• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شجاعت ومشاہد اور طوائف کی ثقافت!

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
شجاعت ومشاہد اور طوائف کی ثقافت!


میں نے گزشتہ کالم میں ایک حوالہ پیش کیا تھاکہ ایک دفعہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ سے کسی نے دریافت کیاکہ طوائف کی نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ آپ نے جواب دیا جو لوگ ان کے پاس جاتے ہیں، ان کا جنازہ پڑھتے ہو تو طوائف نے تمہارا کیا قصور کیا ہے؟

مسلم لیگ (قائد اعظمؒ) کی محفل میں طوائف کے رقص کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ جب تک اس قسم کے تماش بین زندہ ہیں، طوائف کا کوٹھا قائم ہے۔ خاتون کے دھمال کو ثقافت یا روحانیت کہنے والوں کو خدا غارت کرے کہ ان لوگوں نے پاکستان کو کیا بنا دیا ہے۔ پاکستان آزمائش کا نہیں عذاب کا شکار ہے اور اس کی وجہ ”گناہ پر ڈھٹائی“ ہے۔ جو گناہ رات کی تاریکی اور بند کمروں تک محدود تھے، پاکستان میں آج ان گناہوں کو بطور ”ثقافت“ پیش کیا جا رہا ہے۔

قاف لیگ میں کوئی ”کامل علی آغا“ نامی شخص ہے جس نے کہا ہے کہ صوفیاءکے کلام پر دھمال کو مجرا قرار دینا سیاسی مخالفین کی بیمار ذہنیت ہے۔ اس ”بیمارشخص“ نے یہ بھی کہا کہ ہماری پارٹی کے کلچرل ونگ کی تقریب میں ملکی ثقافت کے مختلف رنگ پیش کئے گئے اور دھمال ثقافتی تقریبات کا لازمی حصہ ہے بلکہ تعلیمی اداروں اور بزرگوں کے مزاروں پر دھمال کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے۔“ صوفیاءکرام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کبھی کسی صوفی بزرگ کی بہن یا بیٹی نے دھمال نہیں ڈالی، صوفیاءکرام کی زندگیاں سُنت نبوی ﷺ کی سختی سے پابند تھیں اور نبی کریم ﷺ نے عورت کو ان جیسے بیمار ذہنیت والوں سے بچایا اور معاشرے میں ایک پُروقار مقام دیا لیکن یہ بیمار ذہنیت والے صاحب اُمت کی بیٹی کو بھرے بازار میں نچا کر اس کو صوفیاءکرام کے سر ڈالنا چاہتے ہیں؟ ”ذہنی بیمار“ صوفیا کرام کے مجاہد و ریاضت کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

ڈانس فلور پر چودھری شجاعت کے سٹیج کے پیچھے قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی تصاویر آویزاں تھیں اور سامنے ان کی قوم کی ایک بیٹی ناچ رہی تھی۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک عورت کی دھمال کوئی معیوب بات نہیں۔ مسلم لیگ قاف کا منعقد کردہ ”مجرا“ کسی وڈیرے یا چودھری کا مشغلہ تو ہو سکتا ہے ، کسی مسلم ریاست کی ثقافت نہیں ہو سکتی۔ چودھریوں کے اڈوں پر رقاصاؤں کا ناچ پنجابی فلموں کا اہم سین سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (قائداعظمؒ) کے قائد نام نہاد مہذب ، دانا اور روایات کے قائل چودھری شجاعت حسین کی محفل میں رقاصہ کا ناچ کسی پنجابی فلم کا منظر معلوم ہو رہا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین محض رسومات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور ناچ گانے کو ثقافت کہا جانے لگا ہے۔ طوائفیں کوٹھے سے کوٹھیوں میں منتقل ہو گئی ہیں اورحسب ضرورت سیاسی تماش بینوں کا دل بہلانے کے لئے وی آئی پی دعوت ناموں پر بلائی جاتی ہیں۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ (قائد اعظمؒ) کے رہنما جنرل پرویز مشرف کے ساتھی رہے ہیں لہٰذا ان کی جانب سے ثقافت کے نام پر سجائی گئی محفل میں طوائف کا (لائیو) رقص معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جشن میں طوائف کا مجرا خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی قبضہ گروپ کے پانچ سال پورے ہونے کی خوشی میں مسلم لیگ قاف نے اسلام آباد میں ایک ثقافتی شو کا اہتمام کیا جس میں رقاصہ نے چست سیاہ لباس اور کھلے بالوں کے ساتھ دھمال پیش کی۔ اس مجرے کو چودھری شجاعت حسین نے اپنے سیاہ چشمے سے بڑے انہماک کے ساتھ دیکھا۔ ان کے ساتھ بیٹھے مشاہد حسین بھی رقص سے لطف اندوز ہو رہے تھے مگر انہیں یہ بھی یقین تھا کہ اس شغل کے بعد میڈیا ان کی درگت بنانے والا ہے۔ اس محفل میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو قائداعظم کی سرزمین پر ناچنے والی اس بیٹی کو تماشہ بننے سے روک سکتا۔ یہ ثقافتی تقریب جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے جشن میں منائی گئی۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے قوم کو پانچ سال نچایا ہے، اگر ایک رقاصہ نے چند منٹ ناچ لیا تو کون سا جرم کر دیا۔ اسلامی فقہ کے مطابق زیادتی کے فعل کے مرتکب افراد کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے چار عینی شاہدین کی گواہی لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس موضوع پر علماءکا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ستار العیوب ہے اور وہ اپنے بندوں کے عیوب کی پردہ پوشی پسند فرماتا ہے لہٰذا چار گواہان کی شرط کے پس پشت بندوں کی پردہ پوشی مقصود ہے۔ زیادتی کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہان پیش کرنا ناممکن ہے لہٰذا نہ چار گواہان مل سکتے ہیں اور نہ بندوں کے پوشیدہ راز کھل سکتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا مگر بے نصیب بندے اپنے پر خود ظلم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رسوائی سے بچانا چاہتا ہے لیکن اس کے بندے رسوائی کو خود گلے لگاتے ہیں۔ بند کمروں میں ہونے والے دانستہ و نادانستہ گناہوں کا خدا شاہد ہے اور وہی اس کا حساب لے گا مگر بھرے مجمع میں دانستہ گناہوں کو نہ دنیا معاف کرتی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے۔ عورت کی دھمال نہ تصوف ہے، نہ اسلام ، نہ ثقافت اور نہ ہی مہذب معاشرے کی روایت یا تہذیب ہے۔

عورت خواہ کسی معاشرے کی ہو، حوا کی بیٹی ہے۔ قوم کی ایک بیٹی کو رقص سے منع نہ کرنے اور خاتون کے رقص سے لطف اندوز ہونے پر قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کے بزرگ رہنما چودھری شجاعت حسین کو قوم سے معافی مانگنا ہو گی۔ عورت کی دھمال اور رقص کو صوفی ثقافت کہنے والوں کو کوئی غیرت مند ووٹ نہیں دے سکتا۔

نوٹ:
کالم میں موجود بعض باتوں سے سخت اختلاف ہے، لیکن پھر بھی پیش کیا جارہا ہے۔ تاکہ قارئین قوم کے رہنماؤں کی کرتوت سے آگاہ ہوسکیں۔

لنک
 
Top