• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی کی چند ناجائز رسومات

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
شادی کارڈ

شادی بیاہ کی رسومات از خود پیدا کردہ ضروریات میں سے ایک رسم یا ایک ضرورت ''شادی کارڈ'' بھی ہےجس کے ذریعےسے اہل خاندان اور دوست احباب کو شادی (مہندی وغیرہ)میں مدعو کیا جاتا ہے۔پھلے یہ ضرورت ایک پوسٹ کارڈ یا زبانی دعوت سے پوری ہو جاتی تھی۔اب یہ شادی کارڈبھی شادی کا ایک نا گزیر حصہ ہے۔
اس کی وجہ بھی شادیوں میں زیادہ ہجوم جمع کرنے ہی کا جزبہ ہے۔ اگر نکاح کی تقریب اور ولیمےکی دعوت مختصر ہو،خاندان کے چند ضروری افراد اور صرف بعض احباب ہی ان میں شریک ہوں تو ظاہر بات ہےکہ پھر خصوصی دعوت ناموں اور شادی کارڈ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔لیکن چوں کہ یہ سادگی اور اختصار اب کسی کو پسند نہیں ہے اس لیے شادی کارڈ چھپوائے بغیر بھی چارہ نہیں۔اس لیے اصل ضرورت شادی بیاہ کی تقریبات کا حجم (سائز)مختصر کرنے کی ہے،اگر لوگ اس کو اختیار کر لیں تو بہت سی قباحتوں کے ساتھ شادی کارڈ سے بھی بچنا ممکن ہے،بصورت دیگر کم از کم ا س میں فضول خرچی سے تو ضرور اجتناب کیا جائے،یعنی شادی کارڈمختصر اور سادہ چھپوائے جائیں،انھیں زیادہ سے زیادہ خوب صورت اور دیدہ زیب بنانے کے لیے گراں سے گراں تر نہ کیا جائے ۔ اس طرح کے گرں قیمت شادی کارڈ سراسر اسراف اور فضول خرچی ہے جس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
ایک اور بے ہودگی شادی کارڈ میں یہ چل پڑی ہے کہ اپنی قومی زبان اردوکے بجائےاسالم اور مسلمانوں کے شدید دشمن انگریزوں کی زبان میں چھپوائے جانے لگے ہیں ۔یہ بھی ایک چلتا ہوا فیشن اور مقبول عام رجحان ہے۔حالاں کہ مسلمانوں کو تو یہودیوں اور عیسائیوں سے بغض و عداوت رکھنے کا حکم ہے نہ کہ دوستی اور محبت رکھنے کا۔اور اپنی گھریلو قسم کی معاشرتی تقریبات میں مدعو کرنے کے لیےبھی ہم دعوت نامے انگریزی زبان میں چھپوائیں تو یہ اپنے دشمنوں سے جن کو اللہ تعالی نےمسلمانوں کا دشمن قرار دیا ہے، محبت کا اظہار ہے یا نفرت کا؟ کیا اس طرح ہم اللہ تعالی کے نہایت دیدہ دلیری سے پامال نہیں کر رہے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ انگریزی زبان بین الاقوامی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان ہے، اس لیے اسے سیکھے بغیر چارہ نہیں ، ٹھیک ہے اس وقت بد قسمتی اور ہم مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے اس کی یہ اہمیت مسلم اور اس کا سیکھنا جائز بلکہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے کسب معاش کے لیے اس کا سیکھنا ضروری ہے۔لیکن حکومتوں کی مسلط کردہ پالیسی یا دیگر دنیوی ضروریات کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا اور چیز ہے اور اس سے محبت رکھنا اور چیز ،پہلی بات یقینا جائز ہے،الضرورات تبیح المحظورات(ضرورتیں ناجائز کاموں کو بھی جائز کر دیتی ہیں ، فقہی اصول ہے)
اسی لیے کوئی عالم انگریزی زبان کے پڑھنے ،سیکھنے بلکہ اس میں مہارت حاصل کرنے کو ناجائز نہیں کہتا، لیکن دوسری بات یعنی اس محبت رکھنا ، اسے اپنا اوڈھنابچھونا بنا لینا اور اپنی قومی زبان پر اسے ترجیح دینااس کا قطعا کوئی جواز نہیں ہے۔یہ قومی غیرت کے بھی خلاف ہے اور شرعی لحاظ سے بھی حرام اور ناجائز۔
انگریزی میں کوئی بھی دعوت نامہ چھپوانا، کسی بھی پاکستانی کی بین الاقوامی ضرورت نہیں ہے،جو پاکستانی ایسا کرتا ہے ،وہ قومی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتا ہےاور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے محبت والہانہ اظہار بھی۔اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ یوں وہ قومی جرم کا بھی ارتکاب کرتا ہے اور حکم الہی کی پامالی کا ارتکاب بھی۔اعاذنا اللہ منہ۔
یہ مسئلہ شرعی لحاظ سے ۔عقیدہ الولاء والبراءکے تحت۔ جتنا اہم ہے، افسوس ہے کہ علما کے طبقے میں بھی اس کااحساس نہیں ہے،اس لیے وہ بھی انگریزی کارڈوںپر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کرتے ۔فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
رات کو شادیوں کا انعقاد

ایک اور نہایت قبیح رواج جو دیگررسومات کی طرح بہت عام ہو گیا ہے، شادی کی تقریب رات کو کرنا ہے۔ اس میں بھی غالبا شیطانی فلسفہ کار فرما ہوتا ہےکہ رات کے اندھیرے میں بجلی کے قمقمے اور چراغاں جو بہار دیتا ہے، وہ دن کی روشنی میں ممکن نہیں ۔اسی طرح آتش بازی کا سماں بھی رات کی تاریکی ہی میں بندھتا ہےاور آتش پٹاخوں کے نہایت خوف ناک دھماکے بھی رات ہی کو اہل محلہ کی نیندوں کو خراب کرتے ہیں۔دن کے شور و شغب میں یہ دھماکے کسی کے آرام و راحت میں زیادہ خلل انداز نہیں ہوتےاور ہم اخلاقی پستی کی جا اتھاہ گہرائی میں جا چکے ہیں اس کا تقاضا ہےکہ جب تک ہم اہل محلہ کے آرام و سکون کوبرباد کرنے میں راحت محسوس ہوتی ہے،ورنہ جس قوم کی اخلاقی حس زندہ و بیدار ہو وہ کبھی اتنی اخلاقی پستی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی جس طرح ہماری قوم کرتی ہے۔رات کے دو بجے بارات واپس آتی ہےتو آتشیں پٹاخوں کے دھماکوں سے سارے محلے کے لوگوں کی نیندیں خراب کر دی جاتی ہیں۔
سالہا سال سے اخلاقی پستی کے یہ مظاہر ہم دیکھتے آرہے ہیں، البتہ اب ایک دو سالوں عائد کر رکھی ہےجس کے نتیجے میں اصلاح کے کچھ آثار نظر آرہے ہیں اور باراتوں اور ولیموں سے لوگ ۱۱بجے تک فارغ ہو جاتے ہیں ،ورنہ اس سے پہلے جو صورت حال تھی وہ ہمارے اخلاقی زوال کی نوحہ کناں تھی۔
علاوہ ازیں رات کی ان تقریبات میں وقت کا جو ضیاع ہوتا تھا، وہ بھی ہماری اس قوم کی بے فکری ، بے شعوری اور اخلاقیات سے عاری ہونے کی غمازی کرتا تھا۔کارڈوں پر ۸یا ۹ بجے کا وقت لکھا ہوتا تھا،لیکن نکاح یا ولیمے کی تقریب کا آغاز رات کے ۱۲ بجےیا ایک بجے سے پہلے نہ ہوتا۔ذرا سوچیے!یہ رواج یا عادت یا رسم اچھی ہے یا بری؟اس میں اخلاقی ذمے داری کا احساس پایا جاتا ہےیا اس سے خوف ناک بے اعتنائی ؟ ذرا تصور کیجیے ! ان لوگوں کی کوفت ، تکلیف اور ضیاع وقت کا جو دعوت نامے کے مطابق وقت پر تشریف لے آتے ہیں ،لیکن انھیں ان لوگوں کے انتظار میں جو تین یا چار گھنٹے تاخیر سے آتے ہیں،۳یا۴ گھنٹے انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھا جاتا ہے۔
حالاں کہ سوچنے کی بات ہے کہ وقت پر آنے والے سزا کے مستحق ہیں یا غیر معمولی تاخیر سے آنے والے؟لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کئی کئی گھنٹے تاخیر سے آنے والےوالوں کی سزا، وقت کا ضیاع اور '' الانتظار اشد من الموت''کے کرب و قلق کی صورت میں ، وقت پر آنے والوں کو بھگتنی پڑتی ہے،ان سب پر مستزاد یہ کہ رات کو اتنی تاخیر سے سونے کے بعد فجر کی نماز لیے اٹھنا بھی نا ممکن سا ہے،گویا نماز فجر بھی جاتی۔ اسی طرح اتنی تاخیر سے واپسی پر ان لوگوں کو جو پریشانی ہوتی ہے جن کے پاس اپنی سواری وغیرہ نہ ہوتی۔نیز رات کی تاریکی میں ڈاکوؤں اور لٹیروں ہتھے چڑھ جانے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے۔
بہر حال جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے راتوں کی ان تقریبات کا انعقاد غیر صحیح ہے،کم از کم دین دار حضرات کو اس قبیح رواج اور رسم سے سختی سے بچنا چاہیے ،کیوں کہ نبی کریم کی بابت آتا ہے کہ آپ کو رات کو عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرتے رہنا نا پسند تھا(صحیح البخاری،المواقیت،باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء،حدیث:۵۶۸)
اس حدیث کی روشنی میں بھی اگر دوسری باتوں کو نظر انداز کردیا جائےتو راتوں کو شادی کی تقریبات کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ رات سے مراد عشاء کے بعد کا وقت ہے،ورنہ عشاء سے پہلے اس کا جواز ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
رات کے وقت شادی کا صحیح طریقہ

چراغاں اور آتش بازیوغیرہ رسومات سے بچتے ہوئے،اگر نکاح ،خاطر تواضع اور رخصتی کی ساری کارروائی ،وقت کی پابندی کرتے ہوئے ، مغرب کے فورا بعد سے لے کر عشاء کے وقت تک کر لی جائے تو پھر چوں کہ مذکورہ قباحتیں پیدا نہیں ہوں گی۔اس لیے رات کے پہلے پہر میں ان تقریبات کے جواز میں شک کی گنجائش نہیں۔
لیکن ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب دونوں خاندانوں کے دلوں میں ایک تو نبی اکرم کے طرز عمل کی اہمیت ہو،اتباع ِسنت کا سچا جزبہ ہو۔ دوسرے وقت کی قدر و قیمت کا احساس اور مقررہ وقت کی اندر ساری کارروائی کرنے کا عزمِ راسخ ہو۔مہمانوں کے وقت پر نہ آنے کی پرواہ نہ کی جائے، بلکہ جو لوگ وقت پر آجائیں ،چاہے وہ بالکل تھوڑے ہی ہوں،ان کی موجودگی میں نکاح یا ولیمے کا آغاز کر دیا جائے اور تاخیر سے آنے والوں کی مہمان نوازی سے معذرت کر لی جائے۔
جب تک لومۃ لائم کے خوف کے بغیر اس کی جرات و ہمت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، وقت کے ضیاع کو روکنا بھی ممکن نہیں ہے اور اسوہ رسول کی پیروی بھی نہایت مشکل ہے
حکومت پنجاب کا ایک اصلاحی اقدام مگر؟

اب اگرچہ کچھ عرصے سے پنجاب کی طرف سے شادی ہالوں کے لیے رات کے دس بجے تک کا وقت مقرر کر دیا گیا ہےجس پر بہت حد تک عمل ہو رہا ہے۔اس سے بہت سی قباحتوں کا تدارک اور وقت کا ضیاع بھی کم ہوا ہے،لیکن ہماری قوم میں بگاڑ جس طرح عام ہو گیا ہے اور خداخوفی کا فقدان اور دین سے بے اعتنائی فزوں تر ہے اس سے یہ شدید خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ مفید اقدام پتہ نہیں کب ختم ہو جائے اور قوم پھر اسی بے اعتدالی کا شکار ہو جائےجس میں نہ صرف یہ کہ سالہا سال سے مبتلا چلی آرہی ہے،بلکہ وہ اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔جسےاس سے قبل ۲۰۰۰ء میں نواز شریف کے جاری کردہ شادی آرڈیننس کا کچھ عرصے بعد حشر ہوا کہ نہایت مفید ہوتے ہوئے عوام و خواص نے اسے اپنانے سے گریز کیا ، غریبوں نے اگرچہ اس پر سکھ کا سانس لیا تھا اور اسے سراہا تھا،لیکن قومی مزاج کے عمومی بگاڑ ،بالخصوص دین سے دور نودولتیوں کے طرز عمل کی وجہ سے، وہ تنقید کا نشانہ بنا رہا،بالآخر اسے ختم ہونا پڑا۔
نواز شریف کا جاری کردہ آرڈی نینس

وہ مذکورہ آرڈی نینس کیا تھا؟اس کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر ہم اس کو ذیل میں درج کرتے ہیں اور شرعی اعتبار سے اس کے جواز اور اہمیت کے دلائل بھی ،اس امید پر کہ شاید دوبارہ اللہ تعالی کسی حکمران کو اس کے نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمادے اور ون ڈش(قانون)کے بجائے اس کو نافذ کر دے،کیوں کہ ون ڈش کا قانون بھی اگرچہ اسراف(فضول خرچی) سے بچانے ہی کے لیے نافذ کیا گیا ہے ،لیکن عملا اس سے اسراف کی کوئی خاص حوصلہ شکنی نہیں ہوئی ہے۔اصحاب حیثیت اس پر خوش دلی سے عمل نہیں کرتے اور ون ڈش کے قانون کے ہوتے ہوئے بھی بہت سی ڈشوں کا اہتمام عام ہے۔ اس لیے اصل ضرورت اسی آرڈی ننس کے نفاذ کی ہےجس کے نفاذ سے واقعی اسراف کا سد باب ہوا تھا اور کم وسائل کے حامل افراد نے اطمینان و سکون محسوس کیا تھا۔ اس کی متعلقہ دفعات حسب ذیل تھیں۔
 
Top