• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق حدیث وائل بن حجر کی مفصل تحقیق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوموسی کے متن پر اعتراض

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مؤمل نے کبھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا ہے جیساکہ طحاوی کی روایت ہے چنانچہ:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
حدثنا أبو بكرة , قال: ثنا مؤمل , قال: ثنا سفيان , عن عاصم بن كليب , عن أبيه , عن وائل بن حجر , قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم حين يكبر للصلاة , يرفع يديه حيال أذنيه»
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نماز کے لئے تکبیرکہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں تک اٹھاتے[شرح معاني الآثار 1/ 196]
عرض ہے کہ اس روایت سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مؤمل نے کبھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں کیا ہے کیونکہ ابوبکرہ ہی سے یہی روایت امام طحاوی ہی نے دوسری کتاب میں میں نقل کی اور اس میں ابوبکرہ نے مؤمل سے سینے پرہاتھ باندھنے کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
حدثنا أبو بكرة، قال: حدثنا مؤمل، قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر رضي الله عنه، قال: " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد وضع يديه على صدره إحداهما على الأخرى
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے پررکھا اورایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر تھا[أحكام القرآن للطحاوي 1/ 186]
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ابوبکرہ نے بھی مؤمل بن اسماعیل سے سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ سنا ہے لیکن ابوبکرہ ہی نے کبھی اختصار کرتے ہوئے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اضطراب کا دعوی

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مؤمل بن اسماعیل سینے کالفظ بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہے ۔
کبھی اس نے سینے کا ذکر ہی نہیں کیا ہے جیساکہ طحاوی کی شرح معاني الآثار کی روایت میں ہے۔ اور کبھی اس نے علی صدرہ (سینے پر ) کہا ہے جیساکہ ابن خزیمہ کی روایت میں ہے اور کبھی اس نے عندصدرہ (سینے کے پاس) کہا ہے جیساکہ طبقات المحدثین کی روایت میں ہے۔

عرض ہے کہ جہاں تک طحاوی کی روایت کی بات ہے کہ مؤمل نے کبھی سینے کا ذکر نہیں کیا ہے یہ غلط ہے کیونکہ طحاوی ہی کی دوسری روایت میں سینے کا بھی ذکر ہے [أحكام القرآن للطحاوي 1/ 186] جیساکہ ماقبل میں پیش کیا گیا۔
رہی بات یہ کہ کسی روایت میں علی صدرہ (سینے پر ) اور کسی روایت میں عندصدرہ (سینے کے پاس) ہے تو یہ اضطراب نہیں ہے کیونکہ معنوی طور پر دونوں الفاظ میں ایک ہی بات ہے۔
اگربالفرض مان لیں کہ یہ دونوں الفاظ الگ الگ ہیں تو بھی یہاں اضطراب بات نہیں کہی جاسکتی ، اس لئے کہ علی صدرہ والی روایت زیادہ قوی ہے کیونکہ اسے مؤمل کے دو شاگردوں نے بالاتفاق بیان کیا ہے ۔
ایک ابوموسی ہیں جیساکہ صحيح ابن خزيمة 1/ 243 رقم 479 میں ہے۔
اور دوسرے ابوبکرہ ہیں جیساکہ أحكام القرآن للطحاوي 1/ 186 میں ہے۔

اوران دونوں کے برخلاف صرف ایک راوی محمد بن عاصم الثقفي نے عند صدرہ (سینے کے پاس) والے الفاظ بیان کئے ہیں [طبقات المحدثين بأصبهان 2/ 268]۔
لہٰذا دو کے مقابلہ میں ایک کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے بالخصوص جبکہ اکیلے بیان کرنے والے محمد بن عاصم الثقفي صرف صدوق ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5986]۔
اور ان کے مقابلہ میں علی صدرہ (سینہ پر ) کے الفاظ بیان کرنے والے دونوں ابوموسی اور ابوبکرہ ان سے اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ۔

اورگذشتہ سطور میں بتایاجاچکا ہے کہ جب روایات ایک درجہ کی نہ ہوں تو اضطراب کی صورت نہیں ہوتی ہے دیکھئے: ۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ایک بے بنیاد اعتراض

بعض لوگ کہتے ہیں اس روایت کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں اور یہ خود ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے جس سے پتہ چلتا ہے یہ روایت ثابت نہیں ہے کیونکہ اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو سفیان ثوری اسی پر عمل کرتے ۔
جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
سفیان ثوری کی طرف منسوب عمل سے سفیان ثوری کی بیان کردہ یہ حدیث غلط ثابت نہیں ہوتی ہے بلکہ سفیان ثوری کی اس حدیث کی وجہ سے ان کی طرف منسوب عمل کی نسبت غلط ثابت ہوتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جب سفیان ثوری رحمہ اللہ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت بیان کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پرعمل کریں ؟ لہٰذا ان کے بارے میں یہ کہنا ہی غلط ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے ۔سفیان ثوری رحمہ اللہ عظیم محدث ہیں بھلا وہ حدیث کے خلاف کیسے عمل کرسکتے ہیں۔نیزدیکھئے خامسا کے تحت امام ابن حزم کا قول۔
ثانیا:
یہ اعتراض بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ موطا حدیث نمبر 47 میں نماز میں ہاتھ باندھنے والی جو حدیث ہے ، وہ ثابت نہیں کیونکہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھتے تھے ! بھلا بتلائیے کہ اس طرح کے بے ہودہ اعتراض سے کیا ہم موطا امام مالک کی اس حدیث کو جھٹلا دیں جس میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے؟ یاد رہے کہ موطا امام مالک کی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی امام مالک ہی کی سند سے موجودہے۔[بخاری:ـکتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740۔]
صحیح بات یہ ہے کہ امام مالک کی طرف منسوب عمل سے امام مالک کی بیان کردہ حدیث غلط ثابت نہیں ہوتی بلکہ امام مالک کی بیان کردہ حدیث سے ان کی طرف منسوب عمل کی نسبت غلط ثابت ہوتی ہے ۔
یہی معاملہ سیفیان ثوری رحمہ اللہ کی حدیث اور ان کی طرف منسوب عمل کا ہے کہ ان کی بیان کردہ حدیث سے ان کی طرف منسوب عمل کی نسبت غلط ثابت ہوتی ہے۔
ثالثا:
سفیان ثوری رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے جن لوگوں نے بھی یہ بات ذکر کی انہوں نے سفیان ثوری تک اس بات کی صحیح سند پیش نہیں کی ہے لہٰذا یہ بات جھوٹی اورمن گھڑت ہے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ پربہتان ہے۔
یادرہے کہ امام مالک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نماز میں ہاتھ نہ باندھا جائے ۔دیکھئے: هيئة الناسك في أن القبض في الصلاة هو مذهب الإمام مالك۔
رابعا:
ناف کے نیچے ہاتھ باندھے کا عمل احناف کا ہے اور ابوحنیفہ کی طرف بھی یہی بات منسوب ہے ۔ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ تو ابوحنیفہ کے سخت مخالف تھے بلکہ آپ نے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ اور گمراہ گر کہا ہے چنانچہ:
امام ابونعیم رحمہ اللہ (المتوفى: 369) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ عِصَامٍ , قَالَ: ثنا رُسْتَهْ , عَنْ مُوسَى بْنِ الْمُسَاوِرِ , قَالَ: سَمِعْتُ جَبْرًا , يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ , يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ ضَالٌّ مُضِلٌّ»
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ(المتوفى:161) فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہ گمراہ اور گمراہ گر تھے۔[طبقات المحدث:2/ 110واسنادہ حسن]۔

اب بھلا بتلائے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ جسے گمراہ اور گمراہ گر کہیں اس کے مسلک کی پیروی کیسے کرسکتے ہیں۔

حتی کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ یہاں تک کہا کرتے تھے کہ اگرابوحنیفہ صحیح بھی کہیں تو بھی میں ان کی موافقت کرنا پسند نہیں کرتا چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا شعيب بن حرب قال : سمعت سفيان يقول : ما أحب أني أوافقهم علي الحق , يعني أبا حنيفة
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا: میں حق بات میں بھی ابوحنیفہ اوران کے ساتھیوں کی موافقت پسند نہیں کرتا[علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 172 واسنادہ صحیح]

اب ذرا سوچیں کہ جو سفیان ثوری رحمہ اللہ ابوحنیفہ کے اس قدر مخالف ہوں بھلاوہ احناف کے مسلک کو کیسے اپنا سکتے ہیں؟
خامسا:
یہ کوئی اصول نہیں کہ راوی کے فتوی یا عمل کی وجہ سے اس کی روایت کو رد کردیا جائے بلکہ اصول تو یہ ہے کہ راوی اگر اپنی بیان کردہ روایت کے خلاف فتوی دے یا عمل کرکے تو اعتبار اس کی روایت کا ہوگا نہ کہ روایت کے خلاف اس کے فتوی وعمل کا ۔چنانچہ:

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)نے کہا:
والواجب إذا وجد مثل هذا أن يضعف ما روي عن الصاحب من قوله، وأن يغلب عليه ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - لا أن نضعف ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ونغلب عليه ما روي عن الصاحب، فهذا هو الباطل الذي لا يحل
جب اس جیسا معاملہ تو واجب ہے کہ راوی کا اپنا جو قول وعمل نقل کیا جاتا ہے اسے ضعیف کہا جائے اوراس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایت کیا ہے اسے غالب رکھا جائے ۔ نہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ بات کو ضعیف کہہ دیا جائے اور اس پر راوی کا قول وعمل غالب کردیا جائے ۔ ایسا کرنا باطل ہے جائز نہیں ۔[المحلى لابن حزم: 1/ 124]

امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804) نے کہا:
الراجح في الأصول أن العبرة بما روى لا بما رأى
اصول میں راجح یہ ہے کہ راوی کی بیان کردہ روایت کا اعتبار ہوگا نہ کہ اس کے فتوی کا [البدر المنير لابن الملقن: 6/ 504]


اس کتاب پرنقد و تبصرے کے لئے درج ذیل دھاگے میں تشریف لائیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top