ویسے تو اس موضوع پر بہترین جواب
یوسف ثانی بھائی نے دے دیا ہے پھر بھی کچھ باتیں میں عرض کہنا چاہتا ہوں۔
شریعت سے مسلسل رہنمائی اچھی چیز ہے بلکہ مطلوب و مقصود بھی ہے۔ لیکن میرے ناقص خیال میں جس معاشرے میں ہم زندگی گزارتے ہیں اس میں بہت سے ایسے معاملات بھی آتے ہیں جہاں براہ راست علماء کو زحمت دینے کے بجائے آپسی تبادلہ خیال و مکالمے سے استفادہ وقت کی ضرورت ہوتا ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد گرامی ہے :
أنتم أعلم بأمر دنياكم
ہر موڑ پر اولاد کی رہنمائی کا فریضہ گو والدین اولاد کے لیے نبھاتے ہیں لیکن ۔۔۔ بہت سے ایسے فطری معاملات ہوتے ہیں جو بغیر بتائے بھی آدمی سمجھ لیتا ہے۔ بطور مثال ازدواجی شبینہ تعلقات کا معاملہ سمجھ لیں ، اس کا ایک ایک اسٹیپ کوئی کسی کو نہیں بتاتا بلکہ ہمارے معاشرے میں تو اسے معیوب ہی سمجھا جاتا ہے۔
تو اسی طرح قرابت داری کا بھی معاملہ ہے جس کے اصول و ضوابط قرآن و حدیث میں واضح کر دئے گئے ہیں۔ اگر کسی فرد نے شادی کی ہے تو شریعت بتاتی ہے کہ اسے خدمتِ والدین کے ساتھ ساتھ اب یہ مزید ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کا بہتر سے بہتر خیال رکھے۔ یہ ذمہ داری بلکہ ذمہ داریاں حسن سلوک اور اعتدال و میانہ روی کا تقاضا کرتی ہیں ۔۔۔ اور یہ چیزیں اسٹیپ بائی اسٹیپ سکھائی نہیں جاتیں بلکہ آدمی کو اپنی عقل و حکمت سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔
جیسا کہ جب ہم کسی ادارے میں کوئی ملازمت جوائن کرتے ہیں تو چند روز کے مشاہدے اور تجربے کے بعد خود بخود ہمیں علم ہو جاتا ہے کہ اپنا کام کیسے بہتر اور تیزی سے نپٹانا ہے ، کس سے کیسی گفتگو اور رویہ روا رکھنا ہے اور اپنے سے اعلیٰ افسران میں کسے ترجیح دینی ہے اور کس سے اعراض برتنا ہے وغیرہ ۔۔۔۔ یہاں ہم جان چھڑانے کے لیے سب کے ساتھ ایک جیسا رویہ یا ایک جیسا انداز تخاطب نہیں نبھاتے بلکہ "حکمت عملی" اور مروجہ معاشرتی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں۔
یہی طرز عمل ایک شادی شدہ فرد کو بلکہ زوجین کو اپنی عائلی زندگی میں نبھانے کا عادی بننا چاہیے۔ شادی کے بعد جب مرد اپنے خاندان (اہل و عیال) کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے کمر کستا ہے تو یہ دو اور دو چار کی طرح کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا کہ اپنی ساری کمائی اِدھر دی یا اُدھر دی اور خود اس ذمہ داری سے سبکدوشی حاصل کر لی۔ اس طرح تو وہ مطلب و مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے جو "الرجال القوامون" کی اصطلاح کے ذریعے قرآن ہم کو سمجھانا چاہتا ہے۔
باقی یوسف ثانی بھائی کی باتوں پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے تو بہت سے عائلی معاملات کو بحسن و خوبی برتنے کا ڈھنگ سیکھا جا سکتا ہے۔