Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
شادی ۔۔۔ذمہ داری بھی ضرورت بھی
میرا خیال ہے کہ شادی جہاں ایک ضرورت ہے (یعنی یہ محبتیں، چاہتیں، اموشنز،فیلنگز،سافٹ کارنرز، نیچرل ایفیکشنز،نیچرل اٹراکشنز، اور کئی فطری تقاضوں کو لیکر ایک اہم ترین ضرورت ہے۔۔۔)
وہیں یہ۔۔۔۔
ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے (کیونکہ یہ ذمہ اس نظام کائنات کی طرف سے عائد کی ہوئی انسانیت پر وہ ذمہ داری ہے جس پر نوع انسانی کا وجود ایک سسٹم کے تحت ریسپکٹفل انداز میں قائم و دائم ہے)۔میرا یہ خیال ہے کہ اس سسٹم کو باقی رکھنے کے لئے ضرورت ور ذمہ داری کا دونوںمیں توازن ضروری ہے۔اس اہم ترین ضرورت و ذمہ داری میں افراط و تفریط کے نتیجے میں معاشرہ یا تو بنتا ہے یا بگڑتا ہے۔
رشتوں کو اگر سمجھا جائے تو ہمیشہ اس کے اندر محبت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا احساس ضروری ہوتا ہے۔یہ بوجھ ایسا بوجھ ہوتا ہے جسکو ایکدوسرے سے رشتوںمیںاٹاچ ہونے کے بعد ہلکا کرنے کے لئے محبتوں اور چاہتوں کی چاشنی ضروری ہے ورنہ اس سے کسی کو انکار نہیںہوسکتا کہ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔کیونکہ ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل اس رشتہ کو ذمہ داری سے لینے کا تقاضہ کا ہی تقاضہ کرتی ہے۔ورنہ معاشرہ کھوکھلا رہ جاتا ہے۔لیکن عام طور پر لوگ (خاص طور پر مغرب) صرف محبتیں اور چاہتوں کی باتیںکرتے نظر آتے ہیں اور ذمہ داری سے اپنا چھٹکارا کرنا چاہتے ہیں۔نتیجہ کے طور پر شادی کو ضروری ہی نہیں سمجھا گیا۔اور الیگل ریلیشنز کو لیگل مانا گیا اور اس میں کوئی زور زبردستی نہ ہو۔
پھر مشرق میںبھی اسکو صرف سوکالڈ محبتوں اور چاہتوں سے جوڑدیا گیا۔لیکن مشرق ہو یا مغرب۔اس رشتے میںذمہ داری کو بہترطریقے سے نبھانے کے لئے ہی ایسی چیزیںرکھ دی گئی کہ لوگ اس کو بہ آسانی اٹھاسکیں۔ہاں نوع انسانی کا ارتقا چھوٹی ذمہ داری نہیں ہے۔اور اسکا بیالنز انداز صرف اور صرف اسلامائیز سوچ اور طرز عمل میں ملتا ہے۔ورنہ یہ رشتہ محض کچھ ایسی چیزوں کا منبع بن کر رہ جاتا ہے۔جو کہ اس رشتہ میںضروری چیز تھی لیکن سب کچھ نہیں۔یعنی محبت و چاہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! !
شادی ایک ضرورت کے تحت ۔۔۔۔ہم جب بات کریں تو سب سے پہلے تو ہمیںپتہ چلتا ہے کہ سوسائیٹی بنتی ہی "شادی جیسے" پاکیزہ رشتے سے ہے۔جسکی بنیاد ہی کچھ ایسے "اقرار" پر ہے جس میںہم اللہ کو حاضر و ناظر جانکر ایک ایسی سنت کو پورا کرتے ہیں جس میںاللہ تعالی نے فطرت انسانی کی تسکین بھی رکھی وہیںاس دنیا کی ارتقائی مدارج بھی اسی سے جوڑدیئے۔لیکن اسکی حدیں بہت ہی ڈیٹیلڈ انداز میںبیان بھی کردی گئیں۔جوکہ ملااختلاف رائے ہم کے لئے قابل عمل تھیں۔لیکن ہم نے گذرتے زمانے کے ساتھ ان حدوںکے ساتھ زیادتی کردی۔ان زیادتیوںمیںبنیاد یہ بنی تھی کہ جنریشنز نے شادی جیسے پاکیزہ عمل کو صرف محدود تساکین سے جوڑدیا (اگر اس ریمارک کو غلط مان لیا جائے تب، ہم سے بے اعتدالیاںکم سے کم ممکن ہوتیں)۔۔دوسری طرف جنریشن گیپ نے بھی کچھ نہ کچھ رول پلے کیا۔
علم کی بنیاد پر چھوٹے اور بڑوں کے درمیان دوستانہ فضا میں کورآدینیشن ممکن تھا (اور یہ اڈوائسیبل بھی ہے کہ بدلتے زمانے کے نئے انداز اگر بنیادوں کو نہ ہلاتے ہوں تو اسکو اپنانے میں کوئی مسئلہ نہیں) لیکن ہم سے اس پائینٹ پر یہ زیادتی سمجھنے کی ہوئی ۔۔۔اور کہیںگراس لیول اپنے پیرنٹل لیولز کو فالو نہ کر پائی (حالانکہ پیرنٹل لیول اسٹانڈرز کو میچ کرتا پایا گیا) تو دوسری طرف پیرنٹل لیول نے نیو جنریشنز کے تقاضوں کو سمجھنے میںکہیںنہ کہیںکچھ ایررز کئے۔۔۔نتیجہ کے طور پر ایک ایسی درمیانی "ہڈن وال" تشکیل پاگئی جسکے نتائج کے طور پر ہمیں یہ کہنے میںکبھی بھی آر نہیں رہا کہ "کبھی بچے بھی نادانیاںکر بیٹھتے ہیں تو کبھی بڑوںسے بھی ایریرز ہوجانا ناممکن نہیں۔یہ تمام چیزیںکچھ افراط تو تفریط کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اگر تعلیمات اسلامی کو روح کو سمجھ کر بڑے اور بچے تمام ایک بیالنس قائم کریں تب "اس درمیانی" کیفیت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ذمہ داری کی جہاںتک بات ہے وہ با ت خالصۃ ایک ایسے جذبے سے تعلق رکھتی ہے جہاںہم اپنی تمام ترمحبتوں، جذبات و احساسات کی گرماہٹیں ہونے کے باوجود بھی ہم محض "شادی جیسے عمل" سے بننے والے "پاکیزہ رشتے" کو تقاضوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیونکہ اس میں سے بڑا محرک جنریشن کی تربیت ہوتا ہے۔اور اس کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے لازما ہمیں بنیاد کے طور پر خالص اسلامی تعلیمات کی جانب رخ کرکے اس کو من و وعن تسلیم کرلینا پڑتا ہے۔لیکن عام طور پر اس میںہم سے غلطیوںکا صدور ہوتا ہے۔اور ہم اس میںبھی افراط و تفریط کرنے لگتے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہم کبھی محبتوںاور چاہتوں پر ہمارے اقدار کو قربان کردیتے ہیں تو کہیں اقدار کے نام پر ہم "اپنے ذہن سے " گھر کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ اسکو اگر ایک ذمہ داری کے طور پر مانا جاتا یا مانا گیا تو ہم " اسوہ حسنہ میں" ایم مثالی گھر کو تلاش لیتے کیونکہ گھر بنتا ہی " اس پاکیزہ" رشتے کو لیکر جس میں "ہسبنڈ اور وائف" نے ملکر ایک ایسے رشتے کو ذمہ داری کے ساتھ نبھانا ہے جہاں پر فطری تقاضوں کو ایک طرف پورے کرنا ہے جسمیں فائنلی اولاد کے ساتھ ہماری چاہتیں اور محتیںبھی آجاتی ہیںلیکن ساتھ ہی ساتھ ذمہ داری کے ساتھ اس کو سمجھیں تب ہم صرف کھانے پینے ، تعلیم و لباس سے بہت آگے بڑھکر۔۔۔ہسبنڈ وائف کے رشتوں میںہماری تعلیمات کیا کہتی ہیں، جنرینشن کے لئے ہماری وہ کیا ذمہ داری ہے جسکی وجہ سے یہیبچے کل کے دن ایک سوسائیٹی بنکر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینگے، وغیرہ ایسے زاویہ ہیں جو کہ غور و فکر اور قدم قدم پر اسلامی تعلیمات کو سوچ کا حصہ بنانے پر ہی حاصل ہوتی ہیں۔
شادی ضرورت بھی اور ذمہ داری بھی لیکن اس حقیقت کو لیکر شادی سے پہلے اور بعد میں خاص طور پر ہمیںاسلامائیز انداز روا رکھنے میں کیسے مشکل آتی ہے۔ملاحظہ ہو۔شادی ہوتی ہے۔زندگی میں گویا کہ کلرز کھل اٹھتے ہیں۔ہر طرف رنگینیاں ہی رنگیناں (یہ سب فطرت کے عین مطابق ہے اگر جائیز حدود میںرہا جائے)پھر دنیا کے ٹیمپٹیشنز کا آغاز۔ایمبالینس کا طوفان۔فیشن۔اصراف۔دنیاداری ۔دین سے غفلت۔پھر اولاد کی محبت میں غفلت سے آگے بڑھکر دین کے بجائے ہماری زندگانیاں لادینیت کا شکار ہوکر رہجاتی ہیں۔ایسے میں اگر تھوڑا سا موت کی یاد دلوں میں جاگزیںرہے تب کیسے ممکن ہے کہ یہ دنیا کی یہ لذتیں جو کہ وقتی ہیں ہمیںاپنے اندر محصور کرلیں؟۔دنیا میں رہکر دنیاکو اپناتے ہوئے (حدود میں) اور موت کی یاد دل میں رکھ کر۔۔اپنے شعائر زندگی اسلامائیز کرلیں تب۔۔ہر قسم کا ٹیمپٹیشن ہمیں اپنے حدود میں رکھ کر۔۔۔حقیقی فوز و فلاح کا ضامن بنسکتا ہے۔چونکہ یہ معاملہ بیویوںاور شوہروں دونوںکے لئے یکساں ہے۔۔۔کہ اگر وہ دنیا کی حقیقت نہ سمجھے ،وہ اگر چاہے تو اپنی بیوں کو اگر وہ۔۔ٹراک پر نہ ہو تب۔۔۔اسکو اسلامی تعلیمات کے قریب کرسکتا ہے۔
وہیں نیک بیویاں مصلحت سے اپنے شوہروںکو اسلامی تعلیمات کے قریب کرسکتی ہیں۔لیکن اگر دونوں بھی اس ذمہ داری سے کنارہ کش ہوکر رہیں (جیسا کہ عام طور پر آجکل مسلم امۃ شکار ہے) تب نیوجنریشن کی وہ تصویرکیوں نہ بنے جو آج ہمارے سامنے ہے۔اور اسکے نتائج کے طور پر سب سے پہلے خود کی اور پھر اپنے اہل و عیال کے عاقبت خدانخواستہ بگڑ کر نہ رہ جائے۔
بہرحال امت مسلمہ کا عام رویہ ہمارے سامنے ہے،ہم ایمان والے نہیں ایسا نہیں۔۔۔لیکن ہم غفلت میںضرور پڑے ہوئے ہیں۔دنیا کی مختصر زندگی اور اسکی شہوات جسکی حقیقت اللہ کی نظر میں ایک مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں۔۔ہمارے لئے وہ سب کچھ ہے۔حالانکہ ہم جانتے ہیں (بئینگ اے مسلم) کہ یہ زندگی بس بہت ہو ھو بھی جائے۔۔تو 40 سے پچاس سال سے بڑھکر نہں اور بعد کی زندگی لامتناہی ہے۔لیکن ہمارا اوور اسمارٹنس یہاں ہوا ہوجاتا ہے۔ہم دو روزہ زندگی میں چند ٹکوں کے حصول کے لئے خون پسینہ ایک کرکے یہ سمجھتے ہیںکہ ہم نے گویا سب کو پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ ہم نے جو کچھ کیا وہ خسارے کا معاملہ کیا (اگر ہم آخرت سے غافل رہکر اور حلال و حرام سے نہ بچتے ہوئے یہ سب کیا)۔۔اور بالآخر جب موت آپہنچتی ہے ہمیں سب کچھ یاد آجاتا ہے۔حالانکہ موت تو آنی ہے۔۔اور لازما آنی ہے۔لیکن ہم درحقیت غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔سب تاویلات ایک ہی لمحہ میںدھری کی دھری رہ جانیولی ہے جو ہم غیر اسلامی افکار و اغیار کے بارے میں بناتے چلے آتے ہیں (اگر بناتے ہیںتو)۔۔۔اور پھر ہمیں ایک لمحہ کا بھی مزید موقعہ نہ ملے گا کہ کم از کم توبہ ہی کرلو (اگر موت نظر آجائے)۔۔۔پھر ہم خون کے آنسو بھی نہ بہاسکینگے۔
اللہ ہم پر رحم کرے
اسکی رحمت خاص کے بنا کچھ بھی ممکن نہیں
اللہ ہمیں شیطان کے شر اور اسکے ہتھکنڈوں سے بچاے۔آمین
ایک حقیت یہ ہے کہ کوئی بھی دل سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ خسارے میں رہے۔۔لیکن شیطان مردود کا تو اللہ رب العزت سے وعدہ ہے کہ وہ، ہر طرح سے انسان کو بھٹکائے۔۔دائیں سے بائیں سے۔یہاںتک کہ۔۔۔خون کی گردش بنکر (اصطلاحا) وہ انسان کو بھٹکاتا رہے گا۔
اللہ ہمیں اسکے مزموم عزائم سے محفوظ رکھ کر۔۔۔صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
اللہ ہم پر رحم کرے۔آمین
انشاالل
Source: http://www.siratulhuda.com/forums/showthread.php/2011