ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بعض اعتراضات اور ان کی حقیقت
(قسط اول)
(قسط اول)
تحریر: ابوالمحبوب سید انور شاہ راشدی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میں ایک عرصہ سے اپنے ایک عزیز کے واٹس ایپ گروپ میں ہوں، اس گروپ میں مختلف اہل علم کے ساتھ مرزا جہلمی کی وڈیوز بھی شیئر کی جاتی ہیں، میں نے وقتا فوقتا اعتراض کیا کہ سلف صالحین ہر کسی سے علم حاصل کرنے سے روکتے اور منع کرتے تھے، یعنی کہ انہوں نے گمراہ، بدعتی، اور محض کتابوں سے علم حاصل کرنے والے سے علم لینے سے سختی سے منع کیا ہے۔ نیز دشمن صحابہ اور رافضیت پھلانے والے سے تو ویسے ہی متنبہ رہنا چاہیے۔ میں اعتراض کرتا رہا کہ مرزا جہلمی کی یہاں وڈیوز نہ شیئر کی جائیں۔ وہ اول تو ایک نمبر کا جاہل ہے جس نے نہ تو استادوں سے علم حاصل کیا ہے نہ اسے عربی آتی ہے، اور نہ ہی وہ علوم قرآن وعلوم حدیث سے واقف ہے، محض اردو کتابیں دیکھ کر اور وہ بھی رافضی ونیم رافضی حضرات کی تحریرات سے استفادہ کرکے صحابہ کرام کی دشمنی کا چورن بیچتا ہے۔ دوسرا وہ ایک نمبر کا خائن، کذاب، اور متکبر انسان بھی ہے، لہذا ایسا شخص قطعا قطعا اہل نہیں کہ اس سے علم لیا جائے اور اس کی وڈیوز کی نشرو اشاعت ہو۔ میں نے اس حوالے سے سلف صالحین کی نصوص بھی پیش کیں اور عقلی مثالیں بھی ذکر کیں۔لیکن مجال ہے کہ اس کا کوئی مثبت جواب دے کر مجھے مطمئن کیا جاتا۔
ازاں بعد میں نے مسلسل مرزا جہلمی کے خلاف لکھا، اور اسے خوب رگڑا لگایا، اس کے ساتھ بعض اہل علم کی تحاریر اور وڈیوز بھی ارسال کرنا شروع کر دیں۔ جس پر بعض لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوئے، اور مرزا جی کی طرح بکواسات کرنا شروع کر دیں۔ بالآخر ان حضرات نے ہمارے ہاں چلتی پھرتی ایک تحریر بھیجی جس کا عنوان کچھ یوں ہے:
معاویہ کی حقیقت حدیث کی کتابوں میں۔
اور پھر تقریبا گیارہ احادیث پیش کرکے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، آپ ذرا عنوان دیکھیں، اور یہی انداز گیارہ احادیث کے شروع میں اپنایا گیا ہے کہ معاویہ نے یہ کیا، معاویہ نے وہ کیا، معاویہ نے فلاں کام کیا۔۔وغیرہ وغیرہ۔
انداز ایسا حاسدانہ ہے جیسا کہ کسی خبیث الفطرت شخص نے یہ تحریر لکھی ہو۔ جن حضرات نے یہ تحریر نشر کی، تو میں نے گروپ میں احتجاج طور لکھا :
اس تحریر میں اسے لکھنے والے کا بغض بالکل واضح ہے۔
عنوان ہے :
معاویہ کی حقیقت۔۔۔۔۔"
جس نے لکھی ہے یہ تحریر وہ خبیث ہے۔ کیا ایک صحابی رسول کا ایسے نام لیا جاتا ہے؟ پھر کہتے ہم بغض نہیں رکھتے۔ کیا حسد اور بغض کو سینگ ہوتے ہیں جو لازما نظر آئیں؟"
ایسی زہریلی تحریریں نشر کرنے کے باوجود یہ لوگ مصر ہیں کہ ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہے، بلکہ احادیث و روایات ہی نقل کی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ حضرات اتنے بھولے نہ بنیں جتنا محسوس کرا رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں اتنا سادا سمجھیں کہ جیسے ہم کچھ سمجھ ہی نہیں رہے۔ چلو! ان کے بقول انہوں نے تو محض روایات نقل کی ہیں، لیکن اس کو ہم کیا سمجھیں جو تحریر میں معاویہ معاویہ کرکے ایک صحابی رسول کا روکھا نام ذکر کیا گیا ہے۔کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہم جیسے ادنی انسان سے بھی گئے گزرے ہیں کہ انہیں معاویہ معاویہ کہہ کر انہیں ذکر کیا جا رہا ہے۔! یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان حاسدین کے دلوں میں صحابہ کے خلاف کس قدر خباثت بھری ہوئی ہے، پھر بھی کہتے ہیں ہم صحابہ کو برا بھلا نہیں کہتے؟ دنیا اب اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ تمہاری یہ چالیں نہ سمجھ سکے خیر میں نے اس تحریر کا جواب لکھنا شروع کیا، اور شق اول یا حدیث اول کا جواب لکھ کر میں نے گروپ میں سینڈ کردیا کہ اس کا جواب چاہیے۔ یہ حضرات ابھی تک تو خاموش ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا جواب ملتا ہے۔ بہرحال ! افادیت کی خاطر میری تحریر قسط وار نشر کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
حدیث اول : سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ بنوامیہ کا شمار بدترین بادشاہوں میں ہے۔
Jam-e-Tirmizi #2226
جواب :
اولا : یہ الفاظ صحت کے اعتبار سے ثابت ہی نہیں۔
ثانیا : اگر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار بدترین بادشاہوں میں ہوتا ہے تو پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیوں انہیں خلافت حوالے کی تھی، وہ ان کے حق میں کیوں دستبردار ہوگئے تھے، اگر معاویہ رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ )اتنے ہی خراب اور بدترین بادشاہ تھے تو پھر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی شریک جرم ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ "تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان". "کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، برائی اور دشمنی میں نہیں". لہذا سیدناحسن رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوجانا اور انہیں خلافت سپرد کردینا بہت برا کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو الزام دینے سے پہلے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو الزام دیں۔ کیونکہ انہی کی دستبرداری کی وجہ سے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ہیں۔
علاوہ ازیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت اگر اتنی ہی بری تھی تو پھر اس جرم میں دیگر اہل بیت اور وہ کبار وصغار صحابہ بھی شریک ٹھہریں گے جنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور انہیں خلیفہ تسلیم کیا۔
ثالثا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کے متعلق پیشن گوئی کردی تھی کہ : ان ابھی ھذا سید ،ولعل اللہ یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین" (صحیح بخاری۔ )
کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے، شاید کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دوعظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا"
یہاں چند باتیں سمجھنے کی ہیں:
پہلی یہ کہ : جس طرح سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی جماعت عظیم ہیں اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت عظیم ہیں۔کیونکہ وہ بھی جماعت کی کا حصہ اور اس کا ایک فرد ہیں۔
دوسری یہ کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی اس صلح کو پسند فرما رہے ہیں، اور ظاہر ہے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی یہ صلح خلافت کی دستبرداری اور خلافت کی سپردگی پر مشتمل ہے، اور یہی صلح کا نتیجہ ہے، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت سے دستبرداری اور اس کی سپردگی سے خوش تھے، (کیونکہ صلح کا دارومدار اسی پر ہی ہے) لہذا اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ بادشاہت بدترین بادشاہت تھی تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کیوں خوش اور مطمئن ہیں؟ حالانکہ جو کام برا ہو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پسند کر سکتے ہیں؟
تیسری یہ کہ : صحیح بخاری میں ہی یہ حدیث ہے : اول جیش من امتی یغزون البحر" ،"کہ میری امت کا پہلا لشکر بحری لڑائی لڑنے والا جنتی ہے". اسی حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ عنہ کو بطور بادشاہ کے ذکر کیا گیا ہے، اگر ان کی بادشاہت اتنی بری تھی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بطور تعریف وتوصیف کیوں ذکر کر رہے ہیں؟
چوتھی یہ کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بادشاہت کو رحمت والی بادشاہت قرار دیا ہے، چنانچہ ان کا فرمان ہے: اول ھذا الامر نبوۃ ورحمۃ، ثم یکون خلافۃ ورحمۃ، ثم یکون ملک ورحمۃ"(طبرانی کبیر :11/88)
اب اس روایت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کو رحمت والی بادشاہت قرار دیا گیا ہے۔
پانچویں یہ کہ : تاریخ ہمارے سامنے ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت نہایت ہی شاندار دور رہا ہے، فتوحات کا سلسلہ کہاں سے کہاں پہنچ چکا تھا، اسلام کو بڑا غلبہ حاصل ہوا، اور بھی کئی اچھے کام پایہ تکمیل کو پہنچے تھے۔ کتابوں میں ان کے دور خلافت کو اچھے ادوار میں شامل کیا گیا ہے۔ لہذا جب حقائق یہ ہوں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بادشاہت کو آخر کیسے بدترین بادشاہت کہہ سکتے ہیں؟
Last edited: