محمد مرتضی
رکن
- شمولیت
- اگست 31، 2016
- پیغامات
- 28
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 40
شادی کے رسم و رواج اور شرعی شادی!
از: پروفیسر نجیب اللہ طارق (فاضل مدینہ یونیورسٹی، استاذ جامعہ سلفیہ فیصل آباد، سکالر و اینکر پیغام ٹی وی)
نکاح سماجی اور خاندانی زندگی کا ایک خو بصورت بندھن ہے۔ دنیا کے ہر مہذب اور روایات کے حامل معاشروں میں اس کا کوئی نہایت اعلیٰ طریقہ ہوتا ہے۔ اسلام سے پہلے نکاح کے مختلف طریقے رائج تھے ۔ احادیث میں اسکی تفصیل موجود ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقے کو اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے پسند فرمایا اور یہی طریقہ آجکل مسلم معاشروں میں موجود ہے، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تقریباً تمام مہذب اور روایات کے حامل معاشروں میں بھی تقریباً اسی سے ملتا جلتا طریقہ رائج ہے۔
نکاح میں بنیادی اور کلیدی کردار تو شادی کرنے والے مرد اور عورت کا ہی ہوتا ہے اور ان کی باہمی رضامندی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا، البتہ اسکے لیے کیا طریقہ ہوگا؟ اس میں اسلام نے کچھ ہدایات دی ہیں، جن میں سے بعض تو نہایت ضروری ہیں کہ انکی عدم موجودگی میں نکاح کا سارا عمل باطل ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ بعض ہدایات صرف استحباب کا درجہ رکھتی ہیں۔ نکاح چونکہ ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ دولہا اور دلہن کے علاوہ اس میں پورا خاندان بلکہ عام دوست واحباب بھی شریک ہوتے ہیں، لہذا یہ ایک سماجی تقریب بن جاتی ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی رسومات بھی لوگ سر انجام دیتے ہیں۔ اوریہ رسومات ہر علاقے اور ہر قوم اور قبیلے کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔
یہ بات تو اہل علم سے مخفی نہیں کہ تہذیب وثقافت اور رسم و رواج وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، مثلاً آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہمارے معاشرے میں پگڑی پہننے کا عام رواج تھا، جبکہ آجکل خال خال ہی لوگ پگڑی باندھتے ہیں۔ برّ صغیر میں چوڑی دار پاجامہ عام پہنا جاتا تھا بلکہ علماء بھی پہنتے تھے مگر آجکل ہمارے گردو پیش علماء تو در کنار عام لوگ بھی چوڑ ی دارپاجامہ ترک کر چکے ہیں۔
اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی رسومات ترک کی جا چکی ہیں اور اسکے بدلے میں نت نئی رسومات نے جنم لے لیا ہے۔
یہ بات اہل علم سے پوشیدہ نہیں کہ عبادات میں صرف وہی عبادات کی جائیں گی ، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، البتہ رسم و رواج میں اصول یہ ہے کہ تمام رسم و رواج جائز ہیں سوائے ان کے جو قرآن و سنت کی رو سے نا جائز ہوں ۔
برّ صغیر میں چونکہ مسلمان اور ہندو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے، لہذا بہت سے رسم و رواج مشترک تھے ۔ کچھ رسم و رواج ہندو ستانی تھے اور کچھ ہندو انہ تھے۔ جب تک ہندوستانی اور ہندو انہ رواجوںکی تفریق نہ کی جائے گی ہم بہت مشکل میں پھنسے رہیں گے۔ اس سلسلے میں بعض لوگ عرب معاشرے کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عرب کی تہذیب و ثقافت بعض معاملات میں برّ صغیر کی تہذیب و ثقافت سے قطعاً جداگانہ ہے۔ پھر ہم پر نہ ہی یہ لازم ہے کہ ہم عربوں کی تہذیب و ثقافت پہ ضرور ہی عمل کریں۔ مثال کے طور پہ عربوں میں شادی کے موقع پر سارا خرچہ دولہا ہی برداشت کرتا ہے، جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا ۔شادی اور بیاہ کے پیغامات میں عربوں کے ہاں خاصا کھلا پن پایا جاتا ہے جبکہ برّ صغیر میں بہت پیچیدہ بلکہ گھٹن زدہ ماحول ہے اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے۔ مجھے کچھ عرصہ عربوں کے ہاں گزارنے کا موقع ملا ہے، اگر ہمارے لوگ جان لیں کہ وہاں لوگ کس بے باکی سے اپنی بچیوں کے رشتوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں تو شاید ہمارے قارئین حیران رہ جائیں بلکہ وہ شاید ان رسم و رواج کو اپنے لیے قطعاً نمونہ بنانے کے لیے تیار نہ ہوں ۔
ان تمام گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ شادی بیاہ میں اسلام کے قواعد و ضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر علاقائی رسم و رواج ادا کر دیئے جائیں تو اس میں قطعا ً کوئی حرج نہیں ،بلکہ شادی کے موقع پہ ہلکا پھلکا لہو و لعب اگر کسی معاشرہ میں رائج ہو تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کے ہاں دین اسلام صرف پابندیوں ہی پابندیوں کا نام ہو کے رہ گیا ہے جبکہ قرآن تو اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ ہمارے نبیؐ بے جا پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ دراصل یہود و نصاریٰ کے علماء اور درویشوں نے اپنے عوام پہ بے جا پابندیاں لگا دیں تھیں۔ بلکہ تاریخ کے طلباء سے شاید یہ بات پوشیدہ نہ ہو کہ سیکولر ازم اسی بے جا سختیوں کے نتیجے کا رد عمل ہے۔
ہمارے ہاں حدیث کے سمجھنے کے دو طریقے رائج ہیں۔ کچھ لوگ تو پورے شد و مد سے حدیث کے ظاہر ی معانی کو ہی مانتے ہیں، اور کچھ لوگ بعض حدیثوں کے الفاظ کے ظاہر کی بجائے اسکے مرادی معنی لے لیتے ہیں، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ وہ لوگ بعض مواقع پر بعض احادیث کی تأ ویل کر لیتے ہیں اور یہی مؤقف بعض احادیث کے بارے میں درست لگتا ہے۔
اب مثلاً نکاح ہی کے بارے میں سنن أبی داؤد کی ایک حدیث ملاحظہ فر مائیں۔
((عن محمد بن حاطب قال قال رسول اللہ ؐ فصل ما بین الحلال والحرام الدف والصوت فی النکاح))
محمد بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ''حلال اور حرام نکاح میں فرق نکاح میں دف بجانا اور اعلان کرنا ہے۔''
امام شوکانی ؒ نے نیل الأوطار میں لکھا ہے کہ امام ترمذی اس حدث کو حسن قرار دیتے ہیں۔ اب اہل علم جانتے ہیں کہ اس حدیث کو اگرظاہری الفاظ پر محمول کیا جائے تو بہت دشواریاں اور الجھنیں پیش آسکتی ہیں، چنانچہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ حضور یہاں دف اور صوت کے لفظ تو استعمال کر رہے ہیں مگر مقصود یہ نہیں چنانچہ ہم ان الفاظ کی تاویل کریں گے اور ان الفاظ کے اندر جو علت اور حکمت پوشید ہے اسی کو اختیار کرنا پڑے گا ۔ چنانچہ الدف اور الصوت کا ظاہری مطلب نہیں لیا جائے گا۔بلکہ اس کا مرادی معنی ''اعلان''لیا جائے گا۔
لیکن جو لوگ حدیث کے ظاہری معانی کو اختیار کرتے ہیںوہ تو دف اور صوت کو لازمی قرار دیں گے۔
آج کل ہمارا معاشرہ شادی بیاہ میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اس پر مسرت مبارک موقع پر اسلامی حدودو قیود کی تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔ یہاں مردو زن کا شدید ترین اختلاط دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر بالخصوص خواتین نے اس مبارک موقع پر مختصر لباس اور مشرقی تہذیب کی بجائے مغربی تہذیب کے حیا باختہ طور طریقے اختیار کر لئے ہیں، حتیٰ کہ بعض دفعہ تو حجلہ عروسی کو بھی مجمع سر عام میں پیش کردیا جاتا ہے۔ جس پہ ''اِنا للہ واِنا اِلیہ راجعون''ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ہاں وہ طبقہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی کے پر مسرت و پر کیف موقع پر فکر آخرت اور احوالِ قبر کے موضوع پہ درس قرآن کروانے کو تقویٰ کا معیار سمجھتا ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آیا ایسے علماء نے سیرت کا مطالعہ نہیں کیا یا پھر یہ لوگ نبی ؐ سے بھی زیادہ متقی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں اپنے قارئین کے سامنے بخاری و مسلم کی ایک حدیث رکھنا چاہتا ہوں۔
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت : صنع رسول اللہ ؐ شیأاً فرخّص فیہ فتنزہ عنہ قومٌ فبلغ ذلک رسول اللہ ؐ فخطب فحمد اللہ ثم قال : ما بال اقوام یتنزھون عن الشیء اصنعہ فواللہ اِنی لاعلمھم با للہ و أشدھم لہ خشیۃ)) بخاری و مسلم۔
''حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیںکہ رسول اللہ ؐ نے کوئی کام سر انجام دیا پھر عام لوگوں کو بھی وہ کام کرنے کی اجازت دی لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس کام کو کرنے میں (شاید تقویٰ کی بنا پہ) ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو رسول اللہ ؐ نے حمد و ثنا ء کے ساتھ خطبہ دیا اور فرمایا ایسے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس کام سے بچتے ہیں جو میں نے خود سر انجام دیا ہے اللہ کی قسم !میں ان سے زیادہ علم والا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ ''
قارئین برائے مہر بانی بقیہ گزارشات پڑھتے وقت اس حدیث کو ہر وقت ذہن میں رکھیے گا۔ آگے بڑھنے سے قبل میں اس مائنڈ سیٹ کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو آجکل ان دین داروں میں پایا جاتاہے ،جو غیر شرعی متشددانہ ذہن رکھتے ہیں۔
دیکھیں اسلام دین فطرت ہے اور ''وسطیۃ الاسلام ''یعنی توازن و اعتدال سلام کی خاص خوبی ہے۔ (عجیب و غریب رویہ، مضحکہ خیز رویہ) بخاری و مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ جب رسول الہؐ کے کزن جعفر کی شہادت کی اطلاع آئی تو حضورؐ کے چہرے سے غم جھلک رہا تھا ۔ اس موقع پر آپ ؐ نے فرمایا کہ'' جعفر کے گھر والوں کے گھر کھانا بھیجو کیونکہ سارا گھر صدمے سے نڈھال ہے۔ ''
قارئین موت چاہے میدان جنگ میں آئے یا بستر مرگ پر ،یہ انسان کو غمناک کر دیتی ہے اور عمومی طور پر گھر والے غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں ۔ رونا آہی جاتا ہے۔ آنسو بہہ پڑتے ہیں ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے مگر ہمارے ہاں بعض لوگ جب شہادت کی خبر لے کر شہید کے گھر جاتے ہیں تو وہاں مبارکبادیں دینے، مٹھائیاں بانٹنے اور دودھ پینے پلانے کا دور شروع کر دیتے ہیں۔براہ کرم غور کیجئے کہ حضرت جعفر کے گھر شہادت کی اطلاع آئی تو ہمارے نبی ؐ کا اسوہ حسنہ کیاتھا؟ خداراانسانوں کو اتنا سنگدل نہ بناؤ کہ موت پر رونا بھی گناہ اور باعث ِ شرم قرار دے دیا جائے ۔ اسی طرح بعض بزرگ خود تو جنازہ پڑھاتے ہوئے اونچی آواز میں سسک سسک اور گڑ گڑ ا کر روتے ہیں لیکن اگرگھر میں خواتین بیچاری صرف روتی بھی ہیںتو یہ ان کورونے بھی نہیں دیتے۔ تو یہ ہے حال غم کے موقع پر ہمارے بعض متشددانہ رویوں کا۔
اب آتے ہیں شادی کی خوشیوں میں بھنگ ڈالنے والے رویے کی طرف :
کئی ایک صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ ؐ نے دف بجانے کی اجازت دی بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک موقع پر فر مایا کہ دلہن کے ساتھ اشعار پڑھنے والی کیوں نہیں بھیجی جو وہاں جا کر یہ اشعار سنائے اور پڑھے۔
أتیناکم أتیناکم فحیونا نحییکم
لولا الذھب الأحمر ما حلت بوادیکم
لولا الحنطۃ السمراء ما سمنت عذاریکم
قارئین ! ان اشعار کا ترجمہ ایک خاص وجہ سے نہیں کیا جارہا تاہم اہل علم و دانش عربی کے ان اشعار کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس موقع پہ کس قسم کے اشعار کی شریعت اجازت دیتی ہے۔
نبی ؐ کے زمانے میں بعض احباب کے اذہان میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ خوشی کے موقع پر پڑھے جانے والے ایسے اشعار اور دف بجانا جائز نہیںمگر آپ نے فرمایاانصار کے ہاں یہ مروّج ہے لہذا انکے رواج کے مطابق ایسا کرو، بلکہ ایک روایت تو بہت ہی واضح ہے ۔ حضرت عامر بن سعد ؓفرماتے ہیں کہ میں ایک شادی میںگیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو صحابی (قرظۃ بن کعب ؓاور ابو مسعودؓ )جو جنگ بدر میں بھی شامل تھے بیٹھے ہوئے ہیں اور عورتیں گا رہی ہیں۔ میں نے کہا: ''اے صحاب محمد !اے اہل بدر !تمہاری موجودگی میں یہ ہو رہا ہے تو دونوں نے جواب میں مجھے کہا اگر لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤورنہ یہاں سے چلے جاؤ، شادی کے موقع پر حضور ؐ نے لہو کی رخصت دی ہے ۔ اس حدیث کو سنن نسائی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے بحوالہ نیل الأوطایر علامہ البانی کے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے۔
قارئین! خدا لگتی کہیے، کیا شادی پر مسرت اور پر کیف لمحات کا نام نہیں؟ کیا رسول اللہ ؐ نے دف اور اشعار کی رخصت عنایت نہیں فرمائی؟ پھر کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم خیر القرون کے طریقے چھوڑ چھاڑ کے اس موقعہ پہ احوال الآخرۃ اور فکر آخرت جیسے موضوعات پہ فکر انگیز درس کر وا کر نوجوان بچوں اور بچیوں کے جذبات کو اپنی نام نہاد مذہبی عقیدت میں بھسم کر دیں۔
ٍقارئین کرام بالکل سیدھا سا مسئلہ ہے (جن علاقوں یا خاندانوں میں ہلکا پھلکا مزاح ، دف اور لہو و لعب کا رواج ہے وہ اسلامی حدود و قیود کے اندر رہ کریقینا ایسا کر سکتے ہیں۔ اسلام اور سیرت رسول اس سے منع نہیں کرتے۔)
یہ بھی یاد رکھیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تہذ یب وتمدن کے کچھ نقوش بدلتے رہتے ہیں۔ آجکل اسلامی اور مغربی تہذیب کا تقابل کیا جارہا ہے۔ یہ عنوان ہی غلط ہے۔ عنوان یوں ہونا چاہیے کہ ''مشرقی اور مغربی تہذیب'' ۔ بھلا اسلام اور مغرب ایک دوسرے کی ضد ہیں؟یا یوں عنوان باندھیں ''اسلامی اور غیر اسلامی تہذیب''۔ہماری مشرقی روایات میں دلہن کو رخصت کرتے وقت بھی اتنے رقت انگیز مناظر ہوتے تھے کہ گھر والے تو گھر والے پورا محلہ چھتوں پہ کھڑا زارو قطار رو رہا ہوتاتھا اس موقع پہ خاص اشعار پڑ ھے جاتے تھے۔
ماواں دھیاں ملن لگیاں چو بارے دیاں چاروں کندھاں ملیاں
باقی اشعار چھوڑ رہا ہوں۔
مگر عرب میں اس کا تصور بھی نہیں ، خیرآج کل یہ تہذیب آہستہ آہستہ مشرق میں بھی دم توڑ رہی ہے بلکہ آجکل میک اپ کرنے والے دلہن کو سختی سے منع کرتے ہیں کہ رخصتی کے وقت رونانہیں ورنہ آنکھوں کا میک اپ خراب ہو جائے گا۔
یاد رکھیں ! رسم کے مشرقی یا مغربی ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑ تا اصل دیکھنے کی چیزیہ ہوتی ہے کہ اس رسم سے قرآن و حدیث کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔
قارئین کرام! کوئی مانے یا نہ مانے شادی کے موقع پر ہلکی پھلکی تفریح اور لہو کرنے کا جی ہر صاحب ذوق کی چاہت ہوتی ہے۔ اس موقعہ پہ بڑے ، بوڑھے اپنی جوانی کی حماقتوں کو یاد کر کے محفل گرماتے ہیں۔ نوجوان اپنی بزم جنوں سجاتے ہیں۔ بچے بجیاں رنگ برنگے کپڑے پہن کر وہ شور کرتے ہیںکہ شادی کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں پائے جانے والے رسم و رواج:۔
اب تو ہماری پرانی مشرقی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیںمثلاً آج سے چالیس پچاس سال پہلے دلہن کی رخصتی ایک درد ناک منظر ہوتا تھا۔ اتنے اتنے رقت آمیز اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ گھر والے بہن ، بھائیوں اور ماں باپ کا رونا تو ایک طرف پورا محلہ چھتوں اور بالکونیوں پہ کھڑا زارو قطار رو رہا ہوتا تھا۔ ایک پنجابی شاعرنے اس منظر کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
مانواں دھیاں ملن لگیاں چوبارے دیاں چاروں کندھاں ہلیاں
مگر عرب میں اس طرز عمل کا تصور بھی نہیں ۔ بلکہ آجکل ہمارے ہاں بھی رخصتی والایہ رونا دھونا ختم ہو تا جارہا ہے کیوں کہ میک اپ کرنے والی عورت دلہن کو سختی سے کہتی ہے کہ رونا بالکل نہیں ۔ کیونکہ اس طرح آنکھوں کا میک اپ خراب ہوجا ئے گا۔
شادی سے پہلے گھڑا بجانا اور اشعار پڑھنا:۔
ہم نے بچپن میں یہ اشعار سنے تھے اتنے معصوم اور کمال دلربا اشعار ہوتے تھے میں ان میں سے چند ایک نقل کرتا ہوں۔مجھے بتایا جائے ان میں کیا بے حیائی اور عریانی پائی جاتی ہے؟
1۔ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا امڑی دے دل دا سہارا سیو نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا
2۔ بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
3۔ساڈے گھر آئی بھر جائی اسی چاواں نال بٹھائی
4۔ ککڑی اولببتی جیڑی کڑ کڑ کر دی اے سورے نئیں جانا ساس بُڑ بُڑ کر دی اے۔
ایک شبہ کا ازالہ:۔
بعض اوقات ایسے موقعوں پہ بد مزگی پیدا ہوجاتی ہے جو تلخی اور لڑائی تک جا پہنچتی ہے۔اس کو بنیاد بنا کر لوگ اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ لڑائی جھگڑے تو ہماری پکنک پارٹیوں اور تفریحی ٹور پہ بھی ہو جاتے ہیں۔ کیا اس بنا پہ کسی نے ان چیزوں کو خلاف شریعت قرار دیا ہے۔
اس طرح دودھ پیش کرنے والیوں کی بے پردگی کو بنیاد بنا کر بھی اس رسم کو خلاف شرع قرار دے دیا جاتا ہے تو گویا اگر بے حجابی کو حجاب شرعی دے دیا جائے تو یہ رسم شرعی قرار پا جائے گی۔
واگ پکڑائی:۔
پرانے زمانے میں چونکہ دولہا اکثر گھوڑے پہ جاتا تھاتو جب وہ گھر سے نکلتا تو اسکی بہنیں گھوڑے کی باگ پکڑ کر کھڑی ہو جاتی تھیں اور کہتی ہمیں کچھ رقم دو ورنہ ہم تمہیں جانے نہیں دیں گیں۔ چنانچہ دولہا ہر ایک کو کچھ پیسے دیتا اور بہنیں مسکراتی، دعائیں دیتی، خوشی سے نہال ہو جاتیں ۔ بتائیں اس میں کونسی قباحت ہے اور اسکو ادا کرنے سے کونسی قیامت آگئی کتنی معصوم ہے یہ رسم۔
جوتا چھپائی:۔
ایک رسم یہ ہے کہ دولہا جب سسرال جاتا ہے تو سالیاں اسکی جوتی چھپا لیتی ہیں اور پھر وہ دولہا سے کچھ پیسے لے کر اسے جوتا واپس کرتی ہیں بلکہ پاکستان کے ایک مزاح نگار نے لکھا ہے جب میں سسرال گیا جب میں سو کر اٹھا تو میری جوتی غائب تھی میں نے بیوی سے پوچھا میری جوتی کس نے اٹھائی ہے تو وہ بولی آپکی سالیوں نے چرا لی ہے تو میں نے کہا اگر سالیاں گھرسے جوتیاں چوری کرتی ہیں تو پھر مسجد سے سالے ہی جوتیاں چوری کرتے ہوں گے۔ اب اس رسم میں قرآن و سنت کی کونسی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
میوہ جات سے بھری ڈبیاں :۔
ہمارے ہاں رواج ہے کی برات لے کر جانے والے یعنی دولہا کے گھر والے ڈبیاں بنا کر لے جاتے ہیں ۔ جن میں ٹافیاں ، مغز ،بادام، کھجور وغیرہ وغیرہ ہوتی ہیں اور خطبہ نکاح کے بعد ہر ایک کو ایک ایک ڈبی دی جاتی ہے۔ جو عام لوگ تو وہیںکھا لیتے ہیں مگر شادی شدہ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے اس ڈبی کو جیب میں رکھ لیتے ہیں ۔ اب چونکہ لوگوں نے ڈبیاں خاصی بڑی بنانی شروع کر دی ہیں لہٰذا اب گرمیوں میں بھی واسکٹ پہن کر جانا پڑتا ہے کیونکہ ڈبی واسکٹ کی جیب میں چھپ جاتی ہے۔
لیکن خیر سے اس کو بھی بدعت قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے ہی میںایک متشدد کے بیٹے کی شادی میں گیا تو وہ ڈبیاں بنا کر نہیں لے کر گیا۔ نکاح کے بعد میں نے اپنے دوست سے پوچھا جناب ڈبیاں کدھر ہیں ۔اس کا جواب تھا یہ بدعت ہے حالانکہ میں نے اپنے اس دوست کے ساتھ کئی ایک شادیوں میں شرکت کی ہے یہ دوست یہ ڈبیاں بڑے شوق سے وصول کرتے تھے، ممکن ہے ا ن کے نزدیک ڈبیاں بنانااور تقسیم کرناتو بدعت ہو مگر ان کا لینا اور کھانا بدعت نہ ہو۔
مہندی کی رسم : ۔
میںنے ایک دفعہ اپنے والد صاحب (حکیم عبد اللہ بن مولانا عبد المجید دینانگری )سے پوچھا أبا جان ! کیا آپ کے وقتوں میں مہندی کی رسم ہوتی تھی ؟فرمانے لگے ہوتی تو تھی مگر اس بیہودہ انداز میں نہیں ہوتی تھی۔ بتانے لگے ۔ بیٹا ہمارے وقتوں میں مکانات کچے ہوتے تھے ۔لکڑی سے آگ جلاتے تھے۔گھر کے درو دیوار دھوئیں سے میلے ہو جاتے اور برتن بھی کالے ہو جاتے ۔ لہٰذا اگر کسی کے گھر شادی کا پروگرام ہوتا تو مہینوں پہلے گھروں میں لیپا پوتی شروع ہو جاتی ۔ عورتیں سارا سارا دن مٹی اور گاچنی سے درو دیوار کو لیپتی اور سجاتی تھیں۔ برتن مانجھے اور قلعی کروائے جاتے تھے۔اس طرح عورتوں کے ہاتھ کی لکیروں کے اندر تک میل ، مٹی اور کالک جم جاتی پھر شادی سے ایک دو دن پہلے جب سارے کاموں سے فارغ ہوجاتے اور اگلے دن بارات آنی ہوتی عورتیں نہانے دھونے اور اپنے بالوں اور منہ کو سنوارنے میں لگ جاتیں ۔ ہاتھوں کو پتھروں پر رگڑ رگڑ کر صاف کرتیںاور ایک بڑے برتن میں مہندی گھول کر سارے محلے داروں اور خاندان کی عورتوں کو بلایاجاتا ،اکٹھے کھانا کھاتے، مہندی کے گیت گائے جاتے اور یوں ساری خواتین ایک دوسرے کے ہاتھوں پہ ڈیزائن بنا بنا کر مہندی لگاتیں ۔ فرمانے لگے یہ اصل بات تھی ۔ باقی تم نے اس میں ترقی ڈال دی ہے۔ فرمانے لگے یہ رسم قطعاً ہندؤں کی نہیں ۔ البتہ تم نے اسے ہندؤں کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔
رسم دودھ پلائی اور سنتوں بھری شادی:
ہمارے ہاں یہ عمومی رواج ہے کہ جب دولہا ، دلہن کو بیاہ کر واپس جانے لگتا ہے تو دولہا کو دلہن کے ساتھ زنان خانہ میں بٹھایا جاتا ہے پھر رسم دودھ پلائی ہوتی ہے۔ دودھ میں بادام ،پستے ڈال کر خو بصورت گلاس میں پیش کیا جاتا ہے عموماًیہ مقدس کام سالیاں سر انجام دیتی ہیں یا پھر دلہن کی سہیلیاں یا کوئی اور عورت، دولہا اگر سمجھدار ہوتو وہ تھوڑا سا پی کر باقی اپنی نئی نویلی دلہن کو دے دیتا ہے اگر دلہن شرمیلی ہو تو سر جھکا کر پہلے انکار کرتی ہے پھر بہنوں اور دوسری عورتوں کے کہنے سے پی لیتی ہے اور پھر اس دودھ کا تاوان دے کر دولہارخصت ہو جاتا ہے۔اور دودھ پلانے والیاں اس تاوان کو مال غنیمت سمجھ کرآپس میں بانٹ لیتی ہیں۔ شادی کے موقعہ پہ دولہا کو دودھ پیش کرنے کا ذکر تو احادیث میں ملتا ہے مگر ہمارے ہاں اسکی شکل کچھ اور ہے دولہا کی سالیاں دودھ پیش کرتی ہیں اور پھر اس سے تحفہ طلب کرتی ہیں اس موقعہ پہ خوب ھلا گلا ہوتا ہے اور اگر ساس یا سالیاں اسلامی آداب میں رہ کر با پردہ یہ کام کرتی ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔
سنتوں بھری شادی:۔
ہمارے ایک دوست نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کی اور بڑے عاجزانہ فخر سے کہنے لگا الحمدللہ شادی پر سارے امور سنت کے مطابق ادا ہوئے ،الحمد للہ یہ ایک سنتوں بھری شادی تھی۔ میں نے پوچھا آپ نے شادی سے پہلے اپنے ہونے والے داماد کو اپنی بیٹی کی جھلک دکھائی تھی؟ آپ نے شادی پر دف کے ساتھ شادی کے مروّجہ اشعار پڑھائے تھے؟ کہنے لگے یہ خرافات ہیں اور اللہ نے ہم کو ان خرافات سے بچایا ہوا ہے ۔ میں مصلحتاً کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر میں نے کہا اگر یہ دونوں کام حدیث سے ثابت ہوں تو؟وہ کہنے لگا ایسی کوئی حدیث نہیں ہے اگر ہوتی تو میں نے ضرور سنی ہوتی، یعنی یہ صاحب اپنے آپ کو حدیث کا انسائیکلو پیڈیا سمجھتے تھے ،خیرپھر جب میں نے انکو حدیثیں پیش کیں تو وہ غصے میں آگئے۔ میں نے پھر پوچھا آپ نے دولہا اور دلہن کو عورتوں کے سامنے اکٹھے بٹھا کر دودھ پلایا تھا؟ تو کہنے لگے ''لا حول ولا قوّۃ''ایسے واہیات کام ہماری شادیوں میں نہیں ہوتے۔ میں نے عرض کیا جناب عالیٰ دودھ پلائی والی رسم حضور ؐ کے زمانہ میں بھی تھی اور جب آپ کی شادی حضرت عائشہ سے ہوئی تو آپکو اس موقعہ پر دودھ پیش کیا گیا اور آپ نے دودھ نوش فرمایا اور آپ کا بچا ہوا دودھ حضرت عائشہ نے پیا ۔ یہ سن کروہ کہنے لگے یہ قطعاً ہو ہی نہیں سکتا ۔تو میں نے انہیں مندرجہ ذیل واقعہ سنایا جسے امام ناصر الدین البانی ؒ نے اپنی کتاب آداب زفاف میں لکھا ہے۔ قارئین! یہ واقعہ پڑھیں اور ایسے متشدیدین کی عقل پر ماتم کریں۔
حضرت اسماء ؓ، حضور ؐ کی حضرت عائشہ ؓ سے شادی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو میک اپ کر کے حضور ؐ کے لیے پیش کیا ۔ حضور ؐ ، حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر حضرت اسماء ؓ نے حضور ؐ کو دودھ کا کٹورا دیا۔ آپ ؐ نے تھوڑا سا پیا اور باقی حضرت عائشہؓ کو دے دیا(یاد رہے حضور ؐ دولہا تھے اور حضرت عائشہ ؓ دلہن، یہ اکٹھے بیٹھے ہیں)حضرت عائشہ ؓ نے حیا کے ساتھ سر جھکایااور دودھ پینے سے معذرت کرلی۔ حضرت اسماء ؓنے حضرت عائشہ ؓ کو سمجھایاکہ حضور ؐ کے ہاتھ سے دودھ لے کر پی لو۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے کچھ پی لیا۔ حضور ؐ نے فرمایا باقی دودھ عائشہ کی سہیلیوں کو پلاؤ ۔حضرت اسماء ؓنے دوبارہ کٹورا حضور ؐ کو دے دیا۔ حضور ؐ نے کچھ پیا پھر باقی وہاں موجود حضرت عائشہ ؓ کی سہیلیوں اور حضرت اسماء ؓنے پیا۔
قارئین!ذرا بتائیے کہ حدیث سے رسم دودھ پلائی کا ثبوت مل گیایا نہیں ؟تو جناب اسلامی حدود و قیود کے ساتھ یہ رسم ادا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔
ہند وانہ اور ہندوستانی رسم و رواج میں فرق:
یہاں ہمیں اس چیز کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ کچھ رسومات علاقائی ہوتی ہیںاور کچھ رسومات مذہبی ہوتی ہیں۔ ضروری نہیںکہ ہمارے ہاں پائی جانے والی ساری رسومات ہندوؤں کی مذہبی رسومات ہی ہوں ۔مجھے یقین ہے ان سطور کے شائع ہونے کے بعد کچھ اہل علم و دانش مضمون نگار پر تنقید کریں گے ، تو عرض یہ ہے کہ اگرکسی نے علمی اور دلائل کےساتھ تنقید کی تو سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر کسی صاحب نے اپنی نام نہاد مذہبی سوچ کے جوش میں بغیر دلائل کے بات کی تو میں پیشگی ان کو سلام کہتا ہوں ۔اس کے علاوہ اور بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم معصوم رسموں رواج مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں طوالت کے ڈر سے ان کو تذکرہ چھوڑ رہا ہوں ۔ اگر فرست ملی تو اس موضوع پر مفصل مضمون لکھوں گا ان شاء اللہ ۔
خلاصۃ الکلام :
اس ساری گفتگو کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک طرف وہ طبقہ ہے جنہوں نے شادی اور بیا ہ کو ہلڑ بازی بنا کر رکھ دیا ہے، اور اسلامی اور مشرقی روایات کو پامال کرتے ہوئے شرافت و حیا کے پرخچے اڑا کر شادی جیسے باوقار اور مقدس بندھن کو بے حیائی اور عریانی سے آ لودہ کردیا ہے تو دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جن چیزوںکو مباح قرار دیا ہے ان کو بھی حرام اور ناجائز قرار دیا جا رہا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ نکاح میں تقوی والی آیات بھی پڑھیںاور موت کا تذکرہ بھی کیا ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ایک حد تک لہو کو بھی اس موقع پر جائز قرار دیا ،رسول اللہ کا بتایا ہوا یہی وہ درمیانہ راستہ ہے جو ہمارے لیے بہتر ہے ۔
از: پروفیسر نجیب اللہ طارق (فاضل مدینہ یونیورسٹی، استاذ جامعہ سلفیہ فیصل آباد، سکالر و اینکر پیغام ٹی وی)
نکاح سماجی اور خاندانی زندگی کا ایک خو بصورت بندھن ہے۔ دنیا کے ہر مہذب اور روایات کے حامل معاشروں میں اس کا کوئی نہایت اعلیٰ طریقہ ہوتا ہے۔ اسلام سے پہلے نکاح کے مختلف طریقے رائج تھے ۔ احادیث میں اسکی تفصیل موجود ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقے کو اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے پسند فرمایا اور یہی طریقہ آجکل مسلم معاشروں میں موجود ہے، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تقریباً تمام مہذب اور روایات کے حامل معاشروں میں بھی تقریباً اسی سے ملتا جلتا طریقہ رائج ہے۔
نکاح میں بنیادی اور کلیدی کردار تو شادی کرنے والے مرد اور عورت کا ہی ہوتا ہے اور ان کی باہمی رضامندی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا، البتہ اسکے لیے کیا طریقہ ہوگا؟ اس میں اسلام نے کچھ ہدایات دی ہیں، جن میں سے بعض تو نہایت ضروری ہیں کہ انکی عدم موجودگی میں نکاح کا سارا عمل باطل ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ بعض ہدایات صرف استحباب کا درجہ رکھتی ہیں۔ نکاح چونکہ ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ دولہا اور دلہن کے علاوہ اس میں پورا خاندان بلکہ عام دوست واحباب بھی شریک ہوتے ہیں، لہذا یہ ایک سماجی تقریب بن جاتی ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی رسومات بھی لوگ سر انجام دیتے ہیں۔ اوریہ رسومات ہر علاقے اور ہر قوم اور قبیلے کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔
یہ بات تو اہل علم سے مخفی نہیں کہ تہذیب وثقافت اور رسم و رواج وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، مثلاً آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہمارے معاشرے میں پگڑی پہننے کا عام رواج تھا، جبکہ آجکل خال خال ہی لوگ پگڑی باندھتے ہیں۔ برّ صغیر میں چوڑی دار پاجامہ عام پہنا جاتا تھا بلکہ علماء بھی پہنتے تھے مگر آجکل ہمارے گردو پیش علماء تو در کنار عام لوگ بھی چوڑ ی دارپاجامہ ترک کر چکے ہیں۔
اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی رسومات ترک کی جا چکی ہیں اور اسکے بدلے میں نت نئی رسومات نے جنم لے لیا ہے۔
یہ بات اہل علم سے پوشیدہ نہیں کہ عبادات میں صرف وہی عبادات کی جائیں گی ، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، البتہ رسم و رواج میں اصول یہ ہے کہ تمام رسم و رواج جائز ہیں سوائے ان کے جو قرآن و سنت کی رو سے نا جائز ہوں ۔
برّ صغیر میں چونکہ مسلمان اور ہندو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے، لہذا بہت سے رسم و رواج مشترک تھے ۔ کچھ رسم و رواج ہندو ستانی تھے اور کچھ ہندو انہ تھے۔ جب تک ہندوستانی اور ہندو انہ رواجوںکی تفریق نہ کی جائے گی ہم بہت مشکل میں پھنسے رہیں گے۔ اس سلسلے میں بعض لوگ عرب معاشرے کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عرب کی تہذیب و ثقافت بعض معاملات میں برّ صغیر کی تہذیب و ثقافت سے قطعاً جداگانہ ہے۔ پھر ہم پر نہ ہی یہ لازم ہے کہ ہم عربوں کی تہذیب و ثقافت پہ ضرور ہی عمل کریں۔ مثال کے طور پہ عربوں میں شادی کے موقع پر سارا خرچہ دولہا ہی برداشت کرتا ہے، جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا ۔شادی اور بیاہ کے پیغامات میں عربوں کے ہاں خاصا کھلا پن پایا جاتا ہے جبکہ برّ صغیر میں بہت پیچیدہ بلکہ گھٹن زدہ ماحول ہے اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے۔ مجھے کچھ عرصہ عربوں کے ہاں گزارنے کا موقع ملا ہے، اگر ہمارے لوگ جان لیں کہ وہاں لوگ کس بے باکی سے اپنی بچیوں کے رشتوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں تو شاید ہمارے قارئین حیران رہ جائیں بلکہ وہ شاید ان رسم و رواج کو اپنے لیے قطعاً نمونہ بنانے کے لیے تیار نہ ہوں ۔
ان تمام گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ شادی بیاہ میں اسلام کے قواعد و ضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر علاقائی رسم و رواج ادا کر دیئے جائیں تو اس میں قطعا ً کوئی حرج نہیں ،بلکہ شادی کے موقع پہ ہلکا پھلکا لہو و لعب اگر کسی معاشرہ میں رائج ہو تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کے ہاں دین اسلام صرف پابندیوں ہی پابندیوں کا نام ہو کے رہ گیا ہے جبکہ قرآن تو اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ ہمارے نبیؐ بے جا پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ دراصل یہود و نصاریٰ کے علماء اور درویشوں نے اپنے عوام پہ بے جا پابندیاں لگا دیں تھیں۔ بلکہ تاریخ کے طلباء سے شاید یہ بات پوشیدہ نہ ہو کہ سیکولر ازم اسی بے جا سختیوں کے نتیجے کا رد عمل ہے۔
ہمارے ہاں حدیث کے سمجھنے کے دو طریقے رائج ہیں۔ کچھ لوگ تو پورے شد و مد سے حدیث کے ظاہر ی معانی کو ہی مانتے ہیں، اور کچھ لوگ بعض حدیثوں کے الفاظ کے ظاہر کی بجائے اسکے مرادی معنی لے لیتے ہیں، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ وہ لوگ بعض مواقع پر بعض احادیث کی تأ ویل کر لیتے ہیں اور یہی مؤقف بعض احادیث کے بارے میں درست لگتا ہے۔
اب مثلاً نکاح ہی کے بارے میں سنن أبی داؤد کی ایک حدیث ملاحظہ فر مائیں۔
((عن محمد بن حاطب قال قال رسول اللہ ؐ فصل ما بین الحلال والحرام الدف والصوت فی النکاح))
محمد بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ''حلال اور حرام نکاح میں فرق نکاح میں دف بجانا اور اعلان کرنا ہے۔''
امام شوکانی ؒ نے نیل الأوطار میں لکھا ہے کہ امام ترمذی اس حدث کو حسن قرار دیتے ہیں۔ اب اہل علم جانتے ہیں کہ اس حدیث کو اگرظاہری الفاظ پر محمول کیا جائے تو بہت دشواریاں اور الجھنیں پیش آسکتی ہیں، چنانچہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ حضور یہاں دف اور صوت کے لفظ تو استعمال کر رہے ہیں مگر مقصود یہ نہیں چنانچہ ہم ان الفاظ کی تاویل کریں گے اور ان الفاظ کے اندر جو علت اور حکمت پوشید ہے اسی کو اختیار کرنا پڑے گا ۔ چنانچہ الدف اور الصوت کا ظاہری مطلب نہیں لیا جائے گا۔بلکہ اس کا مرادی معنی ''اعلان''لیا جائے گا۔
لیکن جو لوگ حدیث کے ظاہری معانی کو اختیار کرتے ہیںوہ تو دف اور صوت کو لازمی قرار دیں گے۔
آج کل ہمارا معاشرہ شادی بیاہ میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اس پر مسرت مبارک موقع پر اسلامی حدودو قیود کی تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔ یہاں مردو زن کا شدید ترین اختلاط دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر بالخصوص خواتین نے اس مبارک موقع پر مختصر لباس اور مشرقی تہذیب کی بجائے مغربی تہذیب کے حیا باختہ طور طریقے اختیار کر لئے ہیں، حتیٰ کہ بعض دفعہ تو حجلہ عروسی کو بھی مجمع سر عام میں پیش کردیا جاتا ہے۔ جس پہ ''اِنا للہ واِنا اِلیہ راجعون''ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ہاں وہ طبقہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی کے پر مسرت و پر کیف موقع پر فکر آخرت اور احوالِ قبر کے موضوع پہ درس قرآن کروانے کو تقویٰ کا معیار سمجھتا ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آیا ایسے علماء نے سیرت کا مطالعہ نہیں کیا یا پھر یہ لوگ نبی ؐ سے بھی زیادہ متقی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں اپنے قارئین کے سامنے بخاری و مسلم کی ایک حدیث رکھنا چاہتا ہوں۔
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت : صنع رسول اللہ ؐ شیأاً فرخّص فیہ فتنزہ عنہ قومٌ فبلغ ذلک رسول اللہ ؐ فخطب فحمد اللہ ثم قال : ما بال اقوام یتنزھون عن الشیء اصنعہ فواللہ اِنی لاعلمھم با للہ و أشدھم لہ خشیۃ)) بخاری و مسلم۔
''حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیںکہ رسول اللہ ؐ نے کوئی کام سر انجام دیا پھر عام لوگوں کو بھی وہ کام کرنے کی اجازت دی لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس کام کو کرنے میں (شاید تقویٰ کی بنا پہ) ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو رسول اللہ ؐ نے حمد و ثنا ء کے ساتھ خطبہ دیا اور فرمایا ایسے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس کام سے بچتے ہیں جو میں نے خود سر انجام دیا ہے اللہ کی قسم !میں ان سے زیادہ علم والا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ ''
قارئین برائے مہر بانی بقیہ گزارشات پڑھتے وقت اس حدیث کو ہر وقت ذہن میں رکھیے گا۔ آگے بڑھنے سے قبل میں اس مائنڈ سیٹ کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو آجکل ان دین داروں میں پایا جاتاہے ،جو غیر شرعی متشددانہ ذہن رکھتے ہیں۔
دیکھیں اسلام دین فطرت ہے اور ''وسطیۃ الاسلام ''یعنی توازن و اعتدال سلام کی خاص خوبی ہے۔ (عجیب و غریب رویہ، مضحکہ خیز رویہ) بخاری و مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ جب رسول الہؐ کے کزن جعفر کی شہادت کی اطلاع آئی تو حضورؐ کے چہرے سے غم جھلک رہا تھا ۔ اس موقع پر آپ ؐ نے فرمایا کہ'' جعفر کے گھر والوں کے گھر کھانا بھیجو کیونکہ سارا گھر صدمے سے نڈھال ہے۔ ''
قارئین موت چاہے میدان جنگ میں آئے یا بستر مرگ پر ،یہ انسان کو غمناک کر دیتی ہے اور عمومی طور پر گھر والے غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں ۔ رونا آہی جاتا ہے۔ آنسو بہہ پڑتے ہیں ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے مگر ہمارے ہاں بعض لوگ جب شہادت کی خبر لے کر شہید کے گھر جاتے ہیں تو وہاں مبارکبادیں دینے، مٹھائیاں بانٹنے اور دودھ پینے پلانے کا دور شروع کر دیتے ہیں۔براہ کرم غور کیجئے کہ حضرت جعفر کے گھر شہادت کی اطلاع آئی تو ہمارے نبی ؐ کا اسوہ حسنہ کیاتھا؟ خداراانسانوں کو اتنا سنگدل نہ بناؤ کہ موت پر رونا بھی گناہ اور باعث ِ شرم قرار دے دیا جائے ۔ اسی طرح بعض بزرگ خود تو جنازہ پڑھاتے ہوئے اونچی آواز میں سسک سسک اور گڑ گڑ ا کر روتے ہیں لیکن اگرگھر میں خواتین بیچاری صرف روتی بھی ہیںتو یہ ان کورونے بھی نہیں دیتے۔ تو یہ ہے حال غم کے موقع پر ہمارے بعض متشددانہ رویوں کا۔
اب آتے ہیں شادی کی خوشیوں میں بھنگ ڈالنے والے رویے کی طرف :
کئی ایک صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ ؐ نے دف بجانے کی اجازت دی بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک موقع پر فر مایا کہ دلہن کے ساتھ اشعار پڑھنے والی کیوں نہیں بھیجی جو وہاں جا کر یہ اشعار سنائے اور پڑھے۔
أتیناکم أتیناکم فحیونا نحییکم
لولا الذھب الأحمر ما حلت بوادیکم
لولا الحنطۃ السمراء ما سمنت عذاریکم
قارئین ! ان اشعار کا ترجمہ ایک خاص وجہ سے نہیں کیا جارہا تاہم اہل علم و دانش عربی کے ان اشعار کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس موقع پہ کس قسم کے اشعار کی شریعت اجازت دیتی ہے۔
نبی ؐ کے زمانے میں بعض احباب کے اذہان میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ خوشی کے موقع پر پڑھے جانے والے ایسے اشعار اور دف بجانا جائز نہیںمگر آپ نے فرمایاانصار کے ہاں یہ مروّج ہے لہذا انکے رواج کے مطابق ایسا کرو، بلکہ ایک روایت تو بہت ہی واضح ہے ۔ حضرت عامر بن سعد ؓفرماتے ہیں کہ میں ایک شادی میںگیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو صحابی (قرظۃ بن کعب ؓاور ابو مسعودؓ )جو جنگ بدر میں بھی شامل تھے بیٹھے ہوئے ہیں اور عورتیں گا رہی ہیں۔ میں نے کہا: ''اے صحاب محمد !اے اہل بدر !تمہاری موجودگی میں یہ ہو رہا ہے تو دونوں نے جواب میں مجھے کہا اگر لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤورنہ یہاں سے چلے جاؤ، شادی کے موقع پر حضور ؐ نے لہو کی رخصت دی ہے ۔ اس حدیث کو سنن نسائی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے بحوالہ نیل الأوطایر علامہ البانی کے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے۔
قارئین! خدا لگتی کہیے، کیا شادی پر مسرت اور پر کیف لمحات کا نام نہیں؟ کیا رسول اللہ ؐ نے دف اور اشعار کی رخصت عنایت نہیں فرمائی؟ پھر کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم خیر القرون کے طریقے چھوڑ چھاڑ کے اس موقعہ پہ احوال الآخرۃ اور فکر آخرت جیسے موضوعات پہ فکر انگیز درس کر وا کر نوجوان بچوں اور بچیوں کے جذبات کو اپنی نام نہاد مذہبی عقیدت میں بھسم کر دیں۔
ٍقارئین کرام بالکل سیدھا سا مسئلہ ہے (جن علاقوں یا خاندانوں میں ہلکا پھلکا مزاح ، دف اور لہو و لعب کا رواج ہے وہ اسلامی حدود و قیود کے اندر رہ کریقینا ایسا کر سکتے ہیں۔ اسلام اور سیرت رسول اس سے منع نہیں کرتے۔)
یہ بھی یاد رکھیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تہذ یب وتمدن کے کچھ نقوش بدلتے رہتے ہیں۔ آجکل اسلامی اور مغربی تہذیب کا تقابل کیا جارہا ہے۔ یہ عنوان ہی غلط ہے۔ عنوان یوں ہونا چاہیے کہ ''مشرقی اور مغربی تہذیب'' ۔ بھلا اسلام اور مغرب ایک دوسرے کی ضد ہیں؟یا یوں عنوان باندھیں ''اسلامی اور غیر اسلامی تہذیب''۔ہماری مشرقی روایات میں دلہن کو رخصت کرتے وقت بھی اتنے رقت انگیز مناظر ہوتے تھے کہ گھر والے تو گھر والے پورا محلہ چھتوں پہ کھڑا زارو قطار رو رہا ہوتاتھا اس موقع پہ خاص اشعار پڑ ھے جاتے تھے۔
ماواں دھیاں ملن لگیاں چو بارے دیاں چاروں کندھاں ملیاں
باقی اشعار چھوڑ رہا ہوں۔
مگر عرب میں اس کا تصور بھی نہیں ، خیرآج کل یہ تہذیب آہستہ آہستہ مشرق میں بھی دم توڑ رہی ہے بلکہ آجکل میک اپ کرنے والے دلہن کو سختی سے منع کرتے ہیں کہ رخصتی کے وقت رونانہیں ورنہ آنکھوں کا میک اپ خراب ہو جائے گا۔
یاد رکھیں ! رسم کے مشرقی یا مغربی ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑ تا اصل دیکھنے کی چیزیہ ہوتی ہے کہ اس رسم سے قرآن و حدیث کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔
قارئین کرام! کوئی مانے یا نہ مانے شادی کے موقع پر ہلکی پھلکی تفریح اور لہو کرنے کا جی ہر صاحب ذوق کی چاہت ہوتی ہے۔ اس موقعہ پہ بڑے ، بوڑھے اپنی جوانی کی حماقتوں کو یاد کر کے محفل گرماتے ہیں۔ نوجوان اپنی بزم جنوں سجاتے ہیں۔ بچے بجیاں رنگ برنگے کپڑے پہن کر وہ شور کرتے ہیںکہ شادی کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں پائے جانے والے رسم و رواج:۔
اب تو ہماری پرانی مشرقی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیںمثلاً آج سے چالیس پچاس سال پہلے دلہن کی رخصتی ایک درد ناک منظر ہوتا تھا۔ اتنے اتنے رقت آمیز اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ گھر والے بہن ، بھائیوں اور ماں باپ کا رونا تو ایک طرف پورا محلہ چھتوں اور بالکونیوں پہ کھڑا زارو قطار رو رہا ہوتا تھا۔ ایک پنجابی شاعرنے اس منظر کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
مانواں دھیاں ملن لگیاں چوبارے دیاں چاروں کندھاں ہلیاں
مگر عرب میں اس طرز عمل کا تصور بھی نہیں ۔ بلکہ آجکل ہمارے ہاں بھی رخصتی والایہ رونا دھونا ختم ہو تا جارہا ہے کیوں کہ میک اپ کرنے والی عورت دلہن کو سختی سے کہتی ہے کہ رونا بالکل نہیں ۔ کیونکہ اس طرح آنکھوں کا میک اپ خراب ہوجا ئے گا۔
شادی سے پہلے گھڑا بجانا اور اشعار پڑھنا:۔
ہم نے بچپن میں یہ اشعار سنے تھے اتنے معصوم اور کمال دلربا اشعار ہوتے تھے میں ان میں سے چند ایک نقل کرتا ہوں۔مجھے بتایا جائے ان میں کیا بے حیائی اور عریانی پائی جاتی ہے؟
1۔ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا امڑی دے دل دا سہارا سیو نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا
2۔ بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
3۔ساڈے گھر آئی بھر جائی اسی چاواں نال بٹھائی
4۔ ککڑی اولببتی جیڑی کڑ کڑ کر دی اے سورے نئیں جانا ساس بُڑ بُڑ کر دی اے۔
ایک شبہ کا ازالہ:۔
بعض اوقات ایسے موقعوں پہ بد مزگی پیدا ہوجاتی ہے جو تلخی اور لڑائی تک جا پہنچتی ہے۔اس کو بنیاد بنا کر لوگ اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ لڑائی جھگڑے تو ہماری پکنک پارٹیوں اور تفریحی ٹور پہ بھی ہو جاتے ہیں۔ کیا اس بنا پہ کسی نے ان چیزوں کو خلاف شریعت قرار دیا ہے۔
اس طرح دودھ پیش کرنے والیوں کی بے پردگی کو بنیاد بنا کر بھی اس رسم کو خلاف شرع قرار دے دیا جاتا ہے تو گویا اگر بے حجابی کو حجاب شرعی دے دیا جائے تو یہ رسم شرعی قرار پا جائے گی۔
واگ پکڑائی:۔
پرانے زمانے میں چونکہ دولہا اکثر گھوڑے پہ جاتا تھاتو جب وہ گھر سے نکلتا تو اسکی بہنیں گھوڑے کی باگ پکڑ کر کھڑی ہو جاتی تھیں اور کہتی ہمیں کچھ رقم دو ورنہ ہم تمہیں جانے نہیں دیں گیں۔ چنانچہ دولہا ہر ایک کو کچھ پیسے دیتا اور بہنیں مسکراتی، دعائیں دیتی، خوشی سے نہال ہو جاتیں ۔ بتائیں اس میں کونسی قباحت ہے اور اسکو ادا کرنے سے کونسی قیامت آگئی کتنی معصوم ہے یہ رسم۔
جوتا چھپائی:۔
ایک رسم یہ ہے کہ دولہا جب سسرال جاتا ہے تو سالیاں اسکی جوتی چھپا لیتی ہیں اور پھر وہ دولہا سے کچھ پیسے لے کر اسے جوتا واپس کرتی ہیں بلکہ پاکستان کے ایک مزاح نگار نے لکھا ہے جب میں سسرال گیا جب میں سو کر اٹھا تو میری جوتی غائب تھی میں نے بیوی سے پوچھا میری جوتی کس نے اٹھائی ہے تو وہ بولی آپکی سالیوں نے چرا لی ہے تو میں نے کہا اگر سالیاں گھرسے جوتیاں چوری کرتی ہیں تو پھر مسجد سے سالے ہی جوتیاں چوری کرتے ہوں گے۔ اب اس رسم میں قرآن و سنت کی کونسی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
میوہ جات سے بھری ڈبیاں :۔
ہمارے ہاں رواج ہے کی برات لے کر جانے والے یعنی دولہا کے گھر والے ڈبیاں بنا کر لے جاتے ہیں ۔ جن میں ٹافیاں ، مغز ،بادام، کھجور وغیرہ وغیرہ ہوتی ہیں اور خطبہ نکاح کے بعد ہر ایک کو ایک ایک ڈبی دی جاتی ہے۔ جو عام لوگ تو وہیںکھا لیتے ہیں مگر شادی شدہ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے اس ڈبی کو جیب میں رکھ لیتے ہیں ۔ اب چونکہ لوگوں نے ڈبیاں خاصی بڑی بنانی شروع کر دی ہیں لہٰذا اب گرمیوں میں بھی واسکٹ پہن کر جانا پڑتا ہے کیونکہ ڈبی واسکٹ کی جیب میں چھپ جاتی ہے۔
لیکن خیر سے اس کو بھی بدعت قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے ہی میںایک متشدد کے بیٹے کی شادی میں گیا تو وہ ڈبیاں بنا کر نہیں لے کر گیا۔ نکاح کے بعد میں نے اپنے دوست سے پوچھا جناب ڈبیاں کدھر ہیں ۔اس کا جواب تھا یہ بدعت ہے حالانکہ میں نے اپنے اس دوست کے ساتھ کئی ایک شادیوں میں شرکت کی ہے یہ دوست یہ ڈبیاں بڑے شوق سے وصول کرتے تھے، ممکن ہے ا ن کے نزدیک ڈبیاں بنانااور تقسیم کرناتو بدعت ہو مگر ان کا لینا اور کھانا بدعت نہ ہو۔
مہندی کی رسم : ۔
میںنے ایک دفعہ اپنے والد صاحب (حکیم عبد اللہ بن مولانا عبد المجید دینانگری )سے پوچھا أبا جان ! کیا آپ کے وقتوں میں مہندی کی رسم ہوتی تھی ؟فرمانے لگے ہوتی تو تھی مگر اس بیہودہ انداز میں نہیں ہوتی تھی۔ بتانے لگے ۔ بیٹا ہمارے وقتوں میں مکانات کچے ہوتے تھے ۔لکڑی سے آگ جلاتے تھے۔گھر کے درو دیوار دھوئیں سے میلے ہو جاتے اور برتن بھی کالے ہو جاتے ۔ لہٰذا اگر کسی کے گھر شادی کا پروگرام ہوتا تو مہینوں پہلے گھروں میں لیپا پوتی شروع ہو جاتی ۔ عورتیں سارا سارا دن مٹی اور گاچنی سے درو دیوار کو لیپتی اور سجاتی تھیں۔ برتن مانجھے اور قلعی کروائے جاتے تھے۔اس طرح عورتوں کے ہاتھ کی لکیروں کے اندر تک میل ، مٹی اور کالک جم جاتی پھر شادی سے ایک دو دن پہلے جب سارے کاموں سے فارغ ہوجاتے اور اگلے دن بارات آنی ہوتی عورتیں نہانے دھونے اور اپنے بالوں اور منہ کو سنوارنے میں لگ جاتیں ۔ ہاتھوں کو پتھروں پر رگڑ رگڑ کر صاف کرتیںاور ایک بڑے برتن میں مہندی گھول کر سارے محلے داروں اور خاندان کی عورتوں کو بلایاجاتا ،اکٹھے کھانا کھاتے، مہندی کے گیت گائے جاتے اور یوں ساری خواتین ایک دوسرے کے ہاتھوں پہ ڈیزائن بنا بنا کر مہندی لگاتیں ۔ فرمانے لگے یہ اصل بات تھی ۔ باقی تم نے اس میں ترقی ڈال دی ہے۔ فرمانے لگے یہ رسم قطعاً ہندؤں کی نہیں ۔ البتہ تم نے اسے ہندؤں کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔
رسم دودھ پلائی اور سنتوں بھری شادی:
ہمارے ہاں یہ عمومی رواج ہے کہ جب دولہا ، دلہن کو بیاہ کر واپس جانے لگتا ہے تو دولہا کو دلہن کے ساتھ زنان خانہ میں بٹھایا جاتا ہے پھر رسم دودھ پلائی ہوتی ہے۔ دودھ میں بادام ،پستے ڈال کر خو بصورت گلاس میں پیش کیا جاتا ہے عموماًیہ مقدس کام سالیاں سر انجام دیتی ہیں یا پھر دلہن کی سہیلیاں یا کوئی اور عورت، دولہا اگر سمجھدار ہوتو وہ تھوڑا سا پی کر باقی اپنی نئی نویلی دلہن کو دے دیتا ہے اگر دلہن شرمیلی ہو تو سر جھکا کر پہلے انکار کرتی ہے پھر بہنوں اور دوسری عورتوں کے کہنے سے پی لیتی ہے اور پھر اس دودھ کا تاوان دے کر دولہارخصت ہو جاتا ہے۔اور دودھ پلانے والیاں اس تاوان کو مال غنیمت سمجھ کرآپس میں بانٹ لیتی ہیں۔ شادی کے موقعہ پہ دولہا کو دودھ پیش کرنے کا ذکر تو احادیث میں ملتا ہے مگر ہمارے ہاں اسکی شکل کچھ اور ہے دولہا کی سالیاں دودھ پیش کرتی ہیں اور پھر اس سے تحفہ طلب کرتی ہیں اس موقعہ پہ خوب ھلا گلا ہوتا ہے اور اگر ساس یا سالیاں اسلامی آداب میں رہ کر با پردہ یہ کام کرتی ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔
سنتوں بھری شادی:۔
ہمارے ایک دوست نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کی اور بڑے عاجزانہ فخر سے کہنے لگا الحمدللہ شادی پر سارے امور سنت کے مطابق ادا ہوئے ،الحمد للہ یہ ایک سنتوں بھری شادی تھی۔ میں نے پوچھا آپ نے شادی سے پہلے اپنے ہونے والے داماد کو اپنی بیٹی کی جھلک دکھائی تھی؟ آپ نے شادی پر دف کے ساتھ شادی کے مروّجہ اشعار پڑھائے تھے؟ کہنے لگے یہ خرافات ہیں اور اللہ نے ہم کو ان خرافات سے بچایا ہوا ہے ۔ میں مصلحتاً کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر میں نے کہا اگر یہ دونوں کام حدیث سے ثابت ہوں تو؟وہ کہنے لگا ایسی کوئی حدیث نہیں ہے اگر ہوتی تو میں نے ضرور سنی ہوتی، یعنی یہ صاحب اپنے آپ کو حدیث کا انسائیکلو پیڈیا سمجھتے تھے ،خیرپھر جب میں نے انکو حدیثیں پیش کیں تو وہ غصے میں آگئے۔ میں نے پھر پوچھا آپ نے دولہا اور دلہن کو عورتوں کے سامنے اکٹھے بٹھا کر دودھ پلایا تھا؟ تو کہنے لگے ''لا حول ولا قوّۃ''ایسے واہیات کام ہماری شادیوں میں نہیں ہوتے۔ میں نے عرض کیا جناب عالیٰ دودھ پلائی والی رسم حضور ؐ کے زمانہ میں بھی تھی اور جب آپ کی شادی حضرت عائشہ سے ہوئی تو آپکو اس موقعہ پر دودھ پیش کیا گیا اور آپ نے دودھ نوش فرمایا اور آپ کا بچا ہوا دودھ حضرت عائشہ نے پیا ۔ یہ سن کروہ کہنے لگے یہ قطعاً ہو ہی نہیں سکتا ۔تو میں نے انہیں مندرجہ ذیل واقعہ سنایا جسے امام ناصر الدین البانی ؒ نے اپنی کتاب آداب زفاف میں لکھا ہے۔ قارئین! یہ واقعہ پڑھیں اور ایسے متشدیدین کی عقل پر ماتم کریں۔
حضرت اسماء ؓ، حضور ؐ کی حضرت عائشہ ؓ سے شادی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو میک اپ کر کے حضور ؐ کے لیے پیش کیا ۔ حضور ؐ ، حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر حضرت اسماء ؓ نے حضور ؐ کو دودھ کا کٹورا دیا۔ آپ ؐ نے تھوڑا سا پیا اور باقی حضرت عائشہؓ کو دے دیا(یاد رہے حضور ؐ دولہا تھے اور حضرت عائشہ ؓ دلہن، یہ اکٹھے بیٹھے ہیں)حضرت عائشہ ؓ نے حیا کے ساتھ سر جھکایااور دودھ پینے سے معذرت کرلی۔ حضرت اسماء ؓنے حضرت عائشہ ؓ کو سمجھایاکہ حضور ؐ کے ہاتھ سے دودھ لے کر پی لو۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے کچھ پی لیا۔ حضور ؐ نے فرمایا باقی دودھ عائشہ کی سہیلیوں کو پلاؤ ۔حضرت اسماء ؓنے دوبارہ کٹورا حضور ؐ کو دے دیا۔ حضور ؐ نے کچھ پیا پھر باقی وہاں موجود حضرت عائشہ ؓ کی سہیلیوں اور حضرت اسماء ؓنے پیا۔
قارئین!ذرا بتائیے کہ حدیث سے رسم دودھ پلائی کا ثبوت مل گیایا نہیں ؟تو جناب اسلامی حدود و قیود کے ساتھ یہ رسم ادا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔
ہند وانہ اور ہندوستانی رسم و رواج میں فرق:
یہاں ہمیں اس چیز کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ کچھ رسومات علاقائی ہوتی ہیںاور کچھ رسومات مذہبی ہوتی ہیں۔ ضروری نہیںکہ ہمارے ہاں پائی جانے والی ساری رسومات ہندوؤں کی مذہبی رسومات ہی ہوں ۔مجھے یقین ہے ان سطور کے شائع ہونے کے بعد کچھ اہل علم و دانش مضمون نگار پر تنقید کریں گے ، تو عرض یہ ہے کہ اگرکسی نے علمی اور دلائل کےساتھ تنقید کی تو سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر کسی صاحب نے اپنی نام نہاد مذہبی سوچ کے جوش میں بغیر دلائل کے بات کی تو میں پیشگی ان کو سلام کہتا ہوں ۔اس کے علاوہ اور بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم معصوم رسموں رواج مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں طوالت کے ڈر سے ان کو تذکرہ چھوڑ رہا ہوں ۔ اگر فرست ملی تو اس موضوع پر مفصل مضمون لکھوں گا ان شاء اللہ ۔
خلاصۃ الکلام :
اس ساری گفتگو کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک طرف وہ طبقہ ہے جنہوں نے شادی اور بیا ہ کو ہلڑ بازی بنا کر رکھ دیا ہے، اور اسلامی اور مشرقی روایات کو پامال کرتے ہوئے شرافت و حیا کے پرخچے اڑا کر شادی جیسے باوقار اور مقدس بندھن کو بے حیائی اور عریانی سے آ لودہ کردیا ہے تو دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جن چیزوںکو مباح قرار دیا ہے ان کو بھی حرام اور ناجائز قرار دیا جا رہا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ نکاح میں تقوی والی آیات بھی پڑھیںاور موت کا تذکرہ بھی کیا ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ایک حد تک لہو کو بھی اس موقع پر جائز قرار دیا ،رسول اللہ کا بتایا ہوا یہی وہ درمیانہ راستہ ہے جو ہمارے لیے بہتر ہے ۔