ہم تمام صحابہ کرام کو کس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
عقیدہ:
ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اوران میں سے کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اورنہ ان میں سے کسی سے براءت ظاہر کرتے ہیں اورہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتے ہیں، اور جب بھی ہم صحابہ کا تذکرہ کرتے ہیں خیر کے ساتھ ہی کرتے ہیں،اوران سے محبت دین،ایمان اوراحسان کی علامت ہے اوران سے بغض کفر نفاق اور سرکشی ہے۔
تشریح
صحابی اُسے کہتے ہیں جس نے بحالتِ ایمان نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بحالتِ ایمان دیکھا ہو اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اپنی رضا کا اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم فرمایا، چنانچہ آپؐ نے متعدد مواقع پر حضرات صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ نے خلافت و حکومت اور اسلامی سلطنت عطاء فرمانے کا وعدہ فرمایا اور خلافتِ راشدہ کی صورت میں اس وعدہ کو پورا فرمایا کہ قیامت تک اس اسلامی فرمانروائی کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی۔ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق پر ایمان لانے کو معتبر قرار دیا، اس کے علاوہ طریقوں کو گمراہی اور بدبختی سے تعبیر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان، تقویٰ اور قلبی کیفیات کا امتحان لے کر انہیں کامیاب قرار دیا اور مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قلوب کو ایمان کے ساتھ مزیّن فرمایا، ان کے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور کفر و فسوق اور عصیان کو ان کے لئے ناپسندیدہ قرار دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع اور پیروکار قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان کے اوصاف بیان فرمائے کہ وہ آپس میں بڑے مہربان اور کافروں پر بڑے سخت ہیں، وہ بڑے عبادت گذار ہیں، اللہ کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، تورات اور انجیل میں بھی ان کی مدح بیان فرمائی، ان کو کامیاب اور جنتی قرار دیا۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اپنی امت میں سب سے بہترین قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ محبت کو اپنے ساتھ محبت اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ بغض کو اپنے ساتھ بغض قرار دیا۔
عقیدہ:
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔دلائل
قد صح ان الصحابۃ افضل من التابعین و من الامم السابقۃ لقولہ تعالیٰ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ باللّٰہِ
عقیدہ:
صحابہ کرامؓ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عشرۂ مبشرہ میں سے باقی چھ صحابہؓ دوسرے تمام صحابہ سے افضل ہیں، ان چھ کے نام حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ہیں، پھر اصحابِ بدر، پھر اصحابِ احد، پھر اصحابِ بیعتِ رضوان، پھر فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے اور غزوات میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتح ِ مکہ کے بعد اسلام لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں۔
دلائل
اجمع اھل السنۃ و الجماعۃ علی ان افضل الصحابۃ ابوبکر فعمر فعثمان فعلی، فبقیۃ العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ، فاھل بدر، فباقی اھل احد، فباقی اھل بیعۃ الرضوان بالحدیبیۃ ..... و بالجملۃ فالسابقون الاولون من المھاجرین و الانصار افضل من غیرھم لقولہ تعالیٰ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولٰٓئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔
عقیدہ:
تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل، مؤمنِ کامل اور جنتی ہیں۔
دلائل
وَالَّذِينَ اٰمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللہِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِيمٌ۔ (الانفال:۷۴) وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ (التوبۃ:۱۰۰) والصحابة كلهم عدول مطلقا لظواهر الكتاب والسنة وإجماع من يعتد به۔ (مرقاۃ:۵؍۵۱۷) ليس في الصحابة من يكذب ولا غير ثقة ۔ (عمدۃ القاری:۲؍۱۰۵)
عقیدہ:
قیامت تک کوئی بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، جس طرح کوئی ولی یا صحابی کسی نبی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔
دلائل
وَكُلًّا وَعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى۔ (الحدید:۱۰) و قال اللہ تعالیٰ فی حق الصحابۃ: رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔ (البینۃ:۸) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ کَانَ بَيْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَبَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْءٌ فَسَبَّهٗ خَالِدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهٗ۔ (صحیح مسلم:۲؍۳۱۰) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهٗ قَالَ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً يَعْنِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً۔ (شرح عقیدۃ طحاویۃ:۴۶۹)
عقیدہ:
تمام صحابہ رضی اللہ عنہم برحق، معیارِ حق اور تنقید سے بالاتر ہیں۔
دلائل
أُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا۔ (الانفال:۴) فَإِنْ اٰمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا۔ (البقرۃ:۱۳۷) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ اٰمِنُوا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ کَمَا اٰمَنَ السُّفَهَآءُ أَلَآ إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ:۱۳)
عقیدہ:
کسی شخص کو صحابہؓ کی خطائے اجتہادی پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تشریح
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات و مشاجرات' امانت، دیانت، تقویٰ، خشیتِ الہٰی اور اختلافِ اجتہادی پر مبنی ہیں، ان میں سے جن سے خطاءِ اجتہادی ہوئی وہ بھی اجر کے مستحق ہیں، اس لئے کہ مجتہد مخطی کو بھی ایک اجر ملتا ہے اور اس سے خطاء اجتہادی پر نہ دنیا میں مؤاخذہ ہوتا ہے نہ آخرت میں۔
دلائل:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ وَالَّذِينَ مَعَهٗ أَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ۔ (الفتح:۲۹) يَوْمَ لَا يُخْزِي اللہُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ اٰمَنُوا مَعَهٗ نُورُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ۔ (التحریم:۸) عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللہَ اللہَ فِي أَصْحَابِي، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي۔ (سنن ترمذی: ۲؍۷۰۶) و قد احبھم النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اثنیٰ علیہم و اوصیٰ امتہ بعدم سبھم و بغضھم و اذاھم، و ما ورد من المطاعن فعلی تقدیر صحتہ لہ محامل و تاویلات، و مع ذٰلک لا یعادل ما ورد فی مناقبھم و حکی عن آثارھم العرضیۃ و سیرھم الحمیدۃ نفعنا اللہ بمحبتھم اجمعین ....... اشتبھت علیہم القضیۃ و تیحیروا فیھا و لم یظہر ترجیح احد الطرفین و فاعتزلوا الفریقین، و کان ھذا الاعتزال ھو الواجب فی حقھم، لانہ لا یخل الاقدام علی قتال مسلم حتی یظہر انہ مستحق لذٰلک ولو ظہر لہٰؤلاء رجحان احد الطرفین و ان الحق معہ لما جاز لھم التاخر عن نصرتہ فی قتال البغاۃ علیہ، فکلھم معذورون رضی اللہ عنہم ولہٰذا اتفق اھل الحق و من یعتد بہ الاجماع علی قبول شھاداتھم و روایاتھم و کمال عدالتھم رضی اللہ عنہم اجمعین۔ (الاصابۃ ۱؍۲۶)۔ المبحث الرابع و الاربعون فی بیان وجوب الکف عما شجر بین الصحابۃ و وجوب اعتقاد انھم ماجورون ..... و ذٰلک لانھم کلھم عدول باتفاق اھل السنۃ سواء من لابس الفتن و من لم یلابسھا کفتنۃ عثمان و معاویۃ و وقعۃ الجمل و کل ذٰلک وجوبا لاحسان الظن بھم و جعلا لھم فی ذٰلک علی الاجتھاد ..... و کلم مجتھد مصیب اوالمصیب واحد و المخطئ معذور بل ماجور۔ (الیواقیت و الجواھر:۲؍۷۷) ۔
عقیدہ:
کسی بھی صحابیؓ سے اللہ تعالیٰ آخرت میں کوئی مؤاخذہ نہیں فرمائیں گے۔
دلائل:
يَوْمَ لَا يُخْزِي اللہُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ اٰمَنُوا مَعَهٗ نُورُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ۔ (التحریم:۸)
عقیدہ:
نبوت و رسالت کے لئے جس طرح حق تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب فرمایا، اسی طرح مقامِ صحابیت پر فائز کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے خاص بندوں کو منتخب فرمایا ہے۔
دلائل
:
و قال اللہ تعالیٰ: قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى، قال ابن عباس رضی اللہ عنہ: اصحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اصطفاھم اللہ لنبیہ علیہ السلام۔
عقیدہ:
جو شخص صحابیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا منکر ہو یا الوہیتِ علی رضی اللہ عنہ کا قائل ہو یا ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت باندھتا ہو یا تحریفِ قرآن کا قائل ہو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
دلائل:
نَعَمْ لَا شَکَ فِي تَكْفِيرِ مَنْ قَذَفَ السَّيِّدَةَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰى عَنْهَا أَوْ أَنْکَرَ صُحْبَةَ الصِّدِّيقِ ، أَوْ اعْتَقَدَ الْأُلُوهِيَّةَ فِي عَلِيٍّ أَوْ أَنَّ جِبْرِيلَ غَلِطَ فِي الْوَحْيِ ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ مِنَ الْكُفْرِ الصَّرِيحِ الْمُخَالِفِ لِلْقُرْاٰنِ ، وَلٰكِنْ لَوْ تَابَ تُقْبَلُ تَوْبَتُهٗ۔