ایک بے بنیاد اعتراض
بعض لوگ کہتے ہیں اس روایت کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں اور یہ خود ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے جس سے پتہ چلتا ہے یہ روایت ثابت نہیں ہے کیونکہ اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو سفیان ثوری اسی پر عمل کرتے ۔
جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
سفیان ثوری کی طرف منسوب عمل سے سفیان ثوری کی بیان کردہ یہ حدیث غلط ثابت نہیں ہوتی ہے بلکہ سفیان ثوری کی اس حدیث کی وجہ سے ان کی طرف منسوب عمل کی نسبت غلط ثابت ہوتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جب سفیان ثوری رحمہ اللہ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت بیان کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پرعمل کریں ؟ لہٰذا ان کے بارے میں یہ کہنا ہی غلط ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے ۔سفیان ثوری رحمہ اللہ عظیم محدث ہیں بھلا وہ حدیث کے خلاف کیسے عمل کرسکتے ہیں۔نیزدیکھئے خامسا کے تحت امام ابن حزم کا قول۔
ثانیا:
یہ اعتراض بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ موطا حدیث نمبر 47 میں نماز میں ہاتھ باندھنے والی جو حدیث ہے ، وہ ثابت نہیں کیونکہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھتے تھے ! بھلا بتلائیے کہ اس طرح کے بے ہودہ اعتراض سے کیا ہم موطا امام مالک کی اس حدیث کو جھٹلا دیں جس میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے؟ یاد رہے کہ موطا امام مالک کی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی امام مالک ہی کی سند سے موجودہے۔[بخاری:ـکتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740۔]
صحیح بات یہ ہے کہ امام مالک کی طرف منسوب عمل سے امام مالک کی بیان کردہ حدیث غلط ثابت نہیں ہوتی بلکہ امام مالک کی بیان کردہ حدیث سے ان کی طرف منسوب عمل کی نسبت غلط ثابت ہوتی ہے ۔
یہی معاملہ سیفیان ثوری رحمہ اللہ کی حدیث اور ان کی طرف منسوب عمل کا ہے کہ ان کی بیان کردہ حدیث سے ان کی طرف منسوب عمل کی نسبت غلط ثابت ہوتی ہے۔
ثالثا:
سفیان ثوری رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے جن لوگوں نے بھی یہ بات ذکر کی انہوں نے سفیان ثوری تک اس بات کی صحیح سند پیش نہیں کی ہے لہٰذا یہ بات جھوٹی اورمن گھڑت ہے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ پربہتان ہے۔
یادرہے کہ امام مالک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نماز میں ہاتھ نہ باندھا جائے ۔دیکھئے: هيئة الناسك في أن القبض في الصلاة هو مذهب الإمام مالك۔
رابعا:
ناف کے نیچے ہاتھ باندھے کا عمل احناف کا ہے اور ابوحنیفہ کی طرف بھی یہی بات منسوب ہے ۔ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ تو ابوحنیفہ کے سخت مخالف تھے بلکہ آپ نے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ اور گمراہ گر کہا ہے چنانچہ:
امام ابونعیم رحمہ اللہ (المتوفى: 369) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ عِصَامٍ , قَالَ: ثنا رُسْتَهْ , عَنْ مُوسَى بْنِ الْمُسَاوِرِ , قَالَ: سَمِعْتُ جَبْرًا , يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ , يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ ضَالٌّ مُضِلٌّ»
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ(المتوفى:161) فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہ گمراہ اور گمراہ گر تھے۔[طبقات المحدث:2/ 110واسنادہ حسن]۔
اب بھلا بتلائے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ جسے گمراہ اور گمراہ گر کہیں اس کے مسلک کی پیروی کیسے کرسکتے ہیں۔
حتی کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ یہاں تک کہا کرتے تھے کہ اگرابوحنیفہ صحیح بھی کہیں تو بھی میں ان کی موافقت کرنا پسند نہیں کرتا چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا شعيب بن حرب قال : سمعت سفيان يقول : ما أحب أني أوافقهم علي الحق , يعني أبا حنيفة
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا: میں حق بات میں بھی ابوحنیفہ اوران کے ساتھیوں کی موافقت پسند نہیں کرتا[علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 172 واسنادہ صحیح]
اب ذرا سوچیں کہ جو سفیان ثوری رحمہ اللہ ابوحنیفہ کے اس قدر مخالف ہوں بھلاوہ احناف کے مسلک کو کیسے اپنا سکتے ہیں؟
خامسا:
یہ کوئی اصول نہیں کہ راوی کے فتوی یا عمل کی وجہ سے اس کی روایت کو رد کردیا جائے بلکہ اصول تو یہ ہے کہ راوی اگر اپنی بیان کردہ روایت کے خلاف فتوی دے یا عمل کرکے تو اعتبار اس کی روایت کا ہوگا نہ کہ روایت کے خلاف اس کے فتوی وعمل کا ۔چنانچہ:
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)نے کہا:
والواجب إذا وجد مثل هذا أن يضعف ما روي عن الصاحب من قوله، وأن يغلب عليه ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - لا أن نضعف ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ونغلب عليه ما روي عن الصاحب، فهذا هو الباطل الذي لا يحل
جب اس جیسا معاملہ تو واجب ہے کہ راوی کا اپنا جو قول وعمل نقل کیا جاتا ہے اسے ضعیف کہا جائے اوراس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایت کیا ہے اسے غالب رکھا جائے ۔ نہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ بات کو ضعیف کہہ دیا جائے اور اس پر راوی کا قول وعمل غالب کردیا جائے ۔ ایسا کرنا باطل ہے جائز نہیں ۔[المحلى لابن حزم: 1/ 124]
امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804) نے کہا:
الراجح في الأصول أن العبرة بما روى لا بما رأى
اصول میں راجح یہ ہے کہ راوی کی بیان کردہ روایت کا اعتبار ہوگا نہ کہ اس کے فتوی کا [البدر المنير لابن الملقن: 6/ 504]
اس کتاب پرنقد و تبصرے کے لئے درج ذیل دھاگے میں تشریف لائیں