• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرتِ رسول ﷺ اور مستشرقین

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سیرتِ رسول ﷺ اور مستشرقین

(پروفیسر غلام احمد حریریؔ ایم۔ اے)​
اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہ الّذِیْنَ اَصْطَفٰی،
آپ نے سرورِ کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر متعدد تقاریر و مقالات سنے۔ آنحضور ﷺ کی سیرت طیبہ وہ بحر ناپیداکنار ہے، جس کی شناوری حیطۂ بشری سے خارج ہے، استطاعت انسانی کی حد تک مدح و توصیف کے بعد بھی یہی کہنا پڑے گا کہ:
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
حضرتِ گرامی! مجھے جو فریضہ تفویض ہوا ہے، اس کی نوعیت جداگانہ ہے۔ مجھے جس بات کے لئے مامور کیا گیا ہے، وہ اس امر کا اظہار و بیان نہیں کہ جس پاکیزہ ہستی کا تذکار آج مقصود ہے، اس نے کفرستان ارضی کو نعمتِ ایمان سے نوازا۔ اس کی تشریف آوری سے چمنستان دہر میں روح پرور بہار آگئی۔ چرخ نیلی نام نے اس بزم عالم کو یوں آراستہ کیا کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکت، روم اور اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ نہ صرف آتشِ فارسی بلکہ آتش کدۂ ہائے کفر سروید کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی۔ شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا۔ نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔
بخلافِ ازیں مجھے یہ ناخوشگوار فریضہ سونپا گیا ہے کہ سینہ پر پتھر رکھ کر آپ یہ اور میں آپ کو سناؤں کہ آنحضور ﷺ فداۂ اَبی و امی پر کیچڑ کس نے اچھالا؟ آپ کی فرشتوں سے زیادہ پاکیزہ زندگی کو داغدار کرنے کی کوشش کس نے کی؟ آپ کی ازواجِ مطہرات اور امہات المومنین پر ناپاک حملے کس نے کئے؟ جو دین آپ لائے تھے اس کی تضحیک کس نے کی؟ اس کے عقائد و افکار کا مذاق کس نے اڑایا؟ کتبِ الٰہی کو تنقید کے تیروں سے کس نے گھائل کیا؟
آپ محو حیرت سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بد باطن کون ہے؟ آپ کے اس خاموش سوال کے جواب میں یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں اور اس کے لئے معذرت خواہ بھی ہوں کہ وہ تھے ہم اہل پاکستان کے محبوب رہنما اور ہمارے پسندیدہ فضلاء جن کو ہم مشرق شناس اور مستشرقین (Orientlist) کے نام سے یاد کرتے ہیں، اس لئے ان کی یہ برزہ سرائی اور یادہ گوئی بہرحال گوارا ہونی چاہئے، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر (خاک بدہن ایشاں) ان کی یہ ادا پسندیدہ گناہ سے دیکھی جانے کی اس لئے مستحق ہے کہ محبوب کی ہر ادا بھی محبوب ہوتی ہے۔
عزیزانِ من! محبوب کا لفظ میں نے نا دانستہ نہیں بلکہ دانستہ کہا ہے، محبوب کا طرز و انداز، چال ڈھال، نشت و برخاست، طرزِ بود و ماند، زندگی کے آداب و اطوار محب کی نگاہ میں نہ صرف پسندیدہ اور مستحسن ہوتے ہیں بلکہ وہ اس کی ہر ادا سے والہانہ شغف رکھتا اور اس پر سو جان سے فدا ہوتا ہے، یہی حال یہاں بھی ہے۔
ان اعدائے دین کی وہ کون سی ادا ہے جو ہمیں عزیز نہیں۔ ہمارا رہنا سہنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا اور سونا جاگنا انہی کے قالب میں ڈھلا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں کا مہذب طبقہ دل و جان سے اس بات کا حریص ہے کہ اسی رنگ میں رنگ جائے تاکہ اس کے بارے میں کہا جا سکے۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری!
ان دشمنانِ دین کے ساتھ مشابہت و مماثلت کا جو جذبہ ہمارے قلب ذہن میں موج زن ہے، اس کی یہ ادنیٰ کرشمہ سازی ہے کہ اگر وہ حیوانوں کی طرح کھڑے ہو کر بلکہ چلتے پھرتے کاتے پیتے ہیں، تو ہمارا اعلیٰ طبقہ بھی اس کی بھونڈی نقالی شروع کر دیتا ہے۔ اور اگر وہ بے شعور چوپایوں کی طرح کھڑے ہو کر رفعِ حاجت کرتے ہیں، تو ہم میں سے ترقی کا ایک مدعی بھی اسی طرح کرنے لگے اور پھر فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا جو طوفان بدتمیزی ہمارے یہاں اُٹھ رہا ہے، یہ مغرب کی اندھی نقالی کے سوا کیا ہے؟
حضرات! بڑے ادب سے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلقِ خاطر وابستگی او دل بستگی کا یہ عالم ہو ان کے بارے میں ہمارا یہ شکوہ کہاں تک درست ہے کہ انہوں نے محمد ﷺ مصطفےٰ فداہ ابی و امی کا احترا ملحوظ نہیں رکھا۔ قرآن کریم کو اپنی تنقید شدید کا نشانہ بنایا یا دین اسلام کو اپنے اعتراضات کے تیروں سے چھلنی کیا۔ اگر ہم میں دینی زندگی کی کچھ رمق بھی باقی ہوتی، تو اس کی نوبت نہ آتی۔ ہمارا مکتب اپنا فریضہ ادا کرتا تو دینی غیرت و حمیت کا یہ عالم نہ ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مکت نے نقالی کے اس جذبہ کو اور فروغ دیا، جس سے ہماری دینی حس زندہ نہ رہی۔ اسی کے حق میں علامہ فرماتے ہیں۔
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے مانگ لایا ہے فرنگی سے کفن
ہمارے مکتب نے دہریت و الحاد کے دروازے چوپٹ کھول دیئے۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
سامعین کرام! میں موضوع سے بہت دور نکل جانے کے لئے معذرت خواہ ہوں، مگر مستشرقین کا ذِکر ہو تو دل کی بات کو چھپا نہیں سکتا اس لئے بقول امیر مینائی۔
امیرؔ جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
تمہید میں قدرے طوالت ناگزیر تھی۔
سیرت نویسی کا آغاز و ارتقاء
جرمنی کے مشہور مستشرق ڈاکٹر اسپرنگ نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس احتیاط کے ساتھ محفوظ رکھا ہے کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت کے ساتھ قلمبند نہیں ہو سکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کی حد یہ ہے کہ آپ کے افعال و اقوال کی تحقیق کے لئے مسلمانوں نے ‘‘اسماء الرجال‘‘ کے نام سے ایک مستقل فن ایجاد کیا اور اس میں آپ کے دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تیرہ ہزار اشخاص کے نام اور حالاتِ زندگی قلمبند کئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اس زمانہ میں ہوا جب دنیا میں تصنیف و تالیف کا آغاز ہو رہا تھا۔
مگر یہاں یہ سیرت نویسی کی تاریخ مقصود ہے اور نہ مسلم سیرت نویسوں کا تفصیلی تذکرہ۔ اس دلچسپ اور علمی موضوع کے لئے ایک دوسری فرصت درکار ہے۔ یہاں جو کچھ پیش نظر ہے، وہ یہ ہے کہ مستشرقین کون تھے؟ انہوں نے سیرت نویسی کے سلسلہ میں کیا کارنامہ انجام دیا؟ اور یہ کہ ان کی کاوش اہلِ اسلام کے لئے کس حد تک ضرر یا نفع رساں ہے؟
سیرت نویسی اور مستشرقین
اہلِ یورپ ایک مدت تک اسلام سے مطلقاً نابلد تھے، جب وہاں شرق شناسی کا رواج ہوا تو اسلام کے بارے میں طرح طرح کے توہمات میں مبتلا رہے۔ یورپ نے مسلمانوں کو جس طرح جانا اس کو فرانس کا مشہور مصنف ہنری وی کاستری یوں بیان کرتا ہے۔
’’وہ گیت اور کہانیاں جو اسلام کے متعلق یورپ میں قرونِ وسطیٰ میں رائج تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مسلمان ان کو سن کر کیا کہیں گے؟ یہ تمام داستانیں اور نظمیں مسلمانوں کے مذہب کی ناواقفیت کی وجہ سے بغض و عداوت سے بھری ہوئی ہیں۔ جو غلطیاں اور بدگمانیاں اسلام کے متعلق آج تک قائم ہیں ان کا باعث وہی قدیم معلومات ہیں۔ ہر مسیحی شاعر مسلمانوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتا تھا۔ مسلمانوں کے تین خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔‘‘ (سیرت النبی شبلی بحوالہ ترجمہ کتاب ہنری وی کاستری بزبانِ عربی مطبوعہ مصر ص ۸)
سترھویں اور اٹھارھویں صدی
سترہویں صدی کے سنینِ وسطیٰ یورپ کے عصر جدید کا مطلع ہے۔ یورپ کی جدوجہد سعی و کاوش اور حریت و آزادی کا دَور اسی عہد سے شروع ہوتا ہے۔ ہمار مقصد کی جو چیز اس دَور میں پیدا ہوئی، وہ مستشرقین کا وجود ہے۔ جن کی کوشش سے نادر الوجود عربی کتابیں ترجمہ اور شائع ہوئیں، عربی زبان کے مدارس علمی و سیاسی اغراض سے جابجا ملک میں قائم ہوئے اور اس طرح وہ زمانہ قریب آا گیا کہ یورپ اسلام کے متعلق خود اسلام کی زبان سے کچھ سن سکا۔
اس دَور کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ سنے سنائے عامیانہ خیالات کے بجائے کسی قدر تاریخ اسلام اور سیرت النبی ﷺ کی بنیاد عربی زبان کی تصایف پر قائم کی گئی۔ گو موقع بہ موقع سابقہ بے بنیاد معلومات کا نمک مرچ بھی شامل کر دیا گیا۔ اس عہد میں عربی زبان کی تاریخی تصنیفات کا ترجمہ ہوا، مگر یہ عجیب بات ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان مستشرقین نے جن عربی تاریخوں کا ترجمہ کیا وہ اکثر ان عیسائی مصنفین کی تصنیفات تیں جو اسلامی ممالک کے باشندے تھے۔ اِس ضمن میں ارپی نیوس مار گولیتھ ایڈورڈ پوکاک اور ہاٹنجر کے نام قابل ذکر ہیں۔
اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں جب یورپ کی سیاسی قوت اسلامی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی تو مستشرقین کی ایک کثیر التعداد جماعت عالم وجود میں آئی۔ انہوں نے حکومت کے اشارہ سے السنۂ شرقیہ کے مدارس کھولے، مشرقی کتب خانوں کی بنا ڈالی، ایشیاٹک سوسائیٹیاں قائم ہیں اور تصنیفات کی طبع و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔
ان مدارس اور سوسائٹیوں کی تقلید سے تمام ممالک یورپ میں اس قسم کی درس گاہیں اور انجمنیں قائم ہو گئیں۔ ہر یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسروں اور کتب خانوں کا وجود لازمی سمجھا جانے لگا۔ مسلمانوں کے ہاں عربی زبان میں سیرت و مغازی کی جو کتابیں محفوظ تھیں ان میں سے اکثر اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ میں چھپ گئیں۔ اور ان میں سے بہت سی کتب کا ترجمہ یورپین زبانوں میں شائع ہو گیا۔
ان اصل عربی تصنیفات اور ان کے تراجم کی اشاعت نیز اسلامی ممالک و یورپ کے تعلقات اور آزادانہ تحقیقات کے ذوق و شوق نے یورپ میں تاریخ اسلام اور سیرتِ نبوی کے مصنفین کی ایک کھیپ پیدا کر دی۔ سیرت النبی ﷺ پر لکھنے والوں کی کثرتِ تعداد کا ذِکر آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور عربی دان پروفیسر مارگو لیتھ نے اپنی کتاب ’’محمدؐ‘‘ میں اِس طرح کیا ہے۔
’’محمدؐ کے سیرت نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جن کا ختم ہونا غیر ممکن ہے، لیکن اس میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے۔‘‘
مستشرقین کی اقسام
مستشرقین کے نام اور ان کا کام اس قدر وسیع الذیل ہے کہ اس کی تفصیلات ذکر کر کے میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ عرض کروں گا کہ ان کی تین بڑی قسمیں ہیں:
1. جو عربی زبان اور اصل ماخذوں سے آشنا نہیں۔ ان لوگوں کا علمی سرمایہ اوروں کی تصانیف و تراجم ہیں۔ ان کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اس مشکوک اور ناقص مواد کو قیاس آرائی کے قالب میں ڈھال کر دکھائیں۔ مثال کے طور پر مشہور مؤرخ گبن کا نام اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
2. دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو عربی زبان و ادب اور تاریخ و فلسفۂ اسلام کے بہت بڑے ماہر ہیں، لیکن سیرت کے فن سے بے گانہ ہیں۔ ان لوگوں نے سیرت یا دین اسلام پر کوئی مستقل تصنیف نہیں لکھی، لیکن ضمنی موقعوں پر عربی دانی کے زعم میں اسلام اور نبی کریم ﷺ کے متعلق نہایت بے باکی سے جو چاہتے ہیں لکھ جاتے ہیں۔ مثلاً جرمن کا مشہور مستشرق ساخو جس نے طبقات ابن سعد شائع کی ہے۔ اس کی عربی دانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، علامہ بیروی کی کتاب ’’الہند‘‘ کا دیباچہ اس نے جس تحقیق سے لکھا ہے رشک کے قابل ہے، لیکن اسی دیباچہ میں اسلامی امور کے متعلق اس نے ایسی باتیں لکھی ہیں جن کو پڑھ کر بھول جانا پڑتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ جرمنی کے مشہور مستشرق نولایکی نے قرآن مجید کا خاص مطالعہ کیا ہے، لیکن انسائیکلو پیڈیا جلد ۱۶ میں قرآن پر اس کا جو آرٹیکل ہے نہ صرف اس کے تعصب بلکہ اس کی جہالت کے رازِ پنہاں کی بھی پردہ دری کرتا ہے۔
3. تیسری قسم کے وہ مستشرقین ہیں جنہوں نے اسلامی ادب کا کافی مطالعہ کیا ہے، مثلاً پاریا مار گولیتھ مگر علم و فضل کے باوصف ان کا یہ حال ہے کہ: ؎
دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں​
مارگولیتھ نے مسند امام احمدؒ بن حنبل کا ایک ایک حرف پڑھا ہے۔ شاید کسی مسلمان کو بھی اس وصف میں اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں ہو سکتا، لیکن اس نے آنحضرت ﷺ کی سیرت پر جو کتاب لکھی ہے دنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ کوئی کتاب کذب و افتراء اور تاویل و تعصب کی مثال کے لئے پیش نہیں کر سکتی، اس کا اگر کوئی کمال ہے تو یہ ہے کہ سادہ سے سادہ اور معمولی سے معمولی واقعہ کو جس میں برائی کا کوئی پہلو پیدا نہیں ہو سکتا، صرف اپنی ذہانت کے زور سے بد منظر بنا دیتا ہے۔
ڈاکٹر اسپرنگ جرمنی کے مشہور عربی دان ہیں۔ کئی سال مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل رہے حافظ ابن حجر کی کتاب ’’الاصابۃ فی احوال الصحابۃ‘‘ بعد از تصحیح ان ہی نے شائع کی۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ کی سیرت پر ایک ضخیم کتاب ۳ جلدوں میں لکھی تو ہر قاری حیران رہ گیا۔
مستشرقین کا نقد و جرح
یورپین مصنفین نے مذہبی و سیاسی تعصب کی بنا پر سرور کائنات ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ پر جو نکتہ چینی کی ہے اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں۔
1. آنحضرت ﷺ نے مکہ معظمہ میں ایک پیغمبر کی حیثیت سے زندگی بسر کی مگر جونہی مدینہ پہنچ کر بر سرِ اقتدار ہوئے پیغمبری یکایک بادشاہی سے بدل گئی۔ اس کے نتیجہ میں بادشاہی کے لوازم یعنی لشکر کشی، قتل، انتقام، خون ریزی خود بخود پیدا ہو گئے۔
2. کثرتِ ازواج او عورتوں کی جانب رجحان و میلان
3. اشاعت اسلام بز در شمشیر
4. لونڈی غلام بنانے کی اجازت اور اس پر عمل
5. دنیا داروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئی (سیرۃ النبی شبلی جلد اوّل)
یورپین مصنفین نے زبان و قلم کے جو نشتر چلائے ان کی تندی و تیزی جناب رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ گرامی تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ انہوں نے کتابِ الٰہی کو آنحضور ﷺ کی تصنیف قرار دے کر اس میں کیڑے نکالے، اس کی عبارت کو غیر مربوط اور غلط قرار دیا اس کے معانی و مطالب پر تنقید کی اور اسے ادنیٰ درجے کا عوامی کلام ٹھہرایا۔ اسی طرح انہوں نے دین اسلام پر جو حملے کئے ناقابل بیان ہیں۔
حضرات! مستشرقین کی عنایات دین اسلام قرآن کریم اور جناب رسالت مآب ﷺ پر اس قدر زیادہ ہیں کہ ؎
سفینہ چاہئے اس بحرِ بیکراں کے لئے​
میں اپنے اندر یہ جرأت نہیں پاتا کہ مستشرقین کی ہرزہ سرائی پر مشتمل اقتباسات پیش کر کے اپنی زبان کو آلودہ اور آپ کے احساسات کو مجروح کروں ورنہ میں ڈھیروں کتب آپ کے سامنے پیش کر کے مستشرقین کی دریدہ دینی کا ثبوت مہیا کر سکتا ہوں۔
یہی نہیں کہ احقر زمانۂ طلب علم سے مستشرقین کی نصانیف پڑھتا چلا آیا ہے، بلکہ بذاتِ خود مجھے بعض مستشرقین سے ملنے اور ان سے مبادلۂ افکار کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ۱۹۸۵ء جنوری میں پنجاب یونیورسٹی نے لاہور میں ایک مجلس مذاکرہ عالمیہ منعقد کی تھی جس میں احقر نے علماء مصر وشام کے ترجمان کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس دوران مجھے عصر حاضر کے عظیم مستشرق اور موّرخ ہٹیّ کے ساتھ کم از کم دو ہفتے گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ہٹی اگرچہ سکونت کے اعتبار سے امریکی ہیں مگر لبنانی الاصل ہیں اور عربی ان کی مادری زبان ہے، وہ عصر حاضر کے ان مستشرقین میں شمار ہوتے ہیں جو تعصب سے پاک ہیں۔
دوران ملاقات جب احقر نے موصوف کی کتب کے نشان زدہ مقامات پیش کئے جہاں انہوں نے بایں ہمہ اِدّعائے بے تعصبی اسلام اور شارع اسلام پر حملے کئے تھے تو اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے چڑ گئے اور تاویلات کا سہارا لینے لگے۔ اسی طرح اٹلی کے مشہور مستشرق بوسانی کے انگریزی مقالہ کے عربی ترجمہ کے سلسلہ میں جب احقر نے ان سے مل کر مستشرقین کی اسلام دشمنی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جو جواب دیا، وہ اس اعتراف پر مبنی تھا کہ مستشرقین کی اکثریت اسی قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح مجھے انگلینڈ امریکہ فرانس اور جرمنی کے مستشرقین سے ملنے اور بالمشافہ گفتگو کرنے کے متعدد مواقع ہاتھ آئے اور اس بات کا عملی تجربہ حاصل ہوا کہ ان لوگوں کے دل میں اسلام اور شارع اسلام کے خلاف بغض و عناد کا ایک بحر اوقیانوس موج زن ہے۔
مستشرقین کی چابکدستی
حیرت کی بات یہ ہے کہ مستشرقین کی نیش زنی اور قدر ڈھکی چھپی ہوتی ہے کہ ایک صاحب بصیرت شخص ہی کو اس کا احساس ہو سکتا ہے، گویا وہ شربت کے جام میں زہر گھول کر پیش کرتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یورپ کے مادّی علوم سے ناپختہ اذہان اس قدر مرعوب ہیں کہ انہوں نے دینی و روحانی علوم میں بھی یورپ کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا ہے۔ ؎
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نو تعلیم یافتہ نوجوان دینی و اسلامی علوم کو بھی یورپی فکر کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان فضلاء کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اسلامی علوم کا مطالعہ براہِ راست کتاب و سنت کے مآخذ سے کریں، بلکہ مستشرقین نے اپنی ناقص تحقیقات کی بناء پر تاریخ اسلام اور کتاب و سنت کے متعلق جو کچھ لکھ دیا ہے۔ اس کو حرفِ آخر سمجھ لیا جاتا ہے، گویا غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، رازیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور مجد الف ثانیؒ کو نظر انداز کر کے مستشرقین کے خوانِ کرم کی زلہ ربائی ہمارے نوجوانوں ہی کے حصہ میں آئی ہے۔ اس احساس کمتری اور غلامانہ ذہنیت پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
ان مستشرقین نے ایک طرف اسلام کے دینی افکار و اقدار کی تحقیر کا کام کیا اور مسیحی یورپ کے افکار و اقدار کی عظمت ثابت کی تاکہ تعلیم یافتہ طبقہ کا رابطہ اسلام سے کمزور پڑ جائے یا کم از کم یہ سمجھنے پر مجبور ہو کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف انہوں نے بدلتی ہوئی زندگی اور دورِ حاضر کی ارتقاء پذیری کا نام لے کر خدا کے آخری اور ابدی دین پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی اور دقیانوسیت کا مترادف قرار دیا۔ دوسری طرف ان پر ایسی تہذیب کو لا سوار کیا جس نے ان سے دینی حمیت و غیرت کا باقی ماندہ ورثہ بھی چھین لیا۔
یہ مستشرقین اپنے فلسفیانہ افکار کا لاؤ لشکر لے کر اسلامی دنیا پر حملہ آور ہوئے، وہ فلسفلے جن کی خراش خراش بڑے بڑے فلاسفر اور یگانۂ روز اشخاص کی ذہنی کاوش کی رہین منت تھی۔ مستشرقین نے ان پر ایسا علمی اور فلسفیانہ رنگ چڑھایا کہ معلوم ہو یہ فکرِ انسانی کی معراج ہے، مطالعہ و تحقیق اور عقل انسانی کی پرواز اس پر ختم ہے اور غور و فکر کا یہ وہ نچوڑ ہے۔ جس کے بعد کچھ اور سوچا نہیں جا سکتا۔
حالانکہ ان فلسفوں میں کچھ چیزیں وہ تھیں جو تجربات و مشاہدات پر مبنی تھیں۔ اور اس لئے صحیح تھیں، اور بہت سی چیزیں وہ تھیں جو محض ظنّ و تخمین اور فرض و تخییل پر مبنی تھیں۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی، علم بھی تھا اور جہل بھی۔ یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو میں آئے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کر لی۔ ان لوگوں میں وہ بھی تھے۔ جنہوں نے ان کو سمجھ کر قبول کیا، مگر وہ کم تھے۔ زیادہ تر وہ تھے جو ذرا بھی نہیں سمجھے تھے لیکن مومن اور مسحور سب کے سب تھے۔ ان فلسفوں پر ایمان لانا ہی عقل و خرد کا معیار بن گیا۔ اور اس کو روشن خیالی کا شعار سمجھا جانے لگا۔ مستشرقین کے زیر اثر یہ الحاد و ارتداد اسلامی ماحول میں بغیر کسی شورش اور کش مکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقلاب پر چونکے، نہ اساتذہ اور مربیوں کو خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو جنبش ہوئی۔ اس لئے کہ یہ ایک خاموش انقلاب تھا۔ اس الحاد و ارتداد کو اختیار کرنے والے کسی کلیہ میں جا کر کھڑے ہوئے نہ کسی معبد میں داخل ہوئے ، نہ کسی بت کے آگے انہوں نے ڈنڈوت کی اور نہ کسی استہان پر جا کر قربانی پیش کی۔ سابقہ اَدوار میں یہی سب علامات تھیں جن سے کفر و ارتداد اور زندقہ کا علم ہوتا تھا۔
عزیزانِ محترم! یہ ہے قتنۂ استشراق کا تاریخی پس منظر اس کا سرسری تعارف اور مستشرقین کے کام کا معمولی جائزہ۔ اس فتنہ سے کما حقہ آگاہ و آشنا ہونے کے لئے دراصل یہ نقطۂ آغاز اور ایک محرک ہے کہ اس جانب عنانِ توجہ موڑ کر دیکھئے کہ مستشرقین نے رسول کریم ﷺ، قرآن حکیم اور دین اسلام کو کس طرح ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اور جانچیئے کہ آیا آپ کے ذخیرۂ علم و فضل میں اس کا شافی جواب موجود بھی ہے یا نہیں۔
اصل موضوع زیر تبصرہ یہی تھا کہ مستشرقین کے وارد کردہ اعتراضات کا جواب دیا جائے مگر میرے نزدیک اصلی مبحث پر گفتگو اس پس منظر کے بغیر نہ موزوں تھی نہ مفید، میرے لئے اس قلیل فرصت میں ممکن نہیں کہ مستشرقین کے کسی اعتراض کو پیش کر کے اس کا تفصیلی جواب پیش کر سکوں۔ اس لئے اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر آپ کے قلب و ذہن کے کسی گوشے میں یہ جذبہ ابھرا ہے کہ آنحضور ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو مستشرقین نے جس طرح داغدار کیا ہے، اس کی تفصیلات معلوم کریں اور پھر اس کے جواب کے در پے ہوں تو اس ضمن میں مطالعہ کی راہیں کھلی ہیں اور رہنمائی کے لئے میری خدمات حاضر ہیں۔ اس لئے کہ ہمارا علماء اس پہلو سے غافل نہیں رہے اور انہوں نے سیرتِ طیبہ کا پورا پورا دفاع کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیرت نبوی ﷺ سے دفاع کا فریضہ انہی لوگوں نے ادا کیا جو رجعت پسند کہلاتے ہیں۔ کسی ’’روشن خیال‘‘ کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی۔
سامعین عظام! مستشرقین کی برکات کے طفیل دنیائے اسلام آج ایک دینی، فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہے۔ یہ مصیبت ان تمام لوگوں کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں، جو اسلام کا درد رکھتے ہیں۔ آج ہر اسلامی ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا حال یہ ہے کہ اعتقاد و ایمان کا سرا ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ اخلاقی بندشیں وہ توڑ کر پھینک چکا ہے، شک و الحاد، نفاق و ارتیاب کا ایک طوفان ہے جو ہمارے دل و دماغ میں برپا ہے۔ غیبی حقائق پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ سیاست و اقتصاد کے مادہ پرستانہ نظریات فروغ پا رہے ہیں۔
اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ہمارے نوجوان پورے اشتیاق و اخلاص کے ساتھ رسول ﷺ عربی فداہ ابی و امی کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں اور آنحضور ﷺ کے اقوال و اعمال کو اپنے لئے اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ اس طرح ان پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ رسالت مآب کی حیات طیبہ پاکیزگی فکر و عمل اور بلندیٔ سیرت و کردار کا زندہ پیکر تھی۔ مگر یورپین مصنفین اپنے خبثِ باطن اور جذباتِ حقد و عناد کے باعث چمگادڑ کی طرح اس آفتاب درخشاں سے مستفید نہ ہو سکے اور ان کی آنکھیں اس کی تابانی و درخشانی کے سامنے خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم، چشمۂ آفتاب راچہ گناہ​
خلاصہ یہ کہ عملی زندگی میں اتباعِ رسول کے بغیر ایمان و اسلام کا اِدعاء، ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔ اور ایک مومن کے لئے یہ متاعِ گراں بہا ہر دنیوی اثاثہ و سرمایہ سے عزیز تر ہے۔
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باد نرسیدی مام بُولہبی است​
 
شمولیت
جون 14، 2011
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
0
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

اسلام ابدی مذہب ہے، جو اپنے اندرآفاقیت رکھتا ہے، اس کا کوئی گوشہ ایسا نہیں کہ انگشت نمائی کی گنجائش نکل سکے؛ لیکن ابتداء سے ہی اس کو ہمہ جہتی مقابلہ کا سامنا رہاہے،سابقہ زمانہ میں یہود ونصاریٰ سے جوتصادم رہا، اس کی نوعیت دوسروں سے مختلف رہی؛ کیونکہ ان دونوں قوموں کو "اہلِ کتاب" ہونے کا زعم کھائے جارہا تھا، ان میں نصاریٰ نسبتاً ٹھیک بھی تھے؛ مگریہود کا دماغی توازن اس طرح بگڑچکا تھا کہ خدائی گرفت تک کا خوف دل ودماغ سے جاتا رہا، جب قرآن نے ان پر "الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ" کاتازیانہ برسایا تو ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کی نگاہوں میں معتوب ہوگئے، آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے؛ لیکن اچانک بنی اسماعیل میں آخری نبی کا ظہور ہمیشہ کے لیے ان کے لیے باعث افسوس رہا؛ پھر"یثرب" کی امارت وسیادت کے لیے یک گونہ اتفاق، عبداللہ بن ابی پر ہوچکا تھا؛ لیکن ہجرت نبوی نے سارا بنابنایا کھیل بگاڑکر رکھ دیا، دیکھتے دیکھتے حالات سنگین ہوتے گئے؛ یہاں تک کہ "خیبر" جیسے ناقابلِ تسخیر قلعے بھی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے اور پھروہ دن بھی آیا کہ حضرت عمرؓ نے جزیرۃ العرب سے ان تمام کو نکال باہرکردیا اور ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنے محبوب ﷺ کا جملہ اچھی طرح یاد ہے:
"لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ فَلَاأَتْرُكُ فِيهَا إِلَّامُسْلِمًا"۔

(ابوداؤد، باب فی إخراج الیہود من جزیرۃ العرب، حدیث نمبر:۲۶۳۵)
کہ جزیرۃ العرب سے یہود ونصاریٰ کو بالکل نکال باہرکرونگا اس خطے میں سوائے مسلمان کے اور کسی کو رہنے کا استحقاق نہیں۔

ان سب نے مل کر عداوت میں اس قدر شدت پیدا کردی کہ وہ ابتداء ہی سے ، اسلام اور مسلمانوں کو راست دشمن سمجھنے لگے، اس سلسلے میں بہت سی جنگیں لڑی گئیں جو ہنوز جاری ہیں، بیت المقدس جو مسلمانوں کے یہاں مقدس ہونے کے ساتھ ساتھ، اتفاق سے ان کے مسخ شدہ عقیدے میں بھی قابلِ احترام سمجھا جاتا رہا ہے، حضرت عمرؓ کی فتح کے بعد سے ہی اس کی بازآبادکاری کے لیے کوشاں رہے، ان کی مشترکہ کوششوں نے مثالی کردار بھی ادا کیا، خون ریز لڑائیاں لڑی گئیں، مسلمانوں کو شکست بھی ہوئی اور انسانی جانوں کو بے تحاشا تہہ تیغ کیا گیا، ایمانڈوژیل پوئی کا قسیس لکھتا ہے:
"حضرت سلیمان کی قدیم ہیکل میں اس قدر خون بہا تھا کہ اس میں لاشیں صحن میں تیرتی پھرتی تھیں، کسی کا ہاتھ، کسی کا پیر، کسی کا دھڑ، سب بے جوڑ اس طرح سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے کہ انہیں پہچاننا مشکل تھا، وہ سپاہی جنہوں نے یہ قتل عام کیا تھا، بمشکل خون اور اس سے پیدا ہونے والی بھاپ کی بوبرداشت کرسکتے تھے"۔ (تمدنِ عرب:۲۹۹)

پورے اٹھاسی برس تک بیت المقدس، یہودیوں کے قبضے میں رہا؛ مگر جناب نورالدین زنگیؒ پھر صلاح الدین ایوبیؒ کی فراستِ ایمانی اور بے لوث جذبہ اسلامی؛ نیزخدا کی عطا کردہ قائدانہ جنگی صلاحیتوں کے طفیل مسلمانوں کے ہاتھ آیا، یہ پوری اندوہناک داستان دوصدی کو محیط ہے، ڈاکٹرحمیداللہ لکھتے ہیں:
"جب ۳۶۱ھ میں مصر می فاطمیوں کا قبضہ ہوا توفاطمی حکمرانوں نے عیسائیوں کی تجارتی سرگرمیوں کی سرپرستی کی؛ لیکن اہل اسلام کی یہ تمام رواداری اور فراخ دلی، ان کے تعصب کی آگ نہ بجھاسکی، ان کے لیے بیت المقدس میں مسلمانوں کا وجود کسی طرح بھی قابلِ برداشت نہ تھا؛ چنانچہ یورپ کی متحدہ عیسائی طاقتوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کیا، یسوع مسیح کے دین اور صلیب مقدس کی حفاظت کے نام پر یورپ کے ان وحشی اور غیرمہذب دیوانوں نے جس سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کیا نصرانیت کی تاریخ میں اسے "مقدس لڑائی" کے نام سے پکارا جاتا ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کی یہ المناک کشمکش جو تقریباً دوصدی تک جاری رہی، تاریخ میں صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور ہے"۔ (تاریخِ اسلام:۴۳۵، مؤلف: ڈاکٹر حمید اللہ)

لیکن ان سب کے باوجود مسلم اقوام میں کبھی تذبذب، اضطراب اور جذبہ شکستگی کا احساس تک نہ پیدا ہوا؛ بلکہ ہرمیدان میں ثبات قدمی کا ثبوت پیش کیا، جس کی وجہ سے اسلامی قوت ان علاقوں میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے لگی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ کارزار میں دو بدو لڑنے کی ہمت ٹوٹ گئی۔

پالیسی بدلو تحریک

تب جاکر "پالیسی بدلوتحریک" کا آغاز ہوا، تیروتلوار پھینک دیئے گئے اور تہذیب وثقافت اور اسلامی اقدار کا مطالعہ شروع کیا گیا؛ لیکن یہ کوئی آسان کھیر کا نوالہ نہیں تھا کہ آسانی سے نگل لیا جاتا؛ بلکہ صدیوں کوشش کے بعد ایک منظم تحریک بن سکی، جس کا آغاز ۱۳۱۳ء میں ہوا اور اکیڈیمی کی شکل ۱۷۸۳ء میں دی گئی، تقریباً پانچ صدی میں ان کی تمام کوششیں عربی تعلیم پر مرکوز رہیں۔

دواہم مقاصد

اس سازش نے ابتداء سے ہی دواہم مقاصد کے لیے کام کرنا شروع کیا۔

(۱)سب سے پہلا مقصد تو یہ تھا کہ اسلام کے فکری حملہ کی روک تھام کی جائے جس کا حاصل یہ تھا کہ اسلام نے ان کے مسخ شدہ عقیدے پر جو ضرب کاری لگائی ہے جس کی وجہ سے ان کے کمزور عقیدے والے ہی نہیں، راسخ العقیدہ حضرات بھی برگشتہ ہوتے جارہے ہیں اور رفتہ رفتہ اسلام کو گلے سے لگاتے جارہے ہیں، ان کو دوبارہ اسلام سے نکال کر اپنا ہم نوابنالیا جائے، یاوہ لوگ جو اب تک اسلامی تعلیمات کو پورے طور پر سمجھ نہیں پائے ہیں ان کو کم ازکم اپنے مذہب پر ثابت قدم رکھا جاسکے؛ چنانچہ ان کو اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑی، مشرکوں کے پرانے پروپگنڈوں کی تشہیر سے کام چلایا، ان پروپگنڈوں سے کماحقہ نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا۔

نظریۂ استشراق کا آغاز

(۲)ان کا دوسرا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے دین ومذہب پر اقدامی حملہ کیا جائے اس حملے کا حاصل یہ تھا کہ جولوگ اسلام کو اپنے گلے سے لگا چکے ہیں کم از کم وہ تشکیک کے شکار ہوجائیں؛ تاکہ جس طرح ان کی مسخ شدہ عقیدے کا دائرہ کار تنگ ہوچکا ہے؛ اسی طرح اسلام کا دائرہ تنقید بھی متاثر ہوجائے، اس کے لیے انہوں نے پوری جانفشانی سے اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ، عربی زبان تھی اس کی شدبد پیدا کرنے کے لیے تقریباً پانچ صدیاں صرف کی گئیں؛ چنانچہ ۱۳۱۲ء کو جینوا کی کلیسا نے عربی زبان کو مختلف یونیورسٹیوں میں داخلِ نصاب کرنے کا فیصلہ کیا تو ۱۷۸۳ء میں اس کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اصل مقصد کی یاد دہانی کرواکر اصل کام کا آغاز کیا گیا اوراس تحریک کا نام Orientalism کادیا گیا، اس وقت استشراق اور مستشرق کا لفظ "شرق" سے وضع کیا گیا (ترات الاسلام:۱/۷۸، بحوالہ من افتراءات المستشرقین) اصطلاحی لحاظ سے بھی بڑی پیچیدگی رہی، ہردور کے علماء نے اپنے اپنے گردوپیش کے تناظر میں اس کی تعریفیں کیں، ہرایک نے یہ کوشش کی کہ اس دور کی وہ تمام کوششیں جو اسلام میں تشکیک کی غرض سے کی جارہی ہیں سب سمٹ آویں، مختلف تعریفوں میں سے یہاں پر دوتعریفوں کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

جناب احمد عبدالحمید غراب نے مختلف تعریفوں کو ذکر کرنے کے بعد تمام کا ماحصل ان الفاظ میں کشید کیا ہے کہ:
"استشراق، یورپ کے اہل کتاب کفار کی ان تحقیقات کا نام ہے جو اسلام کی صورت بگاڑنے، مسلمانوں کے ذہن میں اس کی جانب سے شک پیدا کرنے اور اس سے برگشتہ کرنے کے لیے خاص طور پر اسلامی عقیدہ وشریعت، تہذیب وتمدن، تاریخ نیززبان وبیان اور نظم وانتظام کے تئیں کی جائیں"۔

(رویۃ اسلامیہ للاستشراق:۷، مؤلف: احمد عبدالحمید غراب)

ڈاکٹرعبدالمنعم فواد نے ان تمام تعریفوں کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد تھوڑی اور تعمیم پیدا کی ہے؛ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ:
"استشراق، عربوں کے ماسوا، مشرق ومغرب کے غیرمسلموں کی وہ تمام کوششیں ہیں جواسلامی عقیدے، شریعت، تہذیب وتمدن، زبان وبیان اور نظم وانتظام کا مطالعہ کرکے اسلام کی شبیہ بگاڑنے اور تشکیک پیدا کرنے کے لیے کی جائیں"۔

(من افتراءات المستشرقین:۱۸)

اس کا حاصل یہی ہے کہ ان کے ہرکارنامے کے پیچھے کچھ زہریلے جراثیم چھپےہوتے ہیں، جواسلامی تاریخ کو کھاتے چلے جاتے ہیں اور دین کے روشن حقائق کو بھیانک بنادیتے ہیں، اس سے انکار نہیں کہ ان کی تحقیقات سے بعض اوقات مسلمانوں کو فائدہ بھی پہنچا اور مسلمانوں نے فائدہ اٹھایا بھی؛ کیونکہ ان کے دفعات میں سے ایک اہم دفعہ یہ بھی ہے

کہ دانائی کی بات خواہ کہیں بھی ہو، مؤمن کی گمشدہ پونجی ہے، جہاں ملے اُٹھالے۔

(ترمذی، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث نمبر:۲۶۱۱)

لیکن امت کو ان کی نگارشات اور زہرآلود تحقیقات سے نقصان بھی پہنچا، علامہ سید سلیمان ندوی نے ایک موقع پر اس تشوش کا اظہار کیا تھا:
"ان کی یہ قابل قدر سرگرمیاں ہمارے شکریہ کی مستحق ہیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ یہ علوم ان کے نہ تھے، اس لیے وہ ہمدردی اور محبت جومسلمانوں کو اپنی چیزوں سے ہوسکتی ہے ان کو نہیں ہے اس لیے ان کی تحقیق وتدقیق سے جہاں فائدہ ہورہا ہے، سخت نقصان بھی پہنچ رہا ہے، جس کی تلافی آج مسلمان اہل علم کا فرض ہے، ان میں ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے مسیحی نقطہ نظر سے اسلامی علوم پر نظرڈال کر تحقیق وریسرچ کے نام سے ایک نیامحاذِ جنگ بناکر، اسلام، داعی اسلام، اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب وتمدن پر بے بنیادحملہ کررہا ہے، قرآن مجید، حدیث، تصوف، سیر، رجال، کلام اور فقہ سب ان کی زد میں ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ یورپ کے اس رنگ کے لٹریچر سے اسلام کو کس قدر شدید نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا؛ اگریہ زہر اسی طرح پھیلتا رہا اور اس کا تریاق نہیں تیار کیا گیا تو معلوم نہیں کس حد تک نوجوان مسلمانوں کے دماغوں میں سمیت سرایت کرجائے گی"۔

(اسلام اور مستشرقین:۱/۱۱۔۱۲، مرتب عبدالرحمان اصلاحی)

مستشرقین کی توجہ حدیث کی طرف

ویسے تو ان دشمنانِ اسلام نے دین کے ہرشعبہ ہی کو نشانہ بنایا اور ہرگوشے کو مشکوک کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ حدیث پاک، قرآن پاک کے بعد سب سے اہم مصدر ہے، دین کی صحیح فہم اور اسلام کی حقیقی تصویر کشی، حدیث کے بغیر نامکمل رہتی ہے، اس لیے ہم مستشرقین کو دیکھتے ہیں کہ اس اہم مصدر کی طرف کچھ زیادہ ہی متوجہ رہتے ہیں اور آزاد تحقیق وریسرچ کے نام پر زہراگلتے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے نمایاں شخصیت ہمیں دو نظر آتی ہیں:

(۱)سب سے پہلی شخصیت گولڈزیہر (Gold Hazer) کی ہے، جس کو عربی کتابوں میں "جولدتسھر" سے جانا جاتا ہے یہ شخص جرمن کا یہودی ہے، اس نے تمام اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا اور ۱۸۹۰ء میں پہلی تحقیق شائع کی، جس میں پورے اسلامی مآخذ کو مشکوک ٹھہرایا اس کی سب سے اہم کتاب "دراسات اسلامیۃ" کے نام سے ملتی ہے، جس کو پڑھ کر بعض اسلام کے نام لیوا بھی اپنی راہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

(۲)دوسری شخصیت "جوزف شاخت" (Joseph Schacht) کی ہے جس نے سارے اسلامی علوم وفنون کا دقتِ نظری سے مطالعہ کیا، خاص طور پر "فقہ اسلامی" پر توجہ دیا اور مختلف چھوٹے بڑے رسالے لکھے "بدایۃ الفقہ الاسلامی" اس کی ضخیم کتاب ہے، جس میں اس نے سارے ہی مآخذ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔

(تفصیلی حالات ملاحظہ کیجئے، موسوعۃ المستشرقین، تالیف عبدالرحمن بدوی)

حدیث کے متعلق سے "گولڈزیہر" نے زیادہ توجہ متن پر مرکوز کی، جب کہ "شاخت" نے سند اور تاریخ سند کو مشکوک قرار دیا، مندرجہ ذیل سطور میں انہی دونوں حضرات کے وہ شبہات جو بنیادی حیثیث رکھتے ہیں ذکر کئے جاتے ہیں۔

تدوین حدیث کی اصل حقیقت

یہ بات تقریباً تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ کتابت حدیث اور حفظ حدیث دونوں زمانہ نبوت سے شروع ہوچکے تھے، بعض صحابہ کے صحیفے اس کے لیے پیش کئے جاسکتے ہیں؛ مگر"تدوین رسمی" حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں ہوئی اس کا سہرا کسی ایک شخص پر نہیں؛ بلکہ مختلف علاقوں کے مختلف ذی استعداد قابل اعتماد حضرات کے ہاتھوں یہ کام ہوا؛ البتہ امام زہریؒ کا کارنامہ عظیم تھا ۔

سب سے پہلا تیر

اس لیےمستشرقین نے کوشش یہ کی کہ پہلی ہی بنیاد کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تاکہ ساری عمارت خود بخود ڈھ جائے؛ چنانچہ سب سے پہلا تیر گولڈزیہر نے یہ چلایا کہ حدیث بنی امیہ کے دور کی پیداوار ہے؛ یہی اسلام کا مکمل اور پختہ بلکہ دورِ عروج ہے؛ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
"إن القسم الأكبر من الحديث ليس صحيحاً مايقال من أنه وثيقة للإسلام في عهده الأول عهد الطفولة، ولكنه أثر من آثار جهود المسلمين في عصر النهضة"۔

(نظریہ عامۃ فی تاریخ الفقہ لعلی حسن عبدالقادر: ۱۲۶)
کہ حدیث کا ایک بڑا حصہ صحیح نہیں ہے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام کے یہ دستاویز عہد اوّل جوعہد طفولت ہے سے چلے آرہے ہیں یہ تومسلمانوں کے دورِ عروج کی کوششوں کے آثار میں سے ہے۔

پھراس الہام کی تشریح اس طرح کی کہ پہلی صدی ہجری میں امویین وعلویین کے دوگروہ آپس میں نبردآزما ہوئے، کسی کے پاس قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل نہیں تھے اس لیے کچھ حدیثیں گھڑ کر چلتا کیا گیا، ہرگروہ نے اپنے زعم کے مطابق حدیثیں گھڑیں، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومت کی سرپرستی بھی حاصل رہی؛ بلکہ شاباشی دی گئی، حضرت امیرمعاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے یوں کہا تھا:
"لَاتَھْمِلْ فِیْ أَنْ تَسُبَّ عَلِیاً وَأَنْ تَطْلُبَ الرَّحْمَۃَ لِعُثْمَانَ وَأَنْ تَسُبَّ أَصْحَابَ عَلِیٍ وَتَضْطَہَدُ مِنْ أَحَادِیْثِہِمْ وَعَلَی الضِدِّ مِنْ ھَذَا وَأَنْ تَمَدَّحَ عُثْمَانَ وَأَھْلَہُ وَأَنْ تَقْرُبَھُمْ وَتَسْمَعْ اِلَیْہِمْ"۔
کہ حضرت علی پر سب وشتم کرنا، حضرت عثمان کے حق میں رحمت کی دعا کرنا؛ نیزاصحاب علی کو گالی گلوج کرنا ان کی حدیثوں کے خلاف حدیثیں گڑھنا مت چھوڑو۔

اس امر کی تائید

پھر تائید میں یہاں تک کہا کہ دیکھتے نہیں:
"فَإِنَّهُ لَاتُوْجَدْ مَسْأَلَةٌ خِلَافِيَّةٌ، سِيَاسِيَّةٌ أَوْاِعْتِقَادِيَّۃٌ، إِلَّاوَلَهَا اِعْتِمَادٌ عَلَى جُمْلَةِ مِنَ الْأَحَادِيْثِ ذَاتَ الْإِسْنَادِ الْقَوِيِّ"۔

(مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی، بحوث مجمعیۃ السنۃ النبویۃ فی العصر: ۸/۱۴۷۴)
کہ کوئی بھی مسئلہ ہو خواہ وہ سیاسی ہو یااعتقادی ہرباب میں قوی سند والی حدیثوں پر اعتماد کو پائیں گے۔

پھراس کے بعد مستشرق گولڈزیہر نے لکھا:
"وَعَلَی ھَذَا الْاَسَاسِ قَامَتْ أَحَادِیْثُ الْأُمَوِیِّیْنَ ضِدَّ عَلِیٍّ"۔
کہ اسی اساس پر حضرت علی کے خلاف، امویین کی حدیث کا دارومدار ہے

بنوامیہ نے اس کام کے لیے زہری کو خریدا

اپنی جھوٹی عمارت کی تعمیر کے لیے بنوامیہ کا ایک بادشاہ عبدالملک بن مروان نے چال چلی کہ جب فتنہ عبداللہ بن زبیر کے موقع پر حج سے ممانعت کردی گئی تو عبدالملک نے بیت المقدس میں "قبۃ الصخرہ" کی تعمیر کرکے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس وقت کے نامور محدث، جن کا دور دور تک شہرہ تھا، یعنی امام زہری کو اس کام کے لیے راضی کیا کہ بیت المقدس کی فضیلت کے باب میں کوئی حدیث گڑھیں؛ چنانچہ زہری نے ایک مشہور حدیث گھڑی جس کو امام مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے:
"لَاتَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّاإِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِي هَذَاوَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى"۔ (مسلم، باب سفرالمرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، حدیث نمبر:۲۳۸۳)

یہ زہری کے موضوعات میں سے ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جتنی سندیں بھی منقول ہیں سب جاکر زہری پر منتہی ہوتی ہیں۔

ایک دل فریب مکاری جو امویو نے رچی

مستشرقین نے زہری کی بابت ایک عجیب قصہ نقل کیا ہے جو مختلف سندوں سے کتابوں میں محفوظ ہے کہ ابراہیم بن الولید اموی زہری کے پاس ایک صحیفہ لایا، جس میں اپنی من پسندروایتیں لکھ لی تھیں اور زہری سے اس کی اجازت طلب کی، زہری نے بھی بلاکسی تردید کے اس کی اجازت دے دی،اور یہ فرمایا:
"مَنْ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُخْبِرَکَ بِھَا غَیْرِی؟"۔
کہ میرے علاوہ اس کی خبر تم کو اور کون دے سکتا ہے۔

اس طرح اس صحیفہ کی روایتیں زہری کے حوالے سے بیان کی جانے لگی۔

(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۱۹۲)

زہری کی مجبوری

خود امام زہری کے ذاتی احوال میں اس طرح کی باتیں ہیں کہ بادشاہوں کی ہاں میں ہاں ملانا باعثِ فخر تصور کرتے ہیں؛ خواہ اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ ہشام نے اپنے ولی عہد کے اتالیقی کی پیش کش کی، یزید ثانی نے منصبِ قضا کا عہدہ دیا، سب کوبخوشی قبول کیا، جب کہ علماء کے نزدیک یہ ایک محقق مسئلہ ہے :
"مَنْ تَوَلّیٰ الْقَضَاءَ فَقَدْ ذَبَحَ بِغَیْرِ سِکِّیْنٍ"۔
جس نے عہدۂ قضاء قبول کیا اسے اُلٹی چھری سے ذبح کردیا گیا۔

البتہ ہوسکتا ہے کہ اس تقرب کی وجہ امام زہری کوحدیثوں کے گڑھنے کی مجبوری ہو؛ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر آپ نے کھل کر اعتراف کیا:
"أَكْرَهْنَا هَؤَلَاءِ الْأُمَرَاءَ عَلَى أَنْ نَكْتُبَ أَحَادِيْثَ"۔
کہ ان امراء نے ہمیں حدیثوں کے گڑھنے پر مجبور کیا۔

یہ وہ زہرافشانی ہے جو مستشرقین کی طرف سے کی گئی، اب مندرجہ ذیل سطور میں ان سبھوں کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

حدیث پاک امویوں کی پیداوار نہیں

حدیثِ پاک دین کا ایک بنیادی حصہ ہے، اس کے بغیر صحیح اسلام کا تصور محال ہے؛ پھریہ کہنا کہ اس کا بڑا حصہ امویوں کی کوششوں سے وجود میں آیا، سراسر دین وشریعت کے ساتھ ناانصافی ہے؛ کیونکہ رسول اللہﷺ پرجو آخری آیت اتری ہے وہ ہے "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا" (المائدہ:۳) اس میں کھلے لفظوں میں اکمال دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان کردیا گیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ"۔

(موطأ مالک، باب النھی عن القول بالقدر، حدیث نمبر:۱۳۹۵)
کہ دوچیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہوگے تو پھر گمراہ نہیں ہوسکتے،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنے نبی کی سنت۔

نیزدین اسلام کو روشن دن سے تشبیہ دیکر ایک موقع پر اس کی پختگی کو آشکارا کیا:
"لَقَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَى مِثْلِ الْبَيْضَاءِ لَيْلُهَا وَنَهَارُهَا سَوَاءٌ"۔

(ابن ماجہ، باب اتباع سنۃ رسول اللہﷺ ، حدیث نمبر:۵)

ترجمہ:میں تم لوگوں کو صاف شفاف دین پر چھوڑکر جارہا ہوں،جس کے رات اور دن برابر ہیں۔

خلفاء بنی امیہ کو دینی امور سے دل چسپی

تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ خلفاء بنی امیہ میں ایک دو کو چھوڑ کر سب دین دارنظر آتے ہیں، ذاتی خامی کس شخص میں نہیں ہوتی ہے کہ ان کو لے کر ان کے سارے کارناموں کو ملیامیٹ کردیا جائے، جس عظیم بادشاہ عبدالملک پر گولڈزیہر، امام زہری سے سازباز کرنے کا الزام لگاتا ہے، اسی کے متعلق طبقات ابن سعد میں حضرت ابن عمرؓ کا قول منقول ہے کہ لوگوں نے ان سے پوچھا :

"أرایت اذانفانی أصحاب رسول اللہ من نسال؟" کہ اصحابِ رسول کے ختم ہوجانے کے بعد ہم لوگ کس سے سوال کریں گے؟، تو حضرت ابنِ عمرؓ نے عبدالملک کی طرف اشارہ کرکے ارشاد فرمایا: "سلوا ہذا الفتی" کہ ان نوجوان سے پوچھو۔
(المفصل في الرد على شبهات أعداء الإسلام:۹/۲۹۷،شاملہ، جمع وإعداد الباحث في القرآن والسنة،علي بن نايف الشحود)

اسی طرح جب لوگ آپ کے پاس خلافت وبیعت کے لیے آئے تو دیکھا کہ پورے عالم اسلام کا ہونے والا شاہ، ایک دھیمی روشنی میں قرآن کی تلاوت کررہا ہے؛ کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ علماء کو انہو ں نے وضع حدیث کے لیے استعمال کیا ہو، ان کا جو کچھ بھی اختلاف تھا دینی پیشواؤں سے نہیں؛ بلکہ سیاسی قائدین اور خوارج سے تھا، جوہرملک اور حکمراں کے لیے ناگزیر ہے اس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

امام زہری اصل نشانہ

چونکہ امام زہریؒ کی طرف منسوب حدیث کی عظیم خدمت، خدمتِ تدوین ہے اس لیے مستشرقین کا اصل زور اسی پر صرف ہوا کہ امام زہری کی شخصیت کو بگاڑ دیا جائے اور ان کو ایک دنیادار، حریص، بادشاہوں کا وفادار اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا ثابت کیا جائے؛ تاکہ حدیث نبوی کا پورا ڈھانچہ ہی کچھ کا کچھ ہوجائے اس لیے مختصر طور پر ہم امام زہری کے حالات درج کرتے ہیں۔

امام زہریؒ ابوبکر محمد بن مسلم بن عبیداللہ، قرشی زہری ہیں، ابن شہاب سے بھی مشہور ہیں، راجح قول کے مطابق سنہ۵۱ھ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد حضرت عبداللہ بن زبیر کے فوجی تھے، امویوں کے خلاف لڑتے رہے، باپ کا جب انتقال ہوا تو آپ یتیم ہی نہیں، تربیت کرنے والوں کی تربیت سے بھی محروم ہوگئے؛ لیکن آپ کے اندر کا جوہر، علم کی طرف راغب کررہا تھا؛ چنانچہ صرف ۸۰/یوم میں حفظ مکمل کیا، عبداللہ بن تغلب سے علم الانساب حاصل کیا؛ پھرحلال وحرام اور روایت حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اوراس وقت کے موجود تمام صحابہؓ سے سماع کیا، جن میں دس صحابہ، حضرت انسؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت جابرؓ وغیرہ کے اسماء کی تصریح ملتی ہے؛ پھراجلۂ تابعین سے علم حاصل کیا، جن میں سعید بن المسیب کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جن کی صحبت میں مکمل آٹھ سال رہکر، کندن بن گئے (تہذیب الکمال: ۶/۵۱۱) جب عبداللہ بن زبیر شہید کردئے گئے تو اس کے بعدسے آپ کے تعلقات خلفاء بنوامیہ سے استوار ہوئے؛ چنانچہ مروان، عبدالملک، ولید، سلیمان، عمر بن عبدالعزیز، یزید ثانی اور ہشام تک سے مراسم اچھے رہے،۷۲/بہاریں دیکھنے اور دین کی عظیم ترین خدمت انجام دینے کے بعد ۱۲۴ھ میں انتقال فرماگئے، آپ کی وصیت کے مطابق شاہ راہ عام پر دفن کیا گیا؛ تاکہ ہرجانے آنے والا، دعائے مغفرت کرتا رہے۔

علمی انہماک

حضرت ابراہیم بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ زہری آپ سبھی پر فائق ہوگئے، کہنے لگے کہ سنو:
"وہ علمی مجلسوں میں بالکل سامنے بیٹھتے، مجلس میں ہرجوان اور ادھیڑعمر سے سوالات کرتے؛ پھرانصار کے مجلسوں میں آتے، وہاں بھی جس شخص سے ملاقات ہوتی پوچھ لیا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ خواتین سے بھی پوچھتے تھے"۔ (تہذیب الکمال:۶/۵۱۱)

امام زہری عبیداللہ بن عتبہ بن عبداللہ بن مسعودؓ سے حدیثیں پڑھتے، آپ کے دروازے سے چمٹے رہتے، آپ کے لیے پانی لاتے، باندیاں تو آپ کو عبداللہ کا غلام سمجھتی تھیں اور جوں ہی موقع ملتا کتاب کھول کر بیٹھ جاتے، انہماک کا یہ حال ہوتا کہ عبيداللہ کی بیوی صاحبہ کہتی کہ تین سو کنوں سے زیادہ دشوار یہ کتابیں ہیں؛ پھرگھر لوٹتے تو باندی کو جگاتے اور حدیثوں کو سناتے اور کہتے جاتے کہ مجھے معلوم ہے تمھیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا؛ لیکن چونکہ میں نے ابھی یہ حدیث سنی ہے اس لیے مذاکرہ کے طور پر سنارہا ہوں۔

(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۰۸،۲۰۹)

قوتِ حافظہ

آپ اپنے دور کے دریتیم اور قوتِ حافظہ کی دولت سے مالامال تھے، ابن عساکر نے ایک حیرت انگیز واقعہ نقل کیا ہے کہ عبدالملک نے اہل مدینہ کو عتاب والا ایک خط لکھا، جو دوصحیفے کے برابر تھا، وہ خط منبر کے پاس پڑھا گیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے توسعید بن المیسب نے اپنے حلقہ درس میں طلبہ سے خواہش کی کہ اس خط میں کیا تھا بتائیں سب نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق کچھ کچھ حصہ سنایا، ابن شہاب زہری نے کہا:
"یاابا محمد أتحب أن تسمع کل مافیہ قال: نعم! فقرء حتی جاء علیہ کلہ کأنھا یقرؤہ من کتاب بیدہ"۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۰۹)
کہ اے ابومحمد! کیا آپ اس خط کے پورے اجزاء سننا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! تو ابن شہاب نے پورا خط اس طرح سے ذکر کیا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خط ان کے ہاتھ میں ہے۔

ہشام بن عبدالملک نے ایک موقع پر آپ کے حافظے کا امتحان لینا چاہا؛ چنانچہ آپ سے درخواست کی کہ ان کے بعض صاحبزادے کو حدیثیں املاء کروائیں؛ لہٰذا ابن شہاب نے ایک مجلس میں چار سو حدیثیں املاءکروائیں، ایک ماہ کے بعد ہشام نے کہا کہ وہ صحیفہ ضائع ہوگیا؛ اس لیے دوبارہ حدیثیں لکھوادیں؛ چنانچہ ابن شہاب نے دوبارہ چارسو حدیثیں لکھوائیں، جب مقابلہ کیا گیا توایک لفظ کا بھی فرق نہ تھا۔ (تہذیب الکمال:۶/۵۱۲)

آپ کی علمی خصوصیات

آپ سے متعلق علمی خصوصیات تین بیان کی جاتی ہیں:

(۱) تدوین حدیث: حضرت عمربن عبدالعزیز کے حکم سے اس کارِعظیم کو آپ نے انجام دیا۔

(۲)اسناد: آپ کی شخصیت وہ پہلی کڑی ہے جس نے اسناد کو جاری کیا اور اہتمام سے بیان کیا، امام مالکؒ فرماتے ہیں "اوّل من اسند الحدیث ابن شہاب"

(۳)متن حدیث کا وافر حصہ: ایک اچھا خاصا حصہ ذخیرۂ حدیث کا آپ کے پاس تھا جودوسرں کے یہاں موجود نہیں تھا؛ چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ:
"لِلزُّهْرِيِّ نَحْوٌ مِنْ تِسْعِينَ حَدِيثًا يَرْوِيهِ وَلَا يُشَارِكُهُ فِيهِ أَحَدٌ بِأَسَانِيدَ جِيَادٍ"۔

(مسلم، باب من حلف باللات والعزی فلیقل لاإلہ إلا:۳۱۰۷)
امام زہری نوے حدیث کے قریب روایت کرتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔

علماء جرح وتعدیل نے آپ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کیا ہے آپ کی زندگی کا کوئی ایسا باب نہیں ہے جس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، علی بن المدینی تو کہتے ہیں:
"دارعلم الثقات علی الزھری وعمروبن دینار بالحجاز، وقتادۃ ویحی ابن أبی کثیر بالبصرۃ وأبی اسحاق والاعمش فی الکوفہ"۔
کہ ثقات کا علم حجاز میں زہری وعمروبن دینار پر، بصرہ میں قتادہ ویحییٰ بن أبی کثیر پر اور کوفہ میں ابی اسحاق اور اعمش پر منحصر ہے۔

حافظ ابن حجر نے خلاصہ کے طور پر آپ کی علمی زندگی کا نچوڑیوں پیش کیا ہے:
"الفقیۃ الحافظ متفق علی جلالتہ واتقانہ"۔ (تقریب التہذیب:۵۰۶، رقم:۶۲۹۶)

یہ ہے وہ عظیم شخصیت جس کو مستشرقین نے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے ہرکارِخیر کو ذاتی تضاد بتلاکر مسلمانوں کوذخیرہ حدیث سے بدگمان کرنے کی کوشش کی۔

قصرِخلافت میں آمد ورفت

اگرامام زہری کی زندگی کے اوراق پلٹیں اور قصر خلافت کے حالات کا جائزہ لیں تو ہرمنصف مزاج یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ امام زہری نے قصر خلافت کی آمدورفت سے اپنا مفاد وابستہ نہیں کررکھا تھا؛ بلکہ ان کے بگڑے حالات اور درآنے والی بدگمانیوں کو دور کرنے کی یہ واحد کوشش تھی کہ تعلقات استوار کرکے ان کے ذہن ودماغ کے میل کو صاف کیا جائے "العقد الفرید" میں اسی قسم کا ایک واقعہ یوں درج ہے کہ امام زہری ولید کے پاس تشریف لے گئے ولید نے پوچھا، اہل شام کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ امام زہری نے کہا وہ کیا ہے؟ ولید نے پوری حدیث سنائی کہ اہل شام کہتے ہیں:
"ان اللہ اذااسترعی عبداً رعیتہ کتب لہ الحسنات ولم یکتب لہ السیئات"۔
کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو رعایا کے کام کے لیے مسلط کرتے ہیں تو اس کےلیے نیکیاں تو لکھی جاتی ہیں، سیئات نہیں لکھے جاتے۔

امام زہریؒ نے کہا یہ حدیث باطل ہے اور اے امیرالمؤمنین یہ بتائیے کہ کیا بنی خلیفہ افضل ہے یا غیربنی خلیفہ؟ ولید نے کہا بنی خلیفہ امام زہری نے کہا کہ دیکھئے حضرت داؤد کے متعلق قرآن پاک کا کیا ارشاد ہے:
"يَادَاوُودُ إِنَّاجَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَاتَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَانَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ"۔
(سورۂ ص:۲۶)
اے داؤد ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا لہٰذا لوگوں کے مابین ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیجئے اورخواہشات کی اتباع نہ کیجئے کہ آپ اللہ کے راستہ سے بھٹک جائیں،یقیناً جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ یوم حساب سے غافل ہوگیا۔

پس اے امیرالمؤمنین! یہ وعید ہے بنی خلیفہ کے لیے تو آپ کا کیا خیال ہے، غیربنی خلیفہ کے حق میں۔
(العقد الفرید:۱/۶۰)

ایک دوسرا واقعہ ابن عساکر نقل کرتے ہیں، جس سے ان کی جرأت ایمانی کی خوب سے خوب تصویر کشی ہوتی ہے، ایک موقع پر ہشام بن عبدالملک نے سلیمان بن یسار سے پوچھا کہ "والذی تولی کبر" سے کون مراد ہے، انہوں نے کہا عبداللہ بن أبی، ہشام نے کہا غلط ہے اس سے مراد تو علی بن ابی طالب ہیں، سلیمان نے کہا امیرالمؤمنین کو زیادہ معلوم ہے ،پھر جب امام زہری ان کے پاس گئے تو اس نے امام زہری سے بھی پوچھا: انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی ہے، ہشام نے کہا کہ غلط ہے، اس سے مراد تو حضرت علی ہیں، امام زہری بالکل آگ بگولا ہوکر بولے:
"اناأکذب! لاأبالک فواللہ لونادانی مناد من السماء ان اللہ احل الکذب فماکذبت، حدثنی فلان عن فلان الذی تولی کبرہ ھوعبداللہ"۔


کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ تیرا ستیاناس ہو! خدا کی قسم اگر مجھ کو آسمان سے پکارنے والا پکار کر کہے کہ اللہ نے جھوٹ کو حلال کردیا ہے تو بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا، مجھ سے فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے بیان کیا کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی ہی ہے۔

امام زہری کی دینی حمیت اور ایمانی جرأت کا جب یہ حال ہے تو کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ بقول مستشرقین، چند ٹکوں کی خاطر انہو ں نے وضع حدیث کا ناپاک بیڑا اٹھایا ہو، جب کہ دنیا کا حال ان کی نگاہوں میں یہ تھا کہ عمروبن دینار بیان کرتے ہیں:
"مارأیت الدینار والدرھم عن أحد أھون منہ عند الزھری کانہما بمنزلۃ البعر"۔
کہ درہم ودینار ان کے نزدیک مینگنی کے برابر تھے۔

اور ناموری وشہرت کا حال یہ ہے کہ بقول گولڈ زیہری:
"کان ذائع الصیت عند الامۃ الاسلامیۃ"۔
کہ مسلمانوں کے یہاں ایک معروف ومشہور شخصیت تھے۔

قبۂ صخرہ کی حقیقت

جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ گولڈ زیہر نے زہری پر یہ الزام بھی لگایا کہ جب عبدالملک نے عبداللہ بن زبیرکے فتنہ کے زمانے میں چاہا کہ لوگوں کو حج سے روک دیں تو بیت المقدس میں "قبہ صخرہ" کی تعمیر کی اور اس کو دینی رنگ دینے کے لیے زہری سے "لاتشدالرحال الاالی....،الخ" گڑھوا کر چلتا کیا، مؤرخین میں سے ابن عساکر، طبری، ابن اثیر، ابن خلدون اور ابن کثیر کسی نے بھی اس قبہ کی نسبت عبدالملک کی طرف نہیں کی ہے؛ بلکہ ان کے بیٹے ولید کی طرف کی ہے صرف علامہ دمیری ہیں جنہوں نے ابن خلکان سے نقل کیا ہے، جس کے الفاظ ہیں:
"بناھا عبدالملک وکان الناس یقفون عندھا یوم عرفۃ"۔
کہ عبدالملک نے اس کی تعمیر کروائی، لوگ عرفہ کے روز اس کے پاس ٹھہرتے تھے۔

اگریہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ بھی جائے تو اس سے حج کا ثبوت پھربھی فراہم نہیں ہوپاتا ہے؛ کیونکہ عرفہ کے روز اس کے پاس وقوف اور ہے اور حج اور ہے؛ بلکہ اس دور کی ایک عام بدعت تھی جو قبہ صخرہ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ ہرشہر میں لوگ "وقوفِ عرفہ" مناتے تھے جس کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ زہری راجح قول کے مطابق سنہ۵۱ھ اور بعض دیگر اقوال کے مطابق سنہ۵۸ھ میں پیدا ہوئے، حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت سنہ۷۳ھ میں ہوئی ہے تو کیا ۲۲/یا ۱۵/سال کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ آدمی بلاد اسلامیہ میں شہرت پاکر، عبدالملک کی نظر انتخاب کا شکار ہوجائے، امام ذہبی کے مطابق زہری عبدالملک کے یہاں سنہ۸۰ھ میں، ابن عساکر کے مطابق سنہ ۸۲ھ میں گئے ہیں جو کہ شہادت ابن زبیر سے دس سال بعد کا زمانہ ہے، اس کے علاوہ یہ کہنا کہ "لاتشدواالرحال... الخ" کے راوی تنہا حضرت امام زہری ہیں، روایت حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے، بخاری نے اس روایت کوحضرت ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے، مسلم نے تین طرق سے ذکر کیا ہے اس میں تیسرا طریق ابن وہب عن عبدالحمید بن جعفر عن عمران بن ابی انس عن سلیمان بن الاغر عن ابی ھریرۃ ہے، اس کے علاوہ زہری نے یہ روایت سعید بن المسیب سے لی ہے اور سعید کا حال یہ تھا کہ ہرچیز پر ٹوکا کرتے تھے، حضرت سعید کا انتقال سنہ۹۳ھ میں ہوا ہے تو کیا بیس سال کا زمانہ گزرگیا، حضرت سعید نے ٹوکا تک نہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ زہری نے اس کو وضع کیا ہے تو پوری روایت پڑھ جائیے "قبۃ الصخرۃ" کی کہیں فضیلت تک بیان نہیں کی گئی ہے، جب کہ بقول گولڈزیہر مقصد اس کا یہی تھا۔

کتاب پیش کرنے والی روایت

ان مستشرقین نے زہری کے وضع حدیث سے متعلق یہ بھی پروپگنڈہ کیا کہ ابراہیم بن الولید اموی نے زہری کے سامنے ایک کتاب پیش کی، زہری نے بلاکسی تردد کے اس کی روایت کی اجازت دی؛ لیکن ان مستشرقین نے تنقید کرتے وقت اصول حدیث کونظرانداز کردیا ابراہیم کا سماع زہری سے ثابت ہے؛ پھروہ کتاب پیش کررہے ہیں جس کو اصولِ حدیث کی روشنی میں مناولہ کہتے ہیں؛ اگرمناولہ کے ساتھ اجازت بھی مل جائے تو اس سے روایت کرنے پر اکثرمحدثین کا اتفاق ہے؛ لیکن ان سب کے باوجود ذخیرۂ حدیث میں اس صحیفہ سے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔

زہری نے جبراً وضع حدیث نہیں کیا

گولڈزیہراور ان کے متبعین نے ابن شہاب کے حالات سے ایک جملہ نکال کر یہ شوشہ چھوڑا کہ خلفائے بنوامیہ نے زبردستی ان سے وضع حدیث کروائی؛ چنانچہ زہری خود کہتے ہیں:
"ان ھولاء الامراء اکرھونا علی کتابۃ الحدیث"۔

اگر اس کو تسلیم کرلیا جائے تو پچھلے صفحات میں؛ نیزکتابوں میں زہری کے جوجرأت مندی کے واقعات نقل کئے گئے ہیں سب کے سب افسانہ بن کر رہ جائیں گے، دراصل اس واقعہ میں مستشرقین نے تحریف کیا ہے، ابن سعد اور ابن عساکر نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زہری، روایت حدیث کی بابت پورا زور حافظہ پر دیتے تھے، لکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے؛ مگرجب ہشام نے اصرار کی حد تک خواہش کی اور چارسو حدیثیں املاء ان سے کروالی تو زہر ی نے باہر آکر اعلان کیا:
"یایھا الناس اناکنا منعناکم امراً قدبذلناہ الان لھولاء وان ھولاء الامراء اکرھونا علی کتابۃ الاحادیث فتعالوا حتی احدثکم بہا فحدثہم بالاربعۃ مائۃ"۔
(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۲۱)
کہ اے لوگو! میں جس چیز سے تم لوگوں کو روکتا تھا، آج میں نے وہی کیا ہے، ان حکام نے مجھے کتابتِ حدیث پر مجبور کیا؛ پس آؤ میں تمھیں وہ بیان کردوں؛ چنانچہ انہوں نے بیان کردیا۔

خطیب بغدادی نے تقیید العلم میں اس طرح نقل کیا ہے کہ امام زہری کتابتِ حدیث اور تدوینِ حدیث کو مکروہ سمجھتے تھے؛ لیکن حالات ایسے سامنے آئے کہ پھرکتابتِ حدیث کے قائل ہوئے اور مسلمانوں کو روکنا بند کردیا اسی کو انہوں نے "اکرھونا" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۲۱)

سندکے سلسلے میں زہرافشانی

سند کا آغاز کس طرح ہوا اس کا پس منظر وپیش منظر کیا تھا، یہ ایک لمبا باب ہے خلاصہ کے طور پر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ چوں کہ جیسے جیسے زمانہ مشکاۃ نبوت سے دور ہوتا گیا اور صحابہ کی مقدس جماعت کم ہوتی گئی ویسے ویسے خیالات بدلتے گئے اور جوں جوں اسلام کا حلقہ وسیع ہوتا گیا مختلف پارٹیاں اسلام کے نام پر متعارض خیالات کی پیدا ہوتی گئیں جس کا آغاز خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی کے آخری دور سے ہی شروع ہوگیا "کوفہ" بصرہ وغیرہ کے بلوائی غلط سلط باتیں عوام میں مشہور کرتے اور حضرت عثمان غنی کے خلاف لوگوں کوبھڑکاتے یہاں تک کہ مدینہ پر چڑھائی کرڈالا اور خلیفہ راشد کے گھر کا محاصرہ کرکے سنہ۲۵ھ میں شہید کرڈالا، اس کے بعد گویا کہ فتنوں کا سیلاب اُمنڈ آیا، جنگ جمل، جنگ صفین کے علاوہ حضرت حسین کی شہادت کا اندوہناک حادثہ رونما ہوا؛ پھرحضرت حسین کے خون کا بدلہ لینے کے نام پر کتنے لوگ اٹھے؛ انہی میں مختار ثقفی بھی تھا، جو لوگوں کو پیسے دے دے کر اپنے موقف کی تائید میں حدیثیں گڑھواتا اور بھی مختلف اسباب پیش آئے اور حدیثیں گڑھی جانے لگیں؛ یہاں تک کہ صغارِتابعین کا دور آیا توحدیث کی سند اور اس کے رجال ورواۃ کی تحقیق وتفتیش کا بہت اہتمام ہونے لگا؛ البتہ اس کے آغاز کا سہرا کس کے سر ہے تو اس سلسلہ میں مختلف حضرات کے نام علماء کے مابین زیربحث رہے ہیں، ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں مختار ثقفی کے دور سے اہتمام ہوا، مختارثقفی سنہ۶۷ھ میں قتل کیا گیا، حضرت یحییٰ القطان کہتے ہیں کہ سب سے پہلے سند کی تحقیق وتفتیش عامرشعبی نے کی، جن کی وفات ۱۰۰ھ یا ۱۰۱ھ میں ہوئی کوئی اولیت ابن سیرین کو دیتا ہے جن کی وفات ۱۱۰ھ میں ہے، مدینہ میں امام زہری نے کافی زور دیا اس لیے بعض لوگوں نے انہی کواس کا سرخیل مانا ہے؛ بہرحال اتنی بات قدر مشترک ہے کہ سند کا سلسلہ توحضرت عثمان غنی یاکم ازکم حضرت علی وحضرت امیرمعاویہ کے مابین اختلاف کے وقت سے شروع ہوگیا ہے؛ البتہ اس کی تفتیش وتحقیق کا کام ان ادوار میں اہتمام کے ساتھ ہوا، ابن سیرین نے اسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنْ الْإِسْنَادِ فَلَمَّا وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ قَالُوا سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ"۔
(مقدمہ مسلم:۱۱)
کہ لوگ اسناد سے متعلق سوالات نہیں کرتے تھے؛ مگرجب فتنہ رونما ہوا تو کہا کہ اپنے رجال کوبیان کرو؛ پس اگر اہل سنت والجماعۃ سے ہوگا تو ان کی حدیث قبول کی جائے گی اور اگراہل بدعت ہے توقبول نہیں کی جائے گی۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے "الاسناد من الدین" تالیف: عبدالفتاح ابوغدہ)

یہاں پر فتنہ سے مراد کم ازکم حضرت علی وحضرت معاویہ کے مابین جو اختلافات بھڑکائے گئے، جن کے نتیجے میں جنگِ صفین کے نام پر مسلمانوں کی تلواریں آپس میں چلیں اور دونوں طرف سے مسلمان شہید ہوئے وہ ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دورصحابہ سے ہی سند کا سلسلہ چلاآرہا ہے؛ مگرجوزف شاخت مستشرق یہودی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسناد کا سلسلہ مسلمانوں نے ۱۲۶ھ سے شروع کیا ہے اور ابن سیرین نے "فتنہ" سے مراد ولید بن عبدالملک کا قتل لیا ہے، جو۱۲۶ھ کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ ہے، تاریخ طبری میں ان واقعات کو اضطرابات سے تعبیر کرکے فتنہ کا اطلاق کیا گیا ہے "شاخت" نے اس استدلال کے علاوہ اور کچھ پیش نہیں کیا ہے؛ لیکن یہاں پر غور کرنا چاہیے کہ ابن سیرین کی وفات ۱۱۰ھ میں ہوئی ہے اور یہ واقعات ۱۲۶ھ کے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ ابن سیرین نے ۱۶/سال بعد کی بات کہی ہوگی، یہ ایک واضح علامت ہے کہ فتنہ سے مراد وہ نہیں ہے جو "شاخت" لیتا ہے۔

یہ جو کچھ بھی لکھا گیا ہے ایک سرسری جائزہ کے طور پر لکھا گیا ہے؛ ورنہ ان کے مزعومات اور الزامات کا ایک طومار ہے جو روز بروز بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، آج ضرورت ہے کہ پوری دقتِ نظری اور تن من دھن کی کوشش کے ساتھ ان کا مطالعہ کیا جائے اور پھر اس بڑھتے ہوئے ناسور کا فوراً علاج کیا جائے
 
Top