عزیزم آپ ایک دوسرے کو کافر نہ کہیں اور ویسے بھی کلمہ گو کو قطعی طور کافر کہنا کہ آپ تو کافر ہیں کافروں کی طرح بہت بڑی جسارت ہے۔اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔آمین
بہت خوب اعمال صحیحہ جو کہ صحیح احادیث سے مروی ہوتے ہیں (اور اس کے مخالف کے پاس ریت کی دیوار ہوتی ہے) سے جان چھڑانے کےلیے فروعات کا نام دیا جاتا ہے۔اور پھر کہا جاتا کہ فروعات میں نہ لڑیں۔عزیز حق کو بیان کرنا سیکھو چاہے اپنے بھی ناراض ہوجائیں۔اور پھر یہ فرقے اور یہ اختلافات تو ہونے ہی ہیں۔
’
’افترقت اليهود على إحدى و سبعين فرقة فواحدة في الجنة و سبعون في النار و افترقت النصارى على اثنتين و سبعين فرقة فإحدى و سبعون في النار و واحدة في الجنة و الذي نفس محمد بيده لتفترقن أمتي على ثلاث و سبعين فرقة فواحدة في الجنة و اثنتان و سبعون في النار‘
‘(صحیح الجامع الصغیر)
یہ تو ہمیں الئے بتا دیا گیا تھا کہ ہم بنی اسرئیل کی طرح بربادی کا شکار نہ ہو جائے ،جیسا کہ ایک بچے کو بتایا جاتا ہے کہ چھت پر نہ چڑوگر جاؤ گے اور وہ جان بوجھ کر چھلانگ لگائیں اور کہیں کہ میں نے گرنا ہی تھا آپ نے جو کہا تھا۔یہ سب ہمیں بربادی سے بچانے کہا گیا ہے،اللہ سمجھ کی توفیق عطا فرمائیں۔
لیکن ہمیں اس صورت میں کیاحکم دیا گیا ہے۔ہمیں اس کو پلے باندھنا چاہیے۔
"
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"
اس آیت میں بیان شرط کا بھی بغور مطالعہ کریں اور سوچ وبچار کریں۔
بھا ئی ہر مسک یہ دعوی لیکر آتا ہے سوچنا تو یہ کہ آیا اس کے دعوے میں ھقیقت کتنی ہے۔
آپ حنفیوں اور اہل حدیثوں کو کیوں ٹارگٹ بنارہے ہیں؟ یہ بھی آپ کی تفرقہ ڈالنے والی بات ہے۔ اس لیے پہلے خود کو درست کیاجائے اور ہر وہ عمل کیا جائے جو صحیح دلائل سے ثابت ہو اور پھر اسی کا لوگوں کو بتایا جائ
ے۔