• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی بیاہ کے رسوم ورواج احادیثِ رسول ﷺکی روشنی میں

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر9:
حضرت اُسامہ بن زید سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ» (صحیح بخاری:۵۰۹۶)
’’میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا، جو عورتوں سے زیادہ مردوں کے لیے نقصان دہ ہو۔‘‘
وضاحت:
یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہو گا جو میرے بعد رونما ہو گا۔ حالانکہ عورت کا وجود انسان کے لیے راحت و آسائش اور امن و سکون کا باعث ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ مِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً١ؕ﴾
’’اللّٰہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی نفسوں (جنس) سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی۔‘‘
علاوہ ازیں عورت کا وجود مرد کے لیے ناگزیر اور انسانی زندگی کے دو پہیوں میں ایک پہیہ ہے۔ اس کے باوجود اس کو مرد کے لیے سب سے زیادہ خطرناک فتنہ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ مرد کی یہ کمزوری ہے کہ قوامیت (گھر کی سربراہی، حاکمیت اور نگرانی) کا مقام اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کیا ہے، لیکن ایک تو ا س نے عورت کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ نہیں کیا۔ دوسرے، گھر میں اپنی قوامیت (حاکمیت) عورت کے سپرد کر کے خود محکومیت کا درجہ اپنے لیے پسند کر لیا، بالخصوص شادی بیاہ کے معاملات اور رسوم و رواج کی پابندی، فیشن پرستی اور اسراف و تبذیر کے مظاہر میں۔ ان تمام معاملات میں مردوں نے بے بسی بلکہ پسپائی اختیار کر لی ہے اور اپنے مردانہ اختیارات عورت کو دے دیے ہیں۔
شادی بیاہ میں وہی ہو گا جو شریعت سے بے پروا عورت کہے گی اور کرے گی، مرد کا کام غلامِ بے دام کی طرح صرف اس کے حکم کی بجا آوری ہے، حتی کہ عورت کی خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کے لیے اس کے پاس اگر وسائل بھی نہیں ہیں تو وہ رشوت لے گا، لوٹ کھسوٹ کرے گا۔ آمدنی کے دیگر حرام ذرائع اختیار کریگا، قرض لے گا، حتیٰ کہ سودی قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا، پھر ساری عمر قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہے گا۔
علاوہ ازیں عورت اگر کہے گی تو بننے والے داماد کو سونے کی انگوٹھی پہنا کر اپنی بھی اور اُس کی بھی آخرت کی بربادی کا سامان کیا جائے گا، عورت کہے گی تو پورا ہفتہ ڈھولکی وغیرہ کے ذریعے سے اہل محلہ کی نیندیں خراب کی جائیں گی، عورت کہے گی تو مہندی کی رسم میں نوجوان بچیاں سرعام ناچیں گی۔ وعلی ہذا القیاس دیگر رسموں کا معاملہ ہے۔
ظاہر بات ہے کہ مرد کی اس پسپائی اور بے بسی میں اس کے لیے دنیا کی بربادی کا بھی سامان ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی بھی اس کا مقدر ہے۔کیا ایک مسلمان کہلانے والے مرد کے لیے اس سے بھی بڑا فتنہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟ ’خسر الدنیا والآخرۃ‘ کا یہی وہ فتنہ ہے جس کا اظہار زبانِ رسالت مآبﷺ سے ہوا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دین دار عورت، دین داروں کے لیے فتنہ نہیں ہے!​

عورت کا یہ فتنہ انہی لوگوں کے لیے ہے یا ان کے حق میں فتنہ ہے جنہوں نے اپنی مردانگی (قوامیت) سے دست بردار ہو کر اپنی باگ ڈور (زمامِ کار) عورت کے ہاتھ میں دے دی۔ لیکن جو لوگ اپنی قوامیت کو برقرار رکھتے ہیں اور عورت کو کسی بھی مرحلے پر شریعت کے دائرے سے نہیں نکلنے دیتے بلکہ اس کو پابندِ شریعت بنا کر رکھتے ہیں، عورت اُن کے لیے کسی بھی مرحلے پر فتنہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ ان کی خیر خواہ، معاون اور ہر اچھے کام میں ان کا دست و بازو اور سراپا خیر و رحمت ہوتی ہے۔
نبیﷺ نے بھی ایسی نیک عورت کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا ہے۔فرمایا:
« الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ » (صحیح مسلم:۱۴۶۹)
’’دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہتر پونجی نیک عورت (بیوی) ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں نیک عورت کی خصلتیں بیان فرمائی ہیں:
حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:
سُئِلَ رَسُولُ الله ﷺ أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ قَالَ: «الَّذِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ وَلَا تُخَالِفُهُ فِيمَا يَكْرَهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ» (سنن نسائی:۳۲۳۳)
’’رسول اللّٰہﷺ سے سوال کیا گیا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت (بیوی) سب سے بہتر ہے كہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ خوش کن نظر سے اُسے دیکھے۔ جب خاوند اسے کسی بات کا حکم دے، تو اسے بجا لائے اور وہ (عورت) اپنے نفس اور خاوند کے مال میں اس کی خواہش کے برعکس ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو ا ُس کے خاوند کو ناپسند ہو۔‘‘
قرآنِ مجید میں بھی نیک عورتوں کے لیے قَانِتَات کا لفظ استعمال ہوا ہے:
﴿ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ ﴾ (سورۃ النساء:۳۴)
’’نیک عورتیں قانتات ہیں۔‘‘
اور قانتات کا مطلب ہے: فرماں بردار، اللّٰہ کی بھی اور خاوند کی بھی!
اس وضاحت سے مقصود یہ ہے کہ نبیﷺنے عورت کو مردوں کے لیے جو نہایت خطرناک فتنہ قرار دیا ہے جس کے شواہد آج ہم دیکھ رہے ہیں، یہ وہ عورتیں ہیں جو شرعی حدود و قیود سے آزاد ہیں، اور اُن کے مرد بھی اپنی غلامانہ ذہنیت اور خود بھی دین سے دور ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو روکنے ٹوکنے اور ان کو راہِ راست پر رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ لیکن جن مردوں کی عورتیں دین دار اور دین کی پابند ہیں، اور وہ دینی اقدار و روایات کی بالادستی میں اپنے خاوندوں کی مددگار ہوتی ہیں، وہ فتنہ نہیں ہیں، وہ سراپا خیر و برکت ہیں۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت دیگر دنیاوی ترجیحات کے مقابلے میں دین دار عورت کا انتخاب کرو۔ تاکہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر معاملے میں شریعت کے احکام کو بروئے کار لانے میں مرد کا ساتھ دے، اس کی مخالفت اور اپنی من مانی نہ کرے۔
الغرض شادی بیاہوں کی مذکورہ رسومات اور ان کی حشرسامانیوں سے بچنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ دین سے ہماری وابستگی برائے نام نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور ہماری خواتین بھی دینی ا قدار و روایات کی پابند اور اس کا صحیح نمونہ ہوں جس کا مظاہرہ شادی بیاہ کی تقریبات میں واضح طور ہو۔ وہ شادی کی تقریب اپنے ہی کسی بچے یا بچی کی ہو یا خاندان کے کسی اور گھرانے کی، دیکھنے والے دیکھیں کہ یہ شادی واقعی کسی دین دار خاندان کی ہے یا اس میں شریک ہونے والی خواتین واقعی دین دار، پردے کی پابند، شریعت کی پاس دار اور سادگی کا پیکر ہیں:
﴿ وَ فِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ﴾​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شادی کے موقعے پر دف بجانے کی شرعی حیثیت


شادی کے مروجہ رسموں میں خوشی کے شادیانے بجانے بھی ہیں، جس کی کئی صورتیں رائج ہیں۔ مثلاً
  • شادی سے قبل کئی دن تک محلے کی اور قریبی رشتے داروں کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شادی والے گھر میں راتوں کو گھنٹوں ڈھولکیاں بجاتی اور گانے گاتی ہیں جس سے اہل محلہ کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔
  • دوسرے نمبر پر برات کے ساتھ بینڈ باجہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فلمی گانوں کی دھنوں پر ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا ہے اور اب منگنی کے موقعے پر بھی ایسا کیا جانے لگا ہے۔
  • تیسرے نمبر پر بہت سے لوگ میوزیکل شو کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ناچنے گانے والی پیشہ ور عورتیں اور مرد حصہ لیتے ہیں، جس میں بے حیائی پر مبنی حرکتوں اور بازاری عشقیہ گانوں سے لوگوں کو محظوظ کر کے ان کے ایمان و اخلاق کو برباد کیا جاتا ہے۔
  • چوتھے نمبر پر شادی ہال نکاح اور ولیمے کی تقریبات میں اوّل سے آخر تک میوزک کی دھنوں سے گونجتا رہتا ہے اور اس طرح نکاح اور ولیمے کی بابرکت تقریبات بھی شیطان کی آماج گاہ بنی رہتی ہے۔

ان تمام خرافات اور شیطانی رسومات و حرکات کے جواز کے لیے ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جن میں شادی اور عید یعنی خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کو دف بجانے اور قومی مفاخر پر مبنی نغمے اور ملی ترانے گانے کی اجازت دی گئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر1:
جیسے حضرت ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی عمل میں آئی تو رسول اللّٰہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس اس طرح آ کر بیٹھ گئے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے (راوی سے خطاب ہے) ۔تب چھوٹی بچیاں (خوشی کے طور پر) دف بجا کر شہداے بدر کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اچانک ان میں سے ایک بچی نے کہا:
«وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ»
’’ہمارے اندر ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔‘‘
نبیﷺ نے سن کر فرمایا:
«دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ» (صحیح بخاری:۵۱۴۷)
’’اس کو چھوڑ اور وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘
صحابہ کرام﷢ (چھوٹے، بڑے سب) صحیح العقیدہ تھے۔اس لیے بچی کے مذکورہ قول کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں نبیﷺ کی بابت عقیدۂ علم غیب کا اظہار تھا بلکہ آپ کی رسالت کا اظہار تھا کہ رسول پر وحی کا نزول ہوتا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اپنے احکام سے بھی مطلع فرماتا ہے اور آئندہ آنے والے واقعات سے بھی بعض دفعہ باخبر کر دیتا ہے۔ بچی کے شعری مصرعے کا مطلب اسی وحیٔ الٰہی کا اثبات تھا، پھر بھی رسول اللّٰہﷺ نے اس کو اس طرح کہنے سے روک دیا کہ مبادا بعد کے لوگ بدعقیدگی کا شکار ہو جائیں۔ علاوہ ازیں ایک د وسری روایت میں صراحتاً بھی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«وَلَا یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ اِلَّا الله» (طبرانی، بحوالہ’آداب الزفاف‘از شیخ البانی، ص:۹۵)
’’کل کا علم اللّٰہ کے سوا کسی کو نہیں۔‘‘
بہرحال اس واقعے سے خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کا اشعار پڑھ کر اظہارِ مسرت کرنے کا اثبات ہوتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر2:
عہد نبوی کا ایک دوسرا واقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہانے ایک لڑکی کو نکاح کے بعد شبِ زفاف کے لیے تیار کرکے اس کے خاوند (ایک انصاری مرد) کے پاس بھیجا۔ رسول اللّٰہﷺ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: تمہارے پاس ’لہو‘ نہیں ہے؟ «مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ؟» انصار کو لہو پسند ہے، «فَإِنَّ الْأَنْصَارَ یُعْجِبُهُمْ اللَّهْوُ» (صحیح بخاری:۵۱۶۲)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں، ایک دوسری روایت میں مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ کی جگہ الفاظ ہیں:
«فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا جَارِیةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّی»
’’کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی بچی (یا لونڈی) بھیجی ہے جو دف بجا کر اور گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔‘‘
اسی طرح فَإِنَّ الْأنْصَارَ یُعْجِبُهُمُ اللَّهْو کی جگہ دوسری روایت میں ہے:
«قَوْمٌ فِیْهِمْ غَزْلٌ» (فتح الباری:۹؍۲۸۲)
’’انصاریوں میں شعروشاعری کا چرچا ہے۔‘‘
اس دوسری روایت کے الفاظ سے پہلی روایت میں وارد لفظ لَهْو کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ واقعہ مذکورہ میں اس سے مراد چھوٹی بچی کا دف بجا اور قومی گانا گا کراظہارِ مسرت کرنا ہے۔


نمبر3:
محمد بن حاطب سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاحِ» (سنن نسائی:۳۳۷۱)
’’حرام اور حلال کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور نکاح میں آواز بلند کرنا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر4:
ایک اور واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے، عامر بن سعد﷫بیان کرتے ہیں کہ میں ایک شادی میں گیا، وہاں دو صحابی ٔرسول حضرت قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری ؓ بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی بچیاں گانا گا رہی ہیں۔ میں نے دونوں صحابیوں سے کہا: تم دونوں اصحابِ رسول اور اہل بدر (جنگ بدر کے شرکا) میں سے ہو، تمہاری موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا:
’’شادی کے موقعے پر ہمیں لَهْو(چھوٹی بچیوں کے قومی گیت وغیرہ گا کر اظہار مسرت کرنے) کی رخصت دی گئی ہے، تمہارا جی چاہتا ہے تو سنو، جانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے۔‘‘ (سنن نسائی:۳۳۸۵)
مذکورہ روایات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ان احادیث سے دو باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دف بجانے کا اور دوسرے، ایسے گیتوں اور شعروں کے گانے اور پڑھنے کا جن میں خاندانی شرف و نجابت کا اور آباء و اجداد کے قومی مفاخر کا تذکرہ ہو، لیکن ساری متعلقہ صحیح احادیث سے ان دونوں باتوں کی جو نوعیت معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:

1- خاص موقعوں پر دف بجایا جا سکتااور قومی گیت گایا جا سکتا ہے، جیسے شادی بیاہ کے موقعے پر یا عید وغیرہ پر، جس کا مقصد نکاح کا اعلان کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، تاکہ شادی خفیہ نہ رہے۔ اسی لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے:
«اَعْلِنُوْا النِّکَاحَ» (صحیح ابن حبان:۱۲۸۵؛آداب الزفاف:ص۹۷)
’’نکاح کا اعلان کرو۔‘‘
یعنی علانیہ نکاح کرو، خفیہ نہ کرو۔ اس حکم سے مقصود خفیہ نکاحوں کا سدباب ہے جیسے آج کل ولی کی اجازت کے بغیر خفیہ نکاح بصورت لو میرج، سیکرٹ میرج اور کورٹ میرج کیے جا رہے ہیں، عدالتیں اور فقہی جمود میں مبتلا علما ان کو سند جواز دے رہے ہیں حالانکہ احادیث کی رو سے یہ سب نکاح باطل ہیں، یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتے۔
2۔ یہ کام صرف چھوٹی یعنی نابالغ بچیاں کر سکتی ہیں، بالغ عورتوں کو ان کاموں کی اجازت نہیں ہے اور نہ مردوں ہی کو اس کی اجازت ہے۔
3۔ یہ کام نہایت محدود پیمانے پر ہو۔ محلے کی یا خاندان اور قبیلے کی بچیوں کو دعوتِ دے کر جمع نہ کیاجائے۔
4۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کاموں کی صرف اجازت ہے، ان کی حیثیت فرض وواجب اور امر لازم کی نہیں ہے۔ جیسے مذکورہ دو صحابیوں کے واقعے میں ہے:
قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ
’’ہمیں شادی کے موقعے پر لَهْو کی رخصت دی گئی ہے۔‘‘
5۔ اور یہ مسلمہ اُصول ہے کہ ایک جائز کام، حدود و ضوابط کے دائرے میں نہ رہے اور اس کا ارتکاب بہت سے محرمات و منہیات تک پہنچا دے تو ایسی صورتوں میں وہ جائز کام بھی ناجائز اور حرام قرار پائے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
موجودہ حالات میں اظہارِ مسرت کا مذکورہ جائز طریقہ، ناجائز اور حرام ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی اور اس پر عمل کرنے کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقعوں پر وہ اللّٰہ و رسولﷺ کے احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محرمات و منہیات کا نہایت دیدہ دلیری سے ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ مہندی کی رسم اور اس میں نوجوان بچیوں کا سرعام ناچنا گانا، ویڈیو اور مووی فلمیں بنانا، بے پردگی اور بے حیائی کا ارتکاب، بینڈ باجے، میوزیکل دھنیں اور میوزیکل شو، آتش بازی وغیرہ۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب غیروں کی نقالی اور اسلامی تہذیب و روایات کے یکسر خلاف ہیں۔ اسلام سے ان کا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہو ہی سکتا ہے۔
یہ صورت حال اس امر کی تائید کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں دف بجانے اور قومی گیت گانے سے بھی احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی شریعت کی بتائی ہوئی حد تک محدود نہیں رہتا اور محرمات تک پہنچے بغیر کسی کی تسلی نہیں ہوتی۔ بنا بریں اسلام کے مسلمہ اصول سَدًّا لذریعة کے تحت یہ جائز کام بھی اس وقت ممنوع ہی قرار پائے گا جب تک قوم اپنی اصلاح کرکے شریعت کی پابند نہ ہو جائے اور شریعت کی حد سے تجاوز کرنے کی عادت اور معمول کو ترک نہ کر دے۔
 
Top