• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟

شمولیت
اگست 10، 2013
پیغامات
365
ری ایکشن اسکور
316
پوائنٹ
90
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،‏‏‏‏ عَنْ يُونُسَ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ،‏‏‏‏ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَرَجَ صَدْرِي،‏‏‏‏ ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ،‏‏‏‏ ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا،‏‏‏‏ فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي،‏‏‏‏ ثُمَّ أَطْبَقَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ فَلَمَّا جِئْتُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ:‏‏‏‏ افْتَحْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ مَعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ فَإِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ،‏‏‏‏ إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَسَارِهِ بَكَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ،‏‏‏‏ قُلْتُ لِجِبْرِيلَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَال:‏‏‏‏ هَذَا آدَمُ،‏‏‏‏ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ،‏‏‏‏ فَأَهْلُ الْيَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ ؟ فَإِذَا نَظَرَ عَنْ يَمِينِهِ ضَحِكَ،‏‏‏‏ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ لِخَازِنِهَا:‏‏‏‏ افْتَحْ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ خَازِنِهَا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُ،‏‏‏‏ فَفَتَحَ،‏‏‏‏ قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَات آدَمَ،‏‏‏‏ وَإِدْرِيسَ،‏‏‏‏ وَمُوسَى،‏‏‏‏ وَعِيسَى،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ،‏‏‏‏ غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ،‏‏‏‏ قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا إِدْرِيسُ،‏‏‏‏ ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا مُوسَى،‏‏‏‏ ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا عِيسَى،‏‏‏‏ ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ هَذَا إِبْرَاهِيمُ عليه وسلم،‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ:‏‏‏‏ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ،‏‏‏‏ أَنَّابْنَ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ،‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ حَزْمٍ،‏‏‏‏ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً،‏‏‏‏ فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَرَضَ خَمْسِينَ صَلَاةً،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ،‏‏‏‏ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا،‏‏‏‏ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ وَضَعَ شَطْرَهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ رَاجِعْ رَبَّكَ،‏‏‏‏ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ،‏‏‏‏ فَرَاجَعْتُ:‏‏‏‏ فَوَضَعَ شَطْرَهَا،‏‏‏‏ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَرَاجَعْتُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ،‏‏‏‏ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ رَاجِعْ رَبَّكَ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي،‏‏‏‏ ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى،‏‏‏‏ وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ،‏‏‏‏ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے انس بن مالک سے، انہوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انہوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
حدیث نمبر: 349
كتاب الصلاة
صحیح بخاری
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ایک سوال یہ آیا ہے کہ نماز مکہ میں فرض ہوئی یا مدینہ میں ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ایک سوال یہ آیا ہے کہ نماز مکہ میں فرض ہوئی یا مدینہ میں ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نماز مکہ ہی میں معراج کی رات فرض ہوئی؛
تفصیل درج ذیل فتوی میں موجود ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
متى فرضت الصلاة ؟ وكيف كان المسلمون يصلون قبل فرض الخمس ؟
السؤال: هل صحيح أن الصلاة كانت مفروضة قبل ليلة الإسراء؟وهل كان الرسول يصليها على هيئتها كما نصليها الآن و بنفس عدد الركعات؟ ومتى فرضت الصلاة بالأوقات و الهيئة التي نصليها الآن؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب:

الحمد لله

روى البخاري (349) ومسلم (162) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه حديث الإسراء المشهور ، وفيه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ، فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ ؟ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً . قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ ... قَالَ : فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّى قَالَ : يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً ) .

وقد أجمع العلماء على أن الصلوات الخمس لم تفرض إلا في هذه الليلة . ينظر جواب السؤال رقم ( 143111 ) .

راجع : "فتح الباري" لابن رجب (2 / 104)

قال الحافظ ابن كثير رحمه الله :
" فلما كان ليلة الإسراء قبل الهجرة بسنة ونصف ، فرض الله على رسوله صلى الله عليه وسلم الصلوات الخمس ، وفصل شروطها وأركانها وما يتعلق بها بعد ذلك ، شيئا فشيئا " انتهى ."تفسير ابن كثير" (7 / 164)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- ثم نزل جبريل عليه السلام وعلم النبي صلى الله عليه وسلم أوقات الصلاة :

فروى البخاري (522) ومسلم (611) عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ : مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : ( بِهَذَا أُمِرْت ) فَقَالَ عُمَرُ لِعُرْوَةَ : انْظُرْ مَا تُحَدِّثُ يَا عُرْوَةُ ؟ أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ ؟ فَقَالَ عُرْوَةُ : كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ .

وروى النسائي (526) عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما قَالَ : جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ : قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الظُّهْرَ حِينَ مَالَتْ الشَّمْسُ . ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَهُ جَاءَهُ لِلْعَصْرِ فَقَالَ : قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الْعَصْرَ . ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ جَاءَهُ فَقَالَ : قُمْ فَصَلِّ الْمَغْرِبَ . فَقَامَ فَصَلَّاهَا حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ سَوَاءً ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ الشَّفَقُ جَاءَهُ فَقَالَ : قُمْ فَصَلِّ الْعِشَاءَ . فَقَامَ فَصَلَّاهَا ... الحديث ، وفيه : فَقَالَ – يعني جبريل - : ( مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ كُلُّهُ ) .

وصححه الألباني في "صحيح النسائي" .

وروى عبد الرزاق في "مصنفه" ( 1773) وابن إسحاق في سيرته ، كما في فتح الباري (2 / 285 ) أن ذلك كان صبيحة الليلة التي فرضت فيها الصلاة .
ـــــــــــــــــــــــ
قال القرطبي رحمه الله :
ولم يختلفوا في أن جبريل عليه السلام هبط صبيحة ليلة الإسراء عند الزوال فعلم النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة ومواقيتها " انتهى ملخصا .

وقال شيخ الإسلام رحمه الله :
" بيان جبريل للمواقيت كان صبيحة ليلة الإسراء " انتهى .
"شرح العمدة" (4 / 148)

- وكان أول فرض الصلوات الخمس ركعتان ، ثم بعد الهجرة أقرت في السفر ، وزيدت في الحضر ركعتين ، إلا المغرب فعلى حالها . فروى البخاري (3935) ومسلم (685) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : ( فُرِضَتْ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُرِضَتْ أَرْبَعًا ، وَتُرِكَتْ صَلَاةُ السَّفَرِ عَلَى الْأُولَى ) .


- وكان النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه يصلون قبل فرض الصلوات الخمس :
جاء في "الموسوعة الفقهية" (27 / 52-53) :
" أَصْل وُجُوبِ الصَّلاَةِ كَانَ فِي مَكَّةَ فِي أَوَّل الإْسْلاَمِ ؛ لِوُجُودِ الآْيَاتِ الْمَكِّيَّةِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي بِدَايَةِ الرِّسَالَةِ تَحُثُّ عَلَيْهَا . وَأَمَّا الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ بِالصُّورَةِ الْمَعْهُودَةِ فَإِنَّهَا فُرِضَتْ لَيْلَةَ الإْسْرَاءِ وَالْمِعْرَاجِ " انتهى .

وينظر جواب السؤال رقم ( 143111 )

- وذهب بعض أهل العلم إلى أن الصلاة كانت مفروضة أول الأمر ركعتين بالغداة وركعتين بالعشي .

قال الحافظ رحمه الله في الفتح :

" ذَهَبَ جَمَاعَة إِلَى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ قَبْل الْإِسْرَاء صَلَاة مَفْرُوضَة إِلَّا مَا كَانَ وَقَعَ الْأَمْر بِهِ مِنْ صَلَاة اللَّيْل مِنْ غَيْر تَحْدِيد , وَذَهَبَ الْحَرْبِيُّ إِلَى أَنَّ الصَّلَاة كَانَتْ مَفْرُوضَة رَكْعَتَيْنِ بِالْغَدَاةِ وَرَكْعَتَيْنِ بِالْعَشِيِّ , وَذَكَرَ الشَّافِعِيّ عَنْ بَعْض أَهْل الْعِلْم أَنَّ صَلَاة اللَّيْل كَانَتْ مَفْرُوضَة ثُمَّ نُسِخَتْ بِقَوْلِهِ تَعَالَى ( فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ) فَصَارَ الْفَرْض قِيَام بَعْض اللَّيْل , ثُمَّ نُسِخَ ذَلِكَ بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْس " انتهى .

وقال أيضا :

" كَانَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْل الْإِسْرَاء يُصَلِّي قَطْعًا , وَكَذَلِكَ أَصْحَابه لَكِنْ اُخْتُلِفَ هَلْ اُفْتُرِضَ قَبْل الْخَمْس شَيْء مِنْ الصَّلَاة أَمْ لَا ؟ فقيل : إِنَّ الْفَرْض أَوَّلًا كَانَ صَلَاة قَبْل طُلُوع الشَّمْس وَصَلَاة قَبْل غُرُوبهَا , وَالْحُجَّة فِيهِ قَوْله تَعَالَى ( وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّك قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ) وَنَحْوهَا مِنْ الْآيَات " انتهى بتصرف يسير .

وينظر أيضاً : "تفسير ابن عطية" (1/204) ، "التحرير والتنوير" لابن عاشور (24/75) .

والله تعالى أعلم .
الإسلام سؤال وجواب

https://islamqa.info/ar/145725
 
Top