کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
نمبر9:
حضرت اُسامہ بن زید سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہو گا جو میرے بعد رونما ہو گا۔ حالانکہ عورت کا وجود انسان کے لیے راحت و آسائش اور امن و سکون کا باعث ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
شادی بیاہ میں وہی ہو گا جو شریعت سے بے پروا عورت کہے گی اور کرے گی، مرد کا کام غلامِ بے دام کی طرح صرف اس کے حکم کی بجا آوری ہے، حتی کہ عورت کی خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کے لیے اس کے پاس اگر وسائل بھی نہیں ہیں تو وہ رشوت لے گا، لوٹ کھسوٹ کرے گا۔ آمدنی کے دیگر حرام ذرائع اختیار کریگا، قرض لے گا، حتیٰ کہ سودی قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا، پھر ساری عمر قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہے گا۔
حضرت اُسامہ بن زید سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
وضاحت:«مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ» (صحیح بخاری:۵۰۹۶)
’’میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا، جو عورتوں سے زیادہ مردوں کے لیے نقصان دہ ہو۔‘‘
یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہو گا جو میرے بعد رونما ہو گا۔ حالانکہ عورت کا وجود انسان کے لیے راحت و آسائش اور امن و سکون کا باعث ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
علاوہ ازیں عورت کا وجود مرد کے لیے ناگزیر اور انسانی زندگی کے دو پہیوں میں ایک پہیہ ہے۔ اس کے باوجود اس کو مرد کے لیے سب سے زیادہ خطرناک فتنہ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ مرد کی یہ کمزوری ہے کہ قوامیت (گھر کی سربراہی، حاکمیت اور نگرانی) کا مقام اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کیا ہے، لیکن ایک تو ا س نے عورت کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ نہیں کیا۔ دوسرے، گھر میں اپنی قوامیت (حاکمیت) عورت کے سپرد کر کے خود محکومیت کا درجہ اپنے لیے پسند کر لیا، بالخصوص شادی بیاہ کے معاملات اور رسوم و رواج کی پابندی، فیشن پرستی اور اسراف و تبذیر کے مظاہر میں۔ ان تمام معاملات میں مردوں نے بے بسی بلکہ پسپائی اختیار کر لی ہے اور اپنے مردانہ اختیارات عورت کو دے دیے ہیں۔﴿وَ مِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً١ؕ﴾
’’اللّٰہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی نفسوں (جنس) سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی۔‘‘
شادی بیاہ میں وہی ہو گا جو شریعت سے بے پروا عورت کہے گی اور کرے گی، مرد کا کام غلامِ بے دام کی طرح صرف اس کے حکم کی بجا آوری ہے، حتی کہ عورت کی خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کے لیے اس کے پاس اگر وسائل بھی نہیں ہیں تو وہ رشوت لے گا، لوٹ کھسوٹ کرے گا۔ آمدنی کے دیگر حرام ذرائع اختیار کریگا، قرض لے گا، حتیٰ کہ سودی قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا، پھر ساری عمر قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہے گا۔
ظاہر بات ہے کہ مرد کی اس پسپائی اور بے بسی میں اس کے لیے دنیا کی بربادی کا بھی سامان ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی بھی اس کا مقدر ہے۔کیا ایک مسلمان کہلانے والے مرد کے لیے اس سے بھی بڑا فتنہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟ ’خسر الدنیا والآخرۃ‘ کا یہی وہ فتنہ ہے جس کا اظہار زبانِ رسالت مآبﷺ سے ہوا ہے۔علاوہ ازیں عورت اگر کہے گی تو بننے والے داماد کو سونے کی انگوٹھی پہنا کر اپنی بھی اور اُس کی بھی آخرت کی بربادی کا سامان کیا جائے گا، عورت کہے گی تو پورا ہفتہ ڈھولکی وغیرہ کے ذریعے سے اہل محلہ کی نیندیں خراب کی جائیں گی، عورت کہے گی تو مہندی کی رسم میں نوجوان بچیاں سرعام ناچیں گی۔ وعلی ہذا القیاس دیگر رسموں کا معاملہ ہے۔