• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیکولرازم کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
سیکولرازم کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے دخلی ہے یعنی یہ نظریہ کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصورات کو ارادتاً دنیاوی امور سے علاحدہ کر دیا جائے۔

سیکولرازم جدید دور میں ریاست کو مذہبی اقدار سے الگ کرنے کی ایک تحریک ہے۔

سیکولر ازم کا اردو ترجمہ حریتِ ادیان یا مذہبی آزادی سے کیا جاسکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیکولر ریاست کے شہریوں کو یہ فکری اختیار حاصل ہے کہ وہ جس نظریہ، فکر یا عقیدہ کی بھی انفرادی طور پر مشق کرنا چاہیں پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں پس ان کی اس مشق کا براہ راست یا ماورائے راست امورِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔

سب سے پہلے اصطلاح سیکولرازم کو ایک برطانوی مصنف جارج جیکوب ہولیاک نے 1851ء میں استعمال کیا تھا، یہ اصطلاح دراصل مذہب اور ریاست کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی، گویا سیکولرازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔

جب سیکولر ازم کا مطلب و مفہوم سمجھ میں آگیا تو سیکولر فرد کی تعریف اور پہچان مشکل نہیں، سیکولر ازم صریح کفر ہے اس کا مرتکب کافر و مرتد ہے، سیکولر ازم اسلام کی ضد ہے، اسلام کی آمد سے تمام ادیانِ سماویہ منسوخ ہوگئے اور دیگر ادیان و مذاہب مردود ہوگئے، اسلام کے سوا کسی سے کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
﴿سورة آل عمران، آیت: ۸۵﴾

اور اسلام کے آجانے کے بعد روئے زمین پر کسی انسان کیلیے کسی دین کو قبول کرنے کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا، بلکہ ساری انسانیت جو حدِ تکلیف کو پہنچتی ہے وہ قیامت تک کیلیے اسلام کے سامنے سر بہ خم کرنے پر مجبور کردی گئی ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

"‏أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمداً رسول الله ، ويقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام، وحسابهم على الله تعالى‏"‏ ‏(‏‏(‏متفق عليه‏)‏‏)‏ ‏.‏

ترجمہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں جب وہ یہ کرنے لگ جائیں تو ان کا خون اور مال مجھ سے محفوظ ہوگئے، سوائے اسلام کے حق کے ساتھ، جبکہ ان کا باقی حساب اللہ پر ہے۔ ‏‏(‏متفق علیہ)‏‏

[رياض الصالحين كتاب المقدمات، حدیث : ۳۹۰]

پس باقی مذاہب کے بارے میں دینِ اسلام کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے، اسلام میں کفار کی جان اور مال کی حرمت صرف چند صورتوں میں عارضی طور پر واقع ہوسکتی ہے، جن میں ذمی، مستامن، معاہد وغیرہ شامل ہیں، اس کے علاوہ تمام کفار حربی ہیں مباح الدم و المال ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔

پس نبی ﷺ کی بعثت کے بعد کسی شخص کیلیے کوئی مذہبی آزادی باقی نہیں رہی۔

جس شخص نے مذہبی آزادی کو حلال کہا بلا شبہ اس نے کفر کیا، جس نے اس کی تائید و موافقت کی اس نے بھی کفر کیا، چاہے وہ کسی اخبار کا صحافی ہو یا کسی مسجد کا مولوی، چاہے وہ سیکولر ازم وطنیت کے پردے میں ہندؤوں عیسائیوں سکھوں کو اپنا بھائی قرار دے کر ہو یا انسانیت کا منجن بیچ کر دنیا بھر کے کفار سے موالات کرنے سے ہو، سیکولر ازم، مذہبی آزادی، حریتِ ادیان اور خیار فکر اور اس جیسے تمام نعرے اور نظریات صریح کفر ہیں، ان کا پرچار کرنے والے کفار و مرتدین ہیں، اسلام میں ان کیلیے کوئی گنجائش نہیں۔

بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Top