• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب برأت ایک جائزہ

Mahmood Alam

رکن
شمولیت
فروری 24، 2012
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
43
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شب برأت ایک جائزہ


شعبان کی پندرھویں شب کو مقدس و بابرکت تصور کیا جاتاہے۔ نفلی عبادات کا اہتمام ہوتا ہے اور خصوصاً قبرستانوں کی زیارت خاص عبادت کے طور پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص طبقہ اس رات کراچی کے ساحل نیٹی جیٹی پر مخصوص قسم کی رسومات ادا کرتا ہے۔ ان تمام باتوں اور رسومات کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیوں کہ اس شب کی فضیلت نہ تو قرآن مجید سے ثابت ہے اور نہ احادیث صحیحہ سے۔ بلکہ اس ضمن میں جو کچھ بھی بیان کیا جاتا ہے وہ سب کا سب ضعیف اور جھوٹی روایات پر مبنی ہے۔

سورۂ دخان کی آیت جس کا ترجمہ ہے :
’’ہم نے اسے( قرآن کو) ایک مبارک شب میں اتارا۔‘‘
مبارک شب سے بعض علما شب برأت مراد لیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی صریح دلیل نہیں۔ بلکہ یہ قرآن کے معنی میں تحریف ہے۔کیونکہ قرآن مجید نے خود صراحت فرمادی ہے کہ قرآن مجید کا نزول ماہ رمضان کی ایک مقدس رات (شب قدر) میں ہوا۔ اور آیۂ مذکور میں بھی اسی رات کو مبارک رات کہا گیا ہے۔ کثرت کے ساتھ جلیل القدر مفسرین بھی اسی کے قائل ہیں۔

علاوہ ازیں شب برأت کی فضیلت میں جامع ترمذی کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں: ایک رات کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر موجود نہیں پایا(یعنی وہ سورہی تھیں پھر ان کی آنکھ کھلی) اس لیے میں باہر نکل گئی دیکھا کہ آپ بقیع (قبرستان) کی طرف جاتے ہیں… جب آپؐ واپس لوٹے تو میں دوڑتی ہوئی پہلے گھرپہنچ گئی۔ آپؐ نے میرا سانس پھولا ہوا دیکھ کر فرمایا کیا تو نے یہ جاناکہ اللہ اور اس کا رسولؐ تیری حق تلفی کریں گے؟ پھر آپؐ نے فرمایا آج نصف شعبان کی شب اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے ساتھ ہی اس کے ضعیف ہونے کی صراحت بھی بیان کردی ہے۔

علاوہ ازیں اگر اس روایت ہی میں غور کیا جائے تو کئی قباحتیں اس میں نظر آتی ہیں مثلاً فضیلت والی رات ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدۃ عائشہ ؓ کو بیدار نہ کرنا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس رات کی فضیلت کو عام بیان نہ کرنا اور اتفاقیہ حادثہ کے طور پر سیدۃ عائشہؓ کو اس رات کی فضیلت کا علم ہونا وغیرہ ۔اس قسم کا عقیدہ اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورامہات المومنین کے بارے میں رکھنا انتہائی خطرناک ہے۔ جبکہ ایمان کا تحفظ اسی میں ہے کہ یہ یقین رکھاجائے کہ نیکی اور فضیلت کے تمام کام اللہ نے اپنے قرآن کے ذریعے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان کے ذریعے علی الاعلان لوگوں تک پہنچادیئے۔مزید یہ کہ عائشہ صدیقہ ؓ خود بھی سو رہی تھیں اتفاقاً ان کی آنکھ کھلی،ثابت ہوا کہ یہ بیداری کی شب نہیں ہے۔ اگر اس رات کی کوئی فضیلت ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرماتے۔ مشہور ثقہ راویوں سے روایت ہوتا نہ یوں خفیہ طور پر سیدۃ عائشہؓ کو اس کا پتہ چلتا۔ اسقدر اہم اور فضیلت والی رات کو یوں پوشیدہ کیوں رکھا گیا؟ لہٰذا یہ فضیلت نہ روایتاً درست ہے نہ درایتاً۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگرچہ اس رات کی فضیلت ثابت نہیں مگر عبادت کرنے میں تو کوئی حرج نہیں؟ تو ان حضرات سے عرض ہے کہ دین میں ایسا طریقہ جو شریعت مطہرہ سے ثابت نہیں اور بعد کی ایجاد ہے وہ بدعت ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا شریعت میں بہت بڑا جرم ہے، اس سے زندگی بھر کی نیکیاںبرباد ہوجاتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تکریم کی اس نے اسلام کی عمارت کو ڈھانے میں اس کی مدد کی۔ علاوہ ازیں عبادت کے لیے کوئی دن یا وقت کو اپنی طرف سے مخصوص کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ فرمایا ’’جمعہ کی رات کو قیام کے لیے دیگر راتوں سے مخصوص مت کرو اسی طرح جمعہ کے دن کے روزے کو دیگر ایام سے خاص مت کرو، ہاں البتہ تم میں پہلے کوئی روزے رکھتا ہو (ایام بیض یا پیر وجمعرات کا) تو کوئی مضائقہ نہیں۔(صحیح مسلم)

کچھ لوگوںنے شعبان کے ان ایام میں آتش بازی اور پٹاخوں کو بھی ان رسومات میں داخل کردیا ہے۔ جب اس رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا ہی شریعت سے ثابت نہیں تو بالاولیٰ آتش بازی و پٹاخوں کی قبیح رسم جس میں جان و مال کے نقصان کا خدشہ بھی ہے کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ جبکہ قرآن کریم کا واضح فرمان ہے: اور مت بیجا خرچ کرو، تحقیق بیجا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب سے کفر کرنے والا ہے۔
(پارہ۱۵۔رکوع۳) دراصل آتش بازی کی یہ رسم آتش پرستوں کی رسومات اور ہندؤں کی ہولی اور دیوالی وغیرہ کے چراغاں سے متاثر ہوکر چند من چلے لوگوں نے رائج کی ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کے کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔ (ابودائود)
اس رات میں روحوں کے آنے کا عقیدہ بھی گمراہ کن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتے ہیں ہمارے رب ہم کو دنیا میں واپس لوٹادے کہ شاید ہم اچھے عمل کریں۔ اللہ فرماتا ہے ہرگز نہیں۔(المومنون:۹۹۔۱۰۰) مذید یہ کہ قرآن پاک کی سورۃ المطففین میں روحوں کے لیے دو مقام بتائے ہیں۔ ایک علیّین دوسرا سجین۔ اچھی نیک روحیں علیین میں رہتی ہیں جو جنت سے ملحق ہے اور نافرمان اور بری روحیں سجین میں رہتی ہیں جو جہنم سے ملحق ہے۔ حدیث میں آتا ہے واقعہ احد کے بعد جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جابرؓ کو (باپ کی شہادت کی وجہ سے) غمزدہ دیکھا تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ باپ شہید ہوگئے اور پیچھے اولاد اور قرض چھوڑ گئے، اس کی فکر ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ ایک خوشخبری سنو! اللہ کسی سے بے پردہ گفتگو نہیں فرماتا، مگر تمہارے باپ سے بلا حجاب گفتگو کی اور فرمایا اے عبداللہ! مانگو دیا جائیگا تو تمہارے باپ نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ دوبارہ دنیا میںجاکر پھر شہادت کا یہ رتبہ حاصل کروں۔ ارشاد ہوا کہ ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ جو دنیا سے آتا ہے واپس نہیں جاسکتا… پھر پوری حدیث بیان کی۔ (ترمذی)
علامہ ابن نجیم حنفی اپنی کتاب بحرالرائق جلد۵ میں لکھتے ہیں کہ علماء احناف نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے یا ایسا عقیدہ رکھے کہ روحیں دنیا میں آتی ہیں یا پیچھے والوں کا علم رکھتی ہیں تو ایسا شخص کافر ہوجائیگا۔
روحیں آنے کا یہ معاملہ بے ضمیر مولویوں کی اختراع ہے کہ کچھ کھانے پینے کا دھندہ چلتا رہے۔حلوہ پکانا ، کھانااور کھلانا جو اس رات سے منسلک ہے وہ بھی اسی تاثر کی عکاسی کرتا ہے۔ اور ان تمام باتوں کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں لہٰذا یہ تمام کام دین اسلام میں نہ صرف بدعت بلکہ افتراق و انتشار کے راستے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کی صحیح رہنمائی نصیب فرمائے۔ اور اپنی ہر قسم کی معصیت و نافرمانی سے بچائے۔ (آمین)
 
Last edited by a moderator:
Top