اسلام اور جمہوریت میں فرق
پاکستان کو بنے ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا‘ کہ مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا۔ اب ٹوٹ پھوٹ کا وہی عمل مغربی پاکستان میں شروع ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جس رشتہ سے مختلف زبانیں بولنے والے ‘ مختلف قوموں اور مختلف علاقوں کو ایک لڑی میں پرو کر پاکستان بنایا تھا۔ اب وہ رشتہ کمزور ہو گیا ہے۔ یہ اسلامی جذبہ ہی تھا جس نے پاکستان بنا دیا۔ ورنہ مغرب کو مشرق سے ‘پٹھان کو پنجابی سے‘ سندھی کو بلوچی سے جھوڑنے والی سوائے اسلام کے اور کوئی چیز نہ تھی۔ جب یہ جذبہ علاقائی اور لسانی عصبیتوں تلے دب گیا ‘تشتت اور افتراق کا عمل شروع ہو گیا ‘ یہی قومیں تھیں جنھوں نے متحد ہو کر اسلام کے نام پر پاکستان بنایاتھا ‘ اب وہی قومیں ہیں جو مختلف عصبیتوں کاشکار ہو کر پاکستان کوختم کرنے کے درپے ہیں۔ اس کا واحد سبب اسلام کا نافذ نہ ہونا اور اس کی جگہ جمہوریت کا رواج پانا ہے۔ یہ جمہوریت جہاں جاتی ہے وہاں کے عوام کو لادین بناتی ہے اور مختلف عصبیتیں پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے اس کا اسلام کے ساتھ تصادم ہے۔ اسلام ایک دین ہے اور یہ ایک لادینیت ہے۔ تجربہ گواہ ہے کہ جب اور جس ملک میں یہ جمہوریت آئی ‘ مسلمان لا دین ہو گئے ۔ اوران میں طرح طرح کی عصبتیں پیدا ہو گئیں ۔ اور جب مسلمان لادین ہو جاتا ہے ‘ اس کی دینی غیرت و حمیت اور اسلامی اخوت و مودت ختم ہو جاتی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب دینی غیرت گئی تو جذبہ جہاد گیا‘ اور جب دینی اخوت گئی تو اتحاد گیا۔ اور جب دونوں گئے تو اسلام گیا۔
مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں جمہوریت ہی رہے خواہ اسلامی جمہوریت کے نام سے ہی ہو۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمان جمہوریت کے چنگل سے نکل گئے تو وہ ضروراسلام کے نظام خلافت کی طرف دوڑیں گے۔ مسلمانوں کو تو خلافت یاد نہیں رہی ‘ لیکن کفر کو وہ کبھی نہیں بھولتی۔کفر کے لیے وہ پیغام موت ہے اور اسلام کے لیے وہ آب حیات ۔ کفر کو جو نقصان پہنچا ہے وہ خلافت سے ہی پہنچا ہے۔ وہ خلافت راشدہ ہو یا خلافت بنو امیہ ‘ خلافت عباسیہ ہو یا خلافت عثمانیہ۔ بیت المقدس کو فتح کیا تو خلافت نے‘قسطنطنیہ کو سر کیا تو خلافت نے۔ ہندوستان کو مسلمان کیا تو خلافت نے۔ یورپ کو تاراج کیا تو خلافت نے۔ جمہوریت نے تو خلافت کے فتح کیے ہوئے علاقے دئیے ہیں ۔ لیا کچھ نہیں۔ اسلام کے عروج او ر فتوحات کا زمانہ یہ خلافتیں ہی ہیں ۔ جمہوریت نہیں۔ خلافت کے تصور میں مسلمانوں کے شاندا ر ماضی کی یاد ہے۔ خلافت اور جہاد دو ایسے لفظ ہیں کہ جن سے کفر بہت خائف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان الفاظ سے مسلمانوں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو جمہوریت کی پیدا کردہ تمام عصبیتوں کو ختم کرکے مسلمان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیتی ہے اور مسلمان اپنے آپ کو ملت واحدہ کے ارکان سمجھنے لگ جاتے ہیں اور سب جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
کفر خلافت کے تصور کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ بہرصورت اسے مسلمانوں کے ذہنوں سے مٹانا چاہتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اﷲ کی حاکمیت کو بھول کر اپنی حکمرانی میں لگ جائیں۔ مختلف عصبیتیں پیدا کرکے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہو جائیں ۔ خلافت کا عالمگیر تصور اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی جمہوریتیں بنا کر آپس میں دست وگریبان رہیں اور کمزور ہو کر کفر کے دست نگر ہو جائیں۔ کفر نے جمہوریت کی اسی تکنیک سے ترکوں کا ستیاناس کیا‘ اسی تکنیک سے عربوں کو پارہ پارہ کیا۔ اسی جمہوریت سے پاکستان کو دولخت کیا‘ اسی آزمودہ ہتھیار سے وہ اب بقیہ کو ختم کرنے کی فکر میں ہیں۔ جب ہی دن رات بحالی جمہوریت کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔
مغرب جو جمہوریت کا مطالبہ کرتا ہے وہ کرے‘ وہ تو مغرب ہے ‘ اسلام دشمنی اسی کا کام ہے۔ پاکستان کے مسلمان مغرب کی آواز میں آواز ملاکر جمہوریت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں ؟ کیا انھوں نے جمہوریت کی تباہ کاریاں نہیں دیکھیں یا وہ مغرب اور بھارت کو جو ہمارے لیے جمہوریت چاہتے ہیں پاکستان کا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ اگر جمہوریت مسلمانوں کے لیے ذرا بھی مفید ہوتی تو ہمارے دشمن کبھی اس کا نام نہ لیتے۔ جیسا کہ وہ کبھی خلافت کا نام نہیں لیتے‘ جو تیرہ سو سال تک مسلمانوں کا نظام رہا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ خلافت کا تصور اسلام اور اتحاد بین المسلمین کے احیا کا تصور ہے۔ اس لیے وہ اس کا کبھی نام نہیں لیں گے۔ وہ جمہوریت کا ہی نام لیں گے۔ جو کافروں کا نظام ہے اور مسلمانوں کو کافر بناتا ہے۔ قرآن نے کیا خوب کیا ہے ۔
( وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَاءً )[4:النساء:89]
کافر تو تمھیں اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں( تاکہ ان کو تم سے کوئی خطرہ نہ رہے )
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت سے خبردار ہی رہیں۔ یہ مسلمانوں کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ اسے دشمن ہی سمجھیں۔ اسے کبھی اسلام نہ سمجھیں۔ کفر کبھی اسلامی نہیں ہوتا۔ دشمن کبھی خیر خواہ نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ جمہوریت اسلام کی دشمن کیسے ہے ؟ اسلام اور جمہوریت کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی حقیقت کیا ہے اور ان میں فرق کیا ہے؟
جمہوریت کی لوگوں نے بہت سی تعریفیں کی ہیں۔ سب سے بہتر اور جامع ابراہیم لنکن کی تعریف مانی جاتی ہے جس کے الفاظ ہیں:
Government of the people, by the people for the people
جس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری نظام میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں‘ وہ اپنے ملک کا خود ہی دستور بناتے ہیں‘ خود ہی قانون ۔ اکثریت جو چاہے قانون بنا دے۔ شراب کو حلال کر لے‘ یا حرام۔ لواطت (Sodomy)کو جائز کر لے یا ناجائز۔ چنانچہ برطانیہ وغیرہ یورپی ملکوں میں(Sodomy) یعنی لواطت جیسا غیر فطری فعل بھی اگر رضا مندی سے کیا جائے تو جائز ہے‘ کوئی جرم نہیں۔ جمہوریت میں جو پارٹی بھی اکثریت میں ہوتی ہے وہ رول کرتی ہے اور جو اقلیت میں ہوتی ہے وہ رول ہوتی ہے۔ اس طرح جمہوریت میں انسان انسان پر حکومت کرتا ہے‘ اﷲ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ انسانوں کی انسانوں پر ‘ مخلوق کی مخلوق پر حکومت ہوتی ہے۔ جو بالکل غیر فطری عمل ہے۔ برعکس اس کے اسلام ایک دین ہے‘ جو مکمل نظام حیات ہے‘ اس میں حاکمیت اعلیٰ اﷲ کی ہوتی ہے۔ سب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ راعی اور رعایا سب اﷲ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اسلام میں قانون اﷲ کا ہوتا ہے۔ کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکومت نہیں کر سکتا۔ حکومت سب پر اﷲ کی ہوتی ہے۔ کاروبار مملکت چلانے کے لیے خلافت کا منصب ہے‘ جس کا کام اﷲ تعالیٰ کے احکام کی تکمیل کرنا اور کرانا ہوتا ہے‘ حکومت کرنا نہیں۔وہ کوئی قانون اﷲ کی منشا کے خلاف نہیں بنا سکتا۔اسلام میں حکومت کا مقصد اﷲ کی حاکمیت کو قائم کرنا ہے ‘ تاکہ راعی اور رعایا ‘ حاکم و محکوم سب کی عبودیت اور اﷲ کی معبودیت ظاہر ہواور یہی مقصود تخلیق انسانی ہے۔
( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ )[51:الذاریات:56]
امن و امان کا قیام اسلامی حکومت کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے‘ ورنہ یہ نہ مقصود حکومت ہے ‘ نہ مقصد حیات۔ مقصد اﷲ کی بندگی اور اس کی رضا کا حصول ہے تاکہ انسان ترقی کرکے آخرت کی ابدی زندگی حاصل کر لے۔ جیسے یہ دنیا خو دEnd نہیں بلکہ آخرت کمانے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح امن وامان کا قیام بھی کوئی End نہیں کہ اس کے قیام پر مقصد زندگی پورا ہو جائے۔ امن وامان کا قیام بھی مقصد زندگی کے حصول کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ جب مقصد حیات اﷲکی بندگی ہے تو مقصد حکومت بھی اﷲ کی بندگی کرنا اور کرانا ہونا چاہیے۔ چنانچہ یہی مقصد اسلامی حکومت کا ہے۔ جب اﷲ نے بندے کو بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ‘ حکومت کے لیے نہیں تو اسلام اور جمہوریت میں تضاد ہوا۔کیوں کہ حکومت اور بندگی میں تضاد ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ بندہ بندگی کرے ‘ حکومت کا خیال نہ کرے‘ حکومت اﷲ کا حق ہے۔ جمہوریت کہتی ہے کہ حکومت عوام کا حق ہے۔ اگر تقابل کر کے دیکھا جائے تو واضح ہو جائے گاکہ جمہوریت اسلام کی ضد ہے‘ ند نہیں۔ غیر ہے‘ عین نہیں۔ ذیل میں ہم اسلام اور جمہوریت کا مقابلہ کرتے ہیں تاکہ سمجھنے والوں کے لیے اس کا بعد واضح ہو جائے۔