• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی کے بعد شوہر اپنی کمائی بیوی کو دیں یا اپنے والد کو؟؟

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
شادی کے بعد شوہر اپنی کمائی بیوی کو دیں یا اپنے والد کو؟؟
وعلیکم السلام۔ بھائی ، یہ کیسا عجیب سوال کیا ہے آپ نے؟؟
قرآن کریم میں مرد کو الرجال القوامون سے کیوں خطاب کیا گیا ہے؟ کیا اس لیے نہیں کہ وہ عورت (اہل و عیال) پر خرچ کرتا ہے۔ اور قوام کے معنی یہ بتائے گئے ہیں کہ ۔۔۔ نگہبان Protector ، ذمہ دار Responsible، انتظام کار Provider or Administrator ۔ تو ایسی ذمہ داری مرد اپنی کمائی اپنے ہاتھ رکھ کر ہی پوری کر سکتا ہے۔
والد کو اپنی کمائی دینے کی بھی تک سمجھ میں نہیں آئی۔ بھائی ، جب آدمی شادی کرے تو ظاہر ہے کہ بیوی یا اہل و عیال کی ذمہ داری نبھانے کی بھی سکت اٹھائے۔
ہاں اگر باپ کو یا بیوی بچوں کو ان کی ضروریات کی تکمیل کی خاطر ان کے ہاتھ کچھ رقم رکھنے کا معاملہ ہو تو یہ ایک الگ بات ہے۔
مگر سرے سے اپنی کمائی کسی اور کو دے دینا ؟؟ یہ بات کچھ سمجھ میں ہی نہیں آئی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرے خیال سے اب بینکوں میں پیسے جمع کروانے کا رواج پڑھ گیا ۔۔ اس لیے یہ سوال شاید عجیب محسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے لوگ گھر میں ہی پیسے رکھتے تھے کیونکہ سارے پیسے ہر وقت اپنے پاس رکھنا تو ناممکن ہے ۔
بعض متوسط گھرانوں میں تو ابھی تک یہ رواج ہے کہ جونہی کمائی کرنے والا گھر آتا ہے تو اپنی ماں یا بیوی کو پیسے سنبھال کر رکھنے کی نصحیت کرتا ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام علیکم باذوق بھائی جان،
وعلیکم السلام۔ بھائی ، یہ کیسا عجیب سوال کیا ہے آپ نے؟؟
بھائی یہ عجیب سوال نہیں ہے یہ ہمارے معاشرے کا ایک اہم ترین سوال ہے جو شاید آج ہمارے ہر گھرانے میں پایا جاتا ہے،

خیر کوئی بات نہیں میں نے یہ سوال غلطی سے مکالمے والے فولڈر میں کر دیا ، میں یہ سوال "سوال جواب " والے فولڈر میں کرنا چاہتا تھا،
ویسے باذوق بھائی ہر انسان کو جب کوئی مسلہ پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب پہلے Basic طریقے سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، میرا حال بھی وہی ہے، آپ کو اس سوال کا جواب معلوم ہے اس کا مطلب یہ نہیں کی سبھی حضرات کو جواب معلوم ہو!!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جب مرد باقاعدہ اور آزادانہ کمانے لگتا ہے تو اسے خرچ کرنا بھی آنا چاہئے۔ صرف کامانا کمال نہیں بلکہ کمانے سے زیادہ اہم خرث کرنا ہے۔
ہر کمانے والے فرد کو اپنی کمائی اپنے ہاتھ سے خرچ کرنا چاہئے۔ شادی سے قبل وہ اپنی آمدن کا کچھ حصہ والد یا والدہ کو دے جو گھر کے اخراجات کے ذمہ دار ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ حصہ اپنے بہن بھائیوں کی ضروریات کے لئے خرچ کرے یا نہیں دے۔ کچھ حصہ اپنی ذات پر خرچ کرے۔ کچھ بچت کرے اور کچھ فی سبیل اللہ خرچ کرے۔

شادی کے بعد اگر جوائنٹ فیملی میں مشترکہ کھانا پینا ہو تو والد والدہ کو بدستور گھریلو خرچ کی مد میں دیتا رہے اور کچھ رقم بیوی کہ ماہانہ جیب خرچ کے طور پر دے تاکہ وہ اپنی ذاتی ضروریات خود پورا کرسکے۔ لیکن اگر شادی کے بعد علیحدہ رہائش ہو تو پہلے گھر کے جملہ اخراجات کی رقم اپنی بیوی کو دے، پھر اپنی آمدن کا کچھ حصہ اپنے والدین کو دے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ساری آمدن والدین یا بیوی کو دینے کا مطلب ہے، دیگر کے حقوق غضب کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ کیونکہ روایتی طور پر بہو اور ساس سسر کبھی بھی مرد کی آمدن میں دوسرے فریق کو خوشی خوشی شریک نہیں کرتے۔ اور مرد کما کر ساری آمدن ماں باپ یا بیوی کو دینے کے باوجود گنہگار ہی ہوتا ہے۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
غالباََ سب نے اپنا اپنا تجربہ اور مشاھدہ بیان کیا ھے۔ھا ھا ھا (صرف مسکرانا ھے)

مذید آرا کا انتظار رھے گا۔

فورم کے تمام ممبران اس میں حسبِ توفیق حصہ ڈالیں۔

اللہ آپ کے رزق میں اضافہ کرے۔

سب کے حقوق با احسن پورے کر سکیں۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
ویسے تو اس موضوع پر بہترین جواب یوسف ثانی بھائی نے دے دیا ہے پھر بھی کچھ باتیں میں عرض کہنا چاہتا ہوں۔

شریعت سے مسلسل رہنمائی اچھی چیز ہے بلکہ مطلوب و مقصود بھی ہے۔ لیکن میرے ناقص خیال میں جس معاشرے میں ہم زندگی گزارتے ہیں اس میں بہت سے ایسے معاملات بھی آتے ہیں جہاں براہ راست علماء کو زحمت دینے کے بجائے آپسی تبادلہ خیال و مکالمے سے استفادہ وقت کی ضرورت ہوتا ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد گرامی ہے : أنتم أعلم بأمر دنياكم

ہر موڑ پر اولاد کی رہنمائی کا فریضہ گو والدین اولاد کے لیے نبھاتے ہیں لیکن ۔۔۔ بہت سے ایسے فطری معاملات ہوتے ہیں جو بغیر بتائے بھی آدمی سمجھ لیتا ہے۔ بطور مثال ازدواجی شبینہ تعلقات کا معاملہ سمجھ لیں ، اس کا ایک ایک اسٹیپ کوئی کسی کو نہیں بتاتا بلکہ ہمارے معاشرے میں تو اسے معیوب ہی سمجھا جاتا ہے۔
تو اسی طرح قرابت داری کا بھی معاملہ ہے جس کے اصول و ضوابط قرآن و حدیث میں واضح کر دئے گئے ہیں۔ اگر کسی فرد نے شادی کی ہے تو شریعت بتاتی ہے کہ اسے خدمتِ والدین کے ساتھ ساتھ اب یہ مزید ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کا بہتر سے بہتر خیال رکھے۔ یہ ذمہ داری بلکہ ذمہ داریاں حسن سلوک اور اعتدال و میانہ روی کا تقاضا کرتی ہیں ۔۔۔ اور یہ چیزیں اسٹیپ بائی اسٹیپ سکھائی نہیں جاتیں بلکہ آدمی کو اپنی عقل و حکمت سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔
جیسا کہ جب ہم کسی ادارے میں کوئی ملازمت جوائن کرتے ہیں تو چند روز کے مشاہدے اور تجربے کے بعد خود بخود ہمیں علم ہو جاتا ہے کہ اپنا کام کیسے بہتر اور تیزی سے نپٹانا ہے ، کس سے کیسی گفتگو اور رویہ روا رکھنا ہے اور اپنے سے اعلیٰ افسران میں کسے ترجیح دینی ہے اور کس سے اعراض برتنا ہے وغیرہ ۔۔۔۔ یہاں ہم جان چھڑانے کے لیے سب کے ساتھ ایک جیسا رویہ یا ایک جیسا انداز تخاطب نہیں نبھاتے بلکہ "حکمت عملی" اور مروجہ معاشرتی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں۔
یہی طرز عمل ایک شادی شدہ فرد کو بلکہ زوجین کو اپنی عائلی زندگی میں نبھانے کا عادی بننا چاہیے۔ شادی کے بعد جب مرد اپنے خاندان (اہل و عیال) کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے کمر کستا ہے تو یہ دو اور دو چار کی طرح کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا کہ اپنی ساری کمائی اِدھر دی یا اُدھر دی اور خود اس ذمہ داری سے سبکدوشی حاصل کر لی۔ اس طرح تو وہ مطلب و مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے جو "الرجال القوامون" کی اصطلاح کے ذریعے قرآن ہم کو سمجھانا چاہتا ہے۔

باقی یوسف ثانی بھائی کی باتوں پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے تو بہت سے عائلی معاملات کو بحسن و خوبی برتنے کا ڈھنگ سیکھا جا سکتا ہے۔
 
Top