• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی: چند سو روپے کی تقریب پر کروڑوں کے اخراجات :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شادی: چند سو روپے کی تقریب پر کروڑوں کے اخراجات :

آج کی شادی مہنگے ’کارڈ‘ سے شروع ہوکر ’چوتھی‘ کی رسم کے مہنگے ترین جوڑے پر ختم ہوتی ہے۔ سادگی کے دینی درس پر عمل کریں تو اس پر چند سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن، آج اس پر کروڑوں خرچ ہو رہے ہیں۔مہنگی شادی کے لوازمات کیا ہوتے ہیں۔۔ جھلک پیش خدمت ہے







اس بارے میں




کراچی—
میرون کلر کے مخملی کپڑے پر سنہری حروف میں لکھا شادی میں شرکت کا پیغام اور مغل بادشاہوں کے دربار میں استعمال ہونے والا چاندی کے کیپسول نما ڈبے میں بند ’شاہی فرمان‘ کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا تھا کہ چند دنوں بعد ہونے والی یہ تقریب کس قدر عالیشان ہوگی۔

یہ ’شاہی فرمان‘ بذات خود اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک کارڈ کی تیاری پر کم ازکم 300یا 400روپے تو خر چ آیا ہی ہوگا۔ کارڈز کی تیاری اور خرید و فروخت کیلئے مشہور ’پاکستان چوک‘ پر یہی کام انجام دینے والوں کا وی او اے سے کہنا تھا کہ ’وہ زمانے گئے جب ہزار، پانچ سو روپے میں’سینکڑا‘ کارڈ چھپا کرتے تھے اب تو چھ، سات سو روپے والا کارڈ بھی ڈیمانڈ میں ہے۔‘

پھر مقررہ تاریخ اور وقت پر براتیوں کا ’قافلہ‘ جیسے ہی بینکوئٹ کے دروازے پر پہنچا، شیشے کا آٹومیٹک فرنچ ڈور کھلا اور اندر چلنے والے اے سی کے ٹھنڈے اور معطر جھونکے نے یکدم ہی راستے کی تھکان بھلا دی۔ سب خراماں خراماں حال میں داخل ہونے لگے تو دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہوئی لڑکیوں نے براتیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا شروع کردیں اور باری باری سب کو گلاب کی کلیاں پیش کی گئیں۔

بینکوئٹ ہال کا خواب ناک ماحول :

بینکوئٹ ہال کا ماحول انتہائی خوابناک لگ رہا تھا۔ پانچ، چھ سو گز کا بینکوئٹ ہال بے شمار رنگ برنگی روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ حال کے بالکل درمیان میں شروع سے آخر تک شیشے کے نازک اور بے حد نفیس فانوس لٹکے ہوئے تھے، جبکہ ہال کی پوری چھت مختلف چلمنوں سے سجی تھیں۔ چلمنوں کے پیچھے بھی برقی قمقیں جگمگا رہے تھے۔ پورے ہال میں چھوٹے بڑے قمقموں، لیڈ لائٹس، اسپاٹ لائٹس، فلیش لائٹس اور اسی قسم کی درجنوں دوسری لائٹس نصب تھیں جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔

ہال کے بیچ و بیچ ایک اسٹیج تھا جہاں دلہا اور دلہن کو بیٹھنا تھا۔ اسٹیج تازہ پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ قماش قماش کے رنگ برنگے پھول اور دلنشیں پتے ’کشمیری جنت‘ کی حسین وادی کا منظر پیش کررہے تھے۔

اسٹیج اور ہال کس کونے میں کیا ہے اس کی جیتا جاگتا نظارہ کرنے کے لئے جگہ جگہ ٹی وی اسکرینز رکھی گئی تھیں۔ یہاں سے آپ نکاح کی رسم اور دلہا دلہن کے ذریعے نکاح نامے پر ہونے والے دستخط بھی ’لائیو‘ دیکھ سکتے تھے۔

ہال کے ہر پلر کے ساتھ ساتھ اور درمیان بھی بڑے بڑے اے سی نصب تھے۔ ان کی تعداد 25یا 30کے لگ بھگ ہوگی۔کم وبیش10یا 12 واٹرڈ سپنسرز لگے تھے جن پر منرل واٹر کی بوتلیں چڑھیں تھیں۔ ٹھنڈا، کرسٹل اور منرل واٹر اب ہر بینکوئٹ میں لازم ہوگیا ہے۔

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہال کی بیشتر لائٹس آف کردی گئیں اور رہ گئیں تو صرف چند اسپاٹ لائٹس۔ اسٹیج کے بالکل اوپر سے ہال کے دروازے تک روشنی بکھرتی ایک اسپاٹ لائٹ روشن ہوئی تو معلوم ہوا اس لائٹ کے کنارے پر دلہا اور دلہن حال میں داخل ہورہے ہیں۔

ویڈنگ کپل کی اینٹری ہو اور ہال میں موسیقی کی لہر نہ ڈورے ایسا ہونہیں سکتا۔ لہذا، جیسے ہی جوڑا اندر داخل ہوا جدیدسائنڈ سسٹم پر شادی اور محبت کی مناسبت سے فلمی گانے بجنے لگے۔ موسیقی کا سحر، دھیمی دھیمی لائٹ، ٹھنڈی فضاٴ، رنگوں اور روشنوں کی نہ تھمنے والی قوس و قضا۔۔یہ سب کچھ خوابناک ہی تو تھا۔

اس پر جیسے ہی یہ جوڑا اسٹیج پر براجمان ہوا سارا ہال ایک مرتبہ پھر لمحے بھر کے لئے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ پھر میوزک کے ساتھ ساتھ ساتھ پورا ہال لال، نیلی، پیلی، ہری اور دوسری روشنیوں سے بار بارجگمگ ااٹھا۔ کبھی ایک رنگ کی لائٹس تو کبھی دوسرے رنگ کی لائٹس روشن ہوتیں ،گویا چھت اور دیواروں پر نصب قمقمیں اور تیز روشنیاں، زور دار میوز ک تھرک تھرک جاتیں۔۔یہ سلسلہ آٹھ نو منٹ تک جاری رہا۔

پھر لوگ کچھ ضروری رسموں کے پورا ہونے کا منظر اسکرینز پر دیکھنے میں مشغول ہوگئے۔ اس دوران ہال میں موجود چاق و چوبند باوردی ملازم کھانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ اسٹیج سے کچھ آگے، ہال کے تقریباً درمیان میں چوکور احاطے میں کچن اہتمام تھا۔ ٹیبلز پر کھانا تو سرو کیا جانا ہی تھا تازہ روٹیوں کے لئے مووایبل تندور کا بھی انتظام تھا جہاں سے گرماگرم تل والے نان سپلائی ہونے تھے۔

بے شک گزشتہ دور میں حکومتیں ون ڈش تک لوگوں کو پابند کرتی رہی ہیں۔ لیکن آج کل ایسی کوئی قدغن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شادی میں جوس یا موسم سرد ہوا تو سوپ، برانڈیڈ آئس کریم، کرنچ کلفی، رشین سلاد، دو تین قسم کے سافٹ ڈرنکس، کھیر، لب شیریں، پان، پستہ بادام والی چائے یا ایکسپریسو کریمی کافی، ایلمونیم فویل میں پلٹا گرما گرم چکن، بروسٹ، کڑائی، کئی قسم کے کباب، کئی قسم کی بوٹیاں، بریانی، چائینز اور مغلئی ڈشیں ۔۔۔کیا کچھ سرو نہیں کیا جاتا۔

تصویر کا دوسرا رخ :

اگر آپ کو زیرنظر تحریر کا ابتدائی حصہ پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک امیر آدمی کی تقریب کا قصہ ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ شہر قائد میں یہ رسم عام ہوچلی ہے کہ ہر تقریب ایسی ہی ہو۔ اس کا ثبوت کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں واقع وہ 158 جدید ترین بینکوئٹ ہالز ہیں جو سنہ 2007ء تک۔۔ سادے سے کمیونٹی سنیٹر کی طرز کے شادی ہال ہوا کرتے تھے لیکن آج ۔۔۔۔

ڈپٹی کمشنر سینٹرل ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن کے مطابق، ’آج ۔۔۔ڈویثرن گلبرگ کے 55، نارتھ ناظم آباد کے 42، نارتھ کراچی کے 34، ناظم آباد کے 24اور لیاقت آباد سب ڈویثرن کے 30 شادی ہالز میں سے اکا دکا شادی ہال ہی ایسا ہوگا جو اب تک بینکوئٹ ہال میں تبدیل نہ ہوا ہو، ورنہ سب کے سب بینکوئٹ ہالز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔‘

یہ اعداد اس جانب واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان خاص کر کراچی میں شادی کے لوازمات انتہائی مہنگے ۔۔اور کچھ فیملیز کے لئے تو ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔

شادی ہال کا کرایہ 70ہزار ۔۔۔بینکوئٹ کا کرایہ چار لاکھ :

سخی حسن، نارتھ ناظم کراچی میں واقع جس بینکوئٹ ہال کا ذکر کیا گیا ہے اس کے منیجر نے ہال اور ان کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ، ’آج کے دور کی شادی کا سب سے مہنگا نسخہ ’بینکوئٹ ہال‘ ہے۔ سنہ 2005ء تک جب شادی ہال۔۔ بینکوئٹ ہالز میں تبدیل نہیں ہوئے تھے ہم لوگ ساٹھ اور ستر ہزار سے زیادہ آگے نہیں جا پاتے تھے۔ لیکن، آج کوئی بھی بینکوئٹ ایسا نہیں جس کی ایک دن کی بکنگ تین سے چار لاکھ روپے نہ ہوں، حالانکہ اس رقم میں کھانے کے اخراجات شامل نہیں۔‘

نمائندے کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ’اگر لوگ افورڈ نہ کرپاتے تو شہر میں ایک، دو ہی بینکوئٹ ہال کھل پاتے باقی سب عام شادی ہالز ہی رہتے۔لیکن، حالیہ سالوں میں لوگوں کا لائف اسٹائل تبدیل ہوا ہے۔۔اس کے پیچھے کیا ہے، کیا نہیں ۔۔وہ الگ بات ہے۔ لیکن آج کا کوئی بھی شخص کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا‘۔

کروڑوں کے لوازمات :

انہوں نے شادی پر ڈبل ٹرپل خرچ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں شادی سب سے اہم اور بڑی معاشرتی تقریب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں خرچ کے لئے لوگ سالوں پہلے سے بچت شروع کردیتے ہیں۔ لڑکیوں کے تو پیدا ہوتے ہی ان کی شادی کیلئے پیٹ پیٹ کاٹ کر رقمیں پس انداز کرنا شروع کردی جاتی ہیں ۔۔۔جبکہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خوب نوازا ہے وہ خرچ کے بارے میں شائد سوچتے بھی نہیں۔ لیکن، ان کے اس عمل سے معاشرے میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ریس چھڑ گئی ہے۔ حالانکہ، اسلام میں شادی صرف حجاب و قبول کا نام ہے ۔۔۔انتہائی سادگی اور کم خرچ میں شادیاں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن، آگے نکلنے کی اندھی روش نے شادی کو نہایت ہی مشکل امر بنا دیا ہے۔۔چند روپوں کی تقریب پر کروڑوں کے لوازمات۔۔۔اور وہ بھی غیر ضروری ۔۔۔سوچئے اگر ایک ہال کی بکنگ پر ہی چار، پانچ لاکھ روپے خرچ آتا ہے تو لڑکی کے پورے جہیز، زیوات، فرنیچر، جوڑے اور دیگر سامان پر کتنا خرچ آتا ہوگا۔‘

پاکستان میں سونے کی فی تولہ قیمت بھی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، شادی بیاہ میں زیوات چڑھانے کا رواج ختم نہیں ہوا۔ سونے پہ سہاگہ، اب تو دولہا کی شیروانی بھی ہزاروں میں بننے لگی ہے۔ غرارہ اور شرارہ جس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑتا ہو۔۔۔اس پر بھی لاکھ اور دو لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔

http://www.urduvoa.com/content/wedding-once-a-low-budget-affair-now-costs-millions/2482272.html
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہم نے غیر ضروری لوازمات سے اپنی زندگی بہت ہی بھاری بنا دی ہے؟
اگر کپڑا تھوڑا سستا ہو تو وہ میں نے نہیں پہننا، لوگ کیا کہینگے۔ اپنی گاڑی نہیں ہے تو رکشے میں نہیں جانا لوگ کیا کہینگے۔ بھوکا ویلا رہوں لیکن چھوٹا موٹا کام نہیں کرنا کیونکہ یہ ہماری شان کیخلاف ہے لوگ کیا کہینگے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہم نے زندگی دکھاوے میں گزار دی ایک نقلی کور چڑھا کر کھوکھلی زندگی جی لی۔
ہم چاہتے ہیں ہم کہیں جائیں تو لوگ جی جناب تابعدار بولیں ہمارے استقبال میں کھڑے رہیں۔
ہم قیمتی چیزوں سے اپنی ویلیو بڑھانا چاہتے ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی پرسنیلٹی پر اعتماد نہیں اور یہ طرز عمل احساس کمتری کی ایک صورت ہے۔ لوگ اگر ہمارے پہناؤں اور سہولیات سے متاثر بھی ہو اور اس وجہ سے آؤ بھگت بھی کریں تو یہ بھی نقلی اور دکھاوے کی عزت ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں میں نے کوٹ لیا اور سب کو بتا دیا کہ لنڈے میں لیا اور دو سو میں لیا۔ اسی نیت سے فیس بک پر لگایا تھا۔ حالانکہ لوگ ایسا نہیں بتاتے۔ کیوں نہیں بتاتے؟ یہی پر معاملہ خراب ہے۔
جب مجھے پانچ ہزار کا کوٹ کہیں 200 میں ملیگا تو مجھے کیا ضرورت کہ 5000 دوں؟ بلاوجہ پیسہ کیوں برباد کروں چونا کیوں لگاؤ خود کو برانڈڈ سٹوروں میں؟
ایک اچھی چیز کم قیمت پر مل رہی مجھے اچھی لگتی ہے تو کافی ہے۔ لوگوں کو اچھی نہیں لگتی تو وہ ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ اگر ماہانہ دو سے تین لاکھ کمانے والا وکیل 200 کا کوٹ پہن سکتا ہے تو پندرہ بیس ہزار کمانے والے پر کونسی قیامت آں پڑی ہے کہ پانچ ہزار کا سوٹ اور چار ہزار کے جوتے پہنے؟ یا میرے جیب میں پھوڑی کوڑی نہیں تو کیوں نا کسی ریڑھی پر کسی موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کروں؟
لوگوں کو بولنے دیں لوگوں کو آپکا اتنا ہی غم ہے تو آپ کو پیسہ کیوں نہیں دیتے کوئی اچھا بڑا کاروبار کیوں نہیں شروع کرلیتے وہ آپ کیلئے؟
اپنی زندگی ہم نے لوگوں کی فکر میں گزار دی اور حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو ہماری فکر ہی کوئی نہیں۔

یقین جانیں اگر یہ لوگ کیا کہینگے والی سوچ سے چھٹکارہ پا لیا تو آپ کے کندھوں سے بہٹ بڑا بوجھ اتر جائیگا آپ کو چیزوں اور مادیت کی بجائے اپنی شخصیت پر یقین آجائیگا اور زندگی آسان و پرسکون ہوجائیگی۔
رحمان بابا نے فرمایا تھا:
کہ دے طمع د مخلوق د در پریکڑہ
بادشاہی د مبارک شہ کہ گدا ئے

(طمع اگر مخلوق کے در سے کاٹ دیا
بادشاہی مبارک ہو اگر فقیر بھی ہو)

میر محسن الدین
 
Top