• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیونگ بینک اکاونٹ میں جمع ہونے والا سود

ارشد

رکن
شمولیت
دسمبر 20، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
اسلام وعلیکم،
savingbank account میں کچھ مدت پر ( ہر چھ ماہ یا ہر سال) جو رقم interest کے طور پے account میں credit ہوتی ہے۔اس رقم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟ کیا ہم اس رقم کو استعمال کرسکتے ہیں؟؟ اگر یے حرام ہے(جیسے کے میرے علم میں ہے) تو ہم ان پیسوں کا کیا کریں؟؟کہاں استعمال کریں؟؟؟
علماےحق سے تفصیل درکار ہے۔ رہنماٰی فرماے۔۔جزاک ا للہ۔۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
اس بارے اہل حدیث اہل علم کا اختلاف ہے۔ ہفت روزہ الاعتصام میں مولانا عبد السلام بھٹوی اور حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب کی تفصیلی بحث شائع ہوئی ہے جو بعد ازاں حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب کے فتاوی، فتاوی ثنائیہ مدنیہ میں بھی شامل کر دی گئی ہے اور اس پر دونوں طرف کے دلائل وہاں آپ کو مل جائیں گے۔ ساتھ میں مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کا تبصرہ بھی موجود ہے۔

اس علمی مکالمہ میں فریقین کا اس پر تو اتفاق تھا کہ سیونگ اکاونٹ سے حاصل شدہ رقم اکاونٹ ہولڈر کے حق میں حرام ہے لیکن اختلاف یہ تھا کہ اگر اکاونٹ ہولڈر اسے صدقہ خیرات کر دے یا کسی غریب کو دے دے یا کسی مضطر کو دے دے تو کیا یہ جائز ہے؟ اس میں عبد السلام بھٹوی صاحب کا فتوی تھا کہ نص کا ظاہر یہ ہے کہ سود کی رقم کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے جبکہ مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب کا فتوی یہ تھا کہ ظاہر کی بجائے مقاصد شریعت کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اہل الحدیث کا منہج صرف ظاہر سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے۔ مقاصد شریعت کے مطابق یہ سود کی رقم اس شخص کے لیے تو حرام ہے کہ جو اکاونٹ ہولڈر ہے لیکن کسی دوسرے کے اعتبار سے اس کی نسبت تبدیل ہو جانے سے اس رقم کا حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

راقم کی نظر میں ایسی رقم اکاونٹ ہولڈر کے لیے تو اگرچہ حلال نہیں ہے لیکن کسی مضطر کو دی جا سکتی ہے مثلا کسی کا بچہ اغوا ہو گیا اور ڈاکو تاوان میں دس لاکھ مانگ رہے ہیں اور اس شخص کے پاس یہ رقم نہیں ہے تو ایسا شخص مضطر ہے۔ یہاں جان بچانے کے لیے سود سے ایسی رقم ادا کی جا سکتی ہے اور ادا بھی کن کو ہو رہی ہے جو پہلے ہی مال حرام کھانے پر تلے ہیں۔ اسی طرح یہ رقم کسی ایسے شخص کے قرض کی ادائیگی میں بھی لگائی جا سکتی ہے جو سودی قرضے میں پھنس گیا ہو لیکن اب اس سے نکلنا چاہتا ہے تو سود کی رقم سود میں ادا ہو جائے گی۔ اسی طرح یہ رقم اس کو بھی دی جا سکتی ہے جس کے لیے حرام کھانا حلال ہو چکا ہے جیسا کہ مضطر کی مثال قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ اور اس طرح کی کئی مثالیں ہو سکتی ہیں۔

جزاکم اللہ
 
Top