• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں؟چار امام کا کیا تصور ہے؟یہ فقہ کہلاتے ہیں یا فرقہ،

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اصل سوال کا سیدها سا جواب تو یہ ہے کہ جس دارالافتا کا یہ فتوی ہے وہاں سے پوچھ لیں۔ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔

ویسے ہمارے یہاں تین اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ سینے پر، فوق السرۃ اور تحت السرۃ۔ ان میں سے سینے پر وہ مقام کہلاتا ہے جہاں آپ لوگ عمل کرتے ہیں۔ اس پر اگر ائمہ اربعہ میں سے کسی کے عمل کا حوالہ ہو تو عنایت فرمائیے۔

احناف قیاس پر ضعیف حدیث کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح تو احناف آپ سے بہتر ہوئے کہ وہ تحت السرۃ اور علی الصدر دونوں پر عمل کر لیتے ہیں۔ اور آپ صرف علی الصدر پر عمل کرتے ہیں۔ اور یہ احادیث آپ کے نزدیک ثابت بھی ہیں جو کہ حیرت کی بات ہے۔ خیر ہوں گی۔


نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 07 November 2013 10:26 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث باحوالہ درکار ہے،جواب دیکر عند اللہ ماجور ہوں۔؟



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی متعدد احادیث ،مختلف کتب احادیث میں موجود ہیں۔جن میں سے دو صحیح احادیث پیش خدمت ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ» سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر759۔

ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا انہوں نے کہا: ہم سے ہیثم یعنی ابن حمید نے بیان کیاانہوں نے ، ثور سے روایت کیا انہوں نے ، سلیمان بن موسی سے روایت کیا انہوں نے طاؤس کے حوالہ سے نقل کیا ، انہوں نے کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔

اس حدیث کو امام البانی نے صحیح کہا ہے۔

عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلیٰ صَدْرِہِ (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ج۱)

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔

صحت حدیث :۔ امام ابن خزیمہ اپنی صحیح کے متعلق شروع میں اپنی شرط اس طرح ذکر کرتے ہیں ۔

المختصر من المسند الصحیح عن النبی ﷺ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مَوْصُوْلاً اِلَیْہِ ﷺ مِنْ غَیْرِ قَطعٍ فِیْ اَثْناَئِ الْاِسْنَادَ وَلاَ جَرح فِیْ نَاقِلِی الْاَخْبَارِ الَّتِیْ نَذْکُرُہَا بِمَشِیْئَۃِ اﷲِ تَعَالیٰ (ابن خزیمہ ص۲ ج ۱ )

یہ مختصر صحیح احادیث کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ تک صحیح اور متصل سند کیساتھ پہنچتی ہیں اور درمیان میں کوئی راوی ساقط یا سند میں انقطاع نہیں ہے اور نہ تو راویوں میں سے کوئی راوی مجروح یا ضعیف ہے ۔

اس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح اور سالم ہے۔

اور نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا نبی کریم کی سنت مبارکہ ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی
محدث فتوی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا


صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا

حدیث نمبر : 740

حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة‏.‏ قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال إسماعيل ينمى ذلك‏.‏ ولم يقل ينمي‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔

تشریح : شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم یذکر سہل بن سعد فی حدیثہ محل وضع الیدین من الجسد وہو عندنا علی الصدر لما وردفی ذلک من احادیث صریحۃ قویۃ فمنہا حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسری علی صدرہ اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ذکرہ الحافظ فی بلوغ المرام والدرایۃ والتلخیص وفتح الباری والنووی فی الخلاصۃ وشرح المہذب وشرح مسلم للاحتجاج بہ علی ماذہبت الیہ الشافعیۃ من وضع الیدین علی الصدر وذکرہما ہذاالحدیث فی معرض الاحتجاج بہ وسکوتہما عن الکلام فیہ یدل علی ان حدیث وائل ہذا عندہما صحیح اوحسن قابل للاحتجاج الخ۔ ( مرعاۃ المفاتیح )

یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔

اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔

حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماک عن قبیصۃ ابن ہلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ و رایتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواۃ ہذاالحدیث کلہم ثقات و اسنادہ متصل۔ ( تحفۃ الاحوذی، ص: 216 )

یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔


تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے:

حدثنا ابوتوبۃ حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبہما علی صدرہ۔ ( حوالہ مذکور )

امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔


بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔

حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں فرمایاہے :

ورای بعضہم ان یضعہما فوق السرۃ ورای بعضہم ان یضعہما تحت السرۃ وکل ذلک واسعۃ عندہم یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔

اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان علیا قال السنۃ وضع الکف علی تحت السرۃ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔

المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت فی اسنادہذاالحدیث عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وعلیہ مدارہذاالحدیث وہوضعیف لایصلح للاحتجاج یعنی میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہوحدیث متفق علی تضعیفہ فان عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف بالاتفاق یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔


ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ “ فتح الغفور فی وضع الایدی علی الصدور ” میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرۃ۔ ( ناف کے نیچے ) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرۃ کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائیدمسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرۃ والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے:

حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبری عن علقمۃ بن وائل الحضرمی عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔

دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔



پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 07 November 2013 10:26 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث باحوالہ درکار ہے،جواب دیکر عند اللہ ماجور ہوں۔؟



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی متعدد احادیث ،مختلف کتب احادیث میں موجود ہیں۔جن میں سے دو صحیح احادیث پیش خدمت ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ» سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر759۔

ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا انہوں نے کہا: ہم سے ہیثم یعنی ابن حمید نے بیان کیاانہوں نے ، ثور سے روایت کیا انہوں نے ، سلیمان بن موسی سے روایت کیا انہوں نے طاؤس کے حوالہ سے نقل کیا ، انہوں نے کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔

اس حدیث کو امام البانی نے صحیح کہا ہے۔

عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلیٰ صَدْرِہِ (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ج۱)

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔

صحت حدیث :۔ امام ابن خزیمہ اپنی صحیح کے متعلق شروع میں اپنی شرط اس طرح ذکر کرتے ہیں ۔

المختصر من المسند الصحیح عن النبی ﷺ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مَوْصُوْلاً اِلَیْہِ ﷺ مِنْ غَیْرِ قَطعٍ فِیْ اَثْناَئِ الْاِسْنَادَ وَلاَ جَرح فِیْ نَاقِلِی الْاَخْبَارِ الَّتِیْ نَذْکُرُہَا بِمَشِیْئَۃِ اﷲِ تَعَالیٰ (ابن خزیمہ ص۲ ج ۱ )

یہ مختصر صحیح احادیث کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ تک صحیح اور متصل سند کیساتھ پہنچتی ہیں اور درمیان میں کوئی راوی ساقط یا سند میں انقطاع نہیں ہے اور نہ تو راویوں میں سے کوئی راوی مجروح یا ضعیف ہے ۔

اس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح اور سالم ہے۔

اور نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا نبی کریم کی سنت مبارکہ ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی
محدث فتوی
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا


صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا

حدیث نمبر : 740

حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة‏.‏ قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال إسماعيل ينمى ذلك‏.‏ ولم يقل ينمي‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔

تشریح : شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم یذکر سہل بن سعد فی حدیثہ محل وضع الیدین من الجسد وہو عندنا علی الصدر لما وردفی ذلک من احادیث صریحۃ قویۃ فمنہا حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسری علی صدرہ اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ذکرہ الحافظ فی بلوغ المرام والدرایۃ والتلخیص وفتح الباری والنووی فی الخلاصۃ وشرح المہذب وشرح مسلم للاحتجاج بہ علی ماذہبت الیہ الشافعیۃ من وضع الیدین علی الصدر وذکرہما ہذاالحدیث فی معرض الاحتجاج بہ وسکوتہما عن الکلام فیہ یدل علی ان حدیث وائل ہذا عندہما صحیح اوحسن قابل للاحتجاج الخ۔ ( مرعاۃ المفاتیح )

یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔

اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔

حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماک عن قبیصۃ ابن ہلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ و رایتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواۃ ہذاالحدیث کلہم ثقات و اسنادہ متصل۔ ( تحفۃ الاحوذی، ص: 216 )

یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔


تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے:

حدثنا ابوتوبۃ حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبہما علی صدرہ۔ ( حوالہ مذکور )

امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔


بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔

حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں فرمایاہے :

ورای بعضہم ان یضعہما فوق السرۃ ورای بعضہم ان یضعہما تحت السرۃ وکل ذلک واسعۃ عندہم یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔

اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان علیا قال السنۃ وضع الکف علی تحت السرۃ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔

المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت فی اسنادہذاالحدیث عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وعلیہ مدارہذاالحدیث وہوضعیف لایصلح للاحتجاج یعنی میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہوحدیث متفق علی تضعیفہ فان عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف بالاتفاق یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔


ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ “ فتح الغفور فی وضع الایدی علی الصدور ” میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرۃ۔ ( ناف کے نیچے ) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرۃ کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائیدمسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرۃ والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے:

حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبری عن علقمۃ بن وائل الحضرمی عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔

دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔



پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
کیسے مزے کی بات ہے۔ ایک حدیث میں تحت السرۃ کی زیادتی آئے جو ثقہ راوی روایت کرے تو وہ دوسری روایات کو دیکھتے ہوئے مرود۔ اور اسی حدیث میں علی الصدر کی زیادتی آئے جو ایک ضعیف راوی روایت کرے تو وہ قبول ہے۔
ایک حدیث کو البانی صحیح قرار دیں تو قبول ہے اور دوسری روایت کو البانی ہی ضعیف قرار دیں (میری معلومات کے مطابق) تو اس کا ذکر بھی نہ کیا جائے۔
مخالفین جب صحیح ابن خزیمہ یا کسی بھی کتاب کی کوئی روایت پیش کریں تو ایک ایک راوی پر جرح ہو اور خود جب پیش کریں تو مصنف کی ایک مطلق بات پر گزارا کرتے ہوئے ایک ضعیف راوی سے صرف نظر کر دیا جائے۔
ایک حدیث میں راوی ضعیف بھی ہو، راوی پر اضطراب کا الزام ہو، سند میں ارسال ہو، اور حدیث مضطرب ہو بھی پھر بھی اسے البانی صحیح کہیں تو قبول ہو۔ (یہ درست ہے لیکن پھر تقلید کے سر پر سینگ ہوتے ہیں کیا؟)
؎ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیسے مزے کی بات ہے۔ ایک حدیث میں تحت السرۃ کی زیادتی آئے جو ثقہ راوی روایت کرے تو وہ دوسری روایات کو دیکھتے ہوئے مرود۔ اور اسی حدیث میں علی الصدر کی زیادتی آئے جو ایک ضعیف راوی روایت کرے تو وہ قبول ہے۔
ایک حدیث کو البانی صحیح قرار دیں تو قبول ہے اور دوسری روایت کو البانی ہی ضعیف قرار دیں (میری معلومات کے مطابق) تو اس کا ذکر بھی نہ کیا جائے۔
مخالفین جب صحیح ابن خزیمہ یا کسی بھی کتاب کی کوئی روایت پیش کریں تو ایک ایک راوی پر جرح ہو اور خود جب پیش کریں تو مصنف کی ایک مطلق بات پر گزارا کرتے ہوئے ایک ضعیف راوی سے صرف نظر کر دیا جائے۔
ایک حدیث میں راوی ضعیف بھی ہو، راوی پر اضطراب کا الزام ہو، سند میں ارسال ہو، اور حدیث مضطرب ہو بھی پھر بھی اسے البانی صحیح کہیں تو قبول ہو۔ (یہ درست ہے لیکن پھر تقلید کے سر پر سینگ ہوتے ہیں کیا؟)
؎ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

دوسری روایت کو البانی ہی ضعیف قرار دیں (میری معلومات کے مطابق) تو اس کا ذکر بھی نہ کیا جائے۔


بھائی آپ وہ حدیث پیش کر دے جو آپ کی معلومات کے مطابق شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دی ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
دوسری روایت کو البانی ہی ضعیف قرار دیں (میری معلومات کے مطابق) تو اس کا ذکر بھی نہ کیا جائے۔


بھائی آپ وہ حدیث پیش کر دے جو آپ کی معلومات کے مطابق شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دی ہے
عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلیٰ صَدْرِہِ (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ج۱)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔
(1) قوله: (على الصدر) هذا الذي ثبت عنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولم يثبت غيره؛ وفيه أحاديث (1) :
الأول: عن وائل بن حجر:
أنه رأى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وضع يمينه على شماله، ثم وضعهما على صدره.
أخرجه {أبو الشيخ في " تاريخ أصبهان " (ص 125) } ، والبيهقي عن مُؤمَّل بن
إسماعيل عن الثوري عن عاصم بن كليب عن أبيه عنه.
وهذا إسناد رجاله ثقات،
إلا أن مؤمل بن إسماعيل متكلم فيه؛ لسوء حفظه، وفي
" التقريب ":
" صدوق سيئ الحفظ ".

ثم أخرجه البيهقي من طريق أخرى عن وائل.
وسنده ضعيف. {وانظر " إرواء الغليل " (353) } .
والحديث أورده الحافظ الزيلعي في " نصب الراية " (1/314) ، وقال:

" رواه ابن خزيمة في " صحيحه " ". اهـ.
فالله أعلم؛ هل أخرجه من طريق آخر أم رواه من أحد الطريقين المذكورين


صفۃ صلاۃ النبی ﷺ 1۔216 ط مکتبۃ المعارف
 
Top