• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرت امام السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ

شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۶۴۔۲۴۱ھ)

ابو عبد اللہ الشیبانی، بغداد میں ربیع الاول ۱۶۴ ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی وعلمی لگاؤ تھا اس لئے امت سے امام اہل السنۃ کا لقب پایا۔ زہد واستغناء ایسا مثالی تھا کہ جذبہ جہاد سے ہر وقت معمور رہتے۔ آپ کے والد محترم بھی فوج کے ایک سپاہی تھے جو جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر دو برس کی تھی۔ والدہ محترمہ نے تربیت وتعلیم کی ذمہ داری کو نبھایا اور پوری نگہداشت کی اور ابتدائی تعلیم بغداد میں ہی دلائی۔

تعلیم وسماعت حدیث:

سولہ برس کی عمر میں آپ نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ ۱۸۰ ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھرحجاز آمد ورفت رہی اور علماء حجاز سے علم سیکھتے رہے۔ ۱۹۶ھ میں یمن جاکر امام عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ سے احادیث سنیں۔ یہاں امام یحییٰ رحمہ اللہ بن معین اور اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ آپ کوفہ بھی تشریف لے گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پذیر رہے سر کے نیچے سونے کے لئے اینٹ رکھا کرتے۔ کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لئے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ امام شافعی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آسکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ امام محترم تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشایخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ ۱۹۹ھ میں امام شافعی رحمہ اللہ جب دوسری بار بغداد تشریف لائے تو امام احمد رحمہ اللہ سے انہوں نے کہا: اگر تمہارے پاس ، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام، یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہاء کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت امام احمد رحمہ اللہ کی عمرچھتیس برس کی تھی۔

اساتذہ:

آپ کے اساتذہ کی ایک خاصی تعداد ہے جن سے فقہ وحدیث کا علم حاصل کرتے رہے۔ ان میں قاضی ابویوسف رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، سفیان رحمہ اللہ بن عیینہ، یحییٰ رحمہ اللہ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ ، إسمعیل رحمہ اللہ بن علیہ، ابوداؤد طیالسی رحمہ اللہ اور وکیع رحمہ اللہ بن الجراح جیسی نابغہ روزگار شخصیات ہیں جو اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے نہ صرف روایت ودرایت حدیث میں سب سے آگے ہیں بلکہ فقاہت کے اعتبار سے بھی وہ اجتہاد کے مقام کو پہنچتے ہیں۔ امام محترم نے حدیث حفظ کی اور جمع بھی کی۔اس ذوق نے انہیں اپنے وقت کا امام حدیث اور مجتہد بنا دیا۔ امام ابراہیم الحربی کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو دیکھا یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں علم اولین وآخرین جمع کردیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں جب بغداد سے نکلا تو اپنے پیچھے سب سے زیادہ متقی اور فقیہ انسان احمد رحمہ اللہ بن حنبل ہی کو چھوڑا۔

تلامذہ:

بہت سے علماء نے آپ سے علم حاصل کیا۔ خصوصیت کے ساتھ آپ سے فقہ اور اجتہادات کو اخذ کرنے والے ایک سو بیس سے زیادہ فقہاء شاگرد ہیں۔جنہوں نے اپنے شیخ کی فقہ اور اجتہادات کو سارے عالم میں پھیلایا۔ ان میں ان کے اپنے بڑے صاحب زادے صالح بن احمد ہیں جنہوں نے اپنے والد محترم سے علم فقہ وحدیث کو حاصل کیا اور دیگر اساتذہ سے بھی وہ مستفید ہوئے۔۲۶۶ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ابوبکراحمد رحمہ اللہ بن محمد الخراسانی جو الاثرم کے نام سے معروف تھے، انہوں نے بھی امام احمد رحمہ اللہ سے بہت سے فقہی مسائل روایت کئے ہیں اور بہت سی احادیث بھی۔ اپنے وقت کے فقہاء وحفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔ سن ۲۷۳ھ میں آپ فوت ہوئے۔ ایک اور شاگرد عبد الملک بن عبد الحمید بن مہران المیمونی جو امام محترم کی صحبت میں بیس سال سے زائد عرصہ تک رہے۔ امام محترم کے شاگردوں میں یہ بہت جلیل القدر شمار ہوتے ہیں۔ ان کا انتقال سن ۲۷۴ھ میں ہوا۔ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ ، امام مسلم رحمہ اللہ اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ بھی آپ کے تلمذ پر متفخر تھے۔

تقویٰ:

امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام احمد رحمہ اللہ اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے پیچھے نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی کے گھر کھانا کھاتے ۔ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نے بادشاہی مناصب قبول کر رکھے تھے۔ بڑے تاجر آآکر آپ کی خدمت میں دینار پیش کرتے مگر بالکل قبول نہ کرتے۔ یمن میں طالب علمی کے دوران ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی آپ کے شیخ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اس خبر پر جب خاموشی سے ان کی مٹھی میں کچھ دینا چاہا تو لینے سے انکار کردیا اور کہا: اللہ میری ضروریات پوری کردیتا ہے۔ ان کی صحبت لوگوں کو آخرت یاد دلا دیتی ۔ دنیاوی باتوں میں بالکل نہیں الجھتے تھے۔ متوکل کون ہوتا ہے؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: جو غیر اللہ سے ہر قسم کی توقعات ختم کردے۔ دلیل پوچھی گئی تو فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب منجنیق پر چڑھائے گئے تو جبریل امین نے آکرمدد کے لئے کہا تو فرمایا: ہاں مدد تو چاہئے مگر تم سے نہیں۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کی تو آپ اسی سے کہئے جس سے آپ کہنا چاہتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میرے لئے وہی امر پسندیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کوپسندیدہ ہے۔ فرمایا کرتے: فقر ایک ایسا عظیم مرتبہ ہے جسے اکابر کے سوا اورکوئی نہیں پا سکتا۔ اپنی دعاؤں اور سجدوں میں اکثر گڑگڑاتے اور فرماتے: اے اللہ! اگر گنہگاران امت محمدیہ کا توکوئی فدیہ چاہتا ہے تومجھی کو ان کا فدیہ بنا لے۔

فتنہ خلق قرآن:

خلیفہ مامون نے معتزلی علماء کے اکسانے پر علمائے امت کو ایک خط لکھا جس میں قرآن کو مخلوق اور محدَث ماننے کی بہ جبر دعوت تھی۔ انکارکی صورت میں سختیاں شروع کر دیں، معاش بند کردیا اور سخت سزاؤں کی دھمکی بھی دی۔ بہت سے جبرا ًقائل ہوگئے کہ قرآن مخلوق ہے۔ مگر امام احمد رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ بن نوح نیسابوری نے اس نظریے کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ آزمائش کے اس مرحلے پر دونوںثابت قدم رہے بلکہ کندن بن کر نکلے اور بڑا رتبہ بھی پایا مگر درجہ بدرجہ۔ جتنا ایمان اتنی آزمائش، جوتاحیات قائم رہتی ہے حالانکہ وہ گناہ گار نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد انہیں ازبر تھا: یہ دنیا ہمیشہ مصائب اور فتنے دکھایا کرتی ہے۔ بعد کے ادوار میں مصائب کی شدت تیز تر ہوگی۔
خلیفہ مامون نے سب علماء کو بلا بھیجا۔ کمزور لوگ حکومت کی سطوت اور قہرکے آگے گردن خم کر بیٹھے۔ امام احمد اور محمد بن نوح نے جب نہ مانا تودونوں حضرات کو اونٹ پر سوار کرکے مامون کے ہاں لے جایا گیا۔ راستہ میں ایک بدو نے نصیحت کرتے ہوئے کہا: آپ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے جارہے ہیں ۔ سب کی نظر آپ پر ہے۔ للہ آپ مسلمانوں کو رسوا نہ کیجئے گا۔ اللہ آپ کا دوست ہے صبر کیجئے گا ۔ جنت آپ اور آپ کے شہید ہونے کی دیر تک ہے۔ موت تو بہرحال آنی ہے اس فتنہ میں آپ اگر کامیاب ہوگئے تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ نصیحتیں میرے دل کو لگ گئیں اور میں نے مامون کے خیالات کی نفی کا پورا عزم کرلیا۔
مامون کے ہاں جب یہ دونوں حضرات پہنچے تو قریب ہی ایک جگہ میں انہیں ٹھہرا دیا گیا۔ خادم نے اطلاع دی کہ مامون نے رسول اللہ سے قرابت کا واسطہ دے کر قسم کھالی ہے: اگر احمد رحمہ اللہ نے خلق قرآن کا اقرار نہ کیا تو اسی تلوار سے اس کی گر دن اڑا دوں گا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے یہ سنتے ہی گھٹنے زمین پر ٹیک دیے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور عرض کی: خدایا! اس فاجر کوتیرے حلم نے بہت مغرور کردیا ہے کہ وہ اب تیرے دوستوں پر بھی تلوار اٹھاتا ہے۔ خدایا! اگر تیرا کلام غیر مخلوق ہے تو تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ میں اس کے لئے ہر مصیبت سہنے کو تیار ہوں۔ اسی رات صبح ہونے سے پہلے مامون کا انتقال ہوگیا۔ مگر معتصم خلیفہ بن گیا۔ اس نے محمد بن ابی دؤاد کو اپنا وزیر اور قوت بازو بنایا۔ اس طرح معتصم، مامون سے بھی زیادہ اس نظریے کے لئے سخت گیر ثابت ہوا۔ اس نے امام محترم کو دیگر قیدیوں کے ساتھ بیڑیاں باندھ کر ایک کشتی میں پایہ تخت بغداد بھیج دیا۔ محمد رحمہ اللہ بن نوح راستہ میں ہی انتقال کرگئے۔
امام محترم جب بغداد پہنچے تو پاؤں میں بوجھل بیڑیا ں تھیں جن کی وجہ سے چلنا دشوار تھا۔ سخت علیل ہوگئے۔ قید خانہ میں ڈال دئیے گئے اور تیس ماہ قید میں رہے۔ پھر معتصم کے پاس انہی بیڑیوں میں لائے گئے۔ سُرَّمَنْ رَأَی (گلبرگ) میں ایک کمرہ میں بند کردیا گیا۔ جس میں اندھیرا ایسا تھا کہ کوئی چیز نظر نہ آتی۔ رب کے حضور نماز شکرانہ ادا کی۔ امام محترم فرماتے ہیں: معتصم کے پاس اسی حالت میں مجھے لے جایا گیا ۔ میں نے سلام کے بعد گفتگوکی اور کہا کہ آپ کے نانا محترم کا کیا پیغام تھا؟
معتصم نے کہا لا الہ الا اللہ کی طرف۔
تھوڑی گفتگو کے بعدمعتصم نے عبد الرحمن معتزلی کو کہا کہ ان سے پوچھو۔
عبد الرحمن نے مجھ سے کہا: قرآن کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ میں چپ رہا۔ لیکن معتصم نے اصرار کیا جواب دو تو میں نے کہا: باری تعالیٰ کے علم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ اس نے جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: قرآن اللہ کا علم ہے اور جس نے اللہ کے علم کو مخلوق کہا اس نے کفر کیا۔ کفر کے لفظ سے یہ جماعت بڑی سیخ پا ہوئی اور معتصم سے کہا: دیکھئے اس نے آپ کو اور ہم سب کو کافر کہہ دیا۔ مگر معتصم نے توجہ نہ دی۔ پھر عبد الرحمن نے سوال کیا: یہ بتاؤ ایک زمانہ تھا جب اللہ تھا اور قرآن نہ تھا۔ میں نے جوابا ًکہا: کیا ایسا تھا کہ خدا تھا اور اس کا علم نہ تھا؟ عبدالرحمن چپ ہوگیا۔ بہرحال وہ جو دلائل دیتے میرے سوال یا جواب میں وہ خاموش ہوتے رہے اور بدتمیزی و بدکلامی بھی کرتے رہے۔ اور خلیفہ کو بہکاتے بھی۔ میں کہتا : دین کی بنیاد کتاب وسنت کے علاوہ کسی تیسری چیز پر نہیں ہے۔ مگر ابن ابی دؤاد کہتا: بحث کا دار ومدار نقل کے علاوہ عقل پر بھی ہونا چاہئے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن گفتگو ہوتی رہی۔ آخری دن امام محترم کی آواز ان سب کی آوازوں سے بھاری اور اونچی رہی جو معتزلی فقہاء اور قضاۃ کی تھی۔ وہ لا جواب رہے۔ اور خلیفہ مجھے یہی کہتا رہاکہ تم میرے مسلک کی تائید کرو میں تمہیں مقرب خاص بنا لوں گا۔ میں نے یہی کہا: کہ اگر کوئی دلیل قرآن وحدیث سے پیش کردیجئے تومیں ماننے کو تیار ہوں۔ بعد ازاں خلیفہ نے میرے ہاتھ پاؤں بندھوا دئیے اور مجھے کوڑے برسوائے۔ میں بار بار بے ہوش ہوا۔ جب پہلا کوڑا برسا میں نے بِسْمِ اللّٰہِ کہا۔ جب دوسرا پڑا تو لاَ حَولَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ کہا اور جب تیسرا پڑا تو کہا: {قل لن یصیبنا إلا ما کتب اللہ لنا}۔ بے ہوش ہوتا تو چھوڑ دیا جاتا۔ ہوش میں آتا تو دوبارہ مارنا شروع کردیتے ۔میں جلد بے ہوش ہونے لگا تو معتصم ڈر گیا کہ کہیں اب یہ فوت ہی نہ ہوجائیں۔ اس نے ضرب بند کرادی۔ جب ہوش آیا تو معتصم کے ایک کمرہ میں ہی خود کو بغیر سلاسل کے آزاد پایا۔ یہ واقعہ ۲۵ رمضان ۲۲۱ھ کا ہے۔
مجھے گھر پہنچانے کا خلیفہ نے حکم دیا۔ راستہ میں اسحق بن ابراہیم کے ہاں ٹھہرے۔ کہتے ہیں کہ میں صائم تھا۔ کپڑے خون آلود تھے اسی حالت میں نماز ادا کی۔ ابن سماعہ نے کہا کہ آپ نے خون کے کپڑوں میں نماز ادا کی؟۔ میں نے کہا: ہاں! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خون بہنے کی حالت میں نماز ادا تھی اور ان کے زخم کا خون فوارہ کی صورت میں نکل رہا تھا۔ کوڑوں کے ضرب کی وجہ سے ہاتھ اور ہونٹوں پر سردی کا اثر تا وفات رہا۔

خراج عقیدت:

امام ابن المدینی رحمہ اللہ نے آزمائش کی اس گھڑی پر امام کی ثابت قدمی پر کہا: اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دو بندوں کی وجہ سے بڑی عزت عطا فرمائی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق سے جو یوم الردۃ(جنگ یمامہ) کے دن ثابت قدم رہے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے جنہوں نے محنہ (آزمائش) کے موقع پر اسلام کو سرفراز فرمایا۔ امام بشر الحافی نے فرمایا: امام احمد رحمہ اللہ نے اس امت میں نبوت کے فرائض سر انجام دئیے ہیں۔ ابو الولید الطیالسی رحمہ اللہ نے کہا: اگر احمد رحمہ اللہ بنو اسرائیل میں پیدا ہوتے تو کچھ بعید نہ تھا کہ وہ نبی ہوتے۔

عقیدہ:

امام محترم ٹھوس اسلامی عقائد کے قائل تھے۔ قرآن پر کسی چیزکومقدم نہ کرتے۔ اسے غیر مخلوق بلکہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ بھی غیر مخلوق قرار دیتے۔ اس کے بعد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ساتھ صحابہ وتابعین کے آثار بھی قابل قبول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں اس کی تصدیق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میںہی نجات ہے۔ قضاء وقدر، خیر وشر سب اللہ کی جانب سے ہیں۔ اگر کسی نے فرض کو سستی ولا پروائی سے ترک کردیا تو اللہ کو اختیار ہے بخش دے یا اسے عذاب دے ۔ ایمان، قول وعمل اور دلی تصدیق کا نام ہے۔ میزان حق ہے۔ صراط حق ہے۔ جنت ودوزخ برحق ہیں۔ عیسیٰ بن مریم کا نزول برحق ہے۔ حوض حق اور شفاعت بھی حق ہے۔ عرش وکرسی بر حق ہیں۔ ملک الموت پر میرا ایمان ہے۔ دجال یقینا آئے گا۔ عیسیٰ بن مریم دنیا میں آئیں گے اور باب لد پر دجال کو قتل کریں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا کوئی نہیں۔ ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسا اور ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ جیسا کوئی نہیں۔ بغیرولی نکاح صحیح نہیں۔ متعہ(وقتی نکاح) قیامت تک کے لئے حرام ہے۔وغیرہ

وفات:

۲۴۱ ھ ربیع الاول میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے ۔ وفات سے قبل امام محترم نے وصیت لکھی اور کی بھی۔ جس کے الفاظ یہ تھے:
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ ہٰذَا مَا أَوْصٰی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ أَوْصٰی أَنَّہُ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، أَرْسَلَہُ بِالْہُدٰی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوکَرِہَ الْمُشْرِکُونَ، وَأُوْصِیْ لِأہْلِی وَقَرَابَتِی أَنْ یَعْبُدُوا اللّٰہَ وَأنْ یَحْمَدُوہُ وَأَنْ یَنْصَحُوا لِجَمَاعَۃِ الْمُسلِمِینَ وَأُوْصِی أَنَّی قَدْ رَضِیتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالإسْلاَمِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً۔
شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔یہ وصیت ہے جو احمد بن حنبل نے کی ہے : وہ اس بات کی گوہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہی اکیلا ہے اس کی ولایت وعبادت میں کوئی شریک نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین حق دے کے بھیجا تاکہ وہ اس دین کوتمام مذاہب پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار ہو۔ اور میں اپنے اہل اور قرابت داروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ عزوجل کے عبادت کریں اس کی حمدو ثنا بیان کریں اور اہل اسلام کی جماعت کی خیرخواہی کریں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر دل وجان سے راضی ہوں۔
وفات سے قبل اپنا وضو کرایا، اور ہر حصے کو اچھی طرح دھلوایا۔ پیر کی انگلیوں کا خلال تک کیا۔ درمیان میں اللہ کا ذکر کرتے رہے جب وضو مکمل ہوا تب فوت ہوگئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ عمر تقریبا (۷۷) ستتر سال تھی۔تجہیز وتکفین سب کچھ اولاد نے خرید کر کی۔ جنازہ میں سات لاکھ لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت اہل علم کی تھی۔ علماء اس وقت کہا کرتے تھے: بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَومِ الْجَنَائِزُ ہمارے اور دوسروں کے درمیان جنازے ہی تو فرق کیا کرتے ہیں۔

فقہ حنبلی کے اصول:

امام محترم نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے کچھ ایسے اصول اختیار کئے جو بعد میں فقہ حنبلی کی اساس قرار پائے۔ یہ پانچ اصول ہیں جو آپ کے فتاوی میں واضح طور پر ملتے ہیں اور انہی پر ہی آپ کی فقہ کا دار ومدار تھا۔ امام محترم اگر دلائل کو متعارض پاتے تو بالکل فتوی نہ دیتے ۔ اور اگر کسی مسئلے میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوتا یا کوئی حدیث آپ کے علم میں نہ ہوتی یا کسی صحابی یا تابعی کا قول نہ ملتا تو توقف فرماتے۔
جس مسئلے میں سلف سے کوئی اثر نہ ملتا تو بھی فتوی نہیں دیتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے: اس مسئلے پر رائے دینے سے بچو جس میں تمہارے پاس کوئی راہنما نہ ہو۔ جب مسائل کا جواب دیتے یا لکھتے تو کھلے دل سے فقہاء محدثین کے فتاوی کو اور امام مالک رحمہ اللہ اور اصحاب مالک رحمہ اللہ کے فتاوی وغیرہ کو بطور دلیل کے پیش کردیا کرتے۔ ایسے فتویٰ سے روکا کرتے جس میں حدیث سے اعراض نظر آتا ہو یا حدیث کے مطابق وہ فتوی نہ ہو اور نہ ہی ایسے فتویٰ کو قابل عمل سمجھتے تھے۔ وہ پانچ اصول درج ذیل ہیں:
۱۔ نصوص: نص کی جمع ہے جس سے مراد قرآن وحدیث سے کوئی دلیل جو نص کی صورت میں ہو۔ نص جب انہیں مل جاتی تو اسی کے مطابق فتوی دے دیا کرتے خواہ کسی نے بھی اس کے خلاف کہا ہو۔ حدیث صحیح پر کسی کے قول، عمل، رائے اور قیاس کو مقدم نہیں کیا کرتے تھے۔ نہ ہی اجماع کو وہ حدیث صحیح پر مقدم کرتے تھے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ایسے اجماع کو تسلیم ہی نہیں کیا جو صحیح حدیث کی موجودگی میں اس کے برعکس کیا گیا ہو۔ کسی مسئلے پر اجماع کے دعوے کو بھی تسلیم نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ جو یہ دعویٰ کر رہا ہے اسے کیا علم کہ علماء نے اس سے اختلاف کیا ہو۔ اور یا اس اختلاف کا علم اسے نہ ہوا ہو۔
۲۔ فتاویٰ صحابہ: کسی صحابی کا فتوی مل جانے کے بعد اس کی مخالفت کسی اور صحابی سے نہ ملتی تو فتوی اس کے مطابق دیتے ۔ ایسے فتوی کو اجماع تونہ کہتے بلکہ یہ فرمایا کرتے: اس کے بارے میں مجھے کسی ایسی بات کا علم نہیں جو اس صحابی کی بات کورد کرتی ہو۔ اس نوع کا کوئی فتوی ـ آپ کو بھی اگر مل جاتا تو کسی کے عمل، رائے یا قیاس پر اسے مقدم نہیں کرتے تھے۔
۳۔ اقوال صحابہ کا چناؤ: جب اقوال صحابہ میں انہیں اختلاف نظر آتا تو اس صورت میں وہ اس صحابی کا قول لیتے جو کتاب وسنت کے قریب ترین ہوتا۔ اور اگر کسی کے قول کی کوئی موافقت نہ ملتی تو اس مسئلے میں اختلاف کا ذکر فرماتے مگر کوئی حتمی رائے نہ دیتے۔
۴۔ حدیث مرسل: کسی مسئلے میں اگر صحیح حدیث نہ ہوتی تو امام محترم حدیث مرسل اور حدیث ضعیف سے بھی استدلال لیتے ۔ ایسی حدیث کو تو وہ قیاس پر بھی ترجیح دے دیا کرتے۔ضعیف حدیث سے مراد ان کے ہاں کوئی باطل حدیث، یا منکر حدیث، یا اس راوی کی حدیث نہیں جومتہم ہوکہ ایسی حدیث پر عمل ناگزیر ہو بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث، صحیح کی ایک قسم ہی ہے جو حسن کے درجے کی ہے۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں حدیث کی دو ہی اقسام ہوا کرتی تھیں صحیح اور ضعیف۔ ضعیف حدیث کے کچھ مراتب تھے۔ جن کی ادنی قسم یہ ضعیف ہوا کرتی تھی جو بعد میں حسن کہلائی۔ جب کسی مسئلہ میں کوئی ایسا اثر نہ پاتے یا کسی صحابی کا کوئی قول نہ ملتا یا کوئی اجماع اس کے خلاف نہ ملتا جو اس ضعیف حدیث کو ردکرسکے توقیاس کو ترجیح دینے کی بجائے اس پر عمل فرماتے۔ تمام ائمہ کی طرح ان کا بھی یہی اصول تھا کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم رکھا جائے۔(اعلام الموقعین ۱/۳۲)
۵۔ضرورۃً قیاس : جب کسی مسئلہ میں ان کے پاس کوئی نص نہ ہوتی اور نہ ہی قول صحابہ یا صحابی، نہ کوئی اثر مرسل یا ضعیف، پھر آپ پانچویں اصول کی طرف توجہ فرماتے جسے قیاس کہتے ہیں۔ اسے بھی امام محترم نے بوقت ضرورت استعمال کیا ہے۔ابوبکرالخلال کی کتاب میں ہے : امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے قیاس کے بارے میں دریافت کیا: توانہوں نے فرمایا: ضرورت کے وقت اس کی طرف بھی رخ کیا جاسکتا ہے۔ (اعلام الموقعین: ۱/۳۲)

معتمد کتب حنابلہ:

یوں تو امام محترم نے بہت سی کتب چھوڑیں مگر حنابلہ حضرات کے نزدیک کچھ کتب اساسی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ المسند: امام محترم نے اپنے پیچھے یہ کتاب ایک مسودے کی شکل میں چھوڑی جس میں تقریباً بیالیس ہزار احادیث ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں اس مقصدکے لئے ثقہ راویوں اور قابل اعتماد محدثین سے احادیث کو جمع کرنا شروع کیا اور عمر کے آخیر تک اس کتاب میں لگے رہے۔ کہا کرتے: میں نے اس کتاب کو ایک امام ودلیل کے طور پر لکھا ہے جب لوگ سنت رسول میں اختلاف کرنے لگیں تو اس کی طرف رجوع کیا کریں۔ یہ تمام احادیث متفرق اوراق میں تھیں آخری عمر میں ان کے بیٹوں اور چند خاص شاگردوں نے اسے جمع کیا اور پھر امام محترم نے انہیں جو کچھ بھی لکھا تھا اسے املاء بھی کرادیا۔ گو یہ سب اوراق مرتب نہیں تھے۔بعد از وفات ان کے بیٹے عبد اللہ اور شاگرد ابوبکر القطیعی نے اس کتاب میں اپنے دیگر اساتذہ سے سنی ہوئی بعض احادیث بھی شامل کرکے اسے روایت کیا اور یوں یہ کتاب شائع ہوگئی۔
۲۔ مسائل الإمام أحمد بروایت عبد اللہ بن احمد
۳۔ مسائل الإمام أحمد بروایت امام ابی داؤد سجستانی
۴۔ مسائل الإمام أحمد بروایت ابو الفضل صالح بن احمد
۵۔ الجامع الکبیر از ابوبکر الخلال
۶۔ مختصر الخرقی

چند حنبلی اصطلاحات :

امام احمد رحمہ اللہ کے شاگردوں نے امام محترم کی آراء کو نقل کرتے وقت بہت سی مصطلحات کا استعمال کیا ہے۔ اسی طرح دیگر حنبلی مجتہدین کی آراء کو بھی کتب میں ملتی ہیں جن کی مراد اور مفہوم اپنا اپنا ہے۔ ذیل میں ان کی مختصر تفصیل دی جاتی ہے۔
۱۔ النص: امام محترم نے کسی مسئلے کے بارے میں کوئی واضح حکم بتایا ہو اسے نص کہا گیا۔
۲۔ التنبیہ : یہ امام محترم کا وہ قول ہوتا ہے جیسے کسی نے آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو اس کے جواب میں انہوں نے ایک حدیث بیان کردی جو اس حکم کا مفہوم بتادیتی ۔ ساتھ ہی امام محترم نے اس حدیث کو صحیح بھی کہہ دیا یا مزید تقویت دینے کے لئے اسے اصح کہہ دیا مگر اس حکم کے بارے میں صراحت سے خود کچھ نہ کہا۔ اسے تنبیہ کہا گیا ہے۔تنبیہ… ایمائ، اشارہ اور توقف سے ملتی جلتی اصطلاح ہے۔
۳۔ الروایۃ: امام محترم کی منقول نص کو کہتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام احمد رحمہ اللہ کی صرف منقول روایات کو نصوص کہتے ہیں۔ ورنہ روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا قول بھی شامل ہے۔
۴۔ القول: ایسا حکم جو امام محترم نے بتایا نہ ہو بلکہ ان کی طرف منسوب ہو۔ اسے قول کہتے ہیں۔
قول اور روایت میں فرق: روایت منقول نص کو کہتے ہیںاور قول ان کی طرف منسوب حکم کو کہتے ہیں۔
۵۔ تخریج: حکم کو ایک مسئلہ سے منتقل کرکے اس مسئلہ کی طرف لے جانا جو اس سے ملتا جلتا ہو اور ان دونوںکے درمیان اس حکم میں برابری کردینا ۔جیسے اقیموا الصلاۃ میں اقامت کے ساتھ باجماعت نماز کی فرضیت بھی برابر کردی جائے۔ یہ تخریج اس صورت میں ممکن ہوتی ہے جب مسئلہ کے معنی کا فہم حاصل ہو جائے۔
تخریج اور قول میں فرق: امام محترم رحمہ اللہ کی طرف قول اس شرط پر منسوب ہوگا جب کہ وہ ان کا ہو۔ رہی تخریج تو وہ امام صاحب کے اصول سے حکم کے استخراج کا نام ہے۔
۶۔ النقل: امام محترم رحمہ اللہ کی نصوص کی روایت کو اور ان پر تخریج کو کہا جاتا ہے۔
۷۔ الوجہ: امام محترم رحمہ اللہ کے اصولوں ، یا ان کے ایمائ، دلیل، تعلیل، یا امام احمد رحمہ اللہ کے کلام کے سیاق یا قوت کلام کا اتباع کرتے ہوئے کسی مسئلے کا قیاس کے ذریعے دوسرے ایسے حکم سے مسئلہ مستنبط کرنا جو اس سے ملتا جلتا ہو۔ وجہ کہلاتا ہے۔
۸۔ الاحتمال: وجہ کا ہم معنی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وجہ میں فتوی دینا پڑتا ہے احتمال میں جزم نہیں ہوتا۔
۹۔ المذہب: اس سے مراد حنبلی مذہب میں معمول بہ شے ہے خواہ وہ امام کی طرف سے ہو یا حنبلی فقہاء کی طرف سے۔ خواہ وہ نص سے ثابت ہو یا ایماء وتخریج سے۔
۱۰۔ ظاہر المذہب: ایسا لفظ جس میں دومعنوں کا احتمال ہو مگر ان میں سے ایک دوسرے سے اظہر ہو، وہ ظاہر کہلاتا ہے۔ لہٰذا ان میں قوی معنی کو لینا ہی جائز ہوگا۔ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشہور مذہب یہی ہے۔ یہ لفظ اس وقت استعمال ہوگا جب کسی مسئلہ میں وہاں اختلاف ہو۔
۱۱۔ التوقف: کسی مسئلہ میں اگر کوئی قول نہ ہو تو دلائل کے تعارض کی صورت میں دیگراقوال میں سے پہلے، دوسرے قول کو ترک کرنا اور نفی یا اثبات کو ترک کرنا اور کچھ نہ کہنا توقف کہلاتا ہے۔
۱۲۔ الروایتان: روایت کا تثنیہ ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں تو اس سے مراد ایک روایت نص کے ساتھ ہے اور دوسری ایماء کے ساتھ ۔ یاایک اور نص سے تخریج کی گئی ہے۔ یا وہ ایسی نص سے ہوگی جو ناپسندیدہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلہ میں ایک روایت ہے تو اس سے مراد امام کی اس حکم میں ایک ہی نص ہوگی۔
۱۳۔ القولان: دونوں قول یا تو امام کی نص سے ہوں گے یا ان میں سے ایک نص سے ہوگا اور دوسرا ایماء سے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں اس کے برعکس وجہ ہو یا تخریج یا احتمال ہو ۔
۱۴۔ الوجہان: وجہ تخریج کے بغیر نہیں ہوتی۔ جب یہ کہا جائے کہ اس مسئلہ میں دو صورتیں ہیں تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ امام محترم رحمہ اللہ کی اس مسئلے میں کوئی نص نہیں بلکہ ان کے اصحاب نے اس مسئلہ میں تخریج کرکے حکم لگایا ہے۔ ایسی صورت میں ان اصحاب کے مابین اجتہادی اختلاف ہوا تو نتیجۃًہر اجتہاد کی الگ الگ صورت ظاہر ہوئی۔

ماخوذ "فقہ اسلامی از ڈاکٹر ادریس زبیر حفظہ اللہ"
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
امام السنہ فقیہ الامہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی سیرت کو "فقہاء" کے سیکشن میں اسلئے شامل کیا کہ بہت سے متعصب حضرات خاص طور پر زاہد کوثری جیسے متعصب حنفیوں نے امام صاحب کو فقیہ ماننے سے انکار کیا ہے اور انہیں محض ایک محدث کہا ہے اور یہ کہا کہ عدم فقاہت کی وجہ امام صاحب کی فقہی رائے معتبر نہیں۔

اللہ عز وجل امام صاحب کے درجات بلند فرمائے آمین۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اس میں تکفیری اور خارجی فکر کے حاملین کے لئے بھی بہت بڑا سبق ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top