیان صلح وصفائی کرائیں، پھر اگر ان میں سے کوئی ایک جماعت دوسری پر چڑھ دوڑے تو تم تب تک اس سے قتال جاری رکھو جب تک وہ اللہ کے حکم کی طرف نہ لوٹے".

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شہادت علی رضی اللہ عنہ تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے، اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی وفات کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کو جاری رکھتے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے نہ صرف جنگ بندی کی، بلکہ خلافت سے دستبردار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خلافت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردی، باغی گروہ سے آخر تک قتال کرنے کا حکم ہے یا اتنے سارے اعزازات سے انہیں نوازنا ہوتا ہے؟ جن صحابہ نے زیر بحث حدیث بیان کی ہے وہ بھی ان حالات میں موجود تھے، کیوں یہ تمام صحابہ خاموش رہے۔ بات یہاں تک بھی نہیں رکتی، اس لیے کہ اس دستبرداری ، صلح اور خلافت کی سپردگی پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوش اور مطمئن تھے، جیساکہ قسط اول میں صحیح بخاری سے یہ حدیث ہم نقل کرچکے ہیں۔

قرآن کریم کی مذکورہ آیت کریمہ کو ایک اور انداز سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ (اجتہادی یا مبہم مسئلہ میں) بغاوت دراصل فریقین کے مابین صلح ہوجانے کے بعد ہوتی ہے، شروع میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ :"اگر مؤمنین کی دو جماعتیں آپس میں لڑیں تو ان کے درمیان اصلاح کرو"۔ یہاں اللہ تعالی نے ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو بغاوت کرنے والا نہیں کہا، کیونکہ ابتداء ہر فریق اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے، اپنے اجتہاد سے یا کسی بھی غلط فہمی کی وجہ سے، مگر بعد میں جب معاملات طے ہوجائیں، اور فریقین باہمی رضامندی سے صلح کرلیں، اس کے بعد پھر اگر کوئی فریق اپنے اس عہد کو توڑتے ہوئے دوسرے فریق پر چڑھائی کردے تو اب وہ باغی متصور ہوگا، لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کر رہی ہے تو باغی گروہ کے طور پر نہیں، کیونکہ اول تو فریقین اپنے اپنے اجتہاد سے فیصلہ کر رہے ہیں، اور جب اللہ تعالی نے مجتہد کے لیے خطا کرنے کی صورت میں ایک اجر رکھا ہے تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ موقعہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ وہ اور ان کی جماعت باغی کیوں ٹھہرتی ہے؟ دوسرا ابھی ان کے مابین صلح ہوئی اور نہ ہی کوئی فیصلہ ہوا، لہذا انہیں کیسے باغی کہا جا سکتا ہے؟ علاوہ ازیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے سے سیدنا معاویہ اور ان کی جماعت باغی ٹھہرتی ہے تو پھر انصاف تو یہی کہتا ہے کہ یہی حکم اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ شریک جماعت پر بھی لگنا چاہیے، کیونکہ انہوں نے بھی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی، اور ان کا بھی وہی دعویٰ تھا جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا، لیکن یہ انصاف تو نہیں کہ ایک باغی ٹھہرے اور دوسرے کو چھوٹ اور رعایت مل جائے، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کا دعوی قصاص عثمان کا تھا، جنگ کا مقصد حصول خلافت نہیں بلکہ قاتلین عثمان کو کٹہڑے میں لانا تھا۔ اگر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت جنگ کرنے سے باغی ٹھہرتے ہیں تو یہ الزام سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی آئےگا، اس طرح حقیقی باغی، خوارج وہ اور صحابہ کرام کے یہ دونوں فریق جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ایک صف میں آکھڑے ہوتے ہیں! بتائیے! کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ نہیں ۔ہرگز نہیں۔

ثالثا : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت اگر جہنم کی طرف بلانے والی تھی تو پھر سیدنا عبداللہ بن عمرو خود اس جماعت میں کیوں شامل رہے؟ اگرچہ وہ اس لڑائی میں شریک نہ ہوئے۔ لیکن تھے تو بہرحال اسی جماعت کا حصہ اور فرد۔تو پھر عبداللہ بن عمرو ایسی جماعت میں کیوں شامل ہوسکتے ہیں جس کے متعلق ان کایہ نظریہ ہو؟

صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ :"لاتقوم الساعۃ حتی یقتتل فئتان ،دعواھماواحدۃ".
"قیامت تب تک قائم نہیں ہوگی جب تک (مسلمانوں کی ) دوجماعتیں آپس میں لڑائی یعنی جنگ نہ کرلیں، اور دونوں کا دعوی ایک ہوگا".(صحیح بخاری:رقم:3608)

ظاہر ہے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا اور سیدنا علی اللہ عنہ دونوں کی جماعت کا دعوی ایک ہی ہے تو پھر سیدنا معاویہ کا فریق جہنم کی طرف بلانے والا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ تو خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی طے کرلیا تھا کہ ان دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی جہنم کی طرف بلانے والا۔ جب دعویٰ اور دعوت ایک ہے تو حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ لہذا محض اجتہاد کی بنا پر یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جہنم کی طرف بلانے والے ہیں ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے اجتہاد کیا تو انہیں اس میں معذور قرار دیا گیا ہے، جیساکہ کئی ایک علما ومحدثین نے اس کی صراحت کر رکھی ہے۔ لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کو جہنم کی طرف بلانے والی جماعت قرار دیا جائے۔ باقی جہاں تک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ و دیگر اہل علم نے اس حدیث کو سیدنا معاویہ اور ان کی جماعت کو مصداق ٹھہرا کر جو تاویل کی ہے وہ ہمیں درست معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی حدیث کا سیاق اور مفہوم اس کی اجازت دیتا ہے۔ لہذا ہم اس سے اتفاق نہیں کر سکتے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کا قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ دراصل جہنم کی طرف دعوت دینا تھا؟ حالانکہ ان کے مطالبے کو تو کسی نے غلط نہیں کہا، مطالبہ تو ان کا ٹھیک ہی تھا، اختلاف اگر ہے تو وہ طریقہ پر ہے، اور محض طریقہ کے اختلاف کی وجہ سے اتنی بڑی وعید نہیں آسکتی۔ اس پر خوب فکر کریں۔ واللہ اعلم۔

(جاری ہے)
 
Top