• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید میاں محمد نذیرحسین دہلویؒ … حیات و خدمات

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سید میاں محمد نذیرحسین دہلویؒ … حیات و خدمات

تذکرۃ المشاہیر
ڈاکٹر عبدالغفور راشد​

شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی حسینی حسنی بہاروی ہندی برصغیر پاک وہند کی عظیم المرتبت شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے دور میں شیخ العرب و العجم، نابغہ روز گار فردِ وحید تھے۔ آپ کی حیات و خدمات کا احاطہ ایک مضمون میں ناممکن ہے۔ بلاشک و شبہ اب تک عظیم اہل قلم نے اپنی تحریروں میں حضرت محدث دہلوی کی حیات وصفات کے کئی پنہاں گوشے نمایاںکئے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں بھی خدماتِ حدیث کی تاریخ میں جھانکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخ کے دامن میں کتنی جلیل القدر شخصیات ہیں جو اپنی ذات میں انجمن تھیں، انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں گرانقدر خدمات انجام دیں جو ہماری تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ بالخصوص خدمت ِحدیث کے حوالہ سے برصغیر پاک و ہند کے عظیم مجتہد، امام وفقیہ، مفسر ومحدث سید میاں محمد نذیر حسین حسنی حسینی ہندی بہاروی دہلوی جن کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سلسلہ نسب
سید محمد نذیر حسین بن جواد علی بن عظمت اللہ بن اللہ بخش بن محمد بن ماہ رو بن محبوب بن قطب الدین بن ہاشم بن چاند بن معروف بن بدھن بن محمد بن محمود بن داؤد بن فضل بن فضیل بن ابوالفرح بن حسن عسکری بن نقی بن علی تقی بن موسیٰ رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین علی بن حسین بن علی بن ابی طالب۔آپ ۱۲۲۵ھ کو سورج گڑھا (بہار) میں پیدا ہوئے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ابتدائی تعلیم
آپ نے سولہ برس کی عمر میں قرآن مجید سورج گڑھا کے فضلا سے پڑھا، پھر الہ آباد چلے گئے جہاں مختلف علما سے مراح الارواح، زنجانی، نقود الصرف، جزومی، شرح مائۃ عامل، مصباح ہزیری اور ہدایۃ النحو جیسی کتب پڑھیں۔
پھر آپ نے ۱۲۴۲ھ میں دہلی کا رخ کیا۔ وہاں مسجد اورنگ آبادی محلہ پنجابی کٹرہ میں قیام کیا۔ اسی قیام کے دوران دہلی شہر کے فاضل اور مشہور علما سے کسب ِفیض کیاجن میں مولانا عبدالخالق دہلوی، مولانا شیرمحمد قندھاروی، مولانا جلال الدین ہروی اور مولانا کرامت علی صاحب ِسیرتِ احمدیہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں آپ کا قیام پانچ سال رہا۔ آخری سال ۱۲۴۶ھ کو استادِ گرامی مولانا شاہ عبدالخالق دہلوی نے اپنی دختر نیک اختر آپ کے نکاح میں دے دی۔ اس نکاح میں خاندانِ ولی اللّٰہی کے فرزند ِنبیل شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی اور ان کے بھائی شاہ محمد یعقوب دہلوی بھی شریک ِخاص ہوئے۔
میاں صاحب محدث دہلوی نے شاہ محمد اسحق محدث دہلوی سے بیش قیمت علمی خزینے سمیٹے۔ آپ معرفت ِحدیث و معانی اور شرح و تفسیر کے میدان میں ایک اعلیٰ مقام پر جاپہنچے۔ معضلات و مشکلات ومطابقت کی علمی گتھیاں سلجھانے کی واقفیت ِتامہ حاصل کی۔ اپنے شیخ کی صحبت ِصالح میں عمرعزیز کے تیرہ سال صرف کئے اور ان سے وہ فیوضِ کبیرہ سمیٹنے میں کامیاب ہوئے جہاں تک کوئی دوسرا تلمیذ نہ پہنچ سکا۔ جب حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی شوال ۱۲۵۸ھ کو حج بیت اللہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو اپنے تلمیذ ِرشید حضرت میاں صاحب کو مسند ِحدیث پر بیٹھا کر گئے بلکہ تعلیم نبویؐ اور سنت ِرسول اللہؐ کے لئے انہیں سرزمین ہند میں اپنا خلیفہ قرار دیا۔ پھر اپنے دست ِمبارک سے سند ِحدیث لکھ کر دی۔ تدریس حدیث و افتاء کی اجازت مرحمت کرنے کے ساتھ خلوصِ قلب سے برکت کے لئے دعا کی۔
پھر یقینا فیوض وبرکات نازل ہوئیں اور رحمت کی برکھا برسی، عرب و عجم سے آنے والے کتنے ہی تشنگانِ علم حدیث نے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ حضرت میاں صاحب اس گلشن حدیث کی تقریباً ساٹھ سال آبیاری کرتے رہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خطابات اور القاب
میاں صاحب:علماء وطلبہ کی طرف سے آپ کو میاں صاحب کا لقب ملا۔کیونکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خانوادئہ علمیہ سے تعلق رکھنے والے علما کو میاں صاحب کے نام سے پکارا جاتا تھا اور ویسے بھی یہ لقب ہندوستان میں عزت کانشان تھا۔ اسی لئے آپ کو بھی میاں صاحب کا لقب ملا اور یہ آپ کے نام پر غالب آگیا۔
شیخ الکل فی الکل:جب حضرت میاں صاحب حج کے ارادے سے ۱۳۰۰ھ کو مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو وہاں عرب وعجم کے علماء و فضلا کی کثیر جماعت نے آپ سے استفادہ کیا اور سند ِحدیث حاصل کی۔ ثانیاً آپ علومِ آلیہ و عالیہ میں شیخ العرب و العجم تھے، چنانچہ ان دو حوالوں سے آپ کو شیخ الکل فی الکل کے لقب سے مخاطب کیا گیا۔
شمس العلما:حضرت میاں صاحب کو حکومت ہند کی طرف سے شمس العلماء کا خطاب ملا۔ لیکن آپ ذاتی طور پر میاں صاحب کے لقب کو زیادہ پسند کرتے تھے اس لئے کہ اس میں انکساری کے ساتھ ساتھ آباء و اجداد کے ساتھ روحانی تعلق تھا جواس مسند ِحدیث پر جلوہ افروزی کرچکے تھے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مشہور تلامذہ
جب حضرت میاں صاحب مسند ِحدیث پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ سے استفادہ کرنے کے لئے مشرق و مغرب سے علم حدیث کے طلب گار بھاگے چلے آئے۔ اندرون و بیرونِ ہند سے عربی و عجمی طلبہ کی قطاریں لگ گئیں۔ حبشہ، افریقہ، جزائر، جاوا، سماٹرا، تیونس، کابل، غزنی، قندھار، بخارا، بلخ، یاغستان، ایشیائے کوچک، ایران، خراسان اور دوسرے مقامات سے حدیث کے طلبگار کھنچے چلے آئے جن کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے متجاوز ہے لیکن یہاں چند تلامذہ کا تذکرہ اختصار سے نذرِ قارئین ہے :
حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی:
صاحب ِتفسیر محمدی( ۱۲۲۱ھ تا ۱۳۱۱ھ) :علم و عمل کا یہ آفتاب ضلع فیروز پور کے گاؤں لکھو کے میں مولانا بارک اللہ لکھوی کے آنگن میں طلوع ہوا جس نے پنجاب کے طول وعرض میں ضو فشانیاں کیں۔ حافظ محمد لکھوی نے سن شباب میں پہنچ کر تحصیل علم کے لئے دور دراز کے سفر کئے۔ دیگر کبار شیوخ سے استفادہ کے ساتھ دبستانِ دہلوی میں شیخ الکل فی الکل میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور وہاں سے حظ ِثمین لے کر واپس پلٹے اور موضع لکھوکے میں مدرسہ محمدیہ کے نام سے درسگاہ کا آغاز کیا جس میں تشنگانِ دین حنیف کو سیراب کیا۔ کامیاب تدریس کے ساتھ تصنیفی شعبہ میں بھی گرانمایہ خدمات انجام دیں۔سات ضخیم جلدوں میں ’تفسیر محمدی‘ کے نام سے پنجابی زبان میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ تفسیر قرآن کے علاوہ بھی کتابیں تالیف کیں، خصوصاً ’احوال الآخرۃ‘ اور ’زینۃ الاسلام‘ مقبولِ عام اور پنجاب کے ہر گھر کی زینت بنیں۔مدرسہ محمدیہ آج بھی اوکاڑہ شہر میں جامعہ محمدیہ کے نام سے حضرت مولانا معین الدین لکھوی کی سرپرستی میں مہرتاباں کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولانا شمس الحق ڈیانوی :صاحب ِعون المعبود (۱۲۷۳ھ تا ۱۳۲۹ھ):مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی کا شمار کبار علما میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مقتدر شیوخ حدیث سے استفادہ کیا، بعدمیں حضرت سید میاں صاحب اور علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری یمانی خزرجی سے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ مکمل سیرابی کے بعد دین حنیف کی ترویج و اشاعت، قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس اور تعلیماتِ اسلام کی تصنیف وتالیف کو مقصد ِحیات بنا لیا۔ ان سے قابل ذکر اہل علم نے استفادہ کیا جبکہ تالیفی میدان میں ان کی خدماتِ جلیلہ ناقابل فراموش ہیں۔ خصوصاً سنن ابی داوود کی عربی شرح ’عون المعبود‘ چار جلدوں میں اور ابوداود کی دوسری نامکمل شرح غایۃ المقصود کی صورت میں انہوں نے جو ورثہ چھوڑا ،وہ رہتی دنیا تک چشمہ فیض کا کام کرتا رہے گا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مؤلف تحفۃ الاحوذی(۱۲۸۳ھ تا۱۳۵۳ھ) :علامہ ابویعلی محمد عبدالرحمن مبارکپوری ضلع اعظم گڑھ (ہند) کی مردم خیز بستی مبارکپور میں حکیم حافظ عبدالرحیم کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد ِگرامی سے حاصل کی جو کہ حضرت میاں صاحب کے ہی فیض یافتہ تھے۔ بعد ازاں حضرت میاں صاحب، علامہ حسین بن محسن انصاری، قاضی محمد بن عبدالعزیز مچھلی شہری اور حافظ محمد عبداللہ غازی پوری سے کسب ِفیض کیا۔ تمام عمر کتاب و سنت کی خدمت میں صرف کردی۔ مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جبکہ جامع ترمذی کی چار ضخیم جلدوں میں عربی میں شرح ’تحفۃ الاحوذی‘ ان کے علم و فضل کا شاہکار ہے۔ علماء کی کثیر جماعت نے ان سے استفادہ کیا۔
مولانا محمد حسین بٹالویؒ (۱۲۵۶ھ تا۱۳۳۸ھ):
مولانا محمد حسین بٹالوی نے سن شعور میں پہنچ کر تحصیل علم کے لئے دور دراز کے سفر کئے۔ حضرت میاں صاحب دہلوی، مفتی صدر الدین دہلوی اور مولانا نورالحسن کاندھلوی سے اخذ ِعلم کیا۔ تمام عمر عزیز خدمت ِقرآن و حدیث کے لئے وقف کردی۔ تبلیغ دین، تدریس حدیث، اشاعت السنۃ اور تصنیف و تالیف میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ قادیانیت، چکڑالویت اور فتنۂ انکار حدیث کے لئے شبانہ روز محنت کی۔ بایں سلسلہ متعدد کتابیں تالیف کیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے خلاف پہلا تحریری فتویٰ بھی آپ نے ہی شائع کیا۔ مولانا بٹالوی دشمنانِ اسلام کے لئے سیف ِبے نیام تھے۔ جنہوں نے کسی مداہنت و مصلحت کے بغیر اپنی تبلیغی، تدریسی، تقریری اور تحریری سرگرمیوں کو تادمِ ارتحال جاری و ساری رکھا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حافظ عبداللہ محدث غازی پوری (۱۲۶۰ھ تا۱۳۳۷ھ):مولانا حافظ عبداللہ قصبہ میو ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین نقل مکانی کرکے اعظم گڑھ سے غازی پور منتقل ہوگئے۔ بارہ سال کی صغر سنی میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا۔ حضرت میاں سید محمد نذیرحسین محدث دہلوی کے علاوہ مولانا رحمت اللہ لکھنوی اور مفتی محمد یوسف لکھنوی سے بھی کسب ِفیض کیا۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا:
’’میرے پاس دو عبداللہ آئے ہیں: ایک عبداللہ غزنوی اور دوسرے عبداللہ غازی پوری…‘‘
حضرت غازی پوری کا شمار ماضی کے فحول علما میں ہوتا ہے۔ ۱۹۰۶ء میں ’آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس‘ معرضِ وجود میں آئی تو حضرت غازی پوری صدر اور مولانا ثنا ء اللہ امرتسری ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ جب مسند ِحدیث پہ متمکن ہوئے تو مولانا عبدالسلام مبارکپوری، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا محمد سعید بنارسی اور سید محمد داود غزنوی جیسے مقتدر علما نے ان سے اکتساب کیا۔
حافظ عبدالمنان وزیرآبادی (۱۲۶۷ھ تا ۱۳۳۴ھ):
استادِ پنجاب حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کی نو سال میں بینائی جاتی رہی جبکہ بارہ سال کی عمر میں ماں کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ اوائل عمری میں دل شکستہ ہونے کی بجائے حوصلہ مندی سے دین حنیف کے علم کے حصول کے لئے کرولی، جہلم، مالایار، جونا گڑھ، بھوپال اور دہلی جیسے دور افتادہ علاقہ جات کا کٹھن سفر کیا اور دبستانِ دہلی میں حضرت میاں صاحب سے فیض یابی کے بعد اپنے وطن مراجعت کی تو وزیرآباد میں ’دارالحدیث‘ کے نام سے مسند ِحدیث سجائی۔ تدریس حدیث کی مہک نے فضا کو اس قدر معطر کیا کہ دور دراز سے طالبانِ حق کھنچے چلے آئے۔ مستفید ہونے والوں میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا حافظ محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، مولانا محمد علی لکھوی، حافظ محمد محدث گوندلوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانا محمد باقر،جھوک دادو خاص طور پر قابل ذکر ہیں حضرت حافظ وزیر آبادی خدمت ِحدیث کی بنا پر’استادِ پنجاب‘ کہلائے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولانا محمد ابراہیم آرو ی (۱۲۶۴ھ تا ۱۳۱۹ھ):مولانا محمد ابراہیم آروی بھی حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں سے ایک اہم نام ہے جنہوں نے حصولِ علم کے لئے دور دراز کے سفر کئے۔ دبستانِ دہلی کے علاوہ علی گڑھ، دیوبند اور سہارنپور کے شیوخ الحدیث اور اساتذئہ ادب سے تمام دینی علوم و فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ تحصیل علم کے بعد آرہ اور دوسرے علاقوں میں شمع علم کو فروزاں کیا۔ مولانا آروی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مولانا آروی تبلیغ دین میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے۔ ۱۹۰۴ء میں ’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘ کے قیام کے بعد تبلیغ کیلئے جو خصوصی وفد تشکیل دیا گیا، اسمیں مولانا آروی سرفہرست تھے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قاضی طلا محمد پشاوری (۱۲۲۷ھ تا ۱۳۱۰ھ):
قاضی طلا محمد کا شمار ہندوستان کے مشہور شعراء میں ہوتا ہے۔ پشاور کے ایک معزز و متمول گھرانے میں ان کی ولادت ہوئی۔ سن شعور میں پہنچے تو حصولِ علم کیلئے طویل سفر اختیار کئے۔ حضرت میاں صاحب ، سید عبداللہ غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی اور دیگر فحول علما سے کسب ِفیض کیا۔ تحصیل علم کے بعد تبلیغ و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔ چند اہم کتابیں منصہ شہود پر آئیں۔ عربی شاعری میں خاص مقام حاصل کیا۔ ان کا کلام ’دیوان القاضی طلا محمد البشاوری‘ کے نام سے لاہور سے شائع ہوا ہے جس پر تحقیق و تقدیم پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے کی ہے۔
 
Top