محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 704
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 53
شراب کی نجاست :
شراب کی نجاست([1]) کے بارے میں علماء کرام کے دو قول ہیں:
1- شراب ناپاک ہے ، یہ قول ائمہ اربعہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاہے۔
2- شراب پاک ہے، یہ قول امام ربیعہ ،امام لیث، امام شوکانی، اماام صنعانی، امام البانی رحمہم اللہ کاہے۔
پہلے قول کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائد: 90)
’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو! بات یہی ہےکہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کےکام سے ہیں ، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شراب کی نجاست حسی ہے۔
دوسرے قول کی دلیل:
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں سيدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ اس وقت لوگ کھجور کی شراب استعمال کرتے تھے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ نے ایک منادی (اعلان) کرنے والے کو حکم دیا کہ لوگوں میں شراب کی حرمت کا اعلان کردے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے مجھے حکم دیا کہ باہر نکل کر تمام شراب بہا دو، چنانچہ میں نے باہر نکل کر تمام شراب بہادی تو وہ مدینہ کی گلیوں میں بہہ نکلی۔ (صحیخ البخاری: 2464، صحیح مسلم: 1980)
اگر شراب ناپاک ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی گلیوں میں پانی بہانے کا حکم دیتے جیسےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی آدمی کےمسجد میں پیشاب کرنے پر مسجد میں پانی بہانے کا حکم دیا تھا۔
راجح:
راجح قول دوسرا ہے ، کیونکہ ان کی دلیل قوی ہے اور پہلے قول والوں نے جو رجس کے لفظ سے استدلال کرتے ہوئے شراب کو ناپاک قرار دیا ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ ہمارے علم کےمطابق سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس آیت میں رجس کاترجمہ ناپاک نہیں کیا اور ویسے بھی رجس کا کلمہ قرآن کریم میں تین دیگر مقامات میں آتا کہیں بھی اس کا ترجمہ ناپاک نہیں ہے (دیکھیئے: انعام: 25، التوبہ: 95، الحج: 30)
شراب کی نجاست([1]) کے بارے میں علماء کرام کے دو قول ہیں:
1- شراب ناپاک ہے ، یہ قول ائمہ اربعہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاہے۔
2- شراب پاک ہے، یہ قول امام ربیعہ ،امام لیث، امام شوکانی، اماام صنعانی، امام البانی رحمہم اللہ کاہے۔
پہلے قول کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائد: 90)
’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو! بات یہی ہےکہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کےکام سے ہیں ، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شراب کی نجاست حسی ہے۔
دوسرے قول کی دلیل:
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں سيدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ اس وقت لوگ کھجور کی شراب استعمال کرتے تھے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ نے ایک منادی (اعلان) کرنے والے کو حکم دیا کہ لوگوں میں شراب کی حرمت کا اعلان کردے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے مجھے حکم دیا کہ باہر نکل کر تمام شراب بہا دو، چنانچہ میں نے باہر نکل کر تمام شراب بہادی تو وہ مدینہ کی گلیوں میں بہہ نکلی۔ (صحیخ البخاری: 2464، صحیح مسلم: 1980)
اگر شراب ناپاک ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی گلیوں میں پانی بہانے کا حکم دیتے جیسےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی آدمی کےمسجد میں پیشاب کرنے پر مسجد میں پانی بہانے کا حکم دیا تھا۔
راجح:
راجح قول دوسرا ہے ، کیونکہ ان کی دلیل قوی ہے اور پہلے قول والوں نے جو رجس کے لفظ سے استدلال کرتے ہوئے شراب کو ناپاک قرار دیا ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ ہمارے علم کےمطابق سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس آیت میں رجس کاترجمہ ناپاک نہیں کیا اور ویسے بھی رجس کا کلمہ قرآن کریم میں تین دیگر مقامات میں آتا کہیں بھی اس کا ترجمہ ناپاک نہیں ہے (دیکھیئے: انعام: 25، التوبہ: 95، الحج: 30)
([1]) شراب کے پاک یا ناپاک ہونے میں علماء کاجو اختلاف ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شراب کپڑوں،بدن یا جگہ کو لگ جائے تو اس کو دھوناضرور ی ہے یا نہیں؟ شراب کا پینا قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص کی وجہ سے بالاتفاق حرام ہے۔