• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاعری میں آداب شریعت کے واقفین کا افسوس ناک طرز عمل

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اگرآپ غالب کو نہیں پڑھیں گے، میر کو نہیں پڑھیں گے ،سودا کو نہیں پڑھیں گے تواردو کیاخاک جانیں گے؟پھر وہی مولویانہ اردو لکھیں گے جس کے نمونے آئے دن سامنےا ٓتے رہتے ہیں۔
مولویانہ اردو ۔ ابتسامہ ۔ مجھے ایک شخص کی بات یاد آئی کہ بعض مولوی خود اپنے جیسے مولویوں کو ’ مولوی ‘ کہہ کر طنز کرتے ہیں ۔ بہرصورت مولانا صلاح الدین اپنی نثر یا شاعری میں مولوی ہونے پر کہیں شرمندہ نظر نہیں آتے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعرمیں رمزوایمائیت ہوتی ہے، اشاروں میں کسی چیز کاذکر ہوتاہے،اب یہ توسمجھنے والے کاکام ہے،غالب نے بھی کہاہے :
ہرچند ہومشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغرکہے بغیر
اردو شاعری فارسی شاعری سے مستعار ہے،فارسی شاعری میں تصوفانہ مضامین کیلئے بادہ وساغر کا استعارہ ہے، وہی استعارہ اردو میں بھی ہے،اس پر اس حیثیت سے اعتراض کرنا کہ بادہ وساغر کا لفظ کیوں استعمال کیاگیا،یہ نہایت بھونڈا اعتراض ہے،اس پر پھروہی مصرعہ صادق ہوگا،’’شعرامرا بمدرسہ کے برد‘‘،کہ میرا شعر مدرسہ کے علماء تک لے کر کون گیا،خواجہ حالی سے بڑھ کر مصلحانہ شاعری کادعویدار کون ہوگا،لیکن کیاان کی شاعری جام وسبوسے خالی ہے ؟ان کا دیوان اٹھاکر دیکھ لیجئے۔
کہتے ہیں جس کو جنت وہ ایک جھلک ہے تیری
سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں
علامہ اقبال سے مصلحانہ اوربامقصدی شاعری کس کی ہوگی؟ لیکن ان کے بھی یہاں اس قسم کے اشعار ہیں،
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیاتھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عارکیاتھی
فارسی میں آئیے تو سعدی کی گلستاں اوربوستاں اخلاقی مضامین کا گلدستہ ہے لیکن ان کے بھی یہاں شاعرانہ خصوصیات پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
مولاناروم کی مثنوی مذہبی رنگ لیے ہوئے ہے، لیکن ان کی غزلیں دیکھیے تو وہی جام وسبو ہے۔
امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیاکے شاگرد تھے لیکن شعر گوئی میں جام وسبواوربادہ وساغرکے ذکرسے وہ کسی فارسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جام وسبو دیکھتے ہی بھڑک جانامناسب نہیں ہے،نہ ہی یہ مناسب ہے کہ خود کوہی شریعت کا کوتوال سمجھ لیاجائے اور بقیہ تمام کے بارے میں یہ سمجھ لیاجائے کہ ان کو شریعت کا پتہ نہیں تھا اور یہ لوگ اس چیز میں مداہنت کرتے رہے، ایک دو فرد کے بارے میں مداہنت کا تصور رواہوسکتاہے لیکن صدیوں کے بزرگوں اوراہل علم کے تعلق سے دین سے یہ بے خبری اور مداہنت کا تصور قطعاجائز نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعر کو سننے اورپڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ شعرکے خیال سے متاثر ہوجائے، شعر وادب کامطالعہ زبان کے علم کیلئے ہوتاہے، امرئوالقیس جسے الملک الضلیل کہاگیاہے لیکن وہی عرب کا سب سے بڑا شاعر بھی ہے،آج بھی مدارس میں سبعہ معلقہ پڑھائی جاتی ہے کیاس میں حدیث اورقرآن کی تعلیم ہے ؟وہی خرافات ہیں عربوں کے ،اپنے اوپر فخر ،گھمنڈ اور زبانی زورآزمائی ،لیکن اس کو مدارس میں زبان وبیان کی تعلیم کیلئے رکھاگیاہے،ایسے ہی اردو شعرا میں سے کسی کو پسند کرنا یااس کو پڑھنا زبان وبیان کی تعلیم کیلئے ہوتاہے۔
محل نزاع کو ہی بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے شیخ صلاح الدین صاحب نے اپنا موقف بالکل واضح انداز سے بیان کردیا ہے ۔ اور ساتھ اس کی توجیہ بھی بیان کردی ہے ، بلکہ متوقع طرز عمل پر رد عمل وہ پہلے ہی دے چکے ہیں ، کہ میری نیت شعر و شاعری میں پائی جانے والی بے دینی سے بچنا ہے ، اگر میں اس مقصد میں کامیاب ہوجاتاہوں ، تو کسی کی نشست و برخاست کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔
فقیہ آہ وزاری کوئی چیز نہیں ہوتی ،خود سے اصطلاح گھڑ لینا درست نہیں ہے۔
بلکہ : لا مشاحۃ فی الاصطلاح ۔
اپنی بات کیلئے ’’فرمانا‘‘مزاحیہ اورمضحکہ خیز ہے۔
مجھے تو آپ کا ملاحظہ مضحکہ خیز لگ رہا ہے ۔ اس شعر کو دوبارہ پھر دیکھیں ، انہوں نے فرمانا اپنے لیے نہیں ، مخاطبین کے لیے استعمال کیا ہے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مری ملت کے دانشور، ذرا اب غور فرمائیں
سنیں وہ التجا میری، تو پھر کچھ اور فرمائیں
مجھے تو آپ کا ملاحظہ مضحکہ خیز لگ رہا ہے ۔ اس شعر کو دوبارہ پھر دیکھیں ، انہوں نے فرمانا اپنے لیے نہیں ، مخاطبین کے لیے استعمال کیا ہے ۔
حمایت میں لکھی گئی تحریرایسے ہی ہواکرتی ہے،’’تو‘‘کا تعلق ماقبل سے ہوتاہے مثلاًمجھے اگریہ کہناکہ آپ پہلے میری بات سنیں پھر اس کے بعد میں کچھ اور پنی عرضداشت پیش کروں تواس کو میں یہ کہوں گا
آپ میری بات سنیں تومیں کچھ اورکہوں
اس کے بالمقابل اگرمجھے یہ کہناہو کہ آپ پہلے میری بات سنیں پھر اس کے بعد اپنی بات کہیں تومیں اس کو یوں کہوں گا
آپ میری بات سنیں اوراس کے بعد آپ پنی بات کہیں
اورمولانا ملت کے دانشوروں سے کچھ سننانہیں چاہتے،ان کو اپنی بات سناناچاہتے ہیں اورفرمارہے ہیں کہ آپ پہلے میری بات ان باتوں کو سن لیں توپھر میں مزید اورکچھ کہوں،بہرحال شعر سمجھنے کا ہرایک کااپنااندازہواکرتاہے اورایک ہی شعر سے دس سمجھنے والے اپنے علم اورلیاقت کے مطابق الگ الگ بات سمجھتے ہیں،آپ نے وہی سمجھاہے جو اوپر مذکور ہو اتوآپ کو مبارک ہو۔
محل نزاع کو ہی بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے شیخ صلاح الدین صاحب نے اپنا موقف بالکل واضح انداز سے بیان کردیا ہے ۔ اور ساتھ اس کی توجیہ بھی بیان کردی ہے ، بلکہ متوقع طرز عمل پر رد عمل وہ پہلے ہی دے چکے ہیں ، کہ میری نیت شعر و شاعری میں پائی جانے والی بے دینی سے بچنا ہے ، اگر میں اس مقصد میں کامیاب ہوجاتاہوں ، تو کسی کی نشست و برخاست کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔
پھر وہی بات کردی ،جس کے بارے میں ماقبل میں تفصیل سے عرض کیاجاچکاہےکہ مدارس میں سبعہ معلقہ جوپڑھائی جاتی ہے،عرب جاہلیت کے دور کے اشعار کو اختصاص فی الادب کے طلباء کو جوپڑھائی جاتی ہے اورشاید مدینہ یونیورسٹی میں بھی پڑھائی جاتی ہو،جہاں آپ زیر تعلیم ہیں توپھر کیاوہ بے دینی نہیں ہے؟یاوہاں کے تمام شیوخ نے اس بے دینی پر ’’اجماع‘‘کرلیاہے،خود ہندوستان میں بھی اگرکسی کو اردوادب کی تحصیل کرنی ہے توپھر میر وغالب کو چاروناچار پڑھناہی پڑے گااوراس میں اس قسم کے اشعار لازمی آئیں گے۔
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھاکب کا ترک اسلام کیا
یاپھر
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑوبرہمن کو
آپ اس کا دوسرا مفہوم بھی اخذ کرسکتے ہیں جیساکہ اہل نظرکرتے رہے ہیں۔
ہاں آج کل کی جدید شاعری جس سے احتراز لازم ہے وہ ہے جنسی شاعری،پہلے کے شعرابھی مشعوق کے خط وخال اور زلف سیہ اوررخ روشن پر طبع آزمائی بلکہ سارازور بیان صرف کیاکرتے تھے،لیکن ان کے بیان میں رمز اورایمائیت اس قدر ہواکرتاتھاکہ آدمی اس کو کئی معانی پر محمول کرسکتاتھا،اب تو کھلم کھلا پتہ چلتاہے کہ وہ ان کے گھر سے چارقدم دورپر رہنے والے کوئی خاتون ہیں۔
مولویانہ اردو ۔ ابتسامہ ۔ مجھے ایک شخص کی بات یاد آئی کہ بعض مولوی خود اپنے جیسے مولویوں کو ’ مولوی ‘ کہہ کر طنز کرتے ہیں ۔ بہرصورت مولانا صلاح الدین اپنی نثر یا شاعری میں مولوی ہونے پر کہیں شرمندہ نظر نہیں آتے ۔
مولوی ہونا قابل طنز قطعانہیں لیکن مولویانہ اردو لکھنا قابل طنز ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہےاوراس کے نمونے ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں اورچرخ دوراں وفلک ستم شعار جوکچھ مزید نہ دکھائے وہ کم ہی ہوگا۔
خود صلاح الدین مقبول صاحب کی اس مسدس میں وہی مولویانہ غلطیاں ہیں جس کی نشاندہی کی گئی ہے،وجہ وہی ہے جس کا وہ اس مسدس میں اظہار کرچکے ہیں،اس کے بالمقابل دیکھئے توخواجہ الطاف حسین حالی کا مسدس زبان وبیان کا شاہکار ہے،وجہ یہی ہے کہ انہوں نے غالب کے عقائد کو غلط سمجھالیکن اس بنیاد پر اس کی شاگردی سے انکار نہیں کیااوریہی ایک طالب علم کی شان ہے کہ وہ علم کے بارے میں من وتو نہیں سوچتابلکہ’’جس سے ملے،جہاں سے ملے اورجس قدرملے‘‘پرعمل کرتاہے۔
آپ نے مزید کرم فرماتے ہوئے ’’فقیہ آہ وزاری ‘‘کو لامشاحۃ فی الاصطلاح میں داخل کردیا،یہ بھی اسی مولویانہ غلطی کا چربہ ہے جس کا ماقبل میں ذکر کیاگیا،ادب اورزبان میں محاورات اس طرح نہیں ہوتے کہ جس کی جو مرضی ہو ،وہ لکھ دے اورلامشاحۃ فی الاصطلاح کی بھاری بھرکم معذرت پیش کردے۔
اقبال کا مشہور شعر ہے
نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتاہے
مزاتوجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
اس پر اقبال کامل کے مولف نے یہی اعتراض کیاہے اوریہ اعتراض ہروہ شخص کرے گاجسے اردو زبان سے کچھ مس ہے کہ نشہ نہیں پلایاجاتا،شراب پلائی جاتی ہے،نشہ پلانامحاورہ کے خلاف ہے،اسی طرح اقبال کے کلام پر مزید اعتراضات کیلئے ’’اقبال کامل‘‘کامطالعہ کریں،انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔
اتنے پر ہی بس کرتاہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دعا اور شکریہ

دعوت رشد وہدایت سدا معمول رہے
یہ مسدس ترے دربار میں مقبول رہے

شرک و شبہات میں جو قلب بھی مشغول رہے
اسکی حجت کو مسدس یہی محمول رہے

میری تحریر کو وہ قوتِ تاثیر ملے
فکر بالیدہ ہو، اس کو نئی تفکیر ملے

لیجئے بزم ادب میں یہ مسدس ہے پیش
اس کی دعوت ہے یہ، اُمت کیلئے خیر اندیش

قلب مصلح ہے جہاں کیلئے محبت کیش
اسکو ماجور کرے رب جہاں، بیش از بیش

واخوشا! رب سے مسدس کو یہ توثیق ملے
اس کی حق بات ہو تسلیم، یہ توفیق ملے

ہے دعا زیست میں اخلاص کی زیبائش ہو
فکرِ اسلاف سے پھر ذہن کی آرائش ہو

دل کو تسکین ملے، روح کو آسائش ہو
روز افزوں اسی منہاج کی افزائش ہو

جو ہیں بھٹکے انہیں پھر سے راہِ حق مل جائے
قلبِ ویراں میں صداقت کی کلی کھل جائے

شکر اس کا کہ مجھے بھی سخن آرائی ملی
میرے اس نغمہ توحید کو رعنائی ملی

بزمِ احباب و مشائخ میں پذیرائی ملی
انکی اصلاح سے نغمہ کو بھی زیبائی ملی

شاد و آباد رہے علم کا یہ کاشانہ
جذبہ شکر سے لبریز دل کا پیمانہ

شکریہ! بندہ کو لغزش سے جو آگاہ کرے
درگذر مصلح خستہ سے بھی اللہ کرے

درخور اعتنا یہ "کوششِ کوتاہ" کرے
حشر اس کا، انہی اسلاف کے ہمراہ کرے

مغفرت سے اسے اللہ سرفراز کرے
سایہ دامن رحمت میں رہے، ناز کرے


صلاح الدین مقبول احمد
 
Top