- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
راقم جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور المعروف جامعہ رحمانیہ کی درجہ خامسہ میں زیرتعلیم تھا (تمام اساتذہ سے ہی قریبی تعلقات تھے لیکن استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ سے خصوصی تعلق تھا کیونکہ وہ مجھے لکھنے کی ترغیب دیتے اور مختلف چیزیں لکھواتے رہتے تھے پھر ان کو چیک کرواتا تو بہت خوش ہوتے اور خصوصی دعاوں سے نوازتے رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ،روئے زمین پر میرے بہت بڑے محسن تھے )
اور ان سے سند لینی ہے تم بھی ساتھ چلو ،میں نے پوچھا ۔استاد جی کتنا خرچہ پاس ہونا چاہئے توانھوں نے فرمایا :ایک ہزار کافی ہے ،میں اسی دن استاد محترم شفیق مدنی حفظہ اللہ سے چھٹی لے کر اپنے گاوں گیا اور والدہ محترمہ سے ایک ہزار روپے طلب کئے انھوں نے مجھے اسی وقت ایک ہزار روپے دے دیئے اور دعاوں کے ساتھ رخصت کیا ۔ایک دن استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ ہم نے سندھ ایک علمی سفر کرنا ہے ادھر شیخ نذیر حسین محدث دہلوی کے ایک شاگرد سے ملاقات کرنی ہے
سفر بہت پر سکون ہوا ملتان پر ریل گاڑھی رکی نیچے اترے اور نماز ادا کی کھانا کھایا ۔اس سفر کی خاص بات یہ ہے کہ تمام اساتذہ کرام اور بھائی باری باری برتھ پر آرام بھی کرتے رہے اور باتیں بھی ہوتی رہیں لیکن استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ الگ اکیلی سیٹ پر سارے سفر میں بیٹھے رہے اور تمام احباب کے کہنے پر نہ ہی برتھ پر آرام کے لئے گئے اور نہ ہی سارے سفر میں کسی سے بات کی ،بس خاموشی سے بیٹھے رہے اور ذکر و اذکار میں مصروف رہے ۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔مدرسہ پہنچا تو استاد محترم عبدالرشید راشد رحمہ اللہ نے بتایا کہ ٹکٹیں حاصل کر لی ہیں کل روانگی ہے اگلے دن تمام احباب ریل گاڑھی پر سوار ہو گئے اور سفر شروع ہو گیا اس سفر میں استاد محترم شیخ رمضان سلفی نائب شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ ،شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ ،شیخ آصف اریب افغانی حفظہ اللہ ،شیخ عبدالرب حفظہ اللہ ،بھائی سرور الہی بن نور الہی ،بھائی مرزا عمران حیدر ،بھائی حافظ ریاض آف کنگن پور اور راقم الحروف شریک تھے ۔
روہڑی پر پہنچے تو ادھر ہی اترنا تھا سخت سردی تھی رات کے تقریبا دو بج چکے تھے ادھر سٹاپ پر بھائی عبدالستار سندھی ہمارا انتظار کر رہے تھے ،وہ ہمیں دیکھتے ہی بہت خوش ہوئے اور اسی وقت ہوٹل سے چائے اور انڈے کھلائے ،بھائی عبدالستار نے دو کاروں کا اہتمام کر رکھا تھا ،اسن پر سوار ہوئے اور سفر شروع ہو گیا بھائی عبدالستار نے بتایا کہ پہلے ہم مولانا محمد حیات لاشاری صاحب کے پاس جائیں گے پھر کوئی آگے پروگرام بنائیں گے ۔
غالبا جیکب آباد میں لاشاری صاحب رہتے تھے ان کے گاوں پہنچے تو ان کے بیٹے ہارون سے ملاقات ہوئی وہ بھی بوڑھے تھے انھوں نے کہا کہ ابو جی تو کہیں گئے ہوئے ہیں ۔
ہم نے کہا کہ ہم نے ان سے ملنا ہے ہمیں ان کے پاس لے چلو تو وہ راضی ہو گئے ،اور ہمارے ساتھ کار میں سوار ہوئے ،میں ان کےساتھ بیٹھا تھا ،راستے میں نے ان سے مختلف سولات کئے ایک سوال یہ کیا کہ ابو جی کی گھر میں کیا مصروفیات ہیں تو انھوں نے کہا کہ گھر میں بس مطالعہ کرتے رہتے ہیں ،ابو جی کی عمر کتنی ہے ؟ہارون صاحب نے کہا کہ اس وقت ابو جی کی عمر ١٢٣ سال ہے ۔اور اب ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ایک ٹانگ پر چوٹ آئی ہے اس لئے زیادہ چل پھر نہں سکتے ۔تقریبا ایک گھنٹے کے بعد مولانا محمد حیات لاشاری سندھی رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گئے گاڑیاں ایک لکڑی کی دکان کے باہر کھڑی کی گئیں
ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی کلپوچھنے پر بتایا گیا کہ لاشاری صاحب اندر بیٹھے ہوئے ہیں ،ہم دکان کے صحن سے گزرتے ہوئے اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک سفید لمبی داڑھی والے نہایت کمزور حالت میں ،اونچے قد و قامت والے ،نہایت خوبصورت شکل و صورت میں بزرگ چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں آگے بڑھے تو وہ ہمیں بڑے اچھے اخلاق سے ملے یہ تھے سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد مولانا محمد حیات لاشاری سندھی رحمہ الل