• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شام ، حالات ، احادیث ، موجودہ صورتحال ،حقائق اور پس منظر ہماری ذمہ داری ، عربی اردو کتب مراجع

شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
اس عنوان کے تحت میں چاہتا ہوں احباب کے پاس جو معلومات ہوں وہ شامل کردیں۔ جس حوالے سے معلومات ہوں اسے وہی عنوان بنا کر اس تھریڈ میں شامل کردیں۔ تاکہ اس تھریڈ میں اس حوالے سے تفصیلی معلومات و حقائق یکجا جمع ہوجائیں۔ میرے ذہن میں جو نکات آرہے ہیں کہ اس پر احباب سے معلومات وصول کروں!! ذکر کررہا ہوں۔
۱۔ سرزمین شام کی فضیلت
۲۔موجودہ شام
۳۔ موجودہ حالات اور اس کا سبب و پس منظر
۴۔ شام اور مختلف قسم کی میڈیا کا کردار
۵۔اس حوالے سے دور حاضر کے کبارعلماء سے تحریری ، آڈیو ، ویڈیو کسی بھی صورت میں فتاوی حاصل کرکے یہاں شامل کیے جائیں ، اس کے لیے علماء سے انفرادی طور پر رابطہ بھی کرنا پڑے گا۔
۶۔ ہماری ذمہ داری
۷۔ شام کے حوالے سے مختلف ممالک کا کردار
اسی طرح مزید جو نکات اہل علم کے ذہن میں ہوں اس حوالے سے اپنی معلومات ضرور ذکر کریں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
ما شاء الله، اچھا موضوع شروع کیا ہے آپ نے، میں بھی شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کی تحقیق شدہ کتاب فضائل الشام و الدمشق موضوع شروع کرنا چاہ رہا تھا ۔اب ان شاء اللّٰہ یہی احادیث بھیجوں گا ۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ إِذْ قَالَ: «طُوبَى لِلشَّامِ»، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلِمَ ذَاكَ وَلِمَ ذَاكَ؟ قَالَ: «إِنَّ مَلَائِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا»

ترجمہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاغذ وغیرہ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”مبارکبادی ہو شام کے لیے“، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ملک شام پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔

۩تخريج: مصنف ابن أبي شيبة (١٩٤٤٨، ٣٢٤٦٦) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ مسند أحمد (٢١٦٠٦، ٢١٦٠٧) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي (المتوفى: ٢٧٧هـ)؛ سنن الترمذي (٣٩٥٤) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان (٧٣٠٤) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (٤٩٣٤، ٤٩٣٥) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٢٩٠٠، ٢٩٠١) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ) صححه الألباني رحمه الله في فضائل الشام و الدمشق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ملک شام کا بحران

شیخ عبدالمعید مدنی علی گڑھ
شام وہ سرزمین ہے جس کو حبیب کبریا ﷺ نے فضیلت بخشی ہے۔ اس سرزمین میں خیرپہلے بھی تھا۔ خیر اب بھی ہے اورخیر بعدمیں بھی رہے گا۔ سرزمین شام میں ایسی ایسی مقدس ہستیاں پیدا ہوئی ہیں کہ آج بھی ان کی وجہ سے شام کا نام روشن ہے اور اس دورمیں اسے امام المحدثین فی العصر علامہ ناصرالدین البانی کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔
شام کی موجودہ صورت حال فرانسیسی استعمار، روسی مداخلت ، کمیونسٹ سیاست، بعثی استعباد واستبداد کے اثرات ونتائج کا ایک بگڑا ہوا تسلسل ہے جس کو ختم کرنے کے لئے اس وقت عوامی تحریک چل رہی ہے۔
شام 19466ء میں فرانسیسی استعمار کے تسلط سے آزاد ہوا اوراس وقت سے لے کر اب تک شام عدم استقرار ،جمود،سازش ، اسلام دشمن اوراہل سنت دشمنی عناصر کی بدعنوانیوں کا شکار ہے۔
1946 میں شام میں نیشنل گورنمنٹ کی تشکیل ہوئی۔ 19499ء تک اس کے اندر قومیت کی بنیادہی پرسہی خیر تھا 1948 میں اسرائیل کے ساتھ اس نے جنگ میں شرکت کی اورکچھ فلسطینی علاقے پراس کا قبضہ بھی رہا پھرفلسطین سے باہر آکر گولان پہاڑی پر اس نے مورچہ جمایا۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ معاہدے میں وہ تمام عرب ممالک سے بہت بعد میں 1949 میں شریک ہوا۔
19499 میں قومی حکومت حسین زعیم کے فوجی انقلاب میں ختم ہوگئی۔ اسی سال ان کے ساتھی سامی ہنادی نے ان کے خلاف فوجی بغاوت کی اورحکومت پر قبضہ کرلیا ان کے آنے کے کچھ ماہ بعد ادیب شیسکلی کا عسکری انقلاب آیا۔ 1951 سے 1954 تک شیسکلی کی استبدادی عسکری حکومت قائم رہی۔ آخر عوامی دباؤ کے نتیجے میں اس نے استعفا دیدیا ۔ شیشکلی کی حکومت گرنے کے بعد دوسالوں تک قومیت پرستوں اور سوشلسٹوں کے درمیان کھینچا تانی رہی۔
1946 تا 19566 دس سالوں کے اندر شام میں بیس کیبنٹ بنی اور بیس وزارتوں کی تشکیل ہوئی اوراس مدت میں چار مختلف دستوروں کی ڈرافٹنگ ہوئی۔
19566 میں سینائی میں اسرائیل کی فوج داخل ہوئی اورنہرسویز کا بحران پیدا ہوا۔ برطانیہ اورفرانس نے اس میں مداخلت کی اوراسے عالمی بحری راہ گذر بنانا چاہتے تھے مگر مصر نے اسے قومی ملکیت بنالی اور اپنا حق تسلیم کرالیا اور تینوں استعماری طاقتیں ناکام ہوگئیں۔ شام اورعراق نے اس سلسلہ میں مصرکی مددکی۔
1956 سے شام میں سوشلسٹو ں کا پلہ بھاری ہونے لگا۔
19577 میں شام اورمصرنے اردن پر قبضہ کرنے کی سازش کی۔ عراق نے اس سازش کو پسند نہیں کیا اورانھیں ایسا کرنے سے بازرکھا۔
19566 میں جب سماجواد گروپ کا شام میں پلہ بھاری ہوگیا توانہوں نے سوویت یونین سے معاہدہ کیا۔ جہاز، ٹینک اورعسکری سامان کے حصول کے بدلے سوویت یونین کی ملک میں غیرملکی مداخلت قبول کرلی گئی۔ اس معاہدہ کے بعد پھر ملک میں بیرون ملک عناصر کی مداخلت بڑھ گئی اوربرابر یہ اثر بڑھتا رہا اور بیرونی مداخلت کا مستقل سلسلہ شروع ہوگیا۔
نہرسویز کے بحران کے سبب مصر اور شام قریب ہوئے اس قربت کے نتیجے میں شام کے صدر شکری قوتلی اورمصر کے صدرجمال عبدالناصر کے درمیان یکم فروری 1958 کو معاہدہ ہوا اوردونوں ملکوں کا اتحاد ’’یونائیٹڈ عرب ریپبلک‘‘ کے نام سے وجود میں آیا اور پارٹی سرگرمیوں پرپابندی لگ گئی۔
شام میں 27 ستمبر 19611 کو ایک فوجی انقلاب آیا اور مصروشام کا اتحاد ٹوٹ گیا اورشام میں ’’سیرین عرب ریپبلک ‘‘کے نام سے نئی حکومت قائم ہوگئی۔
اگلے کئی مہینوں میں شام میں کئی فوجی انقلاب آئے اور پھر 8مارچ 19633 کو بایاں فوجی محاذ برسراقتدار آگیا۔ یہ فوجی آفیسر کے نام سے معروف تھے۔ انہوں نے (NCRC) کے نام سے حکومت بنائی۔ اس محاذ کے فوجی اور سویلین گروپ نے قانونی اورانتظامی اختیار حاصل کرلیا ۔ یہ گروپ شام کی بعث پارٹی کا تھا۔ بعث پارٹی عرب میں 1940 سے سرگرم تھی۔اس سال بعث کی حکومت عراق میں بھی قائم ہوگئی۔
نئی بعث پارٹی حکومت نے اس کی کوشش کی کہ عراق، شام اورمصر کے درمیان ایک اتحاد قائم ہوجائے لیکن نومبر 1963ء میں عراق میں بعث پارٹی کی حکومت گرجانے کی وجہ سے اتحاد کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
مئی 1964 میں امین حافظ کی NCRCC حکومت نے ایک عبوری دستورلاگو کیا اور نیشنل کونسل آف ریولوشن NCR قائم کیا۔ یہ ایک فوجی حکمراں کونسل تھی جس میں ملک کے ہرطبقے کی نمائندگی تھی اس کو نسل کی ایک کیبنٹ بھی تھی لیکن کلی اختیار فوج کو تھا۔
233 فروری کوان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی حافظ امین جیل میں گئے اوران کا عبوری دستور معطل ہوگیا یکم مارچ کو ایک بعث سول حکومت قائم ہوئی اور باہر کا اثرکم ہوا 1967ء میں اسرائیل نے گولان پہاڑی پر قبضہ کرلیا۔ اس سے بعث پارٹی کی سول حکومت کے اثرات ناکے برابر رہ گئے۔
13؍نومبر 19700ء میں وزیر دفاع حافظ الاسدنے فوجی بغاوت کی اورحکومت پر قبضہ کرلیا۔ بعث کی سول حکومت ختم ہوگئی اورحافظ الاسد ملک کا صدر بن گیا۔
حافظ الاسد کے آنے کے بعد فوجی بغاوتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حافظ الاسد نے 19700 سے 2000 تک تیس سال تک شام پرحکومت کی۔
حافظ الاسد سے قبل شام میں اتنی حکومتیں بدلیں اوراتنے تبدیلیاں آئیں کہ جیسے کوئی شخص اپنا لباس تبدیل کررہا ہو۔ ان ساری تبدیلیوں میں فوج کا اور بیرون ملک مداخلت کا ہاتھ رہا۔ ان تبدیلیوں میں مٹھی بھر عسکری اورسیاسی غلط عناصر کا ہاتھ رہتا تھا۔ اس تبدیلی میں عوام اور علماء کا بلکہ اچھے سیاست کاروں کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ انھیں الگ کرکے قومیت پر ست پھر سوشلسٹ کمیونسٹ اوربعث کے لوگ ملک کے ساتھ کھیل کرتے رہے۔ جس قدر اس ملک میں 24 سالوں کے اندر انقلابات وتغیرات آئے ہیں دنیا کے کسی ملک میں اتنا انقلاب نہیں آیا۔
ملک میں ایک سے ایک قد آور علماء اور سیاست دان موجود مگر سب درکنار معروف دوایسی، مصطفی حسن سباعی ، مصطفی رزقاء ، عبدالقادر مبارک، عمربہاء الدین جیسے عظیم علماء اور اسکالر موجود تھے اورسیاست میں ان کی زبردست حصہ داری بھی تھی۔ انہوں نے نظام حکومت میں حصہ بھی لیا اوراپنی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اورشامی پارلیامنٹ کو وہ آہنگ وزبان دیا کہ دنیا کے کسی پارلیامنٹ کو ایساآہنگ اورایسی زبان نہ ملی ہوگی۔ لیکن جب سیہ کاریاں داخلی وبیرونی دسیسہ کاریاں ملک کا مقدر بن جائیں توکسی کی صلاحیت اورمہارت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
اس مسلسل انقلاب اوراتھل پتھل میں قومیت پرستی، کمیونزم، بعثی الحاد کا بھرپور حصہ رہا اور قوم وملک ایک کھلونا بن گئے۔ ملک میں بیرونی کھلی جارحیت کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ قوم پس گئی، ملک پچھڑگیااور بیرونی عناصر ملک کو تباہ کرتے رہے ۔
19700 سے حافظ الاسد نے ملک کو اپنی جاگیر بنالی اب رہی سہی کسرپوری ہوگئی۔ یہ دنیا کے مجرمین میں سرفہرست آئے گا۔ یہ بعثی کمیونسٹ بھی تھا نصیری شیعہ بھی تھا علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نصیری شیعوں کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان کی پوری تاریخ ہی رہی ہے کہ دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی تباہی کا سامان کریں اور گھات لگاکر مسلمانوں پرحملہ کرتے رہیں۔
شام میں سارے انقلابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک مٹھی بھر نصیریوں کے ہاتھ میں آگیا۔ اورمسلمان درکنار کردیے گئے۔ حافظ الاسد نے ملک کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد پوری طرح اپنے قبضے میں جکڑ لیا اورسارے مخالفین سے اس نے نمٹ لیا۔ ملک پر نصیری کنٹرول کے لئے اس نے ایسا نظام بنالیا کہ اس کے تسلط سے لوگ باہر نہ جاسکیں۔
اس کے ظلم وستم کے ریکارڈ میں یہ بھی ہے کہ اس نے بیس ہزار علماء کو مارڈالا۔ انھیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور جرمنی کے گسٹاپوکی طرح اس نے ایسا انتظام کیا کہ انھیں ایسے کیمیکل میں ڈال دیا گیا کہ وہ پگھل کر بہ گئے۔ یہ سب بیت گیا لیکن مسلمان اس سے بے خبررہے۔ یہ کون سے لوگ تھے یہ اہل سنت علماء تھے جن کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا اہل سنت معاشرے اور سوسائٹی کا یہ کریم کس بے دردی کے ساتھ ختم ہو گیا کس نے اس کا حساب رکھا؟ دورتھا کمیونسٹ بربریت کا۔ اس بربریت کے سامنے کون ٹکتا تھا اورکسے اس کی خبر ہوتی تھی۔
19822میں شام کے مشہور شہر حماۃ میں نصیری ظلم وستم اور استبداد کے خلاف اہل سنت نے بغاوت کی۔ اس میں علماء عوام، عسکری سب شریک تھے۔ حکومت اور حماۃ کے باشندوں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی۔ شہر حماۃ جنگی میدان بن گیا تھا۔ بہت سے سنی پائلٹ فوج سے اپنا جہاز لے کر نکل آئے تھے یہ جنگ سول اور فوج کے درمیان جنگ تھی بلکہ فوج بمقابلہ فوج جنگ تھی۔ نصیری اور اس کے ہم نوا یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے کہ شام سے وہ بے دخل ہوں ۔ بڑی بے رحمی سے حماۃ میں سنیوں کو کچل دیا گیا تھا۔ آٹھ دس ہزار لوگ اس میں مارے گئے تھے۔ اور پورا شہر تہس نہس ہوگیا تھا ۔ آج تک وہ علاقہ کھنڈر بنا ہوا ہے جہاں یہ جنگ لڑی گئی تھی۔
خالص نصیری حکومت قائم ہونے کے بعد پورا ملک سنیوں کے لئے جیل خانہ بن گیا اور ایک عالم بھی جیل جانے سے سلامت نہ رہا۔ حافظ الاسد کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ملک میں ایمرجنسی لاگو کردی گئی تھی۔ تقریبا چالیس سال سے ملک میں ایمرجنسی لاگو ہے اور اب توعملا مارشل لا لاگو ہے۔
شام میں نصیری حکومت قائم ہونے کے بعد ہمیشہ حکومت کا موقف عوام دشمنی کا ہوتا تھا۔ حافظ الاسد نے نحوست زدہ رویہ اختیارکیا اورہمیشہ مسلمانوں کی اذیت کا باعث بنا۔ اسے فقط آتش وآہن کے ذریعہ ملک پرحکومت کرنے کا شوق تھا۔
اس نے ملک کے تانا بانا اوراسلامی شناخت کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے دور میں ہردین پسند عالم وعامی بلائے ناگہانی کا شکار تھا۔ مخابرات اور انتظامیہ کے بلیک لسٹ میں اس کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے دورمیں شام جیسی مردم خیز سرزمین علم وعلماء کے لئے بانجھ بن گئی تھی علم وثقافت کا چراغ بجھ گیا تھا۔ اس نے ملک کو تمام خیر اور خوبیوں سے محروم کرکے ایک عامیانہ اورفاسقانہ تہذیب ڈیولپ کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس میں لوگ فقط روزی روٹی کے طلبگار رہ جائیں اور اس کے لئے بھی حکومت کے دست نگررہیں۔ یہی ساری ظالمانہ اور سفاکانہ نصیری پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے ملک گمنام ہوگیا اورلوگ اپنے خول میں بند ہوکر رہ گئے۔ اسلام اورمسلم دشمن نصیریت کو یہی مطلوب تھا اوریہی ہوا۔
یہ تواس کی اندرون خانہ پالیسی تھی جس کو اس نے بڑی سختی اور قساوت سے لاگو کررکھا تھا۔ چالیس سالوں سے یہ پالیسی ملک میں لاگو ہے اورلوگ نصیریت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ اورعلمی ،معاشرتی اورمعاشی بحران سے دوچارہیں۔
اس نے اپنی بیرون ملک پالیسی یہ اپنائی اوریہی پالیسی اپنانی اس کی مجبوری تھی کہ کمیونسٹ لابی سے جڑا رہے اور1956 ہی میں یہ سلسلہ بڑی مضبوطی سے قائم ہوچکا تھا ۔کمیونسٹ نوازوں نے سوویت یونین سے ایسے معاہدے کرلئے تھے کہ ہتھیاروں کے حصول کے لئے ملکی معاملے میں ان کو مداخلت کی پوری چھوٹ دے رکھی تھی۔ حافظ الاسد کو جب سیاسی استقلال مل گیا تواس نے اس تعلق کو پوری طرح مضبوط کیا اورملک کو کمیونزم کے جہنم میں ڈھکیل دیا اوراس کا پورا اعتماد سوویت یونین ہی پررہا۔
شام کی حافظ الاسد حکومت کی نصیریت اس کی سب سے بڑی پہچان تھی۔ نصیریوں کی قلیل تعداد کے مفادات اندرون ملک اوربیرون ملک کیا ہوسکتے تھے وہی صدر کے پیش نظر تھے۔ اس لئے اسے کسی ایسے حوصلے اورامنگ کی ضرورت نہ تھی جوملک کے طول اورآبادی کے حجم کے ہم آہنگ ہو ۔اس کی پوری مدت حکومت میں یہی بات نظر آتی ہے کہ اس نے تعمیرترقی اور تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی اور بیرون ملک دیگر ممالک سے اس طرح اقتصادی تعلیمی اور اورترقیاتی تعلقات میں سرگرمی نہ دکھلائی جس سے ملک کے باشندوں کو طویل اورمتنوع فوائد حاصل ہوں۔ اسے سوویت یونین ، لبنان اورایران سے گہرے تعلقات بنانے میں دلچسپی رہی۔ سوویت یونین اس کا نظریاتی آقاتھا، ایران مذہبی آقا تھا اورلبنان پڑوسی اور استحصالی کھیل کھیلنے کا ذریعہ۔
1958 میں بھی شام اورمصر نے اردن پر قبضہ کرنے کا پلان بنایا تھا ۔
فلسطین کے قضیے کو اس صدرنے بری طرح استعمال کیا اورفلسطینیوں کو برباد کرنے کی ہرطرح کوشش کی۔ اس نے بلیک ستمبر میں فلسطینیوں کی مددکے لئے اردن فوج بھیجی تھی۔ اردنی فوج نے نصیری فوج پر بمباری کی۔ تب نصیری فوج بہ ہزار رسوائی وہاں سے بھاگی۔
نصیری صدر ہمیشہ فلسطینی کاز کا حمایتی بنارہا اوراس کا ز کو شیعوں نے بھی سنبھالنے کی کوشش کی اور س کے ذریعے اہل سنت کی پوزیشن ڈاؤن کرنے کی تدبیریں ہوتی رہیں۔ لبان کو شام کی نصیری شیعہ حکومت نے بفرژون بنالیا تھا اور لبنان کی پوزیشن خراب کررکھی تھی۔ لبنان میں پناہ گزین فلسطینیوں پر 1982ء میں شام وایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروپ الامل وغیرہ نے عرصۂ حیات تنگ کردی ۔ رمضان کے مہینے میں صابرا وشاتیلا کیمپ میں فلسطینیوں کو ذبح کیا گیا، ان کا دانا پانی بند کردیا گیا جان بچانے کے لئے انھیں کتے بلی اور مردوں کے گوشت کھانے پڑے۔ آخرانھیں مختلف ملکوں میں بکھر جانا پڑا اور یاسر عرفات کا ا پنا ہیڈ کواٹر تونس میں منتقل کرنا پڑا۔ اوربار بارکی دربدری کے بعداسرائیل کے ساتھ صلح کا ڈرامہ کرنے کے بعد انھیں سرزمین فلسطین میں واپسی کی اجازت ملی۔
اس کھینچ تان میں شیعوں کاایک طاقتور گروپ وجودپایا جس کا نام حزب اللہ رکھا گیا۔ ایران اور شام کی مشترکہ جدوجہد اورفلسطین کا ز کے پردے میں لبنان حزب اللہ لبنان بن گیا اورلبنان میں حکومت کے اندر حکومت قائم ہوگئی اورلبنان کی مسلم سنی اکثریت کو شیعوں نے یرغمال بنالیا اس مشترکہ پالیسی سے پورا خطہ یعنی شام ،لبنان اورعراق شیعہ اثرات کا خطہ بن گیا۔
حزب اللہ دراصل شام ،ایران اوراسرائیل کی مشترکہ ضرورت ہے تاکہ اسرائیل کے لئے خطرہ کم ہو۔ فلسطین کو شام، ایران اورحزب اللہ نے چکمہ دے رکھا ہے۔ انھیں لوگوں کی شہ پر حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑی اور غازہ پٹی کو کھنڈر بنادیا اورفلسطینیو ں کا مسئلہ کمزور ترہوکر رہ گیا۔
اسرائیل کے لئے بروقت فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اسے جس طرح چاہے گھمائے اور خودفلسطینی بھی کہ انھیں جس طرح چاہتا ہے پیٹ لیتا ہے۔ دس سالوں کا ان کا انتفاضہ اورپھر دوبارہ انتفاضہ جوعالمگیر شہرت حاصل کرچکا تھا اور فلسطینی بچوں کی شجاعت کے آگے اسرائیلی فوج نے گھٹنا ٹیک دیا تھا اوردنیا میں انھیں زبردست حمایت ملی تھی۔ ان تمام کو حماس کی حمایت اورحزب اللہ، ایران اورشام کے فریب نے زیروبنادیا۔
حزب اللہ، شام ،ایران اوراسرائیل کا خطے میں مشترکہ مفاد ہے اوروہ انھیں حاصل ہے علاقے میں ان کے اثرات بڑھے، انھیں تحفط ملا اوران کے مفادات کو تحفظ ملا۔ اس جتھے سے اسرائیل کو فروغ وتحفظ ملا، فلسطین کازپٹ گیا۔ فلسطینیوں کا خطرہ نہ رہا۔ شام سے اسرائیل کو خطرہ نہیں۔ لبنان اور حزب اللہ اس کے کمانڈ میں ہیں۔ مصر اور اردن سے صلح ہے۔ یہ مسلم خطہ شیعہ اثرات والا خطہ بن گیا ہے۔ اس سے زیادہ کیا چاہیے تھا؟ شام کے صدرحافظ اسد نے جس روباہی سیاست کو اختیارکیا تھا سوویت یونین کے گرنے کے بعد اس کا مکمل انحصار ایران پر ہونا تھا اور پھر اس خطے میں ایک شیعہ سازشی سیاست کاری شروع ہوئی۔ سال 2000 میں انتقال سے قبل حافظ الاسد اور ایرانی رہنماؤں نے گیم پلان مکمل طورپر تیار کرلیا تھا اوریہ پورا خطہ یعنی شام، لبنان، فلسطین، عراق، ایران اوراسرائیل شیعہ اور یہودگیم کھیلنے کے لئے ایک طرح سے خالی تھا۔ اردن مصرسے اورکئی دیگرملکوں سے اسرائیل کی صلح تھی لہٰذا بہت جلد پورے خطے میں ان کا اثر ورسوخ بڑھا اوراستعماری قوتوں سے بھی انھیں شہ ملی۔ اوربہت جلد پورا خطہ شیعہ خطہ بن گیا۔ یہ ہے نصیریت کا مکروہ چہرہ۔
حافظ الاسد کے مرنے کے بعداس کا بیٹا بشارالاسد جانشین بنا۔ اس نے باپ کی شہنشائیت کو اپنی جائداد سمجھا اور خود مستبد اعظم بن گیا اورباپ کی ساری پالیسیوں کو اپنا لیا اورشیعہ یہود گیم کوپروموٹ کرنے میں لگ گیا۔ اس کے دورمیں سارے گیم پلان کامیاب ہوتے چلے گئے۔
فروری 20111ء سے عالم عرب میں سیاسی تبدیلی کی لہر چلی تھی، کئی بت گرگئے اور اپنے سیاہ کارناموں کی سزا پائی اورپارہے ہیں اورکئی ایک بت گرنے والے ہیں۔ اس سیاسی تبدیلی میں شیعہ گیم پلان اورشیعہ ویہود ابعاداربعہ متحرک ہوا کہ اسے بھی اس سیاسی تبدیلی کی لہرمیں کچھ ہاتھ لگ جائے لیکن اب تک انھیں کچھ نہ ملا۔ نہ بحرین میں ملا، نہ سعودی عرب میں ، نہ لیبیا ومصر میں نہ یمن میں ہرجگہ یہ لوزرہی ہیں۔ شام ان کا رابعہ الاثافی ہے۔ وہاں لہر چل پڑی ہے اور پورا ملک جاگ اٹھاہے۔ چالیس سال سے لگے ایمرجنسی کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اصلاح کی بات کی گئی۔ ایمرجنسی کو اٹھانے کی بات کی گئی لیکن قوم ان یہود صفات دشمن اسلام نصیریوں پر بھروسہ کرنے کو تیارنہیں ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے قصبات دیہات اورشہروں میں ہرجگہ بغاوت پھیل گئی ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں عوام اورپولیس وفوج میں دست بہ دست جھڑپیں ہورہی ہیں اورنصیری انتظامیہ وفوج کے ستم کا یہ حال ہے کہ پوری حکومتی مشینری پولیس فوج پورے ملک دیہاتوں شہروں اورقصبوں میں پھیل گئی ہے اور عوام کو اس طرح کھدیڑ کھدیڑ کاماررہی ہے جیسے امریکہ میں گورے سرخ انڈین کومارتے تھے اور آسٹریلیامیں وہاں کے آدی باسی ابروجنیوں کو مارتے تھے۔
نصیری حکومت کی مہربانی کا یہ حال ہے کہ اس کے اندر ذرا بھی مسلمانوں یعنی اہل سنت کے تئیں ہمدردی نہیں ہے ایسا لگتا ہے جیسے یہ استعماری حکومت ہے اور شام کے مسلمان نصیری استعمار کی رعایا ہیں ۔ اب تک ہزاروں مسلمان شام میں مارے جاچکے ہیں اورلاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ شامی مسلم بھائیوں کی ایک بڑی تعداد ترکی میں پناہ گزیں ہے۔ نصیری فورس سرحد پار کرکے پناہ گزینوں کو مارنے کی کوشش کرتی ہے۔ جن مظلوموں نے لبنان میں پناہ لی ہے ان کے لئے خیر نہیں ہے۔ لبنان شام کا بفروژون ہے پھروہاں حزب اللہ ہے۔ وہاں نصیری فوج اورپولیس کو اپنے شہریوں کا پیچھا کرنے اور انھیں مارنے میں کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے۔
شام میں مہینوں سے یہ سلسلہ ظلم وستم چل رہاہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں کا ضمیر جاگ چکا ہے اور ہرجگہ نصیری ڈکٹیٹر خونخوار اورظالم بشارالاسد کی مذمت ہورہی ہے اورساری دنیا کی نگاہ میں اس نے استبداد کی ساری سرحدوں کو پارکردیا ہے اورلوگوں کی نگاہ میں ننگا ہوچکا ہے لیکن ابعاد اربعہ شام حزب اللہ ، اسرائیل اور ایران ایک ساتھ ہیں۔ یہ سب ہم نواہیں کہ شام میں چاہے جتنا ناحق خون بہ جائے لیکن حکومت نصیری ہی رہے اور بشارالاسد شام پر مسلط رہے۔ اس مربع کا یہ نظریہ ہے کہ خطے میں یہود اور تشیع کی برتری کے لئے شام میں بشارالاسد کو شام پرحکمراں بنا رہنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ اگرشام سے بشار الاسد جاتا ہے اور سنی اکثریت کی حکومت قائم ہوتی ہے توشام سے نصیری شیعہ کا خاتمہ لازمی ہے پھر حزب اللہ کی دھما چوکڑی بھی ختم ہوگی اوریہ کاغذی شیر اورلبنان کی سنی آبادی کے لئے وبال جان اور بھیڑےئے اپنی اوقات میں آجائیں گے۔ لبنان بھی حزب اللہ کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوجائے گا اورفلسطینی کاز بھی مضبوط ہوگا اور فلسطینی توانا ہوں گے۔ اسرائیل کے لئے خطرہ بڑھے گا تشیع لابی سمٹ کر رہ جائے گی اور پورے خطے بلکہ پورے عالم عرب کا نقشہ بدل جائے گا اورسب سے زیادہ نقصان شیعہ لابی کا ہوگا ۔ عراق میں بھی اس کا زبردست مسیج جائے گا اور تشیع جبرکی چولیں ہل جائیں گی۔
یہی پیش منظر ہے اورمستقل کے نمایا ں خدو خال ہیں کہ ایران، اسرائیل اورحزب اللہ سب کے بے تاب ہیں اور شام میں بشارالاسد کی حکومت کی بقاکو اپنے لئے لازمی سمجھتے ہیں اور اس کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں ورنہ انھیں یہ لگتا ہے کہ اگرشام گیا توان کا زورخطے میں ٹوٹ جائے گا۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے ایران اور حزب اللہ کھل کر شام کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہوسکتا ہے ان کی ملیشیا شامی فوج اور پولس کے ساتھ مل کر شام کے اہل سنت کوپورے ملک میں قریہ قریہ شہر شہر مارنے اورکھدیڑنے میں لگی ہو۔یہ حقیقت ہے کہ حزب اللہ کے خونخوار اور ایران عسکری گماشتے شام میں نصیری حکومت کو مضبوط کرنے اورشامی عوام کو مارنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ایران ، حزب اللہ ، نصراللہ انصاف کی دہائی لگانے والے، اورعوام کی حمایت میں چلانے والے مفاد کے ایسے اسیر ہوئے کہ ایک ظالم اورسفاک نصیری کے حامی بن گئے اوربیس تیس سال سے انصاف کی رٹ لگانے والے سارا سبق بھول گئے۔ یہ خونخوار لوگ کیا جانیں انصاف کو یمن بحرین سعودی عرب اورگلف میں آباد پبلک کے لئے ان کے دلوں میں بڑا درد ہوتاہے اورمارے درد کے بے تاب ہوجاتے ہیں، ہرطرح کی اچھل کود مچاتے ہیں لیکن جب شام میں مسلم عوام مسلم بھائی مارے جاتے ہیں۔ قریہ قریہ شہر شہر فوج اورپولیس ان کا پیچھا کرتی ہے انھیں تباہ کرتی ہے اوران پر ہوائی حملے ہوتے ہیں توعوام کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہانے والے اور انصاف کی بات کرنے والے ایران اور حزب اللہ گونگے بہرے بن جاتے ہیں اورآنکھ بند کرکے ظلم وستم کی حمایت کرتے ہیں اوریہ حمایت ہرطرح کی جاری ہے ۔ مالی، اخلاقی عسکری ہرقسم کا تعاون بشارالاسدکو مل رہا ہے۔ سیاسی مشیر بھی بھیجے جاتے ہیں اورعسکری ماہرین بھی۔ یہی ہے نفاق اورمفادپرستی بس ذاتی منفعت کے مطابق ہی سارا شور ہنگامہ ہے انصاف اورحق کی بات محض دھوکہ دینے کے لئے ہے۔
کیا شام نصیری استعمار صفت حکمرانوں سے نجات پاسکے گا؟ حالات جس طرح بگڑرہے ہیں اورجس طرح ملک کی پوری پبلک اٹھ کھڑی ہوئی ہے اورماحول جس طرح بن گیا ہے ان سب کو اگر سامنے رکھا جائے تولگتا یہی ہے کہ بشارالاسد کے لئے جانا طے ہے۔ لیکن خطرہ اس کا بھی ہے کہ جس بے رحمی سے نصیری گورنمنٹ عوام سے نمٹتی رہی ہے یا موجودہ حکمراں جس قساوت اورشدت سے عوام سے نمٹ رہے ہیں کہیں ایسا ہو کہ پھر نصیری حکومت کو غلبہ حاصل ہوجائے اور عوام تھک ہار کر اس کے زیر نگیں آجائے اورسرنگوں ہوکر رہ جائے۔
امکانات اس کے بھی ہیں کہ شام آزاد ہوجائے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ بعثی نصیری حکومت اپنے یاران غار امریکہ، حزب اللہ، ایران اور اسرائیل کے سہارے پھر ٹک جائے۔ مستقبل میں کیا ہوگا اس کا علم کس کو ہے؟ لیکن سیاسی ارہاصات سے اندازہ ہوتاہے کہ بشارالاسد کو اب جانا ہے انھیں کوئی شاید نہ بچاسکے۔ اللہ تعالیٰ جلد وہ دن لائے جس میں شامی مسلمان اپنے حقوق پا سکیں اورانھیں مکمل آزاد حاصل ہو۔
شام کے سنی مظلوم باشندوں کے حق میں ترکی کا رول نہایت موثر ہے۔ ترکی کی پالیسی یہ تھی کہ پڑوسیوں سے تعلقات اچھے بنائے جائیں۔ چند سالو ں میں اس نے شام سے مثالی تعلق قائم کرلیا حتی کہ اس غریب ترین پسماندہ ملک سے اس نے سال گذشتہ 20 ارب ڈالر کا بزنس کیا۔ لیکن جب سے بشار الاسد کی حکومت شام کے سنیوں کی نسل کشی پر کمربستہ ہوئی ہے بشار الاسد سے ترکی تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ ترکی نے شام میں جاری ستمہائے دراز کے خلاف واضح موقف اختیارکیا ہے۔
ترکی نے عالمی اورمقامی ہرسطح پر بشارالاسد حکومت کے رویے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ خطے میں یہود اور تشیع کے ناپاک عزائم کی دیگر عرب ملکوں کی طرح اسے بھی خبرہے۔ اس وقت شام علاقائی اثر ورسوخ اور مفادات کی جنگ کاسب سے اہم مرکز بنا ہوا ہے۔ نصیریت یہودیت اورخمینیت کا مثلث جان توڑکوشش کررہا ہے کہ بشارالاسد ہرحال میں شام پر قابض رہے۔ حزب اللات یعنی حزب اللہ اور حسن عدواللہ یعنی حسن نصراللہ نے اپنی ساری عسکری اعلامی ادعائی اورعنتری طاقت جھونک دی ہے کہ ان کا قاتل خونی نصیری شیعہ بھائی جلاد الارنب یعنی بشارالاسد شام کے سنیو ں کے عزت وآبرو اور جان سے کھیلتا رہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اور حلب جلا دیا گیا

شیخ عبدالمعید مدنی علیگ
دنیا کے وحشیوں نے آخر کار حلب کے باشندوں کو جلا ڈالا،رافضیوں نے سقوط حلب کو سقوط بغداد سے آخرکار جوڑ ہی دیا۔ آج طوسی اور ابن علقمی کی اولاد نے اپنی سفاکیت اور غداری کی تاریخ پھر دہرا دی۔ روس روسیاہ کے کرائے کے ٹٹوؤں نے اپنی اسلحہ سازی کی فن کاری دکھلانے، بھیڑیوں اور لومڑیوں کو بچانے، افغانستان کا بدلہ لینے اور روس کی مسلم آبادی کو ڈرا کر رکھنے کے لیے وہ کیا جو ایسے درندوں کے کرنے کے لیے طے ہے۔ رافضیت کو کیا لینا دینا انسانیت سے، مقدسات سے، بچوں سے، کمزوروں سے، مریضوں سے، بوڑھوں سے اور عورتوں سے۔ ان کی کمزوری اور فریاد سے تو اسے ہمیشہ لطف لینے کا شوق رہا ہے۔ آج دنیا کے قصاب اور بھیڑیے جیت کا جشن منا رہے ہیں اور انھیں جشن منانے کے لیے دن بھی ملا ہے کرسمس ڈے کا، پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
بے شک تم جشن مناؤ، تم نے سروں کی فصل کی کاٹی ہے، خون کی ندی بہائی ہے، معصومیت کو روندا ہے، حیا کو پامال کیا ہے، عربی نخوت کو خاک میں ملایا ہے۔ بے شک تم جشن مناؤ اور اسے جلا بخشو کہ تمہیں یہ نظر آرہا ہے کہ جرمنی برطانیہ اور فرانس کے چہرے اس جیت سے لٹکے ہوئے ہیں، تمہارے جشن کے اجالوں میں یہ نظر آرہا ہے کہ سعودی عرب مضمحل ہے، سارے مسلمان رو رہے ہیں، حلب کے سقوط پر ماتم کر رہے ہیں، حلب کا سقوط عربی شہامت کے لیے زخم ہے، حلب کا سقوط علم و ثقاہت کے لیے کاری ضرب ہے، حلب کا سقوط عقیدے اور حق کی لڑائی کے لیے ایک زبردست چوٹ ہے، انسانی گوشت کھانے والو اور انسانوں کا لہو پینے والو بے شک تم جشن مناؤ کہ آج تمہیں اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی کا صلہ ملا ہے۔
لیکن یاد رکھو معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا تم سمجھتے ہو۔ تم جشن ضرور مناؤ کہ تمہارے خواب پورے ہوگئے ہیں، تہران، بغداد، بیرورت اور دمشق کی شاہراہیں تمہارے لیے کھل گئی ہیں اور تم نے جان لیا ہے کہ تم شرق اوسط کے آقا بن گئے ہوجس کے لیے سارے اعداء اسلام تمہیں چالیس سال سے تیار کر رہے تھے، بے شک تم نے حلب کو جلا دیا اور شام پر مکمل قبضے کا سہانا خواب پورا ہوگیا، لیکن یاد رکھو خواب ابھی باقی ہیں، خوابوں کے سہارے جو جینے کا جتن کرتے ہیں جب خواب ٹوٹتا ہے تو مر جاتے ہیں۔
خواب ابھی باقی ہیں جو حقیقت بنیں گے، آج ہمارے لیے جنگ احد ہے، کل خندق آنے والا ہے، پرسوں فتح مکہ ہے پھر [وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّہِ أَفْوَاجًا ] کافیصلہ کن معرکہ ہوگا۔ جنگ احد میں ہمارے لیے نقصان نہیں اور معرکہ حق و عقیدے میں یہ مرحلے آتے ہیں، سارے انسانی لہو پینے والے ایک ہوگئے اور کاروانِ حق کے درمیان دراڑیں ہی دراڑیں آگئیں اور ہم ہار گئے۔ لیکن یاد رہے ہم گھاٹے میں نہیں ہیں حق و عقیدے کی زندگی اور لڑائی کا ایک لمحہ کفر اور جاہلیت کی زندگی کے سو سالوں کے برابر ہے۔ بزدلوں منافقوں اور دشمنوں کے غلاموں کی کیا اوقات ہے۔ معرکہ احد سے ہمیں پیغام ملا ہے[إن موتانا فی الجنۃ وموتاکم فی النار] غزوہ اُحد سے ہمیں سبق ملا ہے تم [اعلُ حُبل] کے نعرے لگاؤ، ہم [اللہ اعلی و اجل] کا نغمہ گائیں گے۔ غزوۂ احد نے ہمیں بتلایا ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالی ہمارا آقا ہے اور خدایان کفر تمہارے آقا ہیں۔ تمہارا نعرہ ہے [لنا عزی ولاعزی لکم] اور ہمارا نعرہ ہے [اللہ مولانا ولامولی لکم] اور ہمارا آقا ہمیں ضائع نہیں کرے گا ہم خود ضائع ہو جائیں یہ الگ بات ہے۔
غزوہ احد نے ہمیں سکھلایا ہے ہمارے مجاہدین زخمی حالت میں بھی تمہیں حمرء الأسد تک دوڑائیں گے، خواب ابھی باقی ہیں، سحر ابھی نہیں ہوئی ہے۔
لہو پینے والے درندوں سے آزادی کی ہم نے جنگ لڑی تھی لیکن اسے خارجی قاتلوں، رافضی وحشیوں نے، بے دینوں، قومیت پرستوں نے علمانیت کے مجنونوں نے بگاڑ دیا، منافقوں نے اسے تہس نہس کر دیا، امریکہ اور ناٹو کی غداریوں نے اسے ہچکولے دے دے کر تباہ کر دیا، ناٹو نے عربوں کے ساتھ دھوکہ کیا، ترکی کے ساتھ دھوکہ کیا، ترکی اپنے شاندار موقف سے ہٹ کر ایران اور روسیاہ رسیا سے مل گیا اور اردغان کی تعلیوں کو مجبوری میں بدل دیا گیا، مصر کی غداری بھی سامنے ہے، روسیاہیاں ہی روسیاہیاں۔ اکیلے سعودی عرب کس کس محاذ پر لڑتا، اس کے لیے اس کے بازو میں فرنٹ کھو دیا گیا، اس کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اصول و عقیدے کی لڑائی تنہا ساری دنیا سے لڑتا رہا اور سب تماشائی بنے رہے بلکہ دنیا بھر کے تحریکی، خارجی، قبوری اور صوفی اسے گالی دے کر جہاد کا فریضہ نبھاتے رہے، والعیاذ باللہ۔
داعش کی خارجی حماقتیں اور دیگر خارجیوں کی خود تباہی کی حماقتیں لہو پینے والے وحشیوں سے آزادی کی جنگ کی تاراجی کا سبب بن گئیں۔ دہشت گردی کی آڑ میں دنیا کے سودا گران موت نے وحشیوں کو کھلی چھوٹ دے دی اور آزادی کی جنگ لڑنے والے تباہ کردیے گئے اور ساری دنیا بے یارو مددگارمعصوموں مریضوں بچوں اور بوڑھوں کوتنہا چھوڑ دیا وہ روتے چلاتے خاموش کر دیے گئے۔
جیتنے والو! یاد رہے خواب ابھی باقی ہیں، سقوط حلب ہمارے لیے جنگ احد ہے، یہ تنبیہ ہے صفوں کو درست کرنے کے لیے، منافقوں کو، بددینوں کو اسلامی صفوں سے نکالنے کے لیے اور روحانی و اسلحہ جاتی تیاری کے لیے، تمہارا دور پورا ہو چکا، تم صلیبی جشن مناؤ، صہیونی جشن مناؤ، ریچھی جشن مناؤ طوسی اور ابن علقمی جشن مناؤ، لیکن یاد رہے اب ہمارا دور آنے والا ہے سورۂ آل عمران کی تربیت شروع ہو گی، پھر خندق ہے، حدیبیہ ہے خیبر اور فتح مکہ ہے اس دن [یومئذ یفرح المومنون] کا جشن ہوگا، ان شاء اللہ۔
امت محمد کی تاریخ میں تسلسل ہے، ابن سبا کی امت کے حق میں صرف غداری لکھی ہوئی ہے اور غداری کی عمر لمحاتی ہوتی ہے، اس دور کا خندق، خیبر اور فتح مکہ آنے میں دو سال چار سال پانچ سال سے زیادہ لگ سکتا ہے، اس لیے کہ نبی کے بجائے وارثین نبی ہیں اور صحابہ کے بجائے ان کی راہ کے راہی ہیں، لیکن یہ سارے مراحل آئیں گے اور حتما آئیں گے پھر اس دن خارجی رافضی اور تحریکی تثلیث کا گٹھ جوڑ نہیں رہے گا سب اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔
جب سیدالأنبیاء اور اصحاب کرام کے لیے قانون الٰہی ہے [إِن یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہُ] تو ہم کیا ہیں۔جب قدسی صفات رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کی جماعت کے لیے [إنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِاءَتَیْنِ] کی شرط ہے۔ تو کہاں کے ہم طرم خاں ہیں کہ یہ شرط ہم پر نہ لاگو ہو اور ہماری جیت کے لیے وہ لازمی نہ ہو، جب ان کے لیے [وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّکُمْ] کاقاعدہ ہے تو ہم کہاں سے اس سے اوپر جا سکتے ہیں۔
جشن منانے والو! یاد رکھو امت محمد ﷺ نہ ٹوٹتی ہے نہ گر جاتی ہے نہ بھاگتی ہے۔ وہ زخم خوردہ ہو سکتی ہے لیکن زخم بھرتے ہی جوجھنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی بیت المقدس کی آزادی کی لڑائی ہماری تاریخ ہے۔ عین حالات کا فیصلہ معرکہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ سقوط بغداد کے عثمانی خلافت کا قیام ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور اب تو حق و باطل کی آخری جنگ کا وقت قریب آرہا ہے۔ یہ جنگ کیا ہوگی، اس میں سارے غدار، سارے وحشی اور سارے ظالم مارے جائیں گے، ان کے وجود سے شجر و حجر نفرت کریں گے، کاروان دجال کے سارے ساتھی مارے جائیں گے اور معرکہ بپا ہوگا۔ حرمین کو دجال سے تحفظ ملے گا اور اسے آزاد کرانے یعنی اسے ڈھانے والے زمین میں دھنسا دیے جائیں گے، سرزمین شام میں آخری معرکہ بپا ہوگا، دجال کے لشکر میں قیادی رول ایران کے طبلسان والوں ہی کا ہوگا، شام کی سرزمین اس معرکے لیے تیار کی جارہی ہے، شامی اور یمنی اس معرکے میں قیادی رول ادا کریں گے ارہاصات نمایاں ہو رہے ہیں۔
جشن منانے والو حزب اللہ، شیعہ ملیشیا، پاسداران انقلاب، نصیری شام، روسیاہ رسیا جشن منا لو پھر موقع نہ ملے گا، تحریکی خارجیو تکفیریو ایران کے اذناب جشن منا لو پھر شاید اب دوبارہ جشن منانے کا تمہیں موقع نہ ملے گا۔
سقوط حلب کے جشن میں ان سب کو اس کا نشہ ہے کہ اب کے سعودی عرب کی باری ہے حتی کہ سعودی عرب کے تحریکی خارجی بھی رافضی ایران کا گن گاتے ہیں، سفر حوالی، سلمان عودہ، عائض القرنی بھی مگن ہوں گے، شرق اوسط کے تحریکیوں کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے کہ سعودی عرب کو رسوائی و پسپائی ہوئی اور برصغیر کے خارجی تحریکیوں کے خوشی کے کیا ٹھکانے کہ ان کا ہیرو سرخرو ہو گیا اور مودودی کی غلط ٹھہرائی ملوکیت کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یاد رہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
سقوطِ حلب امت اسلامیہ کے لیے بہت بڑا المیہ ہے اس المیے سے عبرتیں اور نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں، منافقین بے نقاب ہوئے، غدار پہچانے گئے، مکار شناخت میں آئے، چہروں سے پردے ہٹے۔یہ سقوط حلب کی حصول یابیاں ہیں، یہ بہت اہم ہے، لیکن ہمیں امید نہیں ہے کہ اب بھی تحریکی سدھریں گے، شاید اب بھی ان کے دل و دماغ کے تالے نہیں کھلیں گے، اس سے زیادہ بے بصیرت اور متعنت قوم پوری تاریخ اسلام میں نہیں ابھری۔رافضیت جو اہل سنت کے نزدیک بارہ سو سال مرفوض رہی، اسے تحریکیت نے قبولیت کا درجہ دیا، خارجیت تکفیریہ قتالیہ ہمیشہ اہل سنت کی طرف سے رفض کا شکار رہی لیکن تحریکی قوم نے اسے پالا پوسا دودھ پلایا اور اسے مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے میدان میں اتار دیا۔ اس وقت جو مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن ہیں، تحریکی ار ان کے ہمد دم و ہم ساز ہیں۔
دین کے نام پر نفس پرستی کی دکانیں لگانے والے اور امت کو ٹھگنے والے ستر،اَسّی(۷۰،۸۰۰) سال سے صرف مکروہات، ممنوعات، منجسات اور طغیان و عصیان کی کاشت کرتے رہے اور اس پورے وقفے میں اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کے سوا انھیں کبھی کچھ نہ سوجھا۔ ان کی آخری خواہش ہے کہ حرمین میں ان کی خون آشامی کی حکمرانی ہو، سعودی حکومت گر جائے، ایسا لگتا ہے جیسے حرمین ان کی جائداد تھی اسے سعودی عرب نے قبضہ کر لیا۔ ان ظالموں کے حساب سے تو بنی امیہ، بنی عباس، بنو عثمان سب کا ان پر ناجائز قبضہ تھا۔ یہ چاہتے ہیں حرمین کے لیے وہ دور لوٹ آئے جو فاطمیوں کا دور تھا تاکہ حرم کعبہ کو جنگ کا میدان بنا دیں اور کعبہ کو ڈھا کر قم میں خمینی کی قبر کو کعبہ بنا ڈالیں۔ یہ ہے شیطانی سوچ جب یہ کعبہ پر میزائل داغ سکتے ہیں تو اس کے سوا ان کا مقصد کیا ہو سکتا ہے کہ قم کو کعبہ کا درجہ دے دیں اور تحریکیوں کو ساتھ دینے کا انعام ملے کہ سید قطب اور مودودی کی وہاں یادگار بنا دیں اور تحریکی وہاں کا مذہبی شد رحال کریں اور عالم نقوی وہاں پروہت بن جائیں۔
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
سوریہ (شام ) کے بارے میں وکی پیڈیا سے حاصل کردہ معلومات:

سوریہ (تلفظ: i[FONT=Arial Unicode MS, Lucida Sans Unicode]/[/FONT]ˈsɪ.rɪə[FONT=Arial Unicode MS, Lucida Sans Unicode]/[/FONT]; عربی: سوريا‎ یا سورية) (جسے بعض اوقات شام بھی کہا جاتاہے۔ شام دراصل مشرق وسطٰی کے ایک بڑے علاقے کے لیے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔) مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ اس کا مکمل نام (عربی: الجمهورية العربية السورية) ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائيل ، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں اسیریائی، کرد، ترک اور دروز بھی شام میں رہتے ہیں۔
قدیم زمانہ
شام دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین سامی اقوام اور زبانوں کے آثار شام سے دستیاب ہوئے ہیں۔ مشرقی سوریہ کے شہر عبیل ( عربی: عبيل‎، انگریزی میں Ebla ) سے 1975ء میں ایک عظیم سامی سلطنت کے آثار ملے ہیں جس میں قدیم ترین سامی زبانوں اور تہذیب کا بہترین نوادراتی اثاثہ شامل ہے جس میں 17000 مٹی کی تختیاں ہیں۔ ان پر اس زمانے کی تجارت، ثقافت، زراعت وغیرہ کے بارے میں بیش قیمت معلومات درج ہیں۔ ان کا زمانہ 2500 قبل مسیح سے بھی پہلے کا ہے۔ شام پر یکے بعد دیگرے کنعانیوں، عبرانیوں ، اسیریائی لوگوں اور بابل کے لوگوں نے قبضہ کیا اور نت نئی تہذیبوں کو جنم دیا جن کو آج ہم دنیا کی قدیم تہذیبوں کے نام سے جانتے ہیں۔ بعد میں رومیوں ، بازنطینیوں ، یونانیوں ، ایرانیوں اور عربوں نے بھی شام پر حکومت کی۔
اسلامی عہد
دمشق جو دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک ہے، 636ء میں مسلمانوں نے فتح کیا۔ بعد میں 661ء سے 750ء تک وہاں اموی سلطنت قائم رہی جس کی حدود ہسپانیہ سے وسط ایشیا تک تھیں۔ 750ء میں عباسیوں نے امویوں کو سلطنت و خلافت سے بے دخل کر دیا اور سلطنت کا مرکز بغداد بن گیا۔ 1260ء میں مملوکوں نے اسے دوبارہ دارالخلافہ بنایا مگر امیر تیمور نے 1400ء میں دمشق اور گردو نواح کو تباہ کر دیا اور اس کے تمام نابغہ روزگار لوگوں اور ہنرمندوں کو اپنے ساتھ سمرقند لے گیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی کے شروع تک یہ زیادہ تر عرصہ سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا۔ 1918ء میں وہاں فرانسیسیوں اور برطانویوں کی ایما پر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہوئی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ ہی عرصہ بعد شام کا زیادہ تر علاقہ فرانسیسیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
فرانسیسی اختیار
شریف مکہ نے برطانوی سامراج کی ایما پر ترکی خلافت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے 1918ء میں دمشق میں ایک قومی حکومت قائم کرنے میں مدد دی جو فیصل بن حسین نے قائم کی جس کے تحت شام کے کچھ علاقے، لبنان، اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے آتے تھے۔ 1919ء میں انتخابات ہوئے اور ایک مجلس (پارلیمنٹ) قائم ہوئی مگر اصل طاقت برطانوی سامراج اور اس کے دوستوں کے پاس رہی۔ 1916ء میں برطانیہ اور فرانس میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا جسے سائیکس پیکوٹ معاہدہ کہتے ہیں۔ جس کے بعد مجلس اقوام عالم (لیگ آف نیشنز)، جو اقوام متحدہ کی ابتدائی شکل تھی، کے ذریعے یہ اقتدار فرانس کو سونپ دیا گیا۔ 1920ء میں فرانسیسی افواج نے شام پر مکمل قبضہ کر لیا اور شام کو 1921ء میں چھ ریاستوں میں تقسیم کردیا جن میں لبنان بھی شامل تھا۔ فلسطین کے بارے میں انگریزوں نے 1917ء میں ہی ایک خفیہ معاہدہ (بالفور کا معاہدہ) کیا تھا جس میں وہاں ایک یہودی ریاست کے قیام کی منظوری دی گئی تھی۔ یہ وہ عہد تھا جس میں فرانس ، برطانیہ اور دیگر سامراجی اور سرمایہ دار ممالک نے مشرق وسطی کو مختلف خفیہ معاہدوں کی مدد سے آپس میں بانٹ لیا تھا۔ اس اثناء میں شام میں کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ فرانس نے شام کو کئی دفعہ مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ 1932ء میں شام میں پہلی دفعہ آزادی کا اعلان ہوا مگر پارلیمنٹ فرانس کی مرضی کی تھی اور تمام کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو فرانس کے حواری تھے۔ اسی وجہ سے شام اس وقت ایک آزاد ملک نہ بن سکا۔ آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں حتیٰ کہ یہ پارلیمنٹ فرانس نے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے بہانے ختم کر دی۔ فرانس خود 1940ء میں جرمنی کے قبضہ میں آ گیا مگر شام پھر بھی آزاد نہ ہو سکا اور برطانوی اور فرانسیسی افواج نے 1941ء میں شام کو روند ڈالا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فرانس نے کئی پارلیمنٹیں بنوائی اور مصنوعی حکومتیں تشکیل دیں۔ ایسی ایک پارلیمنٹ 1943ء میں تشکیل دی گئی جس کے ساتھ 1944ء میں فرانس نے ایک معاہدہ آزادی کیا۔ مگر 1945ء میں فرانسیسی افواج نے دمشق کے ارد گرد گھیرا ڈال کر زبردست بمباری کی اور پارلیمنٹ کی عمارت تباہ کر دی۔ اس بمباری میں شامی حکومت کے افراد کے علاوہ 2000 سے زیادہ عام لوگ، عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے۔ اس وقت شام کے صدر شکری القوتلی تھے جن سے برطانوی سفیر نے ان سے ملاقات کی اور فرانس کے ساتھ صلح نامے پر دستخط یا کسی محفوظ مقام پر منتقلی کی تجویز دی جو انہوں نے رد کردی۔ ان کے اس عزم و حوصلے کے باعث ہی فرانس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور اسے اگلے سال شام خالی کرنا پڑا۔
آزادی
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فرانس اور برطانیہ دونوں کمزور ہو گئے تھے۔ فرانس نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ مزید شام پر اپنا قبضہ نہیں رکھ سکتا تو اس نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا۔ 1946ء میں فرانس نے 1944ء میں کیے جانے والے معاہدہ آزادی کو دوبارہ تسلیم کر لیا اور 15 اپریل 1946ء کو فرانسیسی اور برطانوی افواج شام سے نکل گئیں۔ 17 اپریل 1946ء کو شام نے آزادی کا اعلان کر دیا اور بیسویں صدی کا ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس کا نام الجمہوریہ السوریۃ رکھا گیا۔ بعد میں 30 مارچ 1949ء کو برطانیہ، فرانس اور سی آئی اے (CIA) کی مدد سے ایک فوجی بغاوت ہوئی جس نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور کم و بیش وہی کہانی شروع ہو گئی جو نو آزاد مسلمان ملکوں کی مشترکہ داستان ہے۔
شامی افواج نے 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ میں حصہ لیا جس کے بعد برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے (CIA) نے اس کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اس سازش نے مارچ 1949ء کی فوجی بغاوت کو جنم دیا۔ (1952ء میں ایسی ہی فوجی بغاوت مصر میں بھی ہوئی)۔ جنرل حسنی الزعیم ( جنرل زعیم) نے اقتدار سنبھالا۔ جنرل زعیم 25 جولائی 1949ء کو ایک استصواب رائے (ریفرینڈم) کے ذریعے 99 فی صد ووٹ لے کر صدر بن گیا۔ (بعینہ یہی کہانی پاکستان اور دوسرے کئی ممالک میں بھی دہرائی گئی ہے)۔ اگست میں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جس کے بعد جنرل زعیم کو قتل کر دیا گیا۔ ایک نئی حکومت بن گئی۔ اس حکومت نے عراق کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی جسے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے (CIA) نے سخت ناپسند کیا حالانکہ عراق میں بھی انھی کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی۔ مگر وہ اسلامی ممالک کے اتحاد کو برداشت نہیں کر سکتے تھے چنانچہ اسی سال دسمبر میں ایک اور فوجی بغاوت میں جنرل ششکالی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے 1953ء میں ایک آئین بھی منظور کیا۔ عوامی دباو پر 1955ء میں انتخابات ہوئے اور ایک غیر فوجی حکومت قائم ہو گئی۔ جس نے مصر کی حکومت سے تعلقات قائم کیے۔ روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ 22 فروری 1958ء کو مصر اور شام نے اتحاد کیا اور ایک متحدہ ملک قائم ہو گیا جس کا نام متحدہ عرب جمہوریہ تھا۔ یاد رہے کہ مصر میں بھی امریکی اور برطانوی حمایت یافتہ قوتیں ختم کر کے جمال عبد الناصر برسراقتدار آچکے تھے جن کی وجہ سے یہ اتحاد ممکن ہوا۔ مگر 28 ستمبر ء1961ء میں سامراجی قوتوں کی ایما پر ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جس نے یہ اتحاد ختم کر کے شام کو دوبارہ ایک الگ ملک کی حیثیت دے دی۔ ملک میں روسی حمایت یافتہ لوگوں اور سامراجی حمایت رکھنے والوں کے درمیان رسہ کشی جاری رہی اور 8 مارچ 1963ء کو بعث پارٹی کے لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ بعث پارٹی نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور عیسائی مشنری سکولوں کو بند کر دیا۔ 23 فروری 1966ء کو اسی پارٹی کے حافظ الاسد نے حکومت پر قبضہ کر کے صدر امین حفیظ کو برطرف کر دیا۔ انہی حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد آج کل شام کے حاکم ہیں۔ 1973ء میں شام نے مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی اور گولان کی پہاڑیوں کا کچھ حصہ آزاد کروایا ۔ اس موقع پر روس اور امریکہ دونوں ایک ہو گئے اور جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی ممالک نے مصر اور اسرائیل کی صلح کروائی اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس مین بنیادی کردار امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ادا کیا جو خود ایک سابق جرمن یہودی تھا۔ مگر شام اس حد تک جانے پر تیار نہ ہوا اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ 1976ء میں شامی افواج لبنانی حکومت کی درخواست پر لبنان میں داخل ہوئیں اور لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 10 جون 2000ء کو شام کے صدر حافظ الاسد طویل بیماری کے بعد 70 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ حافظ الاسد سنہ 1964ء میں شام کی فضائیہ کے کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے تین سال بعد وزير دفاع بنے۔ سنہ 1970ء میں انہوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر شام کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر بعث پارٹی کے لیڈر منتخب ہوئے۔ ایک سال کے بعد وہ ریفرینڈم کے ذریعے شام کے صدر بنے اور پھر کئی ریفرینڈموں کے ذریعے آخری دم تک عہدۂ صدارت پر باقی رہے ۔سنہ 1967ء میں عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران حافظ الاسد شام کے وزير دفاع تھے۔ اس جنگ میں صیہونی حکومت نے جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا، لیکن سنہ 1973ء میں حافظ الاسد اپنی فوج کو مضبوط کرکے جولان پہاڑیوں کے ایک حصے کو واپس لینے میں کامیاب ہوگئے۔ صیہونی حکومت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور اسلامی جمہوریۂ ایران جیسے، صیہونیت مخالف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا، حافظ الاسد کے دور کی، شام کی خارجہ پالیسی کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشار اسد کو صدر منتخب کیا گيا۔ انہوں نے بھی اپنے والد کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا خطے میں جاری صیہونیت مخالف محاذ میں شام کے بنیادی کردار کو محفوظ رکھا جو امریکا، اسرائیل اور خطے میں ان کے حامی ممالک کو ایک آنکھ نہيں بھاتا چنانچہ اس وقت صدر بشار اسد کو ایک ایسی خانہ جنگی کا سامنا ہے کہ جس میں ترکی سعودی عرب اور قطر سمیت کئی ديگر ممالک کا ہاتھ نمایا ں ہے۔ تاہم صدر بشار اسد کی حکومت گراکر ان کی جگہ کسی مغرب نواز ایجنٹ کو اقتدار میں لانے کی ان کی کوئی بھی کوشش تابحال کامیاب نہيں ہوسکی ہے۔
شام کو چودہ مختلف صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں محافظات (محافظہ کی جمع) کہا جاتا ہے۔
  1. دمشق (عربی : محافظة دمشق ۔ انگریزی :Damascus)
  2. ریف دمشق (عربی: محافظة ريف دمشق ۔انگریزی: Rif Dimashq)
  3. قنیطرہ (عربی : محافظة القنيطرة ۔ انگریزی:Quneitra)
  4. درعا ( عربی : محافظة درعا ۔ انگریزی:Daraa)
  5. سویدا ( عربی: محافظة السويداء ۔ انگریزی : As Suwaydā)
  6. حمص ( عربی : محافظة حمص ۔ انگریزی : Homs )
  7. طرطوس ( عربی:محافظة طرطوس ۔ انگریزی:Tartous)
  8. اذقیہ ( عربی : محافظة اللاذقية ۔ انگریزی:Latakia )
  9. حماہ ( عربی: محافظة حماة ۔ انگریزی :Hama )
  10. ادلب ( عربی : محافظة إدلب ۔ انگریزی: Idlib )
  11. حلب ( عربی: محافظة حلب ۔ انگریزی: Aleppo)
  12. رقہ ( عربی: محافظة الرقة ۔ انگریزی: Ar Raqqah )
  13. دیرالزور (عربی: محافظة دير الزور۔انگریزی : Deir ez-Zor)
  14. حسکہ (عربی : محافظة الحسكة ۔انگریزی :Al Hasakah)
    انٹرنیٹ
    شام میں ٹیلی مواصلات اور ٹیکنالوجی کی وزارت کی طرف سے نگرانی کر رہے ہیں. اس کے علاوہ، حکومت کو انٹرنیٹ تک رسائی کی تقسیم میں ایک لازمی کردار ادا کرتا ہے. انٹرنیٹ پر سنسر شپ کے قوانین کی وجہ سے، 13،000 انٹرنیٹ کے کارکنوں نے مارچ 2011 ء اور اگست 2012ء کے درمیان گرفتار کیا گیا ہے
    معیشت
    شام ایک ترقی پزیر ملک ہے جس کی معیشت سوشلسٹ نظریات پر مبنی ہے۔ زیادہ تر صنعتیں قومی ملکیت میں ہیں۔ ساٹھ فی صد لوگ بیس سال سے کم عمر ہیں یعنی کام نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ خواتین میں بھی کام کرنے کا رحجان کم ہی ہے۔ اس کے باوجود بے روزگاری کی شرح بیس فی صد سے زیادہ رہتی ہے۔ شام کچھ تیل برامد کرتا ہے۔ جس میں صرف اسی صورت میں اضافہ کی توقع ہے اگر بین الاقوامی تیل کمپنیاں سرمایہ کاری کریں جو آج کل امریکی دباو کی وجہ سے بند ہے۔ اس طرح کی معیشت بار بار فوجی انقلاب اور بعد میں انتہائی سخت پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ شام کی صنعت کچھ ترقی یافتہ ہے اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی ہے۔ شام کی صرف ایک تہائی زمین قابل کاشت ہے جس کا زیادہ انحصار بارش پر ہے۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں نجی ملکیت کی شرح زیادہ ہے مگر زرعی اشیا کی درآمد و برآمد پر حکومت کا اختیار زیادہ ہے۔ فی کس آمدنی پانچ ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ مگر شہری لوگوں اور دیہاتیوں کی آمدنی میں بہت فرق ہے۔
    جغرافیہ
    شام ایک گرم اور خشک ملک ہے۔ سردیاں ہلکی ہوتی ہیں مگر کبھی کبھی بحیرہ روم اور لبنان کی سرحد کے قریبی علاقوں میں برفباری بھی ہو جاتی ہے۔ شام کا زیادہ حصہ بنجر ہے اور ایک تہائی زمین قابل کاشت ہے۔ قابل ذکر دریا دریائے فرات ہے جو ملک کے مشرق میں بہتا ہے جس سے ملک کا شمال مشرقی حصہ جو الجزیرہ کہلاتا ہے کچھ سرسبز ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے بیشتر ذرائع پر ترکی کا کنٹرول ہےکیونکہ وہ ترکی کے علاقوں سے بہہ کر آتے ہیں۔ بڑے شہر زیادہ تر ساحل سمندر کے پاس ہیں یا دریائے فرات پر۔ دمشق سب سے بڑا شہر اور دار الحکومت ہے جو لبنان کی سرحد کے بہت قریب ہے۔
    اہم اعداد و شمار
    شام کے 80 فی صد کے قریب لوگ پڑھے لکھے ہیں جن کی فی کس آمدنی پانچ ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ شام میں 92 فی صد سے زیادہ مسلمان اور تقریباًً آٹھ فی صد عیسائی، علوی اور دروز ہیں۔ عربی النسل لوگ 85 فی صد ہیں اور کرد لوگ 10 فی صد ہیں۔ باقی لوگوں میں آرمینیائی، اسیریائی اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ شام میں عراقی اور فلسطینی مہاجرین کی تعداد بھی تقریباًً بیس لاکھ کے قریب ہے۔ عربی سب سے اہم زبان ہے لیکن دیہات میں کچھ علاقوں میں شام کی قدیم زبانیں مثلاً آرامی بھی سننے کو مل سکتی ہیں مگریہ قدیم زبانیں دم توڑ رہی ہیں۔
    سیاست
    شام میں ایک پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔ بعث پارٹی کو قانوناً سب سے زیادہ اختیار ہے۔ اگرچہ چھ دیگر پارٹیاں بھی کام کرتی ہیں اور حکومتی نظام کا حصہ ہیں مگر بعث پارٹی کو ایک قانون کے تحت برتری حاصل ہے اور عملاً اسی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی ہے۔ یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی ہیں جس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے مگر اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ اصل اختیارات صدر کو حاصل ہیں جس کی صدارت کی توثیق کے لیے ہر سات سال بعد ایک ریفرینڈم ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر ہی فوج کا سربراہ ہوتا ہے اگرچہ خود فوجی نہیں ہوتا۔ یہ نظام بعث پارٹی کی حیثیت کو مضبوط رکھتا ہے۔
    شام کے شہر
  15. دمشق (عربی میں دمشق یا الشام ۔ انگریزی میں Damascus )
  16. حلب (عربی میں حلب ۔ انگریزی میں Aleppo )
  17. درعا (عربی میں درعا ۔ انگریزی میں Daraa )
  18. دير الزور (عربی میں دير الزور ۔ انگریزی میں Deir ez-Zor )
  19. حماہ (عربی میں حماة ۔ انگریزی میں Hama )
  20. حسکہ (عربی میں الحسكة ۔ انگریزی میں Al Hasakah )
  21. حمص (عربی میں حمص ۔ انگریزی میں Homs )
  22. ادلب (عربی میں إدلب ۔ انگریزی میں Idlib )
  23. اذقیہ (عربی میں اللاذقية ۔ انگریزی میں Latakia )
  24. قنیطرہ (عربی میں القنيطرة ۔ انگریزی میں Al Qunaytirah )
  25. رقہ (عربی میں الرقة ۔ انگریزی میں Ar Raqqah یا Rakka )
  26. سویدا (عربی میں السويداء ۔ انگریزی میں As Suwayda )
  27. طرطوس (عربی میں طرطوس ۔ انگریزی میں Tartous )
  28. تدمر (عربی میں تدمر ۔ انگریزی میں Palmyra )
  29. قامشلی (عربی میں القامشلي ۔ انگریزی میں Qamishli )
  30. عبیل ( عربی میں ع إبلا ف، انگریزی میں Ebla )
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
② قال أبو الحسن الربعي: أخبرنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ يحيى القطان حَدَّثَنَا خيثمة بن سليمان حَدَّثَنَا أبي حدثنا سعيد بن عبد العزيز حَدَّثَنَا مكحول عن إبي إدريس عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوَالَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى الله عليه وسلم:

«سَتُجَنَّدُونَ أَجْنَادًا، جُنْدًا بِالشَّامِ، وجُنْدًا بِالْعِرَاقِ، وَجُنْدًا باليَمَنِ", قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنِ حَوَالَة: فَقُمْتُ، قُلْتُ: خِرْ لِي يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! فَقَالَ: "وَعَلَيْكُمْ بِالشَّامِ، فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْتَقِ مِنْ غُدُرِه، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ»

ترجمہ: عبداللہ بن حوالہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم لشکروں کو پاؤ گے، ایک لشکر شام میں ہوگا ایک عراق میں اور ایک یمن میں، عبداللہ بن حوالہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور پوچھا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم جب ایسا ہو تو آپ میرے لئے کس لشکر کو پسند کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم شام اپنے اوپر لازم کرلو جو شخص ایسا نہ کرسکے وہ یمن چلا جائے اور اس کے کنوؤں کا پانی پیے کیونکہ اللہ نے شام اور اہل شام کا میرے لئے ذمہ لیا ہے۔

۩تخريج: مسند أحمد ( ١٧٠٠٥، ٢٠٣٥٦) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ التاريخ الكبير للبخاري (في ترجمة ٥٧ - عَبْد اللَّه بْن حوالة) (المتوفى: ٢٥٦هـ)؛ سنن أبي داود (٢٤٨٣) (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي (المتوفى: ٢٧٧هـ)؛ الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (٢٢٩٥، ٢٧٤٤) (المتوفى: ٢٨٧هـ)؛ شرح مشكل الآثار للطحاوي (١١١٤) (المتوفى: ٣٢١هـ)؛ صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان (٧٣٠٦) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ مسند الشاميين للطبراني ( ٢٩٢، ١١٧٢، ١٩٧٤، ٢٥٤٠، ٣٣٨٦، ٣٥١٥) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٨٥٥٦) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ حلية الأولياء و دلائل النبوة (٤٧٨) لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ السنن الواردة في الفتن لأبي عمرو الداني (٥٠٠) (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ دلائل النبوة للبيهقي (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ قال الألباني: حديث صحيح جدًّا
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
③ قال أبو الحسن الربعي: أخبرنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بن عبد الله القطان حَدَّثَنَا العباس بن الوليد حَدَّثَنَا علقمة حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم:

«إِنِّي رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا هُوَ نُوْرٌ سَاطِعٌ عُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا إِنَّ الإِيمَانَ إِذَا وَقَعَتِ الْفِتَنُ بِالشَّامِ»

نبی ﷺ نے فرمایا: میں نے (خواب میں) دیکھا میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ستون اٹھایا گیا میں نے اسے دیکھا تو وہ ایک نور تھا جو شام کی طرف لے جایا گیا، یاد رکھو! جب فتنے رونما ہوں گے تو ایمان شام میں ہوگا۔

۩تخريج: المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي (المتوفى: ٢٧٧هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ الفوائد لتمام (١٢٧٨) (المتوفى: ٤١٤هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن الربعي (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ دلائل النبوة للبيهقي (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ قال الألباني: صحيح
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
⑤ قال أبو الحسن الربعي: أخبرنا أبو القاسم تمام بْن مُحَمَّد بْن عبد الله الرازي الحافظ حَدَّثَنَا جعفر بن محمد بن جعفر حَدَّثَنَا عبد الوهاب بن الضحاك وهشام بن عمار قالا حَدَّثَنَا «عِمْرَانُ بْنُ إِسْحَاقَ أَبُو هَارُونَ» عَنْ شُعْبَةُ عَنْ مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِذَا هَلَكَ الشَّامُ فَلَا خَيْرَ فِي أُمَّتِي وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ يُقَاتِلُوْنَ الدَّجَّالَ»

ترجمہ: جب شام (اہل شام) ہلاک ہو جائے تو میری امت میں کوئی خیر نہیں ہو گا اور میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور وہ دجال سے جنگ کرے گا۔

۩تخريج: فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن الربعي (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ قال الألباني: بهذا اللفظ ضعيف.


یہ حدیث درج ذیل الفاظ سے صحیح ثابت ہے:

قَالَ أَبُو دَاوُدَ الطيالسي: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:


«إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»

ترجمہ: جب ملک شام والوں میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی، میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد سے حاصل رہے گی، اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔

۩تخريج: مسند أبي داود الطيالسي (١١٧٢) (المتوفى: ٢٠٤هـ)؛ مسند أحمد (١٥٥٩٦، ١٥٥٩٧، ٢٠٣٦١، ٢٠٣٦٧) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ سنن الترمذي (٢١٩٢) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)

الشطر الأول فقط: المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي (المتوفى: ٢٧٧هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ) و تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ) (في ترجمة ٤٤٧٧ - الربيع بن يحيى بن مقسم المدائني، ٥٢٨١ - عبد اللَّه بن الوليد أبو مُحَمَّد العكبري)

الشطر الثاني فقط: سنن ابن ماجه(٦، ١٠) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ و صحيح ابن حبان (٦١، ٦٨٣٤) (المتوفى: ٣٥٤هـ) وغيرهم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
⑥ قال أبو الحسن الربعي: أخبرنا تمام بن محمد حدثنا جعفر حدثنا أحمد بن عمرو بن إسماعيل الفارسي الوزان المقعد حدثنا شيبان بن أبي شيبة حدثنا الصعق بن حزن البكري سيار الكوفي عن «جبير بن عبيدة الحمصي» عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:

«لَنْ تَبْرَحَ هذِهِ الْأُمَّةُ مَنْصُورِينَ أَيْنَمَا تَوَجَّهُوا، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ، أَكْثَرُهُمْ أَهْلُ الشَّامِ»

ترجمہ: یہ امت جہاں بھی رخ کرے گی ہمیشہ اس کی مدد کی جائے گی جو لوگ ان کی مدد نہیں کریں گے ان کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللّٰہ کا حکم آ جائے گا (قیامت آ جائے گی) ان میں کے اکثر لوگ اہل شام ہوں گے۔

۩تخريج: فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن الربعي (١٦) (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے لیکن "أَكْثَرُهُمْ أَهْلُ الشَّامِ" میرے نزدیک منکر ہے۔ اس ٹکڑے کو صرف ابو الحسن ربعی ہی نے اس سند سے روایت کیا ہے۔اس میں ایک راوی جبیر بن عبیدہ حمصی ہے اس کے متعلق امام ذہبی نے کہا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔

یہ حدیث مسند احمد (٨٢٧٤، ٨٤٨٤، ٨٩٣٠) کی روایت میں ابو صالح نے ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے اور ابن ماجہ کی روایت میں عمیر بن اسود اور کثیر بن مرۃ حضرمی نے ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے لیکن ان روایات میں ‌"أَكْثَرُهُمْ أَهْلُ الشَّامِ" کے الفاظ نہیں ہیں۔

اسی طرح یہ حدیث عمر بن خطاب، ثوبان، عمران، جابر بن سمرہ، مغیرہ بن شعبہ، عقبہ بن عامر، جابر بن عبداللہ، معاویہ رضی اللّٰہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہے جن میں بعض کی تخریج ہم نے صحیحہ (حدیث نمبر: ٢٧٠، ١٩٥٦) میں کی ہے اور بعض احادیث صحیحین میں ہیں۔

بخاری وغیرہ کی روایت میں معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ کا قول ہے کہ وہ لوگ شام میں ہیں۔

قال البخاري: حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:

«لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ.

ترجمہ: معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر رہیں گے۔

عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ وہ لوگ شام میں ہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دیکھو یہ مالک بن یخامر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ یہ لوگ ملکِ شام میں ہیں۔


تخريج: مسند أحمد (١٦٩٣٢) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ صحيح البخاري (٣٦٤١، ٧٤٦٠) (المتوفى: ٢٥٦هـ)؛ المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي (المتوفى: ٢٧٧هـ)؛ مسند أبي يعلى (٧٣٨٣) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ شرح السنة للبغوي (٤٠١١) (المتوفى: ٥١٦هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)

اس حدیث کی شاہد صحیح مسلم وغیرہ کی سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی درج ذیل حدیث ہے:

قال مسلم: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مغرب والے ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے"۔

تخريج: صحيح مسلم [١٧٧ - (١٩٢٥)] (المتوفى: ٢٦١هـ)؛ مسند البزار (١٢٢٢) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ مسند أبي يعلى (٧٨٣) (المتوفى: ٣٠٧هـ)


صحیح مسلم کی یہ حدیث اوپر کی صحیح بخاری کی حدیث میں معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ کے قول «وَهُمْ بِالشَّأْم» کی شاہد اس اعتبار سے ہے کہ اس میں مغرب والوں سے مراد اہل شام ہیں جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے اور ان کی تائید شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے "فضل الشام وأهله" میں کی ہے اور انہوں نے دو وجوہات بتائے ہیں:

پہلی وجہ: بعض احادیث میں صراحتا شام کا ذکر ہے۔

دوسری وجہ: نبی ﷺ اور مدینہ والے مغرب والوں سے مراد اہل شام ہی لیتے تھے، مزید معلومات کے لیے شیخ الاسلام کی کتاب دیکھیں کیونکہ وہ اہم اور بہت زیادہ مفید ہے۔

معاصرین میں سے جس نے اس معنی کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شمالی مغربی افریقہ میں رہتے ہیں شاید وہ نبی ﷺ کی (اہل مغرب سے مراد اہل شام کی) اس لغت کو نہیں جانتے۔

تقریبا اسی معنی کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے دو سندوں سے متن میں دوسرے اضافے کے ساتھ روایت ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے حدیث نمبر: ۲۷ اور ۲۹ میں آ رہا ہے۔
 
Top