- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
Abdul Ghaffar Bhutto
12 hrs ·
12 hrs ·
سلمان حیدر سماجی کارکن کی حثیت سے اور پروفیسر ہونے پر کافی مقبولیت حاصل کر چکا تھا انسانیت سے پیار کی وجہ وہ خود تھا کیونکہ اس نے اپنے ہر ڈاکومنٹس کی والدیت میں "انسانیت" درج کروا رکھا تھا وہ اپنے باپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔ اپنی اس پیدائش سے وہ ہر گری چیز کا شیدائی ہو چکا تھا مثلا وہ نہر اور نالی کا امتیاز ناانصافی سمجھتا تھا نالی سے یکجہتی کی خاطر وہ اکثر نالی سے کیچڑ اُٹھا کر منہ پر مل لیتا تھا ۔ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا نہیں تھا اس کی ہمدردی جہاں بکری بھینس سے تھی وہاں کتے کے ساتھ اور سور کے ساتھ بھی یکساں تھی اس نے ہمیشہ اپنی آواز ان بےزبانوں کی خاطر بھی سماج میں اٹھائی ہے انسانیت اور حیوانیت کا جھنڈا ہر فورم پر وہ لہراتا رہا ہے یہاں تک کہ اس نے کتے کا گوشت کھا کر بھی یقین دلایا کہ بکری کو کھایا جاتا ہے تو کتوں سے بد سلوکی کیوں ؟ اسے بھی معاشرے میں اہم مقام ملنا چاہیے ۔ اسی طرح معاشرے کے ننگے لوگوں کو بھی بغیر پردہ کے وہی حقوق دینا چاہتا تھا جیسے کسی پردہ دار کو عزت و مقام ملا ہوا تھا - اسے مغرب سے بھی ہمدردی تھی جس کی خاطر وہ کروڑوں مسلمانوں کا زہن بدلنے گھر سے نکل چکا تھا اس کا یہ مشن بہت حد تک خواتین میں مقبول ہو چکا تھا کیونکہ اس کا جذباتی لیکچر سماعت کرنے والی اکثر لبرل خواتین رو پڑتی تھی __
اس انقلاب کو وہ لانے کے لئے گھر سے ابتدا کر چکا تھا گھر میں وہ خود بے لباس گھوما پھرتا کرتا تھا اس کی بہن اور ماں بھی رہتی تھی پہلے تو ماں بہن اسے برا بھلا کہتی تھی کہ بےشرم بے حیا کچھ تو ہمارا خیال کر لیکن اس کے سر پر تو جیسے سماج بدلنے کا جنون حاوی ہو _ پھر تو اس کے گھر میں سب ہی بےلباس ہونا شروع ہو گئے یہ پہلی فتح تھی ۔ سلیمان حیدر انسانیت کا علمبردار جو حیوانوں سے بھی پیار کرتا تھا خود بھی جانوروں سے ہمدردی کی بنا پر نہانا تو دور منہ بھی نہ دھوتا تھا -- وہ اپنے گھر اور حلقہ احباب کو انسان سے حیوان بنانے کے لئے سر توڑ کوششوں میں مگن تھا لباس کے حوالے سے اس کا موقف تھا جانور بھی دنیا کے جاندار ہیں انسان اور جانوروں کا امتیاز بدسلوکی ہے اس ناانصافی کو دور کرنے کی خاطر انسان کو بھی بے لباس ہو کر جانوروں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ جانوروں کے دلوں پر بھی اپنی قدر و قیمت کا اضافہ ہو سکے ۔ اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی تھی کہ جانور بغیر کسی شادی کی رسم بنائے اپس میں جب چاہے جہاں چاہے جس سے مرضی جنسی تسکین کو اپناتا ہے تو مغرب ذدہ معاشرہ بھی ایسا ہی ہے تو کیوں نہ ان کے اقدام کو ایسے فورم پر اُٹھایا جائے جہاں شادی کی رسم عام ہے اور جنسی تسکین جو کہ فطری حق ہے اس کو گناہ کہہ کر ناانصافی کروائی جاتی ہے اس لطف اندوزی کی راہ میں صرف اسلام رکاوٹ بن رہا ہے ان کا انقلاب کا پہلا ہدف بھی اپنا گھر پھر حلقہ احباب تھا یہ حیوانی ماحول گھر میں بنا چکے تھے اب اس ماحول کو سڑکوں کالجوں یونیورسٹیوں اور بیٹھکوں تک لانا تھا __
دن گزرتے گئے اب اس کے انقلابی دوست کچھ تو بن گئے تھے جن میں ماروی سرمد ، عاصمہ جہانگیر ، حسن نثار ، وقاص گواریا ، عاصم سعید اور جبران ناصر جیسے سماجی اراکین بھی تھے یہ سب ہم جنس پرستی کے فروغ کے ساتھ ساتھ عورت مرد کا جسمانی تعلق بھی زندہ رکھتے تھے شراب سے ہمدردی اس لئے تھی کہ اس کو مسلمان حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے ایک آنکھ بھی یہ نہ بھاتا تھا اس لئے پانی کی جگہ یہ سب بھی شراب کے عادی ہو چکے تھے __
آہستہ آپستہ ان سماجی ٹھیکداروں نے اسلام پر بھی حملے شروع کر دیے ان کو معلوم تھا ان کا اصل سٹاپ بریکر مولوی ملا اور ان کے فالورز ہیں _ پھر کرتے کرتے انہوں نے مل کر چند پیجز اور بلاگز پر پیغمبر اسلام کی شان میں بھی گستاخی شروع کر دی __ یہ خاصا مقبول طریقہ تھا جس میں ان کی شناخت ممکن نہ تھی یہ سلسلہ چلتا رہا اب تو بیرون ممالک سے کافی فنڈز بھی وہ شاباش کی خاطر حاصل کر رہے تھے ۔
ادھر مولوی ازم اور مذہب پرست بری طرح اشتعال میں آ چکے تھے کیونکہ انسانیت کے یہ ہمدرد ان کی ہر دکھتی رگ پر وار کرتے جارہے تھے سلیمان یہ بھی جانتا تھا انسانیت کی سب سے اعلی مثال اور احکام اسلام میں ہی موجود ہے لیکن سماج اور مغربی معاشرے کی قیام کی خاطر اور ڈالرز کی برسات نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی وہ موت و حیات سزا و جزا ، پاکدامنی و پاکیزگی ، عبادت و خیر کے معاملات سے کوسوں دور نکل چکے تھے ان کا مقصد ڈالر جنسی تکسین اور مولوی پر طنز و مزاح کرنا رہ چکا تھا ہر معاملے کا ذمہ دار مولوی اور اسلام کو ٹھہرانا اسرائیلی پالیسی کے اکیاسویں نقاط کے تحت جاری تھا __
موچی بھینسا روشنی جیسے پیجز اور بلاگز کی بے مثال کامیابی پر ان کی ہفتہ وار محفل ماروی سرمد کے گھر منعقد ہوتی تھی جس میں تقریبا پچاس خاص خاص لوگ شامل ہوتے تھے یہ اپنے مشن ، ڈالرز تقسیم ، شراب نوشی ، روسٹ سور کتا اور مولوی طنز کے ساتھ ساتھ جنسی تسکین کو بھی لطف اندوز ہوتے تھے __
اک دن اللہ کی بے آواز لاٹھی ان کے سروں پر ایسی پڑی کہ ان کے چاہنے والوں پر بھی جیسے قیامت ڈھا دی گئی ہو سب بلاگز پیجز بند ہوگئے اور یہ سب ملوث گستاخ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے ۔۔ ان کے ہمدرد وہی گستاخ اور ایتھسٹ خیالات والے اسی کے لئے دعائیں کرنے لگے ۔ اخر کس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کیونکہ وہ مذہب کے پیروکار تو تھے نہیں ۔ اب ان چیدہ چیدہ ملحدین کے ساتھ ساتھ ان کے بھنسے موچی بھی اپنی دکانیں بند کر کے بھاگ چکے تھے ۔
اس وقت ان سماجی حیوان پرستوں کے انقلابی خفیہ جگہ پر روپوش کر دیے گئے ہیں امید تو یہی ہے ان کا حشر برا ہی ہو گا جو اسلام اور مذہب کے ماننے والوں کے دلوں کو چیرتے رہیں تھے اور کچھ ابھی باقی بھی ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام دفاعی اداروں سے التماس ہے ان چند مذہبی توہین پرستوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور باقی ماندہ انقلابیوں کو بھی ہتھکڑی پہنا کر چوک چوراہوں میں موت کے گھاٹ اتارا جائے تاکہ مستقبل کے کالے انقلابیوں کی راہیں ہموار نہ ہو سکیں اور ایک عظیم مذہب کے ماننے والے اور پاکستان کے اصل حقدار مسلمان طبقہ اپنے مذہبی معاملات بخوبی چلاتے رہیں __ قائداعظم اور علامہ اقبال کی شاہین مغرب کے ہوس ذدہ معاشرے سے نفرت کرتے رہیں یہی انسانیت ہے یہی معاشرے اور سماج کی بقا کا راز ہے __
نوٹ: عبد الغفار بھٹو صاحب حیدرآباد کے ایک دینی مدرسہ کے مہتمم وغیرہ ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے مندرجہ بالا معلومات کہاں سے لیں۔ انہیں ایک ذمہ دار فرد سمجھتے ہوئے ان کی پوسٹ کو یہاں نقل کر رہا ہوں (ی ث ) ۔
اس انقلاب کو وہ لانے کے لئے گھر سے ابتدا کر چکا تھا گھر میں وہ خود بے لباس گھوما پھرتا کرتا تھا اس کی بہن اور ماں بھی رہتی تھی پہلے تو ماں بہن اسے برا بھلا کہتی تھی کہ بےشرم بے حیا کچھ تو ہمارا خیال کر لیکن اس کے سر پر تو جیسے سماج بدلنے کا جنون حاوی ہو _ پھر تو اس کے گھر میں سب ہی بےلباس ہونا شروع ہو گئے یہ پہلی فتح تھی ۔ سلیمان حیدر انسانیت کا علمبردار جو حیوانوں سے بھی پیار کرتا تھا خود بھی جانوروں سے ہمدردی کی بنا پر نہانا تو دور منہ بھی نہ دھوتا تھا -- وہ اپنے گھر اور حلقہ احباب کو انسان سے حیوان بنانے کے لئے سر توڑ کوششوں میں مگن تھا لباس کے حوالے سے اس کا موقف تھا جانور بھی دنیا کے جاندار ہیں انسان اور جانوروں کا امتیاز بدسلوکی ہے اس ناانصافی کو دور کرنے کی خاطر انسان کو بھی بے لباس ہو کر جانوروں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ جانوروں کے دلوں پر بھی اپنی قدر و قیمت کا اضافہ ہو سکے ۔ اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی تھی کہ جانور بغیر کسی شادی کی رسم بنائے اپس میں جب چاہے جہاں چاہے جس سے مرضی جنسی تسکین کو اپناتا ہے تو مغرب ذدہ معاشرہ بھی ایسا ہی ہے تو کیوں نہ ان کے اقدام کو ایسے فورم پر اُٹھایا جائے جہاں شادی کی رسم عام ہے اور جنسی تسکین جو کہ فطری حق ہے اس کو گناہ کہہ کر ناانصافی کروائی جاتی ہے اس لطف اندوزی کی راہ میں صرف اسلام رکاوٹ بن رہا ہے ان کا انقلاب کا پہلا ہدف بھی اپنا گھر پھر حلقہ احباب تھا یہ حیوانی ماحول گھر میں بنا چکے تھے اب اس ماحول کو سڑکوں کالجوں یونیورسٹیوں اور بیٹھکوں تک لانا تھا __
دن گزرتے گئے اب اس کے انقلابی دوست کچھ تو بن گئے تھے جن میں ماروی سرمد ، عاصمہ جہانگیر ، حسن نثار ، وقاص گواریا ، عاصم سعید اور جبران ناصر جیسے سماجی اراکین بھی تھے یہ سب ہم جنس پرستی کے فروغ کے ساتھ ساتھ عورت مرد کا جسمانی تعلق بھی زندہ رکھتے تھے شراب سے ہمدردی اس لئے تھی کہ اس کو مسلمان حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے ایک آنکھ بھی یہ نہ بھاتا تھا اس لئے پانی کی جگہ یہ سب بھی شراب کے عادی ہو چکے تھے __
آہستہ آپستہ ان سماجی ٹھیکداروں نے اسلام پر بھی حملے شروع کر دیے ان کو معلوم تھا ان کا اصل سٹاپ بریکر مولوی ملا اور ان کے فالورز ہیں _ پھر کرتے کرتے انہوں نے مل کر چند پیجز اور بلاگز پر پیغمبر اسلام کی شان میں بھی گستاخی شروع کر دی __ یہ خاصا مقبول طریقہ تھا جس میں ان کی شناخت ممکن نہ تھی یہ سلسلہ چلتا رہا اب تو بیرون ممالک سے کافی فنڈز بھی وہ شاباش کی خاطر حاصل کر رہے تھے ۔
ادھر مولوی ازم اور مذہب پرست بری طرح اشتعال میں آ چکے تھے کیونکہ انسانیت کے یہ ہمدرد ان کی ہر دکھتی رگ پر وار کرتے جارہے تھے سلیمان یہ بھی جانتا تھا انسانیت کی سب سے اعلی مثال اور احکام اسلام میں ہی موجود ہے لیکن سماج اور مغربی معاشرے کی قیام کی خاطر اور ڈالرز کی برسات نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی وہ موت و حیات سزا و جزا ، پاکدامنی و پاکیزگی ، عبادت و خیر کے معاملات سے کوسوں دور نکل چکے تھے ان کا مقصد ڈالر جنسی تکسین اور مولوی پر طنز و مزاح کرنا رہ چکا تھا ہر معاملے کا ذمہ دار مولوی اور اسلام کو ٹھہرانا اسرائیلی پالیسی کے اکیاسویں نقاط کے تحت جاری تھا __
موچی بھینسا روشنی جیسے پیجز اور بلاگز کی بے مثال کامیابی پر ان کی ہفتہ وار محفل ماروی سرمد کے گھر منعقد ہوتی تھی جس میں تقریبا پچاس خاص خاص لوگ شامل ہوتے تھے یہ اپنے مشن ، ڈالرز تقسیم ، شراب نوشی ، روسٹ سور کتا اور مولوی طنز کے ساتھ ساتھ جنسی تسکین کو بھی لطف اندوز ہوتے تھے __
اک دن اللہ کی بے آواز لاٹھی ان کے سروں پر ایسی پڑی کہ ان کے چاہنے والوں پر بھی جیسے قیامت ڈھا دی گئی ہو سب بلاگز پیجز بند ہوگئے اور یہ سب ملوث گستاخ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے ۔۔ ان کے ہمدرد وہی گستاخ اور ایتھسٹ خیالات والے اسی کے لئے دعائیں کرنے لگے ۔ اخر کس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کیونکہ وہ مذہب کے پیروکار تو تھے نہیں ۔ اب ان چیدہ چیدہ ملحدین کے ساتھ ساتھ ان کے بھنسے موچی بھی اپنی دکانیں بند کر کے بھاگ چکے تھے ۔
اس وقت ان سماجی حیوان پرستوں کے انقلابی خفیہ جگہ پر روپوش کر دیے گئے ہیں امید تو یہی ہے ان کا حشر برا ہی ہو گا جو اسلام اور مذہب کے ماننے والوں کے دلوں کو چیرتے رہیں تھے اور کچھ ابھی باقی بھی ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام دفاعی اداروں سے التماس ہے ان چند مذہبی توہین پرستوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور باقی ماندہ انقلابیوں کو بھی ہتھکڑی پہنا کر چوک چوراہوں میں موت کے گھاٹ اتارا جائے تاکہ مستقبل کے کالے انقلابیوں کی راہیں ہموار نہ ہو سکیں اور ایک عظیم مذہب کے ماننے والے اور پاکستان کے اصل حقدار مسلمان طبقہ اپنے مذہبی معاملات بخوبی چلاتے رہیں __ قائداعظم اور علامہ اقبال کی شاہین مغرب کے ہوس ذدہ معاشرے سے نفرت کرتے رہیں یہی انسانیت ہے یہی معاشرے اور سماج کی بقا کا راز ہے __
نوٹ: عبد الغفار بھٹو صاحب حیدرآباد کے ایک دینی مدرسہ کے مہتمم وغیرہ ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے مندرجہ بالا معلومات کہاں سے لیں۔ انہیں ایک ذمہ دار فرد سمجھتے ہوئے ان کی پوسٹ کو یہاں نقل کر رہا ہوں (ی ث ) ۔